عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا یجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا. وقال ید اللّٰہ علی الجماعۃ. فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین۱. فاذا رأیتم إختلافا.۲فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.(مستدر ک،کتاب العلم(
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔اور آپ نے فرمایا:نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔چنانچہ،جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سوادا عظم کی رائے کی پیروی کرو، اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔
سب سے پہلے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ روایت،دراصل،دو روایتوں کا مجموعہ ہے: ابتدا سے ’علی الضلالۃ ابدا‘ تک پہلی روایت ہے اور ’وقال: ید اللّٰہ علی الجماعۃ‘ سے آخر تک دوسری روایت۔ہمارے نزدیک کسی موقع پر استدلال کرتے ہوئے دونوں روایتوں کو ایک ہی موقع پر بیان کیا گیا، مگر بعد کے راویوں نے اسے ایک ہی روایت کی حیثیت سے بیان کر دیا۔ ہماری اس رائے کی بنیاد درج ذیل دلائل پر ہے:
۱۔یہ روایت موجودہ صورت میں قرآن و سنت کے مسلمات کے خلاف ہے۔ ’لا یجمع اللّٰہ ھذہ الامۃ علی الضلالۃابدا‘ پر ’فاتبعوا السواد الأعظم‘ کے عطف سے روایت میں یہ معنی پیدا ہو جاتے ہیں کہ امت جس بات پر متفق ہو یا سواد اعظم جس رائے کو اختیار کرلے، وہی حق ہے،لہٰذا اسی کی پیروی کی جائے ۔اگر اس کا مطلب یہی ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ ہم ملت اسلامیہ کے سواد اعظم (اکثریت) کی رائے کو حق مانیں، خواہ اکثریت کی رائے دین کے مسلمات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔جبکہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ قرآن مجید ہی اصل حاکم ہے۔اس کے خلاف سواد اعظم تو کیا،اگر ساری دنیا بھی یک زباں ہو جائے،تب بھی قرآن ہی کی بات مانی جائے گی۔
۲۔قرآن مجید اور احادیث کی نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین اجنبی ہو جائے گا۔اور ’ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِیْنَ. وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ ۳‘ کے مطابق،اخیار امت کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔اور ’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۴‘ کے اصول پرشرعام ہوتا جائے گا اور ’بدأ الا سلام غریبا وسیعود غریبا‘۵کے مطابق حق لوگوں کے لیے اجنبی ہوتا جائے گا۔چنانچہ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حق کے علم بردار بالعموم کم ہی ہوتے ہیں۔
۳۔اس روایت کی انھی مشکلوں کے حل کے لیے عام طور پرسواد اعظم سے صحابہ، جمہور علما یا اخیار امت مراد لیے جاتے ہیں۔یہ رائے ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے،کیونکہ روایت کے الفاظ میں کوئی قرینہ ایسا نہیں،جس کی بنیاد پر سواد اعظم کے یہ معنی مراد لیے جائیں،بلکہ کلام کی ترکیب ایسی ہے کہ سواد اعظم سے مسلمانوں کی اکثریت ہی مراد لی جا سکتی ہے۔
۴۔’لا یجمع اللّٰہ ھذہ الامۃ علی الضلالۃ ابدا‘ کے بعد’وقال‘ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔بعض طرق میں ’وقال‘حذف ہو گیا ہے۔اس کی وجہ غالباًراویوں کا سہو ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ’وقال‘ کا موجود ہونا ہمارے نزدیک اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتا ہے کہ یہ دو الگ الگ روایتیں ہیں۔چنا نچہ ہمارے نزدیک ان روایتوں کو الگ الگ سمجھنا ضروری ہے۔اس وجہ سے ہم ان کی شرح بھی الگ الگ کریں گے۔
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لایجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا.
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔‘‘
’جمع نہ کرنے‘ سے مراد یہ ہے کہ ملت اپنے تمام افراد کے ساتھ کبھی ضلالت یا گمراہی اختیار نہیں کرے گی،بلکہ کچھ لوگ ہر زمانے میں ضرورحق پر قائم رہیں گے۔
گمراہی اختیار کرنے سے مراد،دین کے کسی جز میں گمراہی بھی مراد ہو سکتی ہے اور پورے دین میں بھی اور اسی طرح اصول میں اور فرع میں بھی۔آپ کے اس فرمان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چونکہ ملت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی،اس لیے اگر وہ کسی بات پر جمع ہو جائے تو وہ بات یقیناًحق ہو گی۔اس کے بارے میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ یہ رائے قرآن و حدیث کے مسلمات کے خلاف ہے۔
ملت اپنے تمام افراد کے ساتھ کبھی ضلالت پر جمع نہیں ہو گی،بلکہ اہل حق کی قلیل یا کثیر جماعت ہر زمانے میں موجود رہے گی۔
اس روایت کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت پر ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْدًا.)البقرہ۲: ۱۴۳)
’’اسی طرح ہم نے تمھیں ایک بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اس دین کی) شہادت دینے والے بنو اور یہ رسول تم پر شہادت دے۔‘‘
امت اسلامیہ کو اس منصب پر فائز کرنے کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ وہجس حق کی شہادت کے لیے برپا کی جا رہی ہے،وہ حق ہمیشہ زندہ رہے۔چنانچہ اس کے لیے ملت میں دو اہتمام کیے گئے ہیں:ایک یہ کہ قرآن مجید کو ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔دوسرے یہ کہ اس امت کے اندرہمیشہ کے لیے ایک گروہ کو حق پر قائم کردیا گیاتاکہ حق کے طالبوں کے لیے ان کا علم و عمل مشعل راہ کا کام دیتا رہے۔ہماری زیر بحث روایت میں اسی دوسرے اہتمام کے نتیجے کو بیان کیا گیا ہے کہ ملت کے اندرچونکہ اہل حق کا ایک گروہ ہمیشہ موجود رہے گا،اس لیے پوری ملت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔
اگر اس آیت کی روشنی میں اس روایت کو سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت، بحیثیت مجموعی ضلالت پر کبھی جمع نہ ہوگی۔اس میں ہمیشہ اہل حق کا ایک گروہ موجود رہے گاتاکہ حق کے طالبوں کے لیے ان کا علم و عمل شمع رہنما بنا رہے اور خلق کو قرآن و سنت کی ہدایت کی جو روشنی مطلوب ہے،وہ کبھی گل نہ ہونے پائے۔سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں یہ پہاڑی کے وہ چراغ ہیں جن سے راہ ڈھونڈنے والے اپنی منزل پائیں گے۔یہی چراغ ہر ظلمت میں روشن رہیں گے اور باطل کے ہر طوفان کے مقابلے میں حق کی حمایت میں اپنی لو کو مزید بڑھاتے رہیں گے۔
چنانچہ اس طرح کے لوگ خواہ ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو،اس امت میں ہمیشہ باقی رہیں گے۔فتنوں کا کیسا ہی زور ہو، ضلالت امت کے رگ و ریشے میں کتنی ہی گہری اتر جائے، خوب جب ناخوب اوربدعت جب سنت قرار پا جائے تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اس امت کے ایک حصے کو حق پر قائم رکھے گا۔وہ اپنے زمانے میں حق کی منادی کرتے رہیں گے اور ان کے علم و تقویٰ کا معاشرے پر بہت رعب ہو گا۔یہی بات ایک اور موقع پر آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
لا تزال طائفۃ فی أمتی قائمۃ بامر اللّٰہ لا یضرھم من خذلہم او خالفھم حتی یاتی امر اللّٰہ، وھم ظاھرون علی الناس.(مسلم،کتاب الامارہ)
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پرقائم رہے گا۔جو کوئی ان کو دبانا چاہے یا ان کی مخالفت کرے گاتو وہ ان کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا،یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ سنا دیا جائے،اس وقت تک، یہ گروہ لوگوں پر غالب رہے گا۔‘‘
زیر بحث روایت سے عام طور پریہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ ملت چونکہ ضلالت پر جمع نہیں ہو سکتی، اس لیے جب بھی یہ کسی بات پر جمع ہو جائے تو وہ بات یقیناحق ہو گی۔ہمارے نزدیک یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔اس کے وجوہ ہم مضمون کی تمہید میں بیان کر آئے ہیں۔یہاں اتنی بات مزید واضح رہے کہ روایت کے الفاظ سے یہ منطقی نتیجہ نکالنے کو تو نکالا جا سکتا ہے،مگر یہ متکلم کا منشا نہیں ہے۔وہ تو صرف یہ بشارت سنانا چا ہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو باقی رکھنے کا یہ اہتمام کردیا ہے، چنانچہ پوری کی پوری ملت اپنے کسی دور میں بھی گمراہ نہ ہوگی،بلکہ اس میں اہل حق کاایک گروہ ہمیشہ رہے گا:
ید اللّٰہ علی الجماعۃ، فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین، فإذا رأیتم إختلافا فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.
’’نظم اجتماعی (ریاست) پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔ چنانچہ، جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو۔ اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا، وہ دوزخ میں پڑا۔‘‘
’ید اللّٰہ علی الجماعۃ‘ ’’نظم اجتماعی(ریاست) پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔ ’ید اللّٰہ علیہ‘ رحمت اور سرپرستی سے کنایہ ہے۔یعنی ان پر اللہ کی رحمت سایہ فگن رہے گی اور اللہ تمھیں اپنی پناہ اور نگرانی میں رکھے گا۔ ’السلطان ظل اللّٰہ علی الارض ۶‘کا اسلوب اور مضمون بھی یہی ہے۔اس میں’ الجماعۃ‘ (نظم اجتماعی یا ریاست) کے ساتھ وابستگی کی برکات کی طرف اشارہ ہے۔
’الجماعۃ‘ سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی(ریاست) ہے۔ ریاست بنا کر ایک منظم قوم کی حیثیت سے رہنامسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے۔
’السواد الاعظم‘ سے مراد قوم و ملت کی اکثریت ہے۔اس حکم کا تعلق نظم سیاسی سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا عطف ’ید اللّٰہ علی الجماعۃ‘ پر ہوا ہے۔چنانچہ سیاسی نظام میں قوم کے نمائندے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’العرفاء‘ کا نام دیا ہے،ان کی اکثریت بھی سواد اعظم ہے۔
ایک نظم اجتماعی(ریاست) کے تحت متحد اور منظم رہنے میں اللہ کی رحمت ملت کے شامل حال رہے گی۔اس سے الگ ہونے والا شیاطین کے نرغے میں آجائے گا۔ اس لیے نظم اجتماعی (ریاست) ہی سے وابستہ رہو۔جب اختلاف ہو جائے تواس نظم کو چھوڑنے کے بجائے اکثریت کی رائے مان کر اس سے وابستہ رہوتاکہ امت مسلمہ اور تم اللہ کی تائید و نصرت اور رحمت سے محروم نہ ہو۔
اس روایت میںآپ نے دو باتیں فرمائی ہیں۔ایک یہ کہ اللہ کی تائید’الجماعۃ‘ ہی کو حاصل رہے گی۔اور دوسرے یہ کہ اختلاف کی صورت میں سواد اعظم کی اتباع کی جائے اور جس نے اس کی اتباع نہ کی اس کی سزا دوزخ ہے۔اب ہم قرآن مجید سے ان دونوں باتوں کی بنیاد الگ الگ بیان کریں گے۔
پہلی بات آپنے یہ فرمائی کہ اللہ کی تائید’الجماعۃ‘ہی کو حاصل رہے گی۔آپ کا یہ فرمان قرآن مجید کی درج ذیل آیات پر مبنی ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓإِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ. وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۳۔۱۰۴)
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے مل کر تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو، اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے ایک گڑھے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا، اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی ہدایات کو واضح کرتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو۔ اور اس لیے چاہیے کہ تم میں ایک گروہ (اس اختیار کے ساتھ) قائم ہوجو نیکی کی دعوت دے، معروف کاحکم دے اور منکر سے روک دے اور اپنے اندر اس گروہ کوقائم کرنے والے ہی فلاح پائیں گے۔‘‘
ان آیات پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ پر قائم رہنے اور تفرقے سے بچنے کے لیے اپنے اندر ایک نظم اجتماعی قائم کریں۔ ’ولتکن منکم امۃ‘ کا مطلب یہی ہے یعنی مسلمانوں پر یہ واجب کیاگیا ہے کہ وہ ایک حکمران کے تحت،ایک ہی سیاسی نظام میں متحد قوم کی حیثیت سے رہیں۔اسی چیز کو اس حدیث میں ’الجماعۃ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ملت اسلامیہ اگر اللہ کے اس حکم پر کار بند رہتی ہے تویقیناًاللہ تعالیٰ بھی اپنی رحمت اور تائید سے ملت اسلامیہ کو محروم نہ کریں گے۔اسی بات کو قرآن مجید نے ’اولٰٓئک ھم المفلحون‘ کے الفاظ میں بیان کیاہے،یعنی ایسا طریقہ اختیار کرنے والے اس دنیا اور آخرت، دونوں میں فوزو فلاح پائیں گے۔
اس روایت میں دوسری بات جو آپ نے فرمائی وہ یہ ہے کہ جب تم اختلاف دیکھو تو سواداعظم (اکثریت) کی پیروی کرو۔ آپ کا یہ فرمان قرآن کی آیت شوریٰ ’’امرھم شوریٰ بینھم۷‘پر مبنی ہے۔ سواداعظم کی اتباع اس شورائی نظام کالازمی تقاضا ہے،جس کا حکم قرآن مجید نے دیا ہے۔اس کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے۔
ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ ملت اسلامیہ پرایک حکومت کے تحت متحد ہو کر رہنا واجب کیا گیا ہے۔یہ بحیثیت امت اس کے فرائض میں سے ہے۔اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل سے حاصل ہونے والے ثمرات میں سے ایک کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مقصد اس حکم کی تعمیل پر ابھارنا اور یہ سمجھانا ہے کہ اللہ کی تائید و نصرت کی مستحق متفرق جماعتیں نہیں،بلکہ ایک سیاسی نظم کی پابندملت ہے جو طوائف الملوکی کا شکار نہ ہو۔جس کا نظام ’امرھم شوریٰ بینھم‘ کے اصول پر چلتا ہو،جو ایک ہی حکمران پر مجتمع ہو اور کسی منتشر بھیڑ کی طرح پراگندہ نہ ہو،کیونکہ نظام اجتماعی سے تخلف شیطانی چالوں میں سے ہے جو قوموں اور ان کے افراد کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے دشمن اور شیطان کے نرغے میں بآسانی آجاتے ہیں جس کا نتیجہ اللہ کی تائید و نصرت سے محروم ہو جانا ہے،جبکہ ان دشمنوں کے مقابلے میں مضبوط و مستحکم ہونا اللہ کی تائید و نصرت کی علامت ہے۔
’جب تم اختلاف پاؤ توسواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو۔‘ اس حکم کا تعلق سیاسی نظام سے ہے۔ شریعت اسلامیہ نے جس سیاسی نظام کے لیے قانون سازی کی ہے، اس کے لیے بنیادی اصول یہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چلے۔چنانچہ جس سیاسی نظم (الجماعۃ) کی بنیاد باہمی مشورے(شوریٰ) کے اصول پر رکھی گئی ہے،اس میں اختلافی امور میں فیصلہ کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سواد اعظم (اکثریت ) کی رائے ہی نافذالعمل مانی جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اسلام کا نظام حکومت، چونکہ ’امر ھم شوریٰ بینھم‘ کے اصول پر مبنی ہے۔اس لیے یہ واضح سی بات ہے کہ جب بھی مشورہ لیا جائے گاتو دو میں سے ایک صورت لازماً پیدا ہو گی:شوریٰ بالا جماع کسی فیصلے پرپہنچ جائے گی یا اختلاف رائے ہو جائے گا۔اختلاف کی صورت میں اگر معاملہ افہام و تفہیم سے بھی طے نہ پائے تو پھر دین کا حکم ہے کہ سواد اعظم،یعنی اکثریت کی رائے کو فیصلہ کن قراردیا جائے۔یہی حکم ہماری زیر بحث حدیث میں دیا گیا ہے کہ ’فاذا رأیتم إختلافا فاتبعواالسواد الأعظم‘ کہ جب بھی اختلاف پیدا ہو جائے تو اکثریت کی رائے کی پیروی کرو۔
یعنی اکثریت (سواد اعظم) کی رائے کی بنیاد پر قانون سازی کر لو،کیونکہ اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنے کا یہی طریقہ قابل عمل اور نزاع سے بچانے والا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہو کر التزام جماعت پر قائم رہا جا سکتا ہے۔یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آدمی محض اختلاف رائے کی بنا پر ملت کے نظم اجتماعی سے تخلف یا علیحدگی اختیار کرکے عتاب الٰہی کا شکار بنے۔
چونکہ اس حکم کا تعلق سیاسی اور اجتماعی امور سے ہے،اس لیے ہم حکمران کے انتخاب،ملکی نظام کی تشکیل،قانون سازی،قانون سازی میں شریعت کے مدعا کی تعیین اور اہم قومی امورمیں حکمت عملی کی ترتیب جیسے معاملات میں بصورت اختلاف و اتفاق،سواد اعظم کی رائے کی پیروی کے پابند ہیں۔
تخلف اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ سواد اعظم کے طے کردہ قانون کی اتباع چھوڑ کرمحض رائے کے اختلاف کی بنا پرریاست کی نافرمانی اور اس سے تخلف کی راہ اختیار کی جائے،ایسا کرنے والا جہنمی ہے،کیونکہ وہ ’من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاھلیۃ‘ (مسلم،کتاب الامارہ) کے حکم میں آتاہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی آدمی اپنی ذاتی رائے رکھ ہی نہیں سکتا۔ ہماری مراد صرف یہ ہے کہ جب ایک اختلافی امر میں اتفاق رائے سے فیصلہ نہ ہو سکے تو اکثریت کی رائے کو ملکی قانون کی صورت میں نافذ کر دیا جائے گا۔نفاذ کے بعد وہ رائے ریاستی قانون ہے،جس کی اتباع ہر شخص پر لازم ہے۔اختلاف رائے کی بنیاد پر اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی،البتہ جس کو اختلاف ہو وہ اس قانون پر عمل کرتے ہوئے اپنی رائے کے حق میں رائے عامہ ہموار کر سکتا اور اسی طرح قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے ملکی قانون بنانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔
زیر بحث روایت درحقیقت دو روایتوں کا مجموعہ ہے۔پہلی روایت میںیہ فرمایا گیا ہے کہ اس ملت کے افراد کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہمیشہ صالح علما کا ایک گروہ موجود رہے گا۔یہ اہتمام اس لیے کیا گیا ہے کہ ملت شہادت حق کی ذمہ داری ادا کر سکے۔
دوسری روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک نظم سیاسی سے جڑ کر رہنے میں اللہ کی رحمت مسلمانوں کے شامل حال ہو گی۔مسلمانوں پر ایک نظم اجتماعی سے وابستہ رہنا فرض کیا گیا ہے،اس نظام کی بنیاد شوریٰ کے اصول پر رکھی گئی ہے۔اختلاف کی صورت میں طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اکثریت کی رائے کو فیصلہ کن مان کر نظام چلایا جائے اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ محض اختلاف کی بنا پرنظم اجتماعی سے تخلف اختیار نہ کیا جائے، بلکہ اختلاف رائے کے باوجود اسی قانون پر چلا جائے جسے عوام یا عوام کے معتمد ارباب حل و عقد کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔
[۱۹۹۴ء]
_________
۱تلبیس ابلیس،ابن جوزی،باب۱۔
۲سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن۔
۳الواقعہ ۵۶: ۱۳۔۱۴۔ ’’ پہلے والوں میں بہت اور بعد والوں میں کم۔‘‘
۴عن اسانید المختلفہ۔ ’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر اس سے کم، اس سے بعد کا زمانہ ہے، پھر اس کے بعدکا۔‘‘
۵عن اسانید المختلفہ۔’’ اسلام آیا تو اجنبی تھا اور عنقریب، یہ پھر اجنبی ہو جائے گا۔‘‘
۶خطبۂ مسنونہ، عن ’ اسانید المختلفہ‘۔
۷الشوریٰ ۴۲: ۳۸۔’’ ان کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘
___________________