’
۵ اپریل ۱۹۹۶
محترمی و مکرمی محمد انور صاحب عباسی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ نے اس خط میں میری کچھ باتوں پر تبصرہ کر کے یہ فرمایا ہے کہ:’’اس پرآپ کا جواب مقصود نہیں ہے، بلکہ محض آپ کے غور و فکر کے لیے ہے۔‘‘ میں بھی ان تبصروں پر تبصرہ نہیں کروں گا، اس لیے کہ ہمارے مابین اصل اختلاف جس بات پر ہے، اگر وہ اختلاف دور ہو جائے تو یہ تبصرے خود بخود کالعدم ہو جائیں گے۔ اس لیے ہم ان ہی اعتراضات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ،جو اصل موضوع سے متعلق ہیں۔
آپ نے پہلا اعتراض اپنے خط کے دوسرے صفحے کے آخر پر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’آپ نے جنوری کے شمارہ ’’اشراق‘‘ (ص۲۱) میں لکھا ہے کہ دور اول میں ان روایتوں کے مدعا کی تعین میں اختلاف نہیں تھا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم ان کے اس مفہوم پر مجتمع تھے کہ ’الجماعۃ‘ سے مسلمانوں کا نظم اجتماعی یعنی ریاست و حکومت مراد ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ آپ نے بغیر دلیل کے صحابہ کے اجماع کا دعویٰ کیسے کر دیا۔ براہ کرم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں نقلی دلائل فراہم کریں کہ صحابۂ کرام اس مفہوم پر مجتمع تھے۔‘‘
میں نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے اس مضمون میں کچھ حوالے جمع کر دیے تھے۔ اس لیے اب یہ محض دعویٰ نہیں رہا، البتہ ان حوالوں میں اگر آپ کسی غلطی یا ثبوت دعویٰ کے لیے ان میں کسی کمی کی نشان دہی کریں تو یہ مجھ پر عنایت ہو گی۔ دوسرے یہ کہ اس دعویٰ کا آپ نے انکار کیا ہے تو وہ کن دلائل پر ہے ؟ مجھے اپنی بات چھوڑ کر آپ کی رائے کے اختیار کرنے کے لیے ان حوالوں کی ضرورت ہوگی۔ جس سے معلوم ہو سکے کہ صحابہ کی یہ رائے نہیں تھی۔
دوسرا اعتراض آپ نے یہ کیا ہے کہ:
’’اسی صفحے پر آپ ابن حجر کے حوالے سے خود یہ شہادت فراہم کرتے ہیں کہ ’الجماعۃ‘ کے معنی کے تعین میں اختلاف کیا گیا ہے۔ ایک جماعت کے نزدیک اس کے معنی سواد اعظم کے ہیں۔ دوسرے کے نزدیک اس کے معنی جماعت صحابہ کے ہیں۔ تیسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ یہ اہل علم کی جماعت ہے۔ اس شہادت کے مطابق اول تو اس کے معنی پر کبھی اجماع نہیں رہا۔ چہ جائیکہ صحابۂ کرام کا اجماع اور پھر امت میں تین ہی مفاہیم کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں آپ کے مفہوم یعنی ’الجماعۃ‘ بمعنی ریاست و حکومت کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں ، اجماع تو دور کی بات ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ کی فراہم کردہ شہادت آپ کے دعویٰ کی نفی کر رہی ہے۔‘‘
آپ کا یہ اعتراض بھی تین اعتبارات سے درست نہیں ہے:
ایک یہ کہ آپ نے اس بات پر غورنہیں کیا کہ یہ آرا صحابہ میں سے کسی کی نہیں ہیں کہ ان سے اجماع صحابہ کی نفی ہوتی ہو۔ اجماع صحابہ کی نفی کے لیے آپ کو صحابہ میں سے کسی کی رائے پیش کرنی ہو گی۔
دوسرے یہ کہ آپ نے ہماری رائے کے ایک جز کو اصل معنی قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ ہماری رائے میں ’الجماعۃ‘ سے مراد محض حکومت نہیں ہے، بلکہ وہ جماعت مراد ہے جس میں حکومت قائم ہو۔ اسی مضمون میں ’الجماعۃ‘ کے معنی کی فصل کے تحت ہم نے ’الجماعۃ‘ کے معنی ان الفاظ میں بیان کیے تھے:
’’اس لفظ کا اطلاق کسی ایسی جماعت ہی پر کیا جا سکتا ہے، جو کسی سر زمین میں سیاسی طور پر خودمختار قوم کی حیثیت سے رہتی ہو اور اس میں نظم امارت بھی قائم ہو۔ اس لیے سیاسی اقتدار سے محروم کسی دینی جماعت یا تنظیم پر اس لفظ کا اطلاق قطعاً صحیح نہیں ہے۔ ‘‘)اشراق، جنوری ۱۹۹۵، ۲۴)
اس اقتباس سے واضح ہے کہ میں نے مجرد حکومت و ریاست کو ’الجماعۃ‘ قرار نہیں دیا ، بلکہ مسلمانوں کے اس گروہ کو ’الجماعۃ‘ قرار دیا ہے ،جس میں حکومت قائم ہو ۔اس میں خط کشیدہ الفاظ ہماری رائے کی طرف آپ کی رہنمائی کریں گے۔ ہاں اقتدار اس کا لاینفک اور غالب جز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الجماعۃ‘ کو علی سبیل التغلیب کبھی کبھی محض سلطان (اقتدار) کے لفظ سے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس کے اسی اغلب پہلو کی وجہ سے اولوالامر یا امیر وغیرہ کے الفاظ بھی اس موضوع کی روایات میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی لیے ہم نے اسے جدید سیاسیات کی اصطلاح’’ریاست‘‘کے ہم معنی قرار دیا تھا۔ اس لیے کہ ریاست کی تعریف کی روسے اس میں درج ذیل چیزیں شامل ہوتی ہیں:
۱۔ سر زمین (جہاں قوم آباد ہو)،
۲۔ قوم (رعایا) اور
۳۔ حکمران۔
ریاست ان تینوں اجزا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ’الجماعۃ‘ اور ریاست میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف ’جماعۃ المسلمین‘ ہونے کی وجہ سے ہے۔ یعنی یہاں رعایا اور حکمران کے ساتھ مسلمان کی صفت بھی لگی ہوئی ہے، اس اعتبار سے ’جماعۃ المسلمین‘ بھی انھی تین اجزا پر مشتمل ہو گی:
۱۔ سرزمین ،
۲۔ (مسلمان) قوم اور
۳۔ (مسلمان) حکمران ۔
یہ ’الجماعۃ‘ ہے،لیکن اس کا التزام اس وقت مسلمانوں پر لازم ہو گا جب تک ان کا حکمران کفربواح کا مرتکب نہ ہو۔ جو اس سے پہلے حکمران کی اطاعت کو ترک کرے گا، وہ مفارقت جماعت کا مجرم ہوگا۔ اس اعتبارسے آپ کو ہماری رائے کی اسلاف کے ہاں تائید کی تلاش میں ناکامی نہیں ہو گی ۔
تیسرے یہ کہ اسلام کے ہاں ہماری رائے کا سرے سے ذکر ہی نہیں، یہ بات بھی غلط ہے۔ صحابۂ کرام کے ہاں لفظ ’الجماعۃ‘ کا استعمال ان کی رائے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جس کے حوالے میں اپنے مضمون میں دے چکا ہوں۔ البتہ اسلاف میں سے جن لوگوں نے ’الجماعۃ‘ کی تعریف کرنے یا اس کی توضیح کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے چند ایک حوالے آپ کی تسلی کے لیے میں عرض کیے دیتا ہوں۔ ابن حجر نے’’فتح الباری‘‘ میں طبری کی رائے یوں نقل کی ہے:
والصواب أن المراد من الخبر لزوم الجماعۃ الذین فی طاعۃ من اجتمعوا علی تأمیرہ، فمن نکث بیعتہ خرج عن الجماعۃ. (۳۱ / ۳۷)
’’اس معاملے میں صحیح رائے یہ ہے کہ اس روایت سے مراد ان لوگوں کی جماعت کا التزام ہے، جو اس شخص کی اطاعت پر ہوں جس کی امامت پر وہ مجتمع ہوں۔ تو جس نے اس (مجمع علیہ امیر کی اطاعت کی) بیعت کو توڑا، وہ الجماعۃ سے نکل گیا۔‘‘
خود’’ فتح الباری‘‘ کے مصنف نے مفارقت جماعت کے معنی ’کنایۃ عن معصیۃ السلطان و محاربتہ‘ کہ مفارقت جماعت سلطان وقت کی معصیت اور اس کے خلاف اعلان جنگ سے کنایہ ہے۱۔اب اس رائے کے مطابق سلطان کے لفظ کا اطلاق جماعت اسلامی،تبلیغی جماعت، جماعۃ المسلمین پر ہو گا یا کسی سلطنت پر ؟
اپنی یہ رائے بیان کر نے کے بعد تائیدی اسلوب میں ابن حجر نے ابن ابی جمرہ کی رائے بھی نقل کی ہے:
المراد بالمفارقۃ السعی فی حل عقد البیعۃ التی حصلت لذلک الامیر ولو بأدنی شیء فکنی عنہا بمقدار الشبر، لان الاخذ فی ذلک یؤول الی سفک الدماء بغیر حق.(۱۳/ ۷)
’’مفارقت سے مراد امیر کے ہاتھ پر کی گئی بیعت کی تحلیل ہے خواہ یہ سعی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کے ذریعے سے کی گئی ہو، جس کو یہاں مقدار شبر سے کنایہ کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اس سعی میں لگنا، ناحق خوں ریزی کا موجب ہو سکتا ہے۔‘‘
اب مجھے بتائیے کہ مفارقت سے خوں ریزی کب ہو گی ؟ کیا جماعت اسلامی، جماعۃ المسلمین، تبلیغی جماعت یا مرکز الدعوۃ کے امیر کی اطاعت کے ترک پر یا سلطنت کے خلاف بغاوت سے ؟
آگے دیکھیے، ابن حجر انھی روایتوں کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قد اجمع الفقہاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجہاد معہ وان طاعۃ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء وجحتھم ھذا الخبر وغیرہ مما یسا عدہ ولم یستثنوا من ذلک الا اذا وقع من السلطان الکفر الصریح.(۱۳/ ۷)
’’فقہا نے سلطان متغلب کی اطاعت کے وجوب پر اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنے پر اجماع کیا ہے، اس لیے کہ اس میں خوں ریزی کا امکان ہے۔ ان کی دلیل یہی روایت اور اس کی تائید میں وارد دوسری روایتیں ہیں اور انھوں نے اس میں کوئی استثنا نہیں رکھا سوائے اس کے کہ سلطان سے صریح کفر صادر ہوا ہو۔‘‘
اب بھی شاید آپ یہی فرمائیں کہ فقہا کا یہ اجماع ابن حجر کا محض دعویٰ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ امت کا ایک گروہ اس بات پر مجتمع رہا ہے کہ ’الجماعۃ‘ سے مراد ریاست و حکومت (مذکورہ وسیع معنی میں) ہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ فقہا کا یہ اجماع صحابہ کے دور کا نہیں ہے، اس دور کاہے جب خلافت ملوکیت میں بدل چکی تھی، بلکہ وہ دور بھی اس میں شامل ہے، جب اسلامی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔
اس کے بعد آپ نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ:
’’’الجماعۃ‘ کے سلسلے میں جتنی روایتیں نظر سے گزری ہیں، ان سے متبادر ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایک ہی جماعت ہو سکتی ہے۔ جیسے: ’الا واحدۃ وھی الجماعۃ‘ سے بہت سی جماعتیں ثابت نہیں ہو سکتیں، جبکہ اس وقت اور اسلامی تاریخ کے اکثر ادوار میں بیک وقت بہت سی حکومتیں موجود رہی ہیں اور موجود رہیں گی۔ ان کی موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’الا واحدۃ وھی الجماعۃ‘ کا اطلاق بہت سی حکومتوں پر کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ یا ہم یہ تسلیم کریں کہ بیک وقت بہت سی جماعتوں کا ’الجماعۃ‘ کا مفہوم ریاست و حکومت نہیں ہے۔ ایک الجماعت کہہ کر نصف صدی سے زائد الجماعتیں مراد لینا تاویل کا زبردست اور لاثانی مظاہرہ ہے۔‘‘
میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ آپ کا یہ اعتراض آپ کی ان ہم فکر جماعتوں پر بھی ہوتا ہے، جنھوں نے صالحین جمع کر کے دسوں فرقوں کو وجود بخشا ہے۔ کہیں تنظیم اسلامی ہے، کہیں مرکز الدعوۃ ہے اور کہیں جماعۃ المسلمین ہے اور سب اپنی اپنی جماعت کو ’الجماعۃ‘ سمجھتے ہیں تو بتائیے اگر ’واحدۃ‘ کا مطلب ایک ہی جماعت ہے تو ان جماعتوں کے وجود کاکیا معنی؟
اب اس شرح کی طرف آئیے جو آپ نے ظاہر حدیث کے عنوان سے کی ہے۔ یہ ایک نادر تشریح ہے۔ ظاہر حدیث کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آدمی حدیث کے جملوں کی ترکیب ہی کا خیال نہ کرے اور اس سے بالاتر ہو کر جو تشریح جی میں آئے کر ڈالے اور کہے کہ یہ ظاہر حدیث ہے۔ ظاہر حدیث میں جملے کا سادہ، مگر صحیح مفہوم تو کم از کم متعین ہونا چاہیے۔ اس شرح میں، آپ نے لفظ ’واحدۃ‘ کا جملے میں صحیح محل متعین نہیں کیا ۔
میں اپنی بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ اگر کوئی حکیم صاحب اپنے کسی مریض سے فرمائیں کہ تم کوئی چیز نہیں کھا سکتے سوائے ایک کے اور وہ مچھلی ہے۔ اس جملے میں بھی ایک سے مراد ایک مچھلی نہیں،بلکہ ہر مچھلی ہے، خواہ وہ سمندر میں پائی جاتی ہو یا دریا میں اور بحر ہند کی ہو یا بحیرۂ عرب کی۔ یعنی اس ’ایک‘ کا مطلب ’ایک ‘نہیں، بلکہ ’صرف‘ ہے۔چنانچہ ساری دنیا کی مچھلیاں اس ’ایک‘ کے تحت آئیں گی۔ زیربحث جملہ بھی اصل میں ایسا ہی ہے کہ کوئی فرقہ کامیاب نہیں ہوگا، سوائے ایک کے اور وہ ’الجماعۃ‘ ہے۔
یہ اصل میں کسی فرقے کا نام نہیں لیا گیا،بلکہ اس کی صفت کی نشان دہی کی گئی ہے کہ جس فرقے میں التزام جماعت پر عمل پایا جائے گا، وہ کامیاب ہو گا۔ خواہ وہ عراق و مصر میں ہو یا پاک و ہند میں، وہ اس ایک میں شامل ہے۔ ان کا علاقائی تعدد ان کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتا۔
میری مراد یہ ہے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے بریلوی حضرات اپنی فکری ہم آہنگی کی بنا پر ایک فرقہ شمار ہو سکتے ہیں تو ممالک اسلامیہ میں بکھری ہوئی یہ جماعتیں ایک جماعت کیوں نہیں کہلا سکتیں ؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے فوری بعد کے دور سے متعلق ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی جتنی پیشین گوئیاں کی ہیں، جن کا تعلق علامات قیامت سے نہیں ہے، وہ آپ ہی کے زمانے کے بعد سے متعلق ہیں، اس لیے کہ ان پیشین گوئیوں کی حیثیت دلیل نبوت کی بھی ہے۔ اس لیے کہ روایت کا ایک خاص موقع و محل ہے۔
تیسرے یہ کہ یہاں فرقے کا لفظ سیاسی انتشار پیدا کرنے والے گروہوں کے لیے ہے نہ کہ مختلف حکومتوں کے لیے، عراق و ایران اور مصر و شام کی حکومتوں کے لیے فرقے کا لفظ نہ بولا گیا ہے اور نہ بولا جا سکتا ہے ۔
اگلا اعتراض آپ نے یہ کیا ہے کہ التزام جماعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں ’الجماعۃ‘ سے وابستہ رہنا ہے، دوسرے الفاظ میں ’الجماعۃ‘ سے نزاع ہی ممکن نہیں ہے، جبکہ حضور نے اولوالامر سے نزاع کی اجازت دی ہے، اس لیے اگر جماعت اور اولوالامر ایک چیز ہوتے تو ’الجماعۃ‘ سے بھی نزاع و خروج کی اجازت ہوتی۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے یہ اعتراض میرا مضمون پڑھے بغیر کر ڈالا ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں اولوالامر کو کہیں بھی ’الجماعۃ‘ قرار نہیں دیا ،بلکہ ان کی اطاعت کو التزام جماعت کے تقاضوں کے تحت بیان کیا ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میں ان دونوں کو الگ الگ حیثیت دے رہا ہوں۔’’اشراق‘‘کے اس شمارے پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال لیجیے کہ ہم نے اولوالامر کو اس مضمون میں کس حیثیت سے بیان کیا ہے:
’’حکمران کی اطاعت کا حکم التزام جماعت کا لازمی تقاضا ہے، کیونکہ جس حکومت کو ہم نے خود قائم کیا ہو اور اس کے ساتھ التزام بھی ہم پر لازم ہو تو اس کے حکمران کی اطاعت اس کا خودبخود تقاضا بن جاتی ہے۔‘‘ (جنوری ۱۹۹۵، ۲۸۔ ۲۹)
والسلام
ساجد حمید
[۱۹۹۷ء]
_________
۱۱۳/ ۷۔
___________________