HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

التزام جماعت کی حکمت

 

عن ابی ذر، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، انہ قال: اثنان خیر من واحد، وثلاث خیر من اثنین، واربعۃ خیر من ثلاثۃ، فعلیکم بالجماعۃ.(احمد بن حنبل،مسند الانصار(

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:دو ایک سے بہتر ہوتے ہیں اورتین دو سے اور چار تین سے،اسی لیے تم پر نظم اجتماعی سے وابستگی واجب کی گئی ہے۔

 

شرح حدیث

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی زندگی کے تجربات سے ایک دلیل دے کر ’التزام جماعت‘ کی اہمیت بیان کی ہے کہ یہ سیدھا سا اصول ہے کہ اکیلا آدمی دو کے مقابلے میں کمزور ہے اور اسی طرح دو تین کے مقابلے میں اور تین چار کے مقابلے میں۔اسی لیے تم پر’الجماعۃ‘(نظم اجتماعی) سے وابستگی واجب کر دی گئی ہے،کیونکہ ایک متحد،منظم جماعت،جس میں سیاسی نظم قائم ہواور لوگ ایک حکمران کی اطاعت میں زندگی گزار رہے ہوں،وہ ایک منتشر بھیڑ کے مقابلے میں بہتر ہے، جس کا ہر فرد دوسرے سے الگ اور بے تعلق ہو۔

فتنوں سے بچنے اور دشمن کے مقابلے میں مضبوط و محکم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم ایک مرکز سے وابستہ ہو۔چنانچہ جب تک ملت اسلامیہ ایک مرکز سے وابستہ رہے گی،اس وقت تک فتنوں سے محفوظ رہے گی۔جس طرح اکیلا آدمی بھاری دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتا ،اسی طرح اکیلا مسلمان بھی شیطان جیسے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور انتشار کے باعث ملت اسلامیہ بھی دشمن کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہرسکے گی۔آپ نے اسی بات کو ایک تمثیل میں واضح فرمایا ہے:

عن معاذ بن جبل ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ان الشیطان ذئب الانسان کذئب الغنم یاخذ الشاۃ القاصیۃ و الناحیۃ، فایاکم والشعاب و علیکم بالجماعۃ و العامۃ والمسجد.  )احمد بن حنبل،مسند الانصار(

’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کے لیے ایسے ہی ہے،جیسے کہ بکریوں کے ریوڑ کے لیے بھیڑیاجو ریوڑ سے الگ اور اس سے گریزاں ہو کر چلنے والی بھیڑ کو کھا جاتا ہے۔شیطان کے اس شر سے بچنے کے لیے تم پر واجب ہے کہ ہر ممکن انتشار سے بچو اور حکومت کی اطاعت پر کمربستہ رہو (اور سیاسی امور میں) اکثریت کی پیروی کرو۔(اور ریوڑ کے ساتھ رہو، اس سے الگ ہو کر نہ چلو اور اسی مقصد کے لیے)مسجد سے بھی جڑے رہو کہ وہ اجتماعیت کا مرکز ہے۔‘‘

ایک اور موقع پر آپ نے اس تمثیل کو کھول کر بیان کیا ہے کہ میرے بعدفتنے اٹھیں گے،پہلی امتوں میں ان فتنوں کو کچلنے کے لیے انبیا آتے تھے، مگر چونکہ اب کسی اور نبی کو نہیںآنا،اس لیے تم ان فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنا، حقوق العباد ادا کرتے رہنا اور نظم اجتماعی سے وابستہ رہنا۔ ورنہ فتنوں کا یہ شیطانی بھیڑیا تمھیں بھی نگل جائے گا:

ایھا الناس انہ لم یکن نبی قبلی الا کان حقا علیہ ان یدل امتہ علی ما یعلمہ خیرا لھم و ینذرھم ما یعلمہ شرا لھم الا و ان عافیۃ ھذہ الامۃ فی اولھا وسیصیب آخرھا بلاء وفتن یرقق بعضہا بعضا تجیء الفتنۃ فیقول المومنین ھذہ مھلکتی ثم تنکشف ثم تجیء فیقول ھذہ ھذہ، ثم تجیء فیقول ھذہ ھذہ، ثم تنکشف فمن احب ان یزحزح عن النار و یدخل الجنۃ فلتدرکہ منیتہ وھویومن باللّٰہ والیوم الاٰخر و یاتی الی الناس ما یحب ان یوتی الیہ و من بایع اماما فاعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ فلیطعہ ان استطاع.(نسائی،کتاب البیعہ)

’’اے لوگو،مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر یہ لازم نہ رہا ہو کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی ان کے بھلے کی طرف کرے، اور ان کے بُرے سے انھیں متنبہ کر دے۔ (میں بھی تمھیں اچھے اور بُرے سے آگاہ کرنے آیا ہوں) تو آگاہ رہو کہ اس امت کا پہلا دورتو عافیت کا دور ہے۔بعد کا دور فتنوں کا ہے، جس میں فتنے پے درپے اٹھیں گے۔تو جب کوئی فتنہ اٹھے گاتو بندۂ مومن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت ہے۔پھر وہ فتنہ فرو ہو جائے گا،پھر ایک اور فتنہ اٹھے گاتو وہ کہے گا کہ یہ میری ہلاکت ہے۔ پھر وہ فتنہ بھی جاتا رہے گا۔ تو جو چاہتا ہے کہ ان فتنوں کی وجہ سے دوزخ میں پڑنے سے بچا کر جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اسے اس حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ اور آخرت کو مانتا ہواور لوگوں کے ساتھ ویسے ہی پیش آئے، جیسا وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔اور جو کسی حکمران کے ہاتھ پر بیعت کرے اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر دل سے اطاعت کا عہد کرے تو اسے چاہیے کہ وہ حتی الامکان، اس کی اطاعت کرتا رہے۔‘‘

یعنی ملت کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور کارگزاریوں سے بچنے کے لیے یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہم’الجماعۃ‘کے ساتھ وابستہ و پیوستہ رہیں۔

یہ حکم سورۂ آل عمران کی ایک آیت پر مبنی ہے۔قرآن مجید نے یہ تلقین کی ہے کہ ہم دین پر صحیح معنی میں اسی صورت میں قائم رہ سکتے ہیں اور فرقہ بندی کے فتنوں سے اسی طرح بچ سکتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کے صالح لوگوںیعنی اصحاب حل و عقد کے ایک گروہ کو اقتدار کی ذمہ داری سونپ دیں اور وہ ہمارے اندر دعوت حق کی خدمت سر انجام دیں۔اس دعوت کے بعدبھی اگر ضرورت پڑے تو نیکی کو اختیار کرنے کا حکم دیں۔اور نیکی کی دعوت اور اس کے فروغ کے باوجود برائی معاشرے میں سر اٹھائے تو اس کو بزور روک دیں تاکہ نظام خیر پر چلتا رہے۔چنانچہ قرآن کا فرمان ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓإِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ. وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۳،۱۰۴)

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے مل کر تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو اور اللہ کے اس فضل کو یادرکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا۔اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے ایک گڑھے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی ہدایات کو واضح کرتاہے تاکہ تم راہ یاب ہو۔اور اس لیے چاہیے کہ تم میں سے ایک (بااختیار) گروہ ہو، جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

اس باب کی تمام روایات اسی آیت پر مبنی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ہی کے مختلف پہلووں کی توضیح کرتے ہوئے یہ احکام دیے ہیں۔اگر اس آیت پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ پر قائم رہنے اور تفرقے سے بچنے کے لیے اپنے اندر ایک نظم اجتماعی قائم کریں۔ ’ولتکن منکم امۃ‘ کا مطلب یہی ہے ۔چنانچہ جب کسی چیز کے بنانے یا قائم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو بننے کے بعداس کو قائم رکھنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرنا اور اس کے خلاف اقدامات نہ کرنااس حکم میں خود بخود شامل ہے۔یہی چیز ’علیکم بالجماعۃ‘ ہے۔

قرآن مجید میںیہ حکم جس سیاق میں آیا ہے،اس پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ’ولتکن منکم امۃ‘ میں قیام ریاست کا یہ حکم اس لیے دیا جارہا ہے کہ جماعت صحابہ متحد رہ کر نیابت رسول کے لیے تیار رہے اور رسول اللہ کی نیابت میں ’شھادت علی الناس‘ کا فریضہ سر انجام دے سکے۔

اس منصب امامت پر قائم رہنے کے لیے جس طرح شریعت اور نظام عدل پر قائم رہنا ضروری ہے،اسی طرح ایک مرکز اور نظم اجتماعی سے وابستگی بھی اس کے لیے اشد ضروری ہے۔ چنانچہ ’التزام جماعت‘ کے حکم سے مقصوداصل میںیہی ہے کہ ملت و حدت ریاست پر قائم رہے۔اس میں انتشار پیدا نہ ہو۔انتشار اس کے لیے عذاب الٰہی اور وحدت اس کے لیے رحمت خداوندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے یہ حکم اس قدر تاکید کے ساتھ دیا ہے کہ اگر اس موضوع کی تمام روایات کو جمع کر کے پڑھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا توحید،معاد اور رسالت کے بعدیہ اسلام کا سب سے بڑا حکم ہے، جس سے انحراف اسی طرح دوزخ کی سزا کا باعث ہے جس طرح توحید و رسالت سے انحراف۔

اس حکم میں پیش نظر ایک چیز اور بھی ہے جس کو آپ نے اپنے دوسرے ارشادات میں واضح فرمایا ہے کہ ان فتنوں کا مقابلہ تائید الٰہی کے بغیرممکن نہیں ہے اور تائید الٰہی صرف اس صورت میں نازل ہو گی جب ہم اس کے حکم کے مطابق باہم دگر متحد رہیں۔مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرمان اس طرح نقل ہوئے ہیں:

ید اللّٰہ علی الجماعۃ.

’’الجماعۃ، کے قائم رہنے میں اللہ کی تائید و نصرت ہے۔‘‘

الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب.

’’الجماعۃکا قائم رہنا اللہ کی رحمت ہے، اور اس کا منتشر ہونا عذاب الٰہی ہے۔‘‘

چنانچہ مذکورہ آیت کی روشنی میں ’علیکم بالجماعۃ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ملت کو نیابت رسول میں منصب امامت پر برقرار رکھنے کے لیے اسے قرآن و سنت پر قائم اور ایک پلیٹ فارم پر مجتمع رکھنے والی ریاست کے ساتھ اس غرض سے وابستہ رہا جائے کہ وہ انتشار کا شکار ہو کر منصب امامت سے معزول نہ ہو جائے۔یہی وجہ کہ اس سے منحرف ہونے والے کی سزا دوزخ ہے،کیونکہ وہ انتشار ملت کا باعث بنتا ہے خود قرآن نے بھی یہ کہا ہے ’اولئک ھم المفلحون‘ کہ حکومت کے بارے میں مذکورہ حکم کی تعمیل کرنے والے ہی فلاح پائیں گے، جس کا نقیض ظاہر ہے خود بخود ثابت ہو جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو ’میتۃ جاھلیۃ‘ سے تعبیر فرمایا ہے:

من رای من امیرہ شیئا یکرھہ فلیصبر فانہ من فارق السلطان شبرا مات میتۃ جاھلیۃ(مسلم،کتاب الامارہ)

’’جو شخص اپنے حکمران میں کوئی نا پسندیدہ بات دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت پر جما رہے،کیونکہ جو بالشت برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘

خلاصہ یہ کہ فتنوں سے بچنے اور دشمن کے مقابلے میں مضبوط و محکم رہنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اہل ایمان نظم اجتماعی سے جڑے رہیں۔جب تک وہ ملت اسلامیہ کے اس مرکز سے وابستہ رہیں گے، اس وقت تک فتنوں سے محفوظ رہیں گے،کیونکہ ایک متحد گروہ ایک منتشر بھیڑ سے بہتر ہے۔جس طرح اکیلا آدمی بھاری دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتا،اسی طرح اکیلا مسلمان بھی شیطان جیسے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔اور انتشار کے باعث ملت اسلامیہ بھی دشمن کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے گی۔اسی طرح کا حکم وہ بھی ہے جس میں مسلمان کو دارالکفر میں رہنے سے روکا گیا ہے۔

[۱۹۹۴ء]

___________________

 

B