ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور
۱۸مارچ ۱۹۹۴
محترمی و مکرمی جناب ساجد حمید صاحب،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آپ نے’اشراق‘ بابت فروری ۱۹۹۴ ’’التزام جماعت کا صحیح مفہوم‘‘ کے عنوان کے تحت، التزام جماعت کے بارے میں احادیث نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے:
’’اس لفظ (یعنی الجماعۃ) کا اطلاق کسی ایسی جماعت ہی پر کیا جا سکتا ہے، جو کسی سرزمین میں، سیاسی طور پر، خود مختار قوم کی حیثیت سے رہتی ہو اور اس میں نظام امارت بھی قائم ہو،اس لیے سیاسی اقتدار سے محروم کسی دینی جماعت یا تنظیم پر اس لفظ کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔‘‘ (۱۵)
نیز یہ کہ:
’’بعض لوگوں کا یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ کسی بھی ایسی تنظیم یا جماعت سے منسلک رہنا ضروری ہے جو غلبۂ اسلام کے لیے کوشاں ہو۔جماعت کے اس مطلب کی روشنی میں جس کو ہم نے اوپر واضح کیا ہے(یعنی یہ کہ’الجماعۃ‘ اور ’السلطان‘ مترادف اصطلاحات ہیں) یہ حکم ہمارے ملک میں حکومت پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے اور اس کے قوانین کی پابندی کرنے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہم،علی وجہ البصیرت، یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان ہی اس سرزمین کے مسلمانوں کے لیے الجماعۃ ہے۔‘‘ ( ۱۶)
اپنے اس موقف کے بیان سے چند ہی سطریں پہلے آپ سورۂ نساء کی آیت ۵۹ ۱کے حوالہ سے کفربواح کی صراحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’کفر، صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اسلام کے عقائد کا انکار کرے، بلکہ حکمرانوں کے معاملے میں یہ بھی کفر ہے کہ وہ فصل نزاعات اور قانون سازی میں اللہ کی دی ہوئی شریعت کی خلاف ورزی کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ھم الکٰفرون. ھم الظالمون. ھم الفاسقون۲۔‘‘
میرے محترم بھائی،آپ بتائیں کہ کیا پاکستان میں ’فصل نزاعات‘ اور ’قانون سازی‘ شریعت الٰہی کے مطابق اور ان کے تابع ہیں کہ آپ نے پاکستان کی حکومت کو ’الجماعۃ‘ اور ’السلطان‘ کے قائم مقام قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں۱۹۸۵ء سے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی باری باری عنان حکومت سنبھالتی چلی آرہی ہیں۔مسلم لیگ کا محمد خان جونیجو مرحوم کے عہد میں یہ اعلان تھا کہ وہ شریعت کی برتری کا قانون نہیں بننے دیں گے۔اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت نے جو شریعت ایکٹ پاس کیا، اس کے ذریعے سے ملک کے سیاسی اور اقتصادی نظام، ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومتی ڈھانچہ، سب کو شریعت سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔پیپلز پارٹی کی خاتون سربراہ بار بار اعلان کر چکی ہے کہ ان کے نزدیک شرعی سزائیں اور قانون شہادت سب غیر انسانی،ظالمانہ اور وحشیانہ ہیں، وہ ان کو نہیں مانتی۔ آپ فرمائیں کہ کفر بواح اور کیا ہوتا ہے؟ کیا ان جماعتوں کی قیادت میں بننے والی حکومت آپ کے نزدیک، علی وجہ البصیرت،اس سرزمین کے مسلمانوں کے لیے’الجماعۃ‘ اور ’السلطان‘ کے حکم میں آتی ہے اور ایسی حکومتوں کے وفا دار رہنے اور ان کے قوانین کی پابندی کرنے سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاو مطالبہ پورا ہو جاتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی خداترس مسلمان اس کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے دستور میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔حکومت کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارا ت استعمال کرے گی۔پاکستان میں تمام اجتماعی سیاسی تصورات آزادی،جمہوریت،مساوات،رواداری اور عدل اجتماعی میں اسلامی اصولوں کی پوری پابندی کی جائے گی اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا۔ اس بنا پراہل اسلام نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست تسلیم کیااور قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اب تک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت الٰہی کی وفادار کوئی حکومت یہاں قائم نہیں ہوئی۔اسی وجہ سے یہاں اسلامی نظام اور نظام مصطفی کے قیام و نفاذ اور شریعت کی بالاتری عملاً قائم کرنے کے مطالبات اٹھے اور اٹھ رہے ہیں۔ اور اس غرض کے لیے مسلمانوں کی متعدد جماعتیں ملک کے اندر کام کر رہی ہیں۔ اس لیے اسلام کے مقابلے میں اور اس کے منافی و برعکس حکومتوں کو ہٹانے کے لیے کوشاں جماعتوں سے منسلک اور وابستہ ہونا اور ان کی قوت کا ذریعہ بننا ہر مسلمان اور صاحب ایمان کے لیے لازم ہے۔ اگر کسی مسلمان کو ملک میں اس غرض کے لیے موجود جماعتوں میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خود جماعت قائم کرے۔ لیکن یہ جد وجہد ہر صاحب ایمان مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے بغیر وہ خدا کے حضور بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔اللہ نے اپنا رسول غلبۂ دین کے لیے مبعوث فرمایا اور قرآن مجید صاف صاف کہتا ہے کہ ہم نے تمھارا نام مسلمان ( اللہ کا فرماں بردار) رکھا ہے اور تمھارا یہ ذمہ ہے کہ جو کچھ رسول تمھیں بتائے اور کر کے دکھائے، اسے اسی طرح سے آگے دوسرے لوگوں تک پہنچاؤ اور کر کے دکھاؤ،جیسے رسول نے یہ کام کیا ہے۔
خاکسار
میاں طفیل محمد
_________
قابل صد احترام جناب میاں طفیل محمد صاحب
السلام علیکم ور حمۃ اللہ
آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس طالب علم کی عزت افزائی کے لیے وقت نکالااور اس کے مضمون کو نہ صرف پڑھا،بلکہ نہایت شفقت کے ساتھ اس پر نقد کے لیے قلم بھی اٹھایا۔
اس خط میںآپ نے التزام جماعت کے حوالے سے اس نقطۂ نظر پر نقد کیا ہے کہ’’ریاست پاکستان سے وفاداری اور اس کے قانون کی پیروی ہی التزام جماعت ہے‘‘۔ آپ کے اعتراض کو اگر مختصر الفاظ میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ ’ہماری حکومت کہنے کو تو مسلمان ہے، مگر عملاً اور قولاً کفربواح کی مرتکب ہے، اس لیے اسے ’الجماعۃ‘ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
آپ کا یہ فرمانا بجا ہے کہ حکومت پاکستان فصل نزاعا ت اور قانون سازی میں شریعت کوعملاً بالادست تسلیم نہیں کرتی اور یہ بھی درست ہے کہ اپنے بیانات میں بھی اسلامی اقدار و نظریات کی کوئی خاص حمایت کرتی نظر نہیں آتی۔اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ اس حکومت کی اصلاح کے لیے جماعتی سطح پر جد و جہد کوئی غیر دینی عمل نہیں ہے۔ہمارے نزدیک یہ دائرۂ مباحات کی چیز ہے،اس کے جواز و عدم جواز کے لیے کسی نص کی ضرورت نہیں ہے۔اور نہ اسے ’الجماعۃ‘ کہنے ہی کی کوئی ضرورت ہے۔چنانچہ تمدنی حالات کے تحت غلبۂ دین کے لیے جماعت سازی کسی دینی نص کی محتاج نہیں ہے اور ان جماعتوں کے ساتھ تعلق کے لیے سمع و طاعت کے بجائے ’اوفوا بالعقود‘ ۱کی بنیاد ہی صحیح بنیاد ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اس ملک میں تبدیلئ قیادت کے لیے آئینی طریقہ ہی اختیار کیا جائے، کیونکہ شریعت کو اس پر اصرار ہے کہ بغاوت کی راہ اسی وقت اختیار کی جا سکتی ہے، جب تبدیلئ قیادت کے لیے کوئی اور راستہ نہ ہو، اور اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کی اکثریت بغاوت کرنے والوں کے ساتھ ہو اور انھیں کسی خطۂ ارضی میں اقتدار بھی حاصل ہو۔
باقی رہا یہ امر کہ ریاست پاکستان ’الجماعۃ‘ ہے یا نہیں؟ تو اس میں مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان کے ’الجماعۃ‘ ہونے کے ہم ہی نہیں عملاً آپ بھی قائل ہیں۔ آپ نے اس ریاست کے شہری کی حیثیت سے اپنا شناختی کارڈ بنا رکھا ہے، اسی کے پاسپورٹ پر آپ بیرون ملک سفر پر جاتے ہیں، اسی کے ’اولوا الامر‘ کی اطاعت کرتے ہیں، اس کی سڑکوں پر چلتے ہوئے، اس کے ایک ادنیٰ کانسٹیبل کے اشارے پر زبان حال سے ’سمعنا واطعنا‘۲کہتے ہوئے رک جاتے ہیں، اس کے ہر قانون کی پیروی کرتے اور اپنے مقدمات میں اس کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں،آپ کی جماعت اس کی اسمبلیوں میں جانے کے لیے انتخاب میں حصہ لیتی، اس کے انتخابی نتائج کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرتی اور ہر نئی منتخب حکومت کے لیے ایک مرتبہ پھر ’سمع و طاعت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف کی نشستیں سنبھال لیتی ہے اور حلف اٹھا کر اس ریاست کی وفاداری اور اس کے آئین کی پاس داری کا عہد کرتی ہے۔ یہ سب کچھ کیا’ التزام جماعت‘ نہیں ہے،اس کے سوا’ التزام جماعت‘ اور کس چیز کا نام ہے؟ ہمارے نزدیک ’علیکم بالجماعۃ‘ ۳کا تقاضا بس یہی ہے۔ ہم اور آپ اللہ کے فضل سے اسی پر کاربند ہیں۔
شریعت کی رو سے تو کفربواح کی مرتکب حکومت بھی اس وقت تک ’الجماعت‘ ہوتی ہے، جب تک اسے عامۃ الناس کا اعتماد حاصل ہے۔ اس باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی وہ حکمران قیادت جس کی حکومت پر مسلمان رعایا مجتمع ہو، وہ لفظ کے ہر مفہوم میں ’الجماعۃ‘ ہے۔ اسی سے مفارقت، اطاعت سے علیحدگی اور تخلف ممنوع ہے، اسی کے خلاف ہتھیار اٹھانا نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’من اتا کم وامرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم او یفرق جماعتکم فاقتلوہ۔ ۴‘ ا س میں دیکھ لیجیے کہ ’ الجماعۃ‘ ہونے کی اصل شرط مسلمانوں کا اس کی حکومت پر اجتماع ہے، نہ کہ حکومت کا صالح ہونا۔ اسی بات کو حدیث کے جلیل القدر شارح علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے: ’’من فارق الجماعۃ، معصیت سلطان اور محاربہ سے کنایہ ہے‘‘ چنانچہ مسلمانوں کی کسی بھی حکومت کے لیے ’الجماعۃ‘ یا ’السلطان‘ ہونے کے لیے پہلی اور آخری شرط یہی ہے کہ اس کے پاس اقتدار ہو، اور مسلمان رعایا اس کے اقتدار کو تسلیم کرتی ہو۔
سادہ تر الفاظ میں یوں کہیے کہ جدید علم سیاسیات میں’ریاست‘ کی جو تعریف کی جاتی ہے ،۵ بعینہٖ وہی تعریف ’الجماعت‘ کی ہو گی۔ یہ ریاست اگر اپنی دینی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتی تو اس سے اس کا ’الجماعت‘ ہونا مجروح نہیں ہوتا۔ ہم بس اتنا کہہ سکتے ہی کہ یہ ’الجماعت‘ صالح نہیں ہے، بگاڑ کا شکار ہے یا یہ ’الجماعت‘ کفر بواح کا ارتکاب کر رہی ہے۔
پورے ذخیرۂ احادیث میں کہیں بھی ’ الجماعت‘ کی تعریف میں یہ بات بیان نہیں ہوئی جسے آپ اس کی تعریف میں شامل فرما رہے ہیں،بلکہ واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اگر حکمران دینی امور میں بے پروائی سے بھی کام لیں تو ان کی اطاعت پر کاربند رہو، مثلاً آپ کا فرمان ہے: ’انکم سترون بعدی اثرۃ و امورا تنکرونھا، قالوا: فماتا مرنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: ادوا الیھم حقھم وسلوا اللّٰہ حقکم۶‘ ۔یہ اور اس مضمون کی دیگر روایتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے ’ الجماعت‘ ہونے کا تعلق صالح ہونے سے نہیں، بلکہ محض اقتدار سے ہے۔
یہی طرزعمل صحابہ کے ہاں بھی نظر آتا ہے، مثلاًزیر نقد مضمون میں ہم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول بھی نقل کر دیا تھاجس میں انھوں نے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو بھی ’الجماعت‘ کہا ہے۔ عبداللہ بن عمر نے حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو یہ بات ان الفاظ میں کہی تھی: ’اتقیا اللّٰہ، ولا تفرقا جماعۃ المسلمین‘۔۷گویا یہ بات واضح ہوئی کہ مسلمانوں کی حکومت وہ خواہ کیسی ہو، اپنی حیثیت میں’ الجماعت‘ ہے۔
موجود حکومت، اگر ہماری رائے میں کفر بواح کا ارتکاب کر رہی ہے تو اس سے صرف یہ ثابت ہو گا کہ ہم اس حکومت کے خلاف شرائط و حدود کے مطابق بغاوت کر سکتے ہیں،لیکن یہ بات قطعاً کسی نص سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ حکومت اب ’الجماعت ‘ نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اس سرزمین کے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے،حتیٰ کہ حکمران پارٹی کی مخالف جماعتیں بھی اس کی حکومت کو انتخاب کے بعد تسلیم کر چکی ہیں۔ یہ چیز اس حکومت کے لیے’الجماعت‘ ہونے کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ یہ ملت اسلامیہ کے اس حصے کے لیے جو پاکستان کی سرزمین میں آباد ہے ’الجماعت‘ ہے۔کوئی شخص قرآن و سنت کی واضح نصوص پر اگر اس کے بارے میں ارتکاب کفر کی رائے رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی تبدیلی کے لیے ہر جائز راستہ اختیار کرے اور اگر اسے اکثریت کی تائید حاصل ہے اور وہ بغاوت کے سوا تبدیلی کے لیے کوئی راہ نہیں پاتاتو کسی سرزمین میں سیاسی اقتدار قائم کرنے کے بعد وہ بغاوت بھی کر سکتا ہے۔
البتہ یہ واضح رہے کہ جن لوگوں کے نزدیک یہ حکومت کفر بواح کی مرتکب نہیں ہے، ان کے لیے آپ کی بغاوت کا ساتھ دینا لازم نہیں،بلکہ ان پر یہ واجب ہے کہ وہ پہلے سے قائم حکومت (الجماعت) کا ساتھ دیں۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’فواببیعۃ الاول فالاول‘۔۸
’الجماعت‘ کے بارے میں یہ الجھنیں اس دور میں چند وجوہ سے پیدا ہوئی ہیں:
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں ’علیکم بالجماعۃ‘ کی علت تبدیل کر دی گئی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث سے اس حکم کی علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ملت اپنے سیاسی مرکز سے جڑ کرانتشار اور انارکی کاشکار نہ ہو،وہ اپنے دشمن سے محفوظ رہے اور شیاطین جن و انس کے فتنوں سے بچی رہے۔ (مفصل بحث کے لیے دیکھیے ہمارا مضمون’مسئلۂ التزام جماعت‘)۔ اس علت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب‘ اور ’ید اللّٰہ علی الجماعۃ‘ اور ’یا ایھا الناس علیکم بالجماعۃ وایاکم والفرقۃ‘ اور ’اثنان خیر من واحد، وثلاث خیر من اثنین، واربعۃ خیر من ثلاثۃ، فعلیکم بالجماعۃ ‘۹کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ان میں دیکھ لیجیے کہ اس کی علت اتحاد و اتفاق کا حصول اور افتراق سے بچنے کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ نفاذدین اوراس غلبہ کو۔ اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں بھی بیان فرمایا جس کو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ: ’من اتاکم وامرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم او یفرق جماعتکم فاقتلوہ‘۔
لیکن اس دور میں اس کی علت غلبۂ دین یا نفاذ دین کو قرار دے دیا گیا ہے (جس کی قرآن و سنت میں کوئی بنیاد نہیں ہے)۔ اس میں تو شبہ نہیں کہ نفاذ دین ’الجماعت‘ کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ ’علیکم بالجماعۃ‘ کے حکم کی علت ہرگز نہیں ہے۔ ’علیکم بالجماعۃ‘ کی علت مذکورہ فتنوں سے نجات ہے، جن سے بچنے کے لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی حکومت کا ساتھ دیں۔آپ مجھے بتائیے کہ اگر ہندوستان خدا نخواستہ کل پاکستان پر حملہ کر دے تو کیا آپ محض اس وجہ سے اس حکومت کی وفاداری اور اس کا ساتھ (التزام) چھوڑ دیں گے کہ یہ فصل نزاعات اور قانون سازی میں شریعت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتی۔
اس الجھن کی دوسری وجہ یہ ہے کہ’علیکم بالجماعۃ‘ کامدعا صحیح نہیں سمجھا گیا۔یہ الفاظ کسی ریاست کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مسلمانوں کو التزام کا حکم نہیں دیتے،بلکہ مسلمان رعایا کے اپنی حکومت کے ساتھ تعلق کو متعین کرتے ہیں تاکہ وہ اتفاق و اتحاد سے زندگی گزارسکیں۔چنانچہ ’علیکم بالجماعت‘ مسلمانوں کا اپنی حکومت کے ساتھ محض حکومت ہونے کے ناتے سے رویے اورتعلق کا نام ہے نہ کہ حکومت کے کردار اور رویے کے حوالے سے۔میں نے اوپر ایک روایت نقل کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق کے لیے نہایت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’ادوا الیھم حقھم وسلوا اللّٰہ حقکم‘، یعنی تم اپنا حق اطاعت ادا کرتے رہو اور وہ اپنے فرائض ادا نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کرو، یعنی ان فرائض کے پورا نہ کرنے کی وجہ سے ان کی اطاعت ترک نہ کرو۔
اس الجھن کا تیسرا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں اس ’ الجماعت‘ کی اصلاح کے لیے، اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ، جماعت سازی کی گئی اور جماعت سازی کو جو دائرۂ مباحات کی چیز تھی، شرعی بنیاد فراہم کرنے کے لیے انھی روایتوں سے استدلال کیا گیااور چونکہ یہ روایتیں حکومت ہی سے متعلق تھیں اور ایک ’ الجماعت‘ کے ہوتے ہوئے دوسری ’ الجماعت‘ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے یہ استدلال اختیار کیا گیا کہ ہماری حکومت عملاً مسلمان نہیں، اس لیے اور بھی جماعتیں ’الجماعت‘ کے اصول پر بنائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے اوپر کے سارے استدلال سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت خواہ عملی طور پر مسلمان ہو یا نظری طور پر وہ ’ الجماعت‘ ہے اور ایک ’الجماعت‘ کے ہوتے ہوئے دوسری ’الجماعت‘ قائم کرنا نا جائز ہے۔اسلامی شریعت میں اس مسئلے میں کبھی دورائیں نہیں رہیں۔ امت مسلمہ تو کبھی اس بات کی بھی قائل نہیں رہی کہ وہ الگ الگ ریاستیں بنا کر خطہ ہائے ارضی میں بکھر جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خطۂ ارضی میں ایک سے زائد الجماعت قائم کر لے۔
ہم اوپر یہ عرض کر چکے ہیں کہ جماعت سازی کے لیے ان روایتوں سے استدلال ٹھیک نہیں، اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ جماعت سازی دائرۂ مباحات کی چیز ہے اور مباحات کے لیے صرف یہ ثابت کرنا کافی ہوتا ہے کہ وہ دین کے کسی حکم کے خلاف تو نہیں ہیں۔
اس الجھن کی چوتھی وجہ یہ روایت کہ ’وان لا ننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بواحا ۱۰‘بھی ہو سکتی ہے کہ آپ نے اہل اقتدار سے منازعت کی جو اجازت دی ہے،اس سے ذہن اس طرف منتقل ہو سکتا ہے کہ کفر بواح کے بعد کہیں اس حکومت نے الجماعت والی اپنی وہ حیثیت تو نہیں کھودی جس کی وجہ سے وہ اطاعت کی حق دار تھی؟ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور ہم نے یہ رائے درج ذیل دلائل کی وجہ سے اختیار کی ہے:
۱۔اس روایت کے الفاظ محض منازعت کی ایک علت کوبیان کر رہے ہیں نہ کہ ’الجماعت‘ کی حیثیت جماعت کے مجروح ہونے کو۔
۲۔ ’وان لا ننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بواحا‘ کے الفاظ سے’منازعت امر‘(خروج) کا واجب ہونا توہرگزثابت نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سے منازعت کے وجوہ جواز میں سے ایک وجہ کفر بواح بھی ہے۔ واجب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس منازعت سے گریز بھی کیا جا سکتا ہے،بلکہ اگر دوسری شرائط پوری نہ ہو رہی ہوں تو اس منازعت سے گریز ہی دین کا منشا ہے۔ چنانچہ اگر کفر بواح کے بعد منازعت سے گریز کیا جا سکتا اور بعض حالات میں گریز ہی دین کا منشا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکومت کو کفربواح کے بعد بھی مطاع مانا گیا ہے۔ اور وہ اب بھی’ الجماعت‘ ہے۔
۳۔کفر بواح کے بعد حکومت اگر اپنی حیثیت الجماعت سے محروم ہوتی تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ تم ان سے منازعت کر سکتے ہو،اس صورت میں آپ کا فرمان کچھ یوں ہونا چاہیے تھا کہ تم اب نئی حکومت قائم کرو، کیونکہ اب یہ حکومت،حکومت ہی نہیں رہی۔ اس سے منازعت کی اجازت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی حیثیت الجماعت کو مانا جا رہا ہے۔
۴۔ یہ رائے اختیار کرنا بعض صریح نصوص کی خلاف ورزی ہے۔ آپ کا فرمان ہے: ’من اتاکم وامرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم او یفرق جماعتکم فاقتلوہ۔‘ (مسلم، کتاب الامارہ) اس میں کسی حکومت کے الجماعت ہونے کی اصل شرط مسلمانوں کا اس کی حکومت پر اجتماع ہے نہ کہ حکومت کاصالح ہونا۔
حکومت پاکستان کو الجماعت قرار دینے کے پیچھے میرا استدلال یہ تھا۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر کہیں میرا استدلال کمزور ہوا، وہاں آپ میری اصلاح ضرور فرمائیں گے۔
احقر
ساجد حمید
شعبۂ تصنیف و تالیف المورد
[۱۹۹۵ء[
_________
۱المائدہ ۵: ۱۔ ’’معاہدوں کی پابندی کرو۔‘‘
۲’’ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘
۳’’تمھارے اوپر الجماعت کا التزام لازم کیا گیا ہے۔‘‘
۴مسلم، کتاب الامارہ۔’’ جو تمھارے پاس بغاوت اٹھانے کے لیے آئے،جبکہ تم ایک آدمی کی حکومت پر مجتمع ہواور وہ چاہتا ہو کہ تمھارا شیرازہ بکھیردے یاتمھارے نظم جمعیت کو پارہ پارہ کر دے تو اس کو قتل کردو۔‘‘
۵ہم نے اس خط میں، ریاست اورحکومت کے الفاظ کم و بیش مترادفات کے طور پر استعمال کیے ہیں۔ اس لیے کہ ریاست حکومت کے بغیر وجودمیں نہیں آ سکتی۔
۶مسلم ،کتاب الامارہ۔’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ حق تلفی ہو گی اورمنکر امور کو اپنایا جائے گا۔صحابہ نے عرض کی:پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: تم حکمرانوں کا حق ادا کرتے رہواور اپنا حق اللہ سے مانگو۔‘‘
۷’’اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو پارہ پارہ نہ کرو۔‘‘
۸مسلم، کتاب الامارہ۔ ’’جس سے پہلے بیعت کی ہو، اس کی بیعت کو پہلے وفا کروپھر اس کے بعد پہلے کی۔‘‘
۹مسند احمد۔’’الجماعت کے ساتھ جڑ کر رہنے میں اللہ کی رحمت ہے اور اس سے علیحدگی میں عذاب الٰہی ہے‘‘ اور’’ اللہ کی تائید ’الجماعت‘ کے ساتھ ہے‘‘ اور’’اے لوگو،الجماعت کے ساتھ التزام تم پر واجب کیا گیا ہے، اور تفرقہ تم پر حرام کیا گیا ہے‘‘ اور’’دو ایک سے بہتر ہیں، اورتین دو سے، اور چار تین سے، اس لیے’الجماعت‘ سے جڑ کر متحد ہو کر رہو۔‘‘
۱۰بخاری کتاب الفتن۔’’ یہ کہ ہم اولو الامر سے حکومت کے معاملے میں نزاع نہ کریں، سوائے اس کے کہ صریح کفر کا ارتکاب ان کی طرف سے نہ دیکھ لیں۔‘‘
___________________