HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حکمران کی اطاعت اور کفر صریح

 

عن عبادۃ بن الصامت ، فقال، دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فکان فیما اخذ علینا ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا و عسرنا و یسرنا واثرۃ علینا. ان لا ننازع الامر اھلہ، قال: إلا ان تروا کفرا بواحا، عندکم من اللّٰہ فیہ برھان.(بخاری، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الامارہ(

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایاتاکہ ہم ہر حالت کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کریں کہ نرمی و جبر، تنگی و فراخی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیے جانے(کے باوجود بھی حکمران کی اطاعت سے نہیں نکلیں گے)، اور نہان سے جھگڑا کریں گے۔ فرمایا کہ صرف (اس صورت میں تم حکمران کی اطاعت سے نکل سکتے ہو) کہ تم کوئی صریح کفر اس کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت ہو۔

 

شرح حدیث

 

یہ روایت قرآن مجید کے حکم ’أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘ (النساء ۴: ۵۹) ’’اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو،اور امیر کی جب تک وہ تم میں سے ہو۔‘‘ کی شرح میں بیان کی گئی ہے۔اس حکم کے مطابق حکمران کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے مقتضیات بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ حکمران کی اطاعت ہم پر واجب ہے، خواہ وہ ہمیں تنگی میں ڈالے،ہم پر جبر کرے اور دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے۔دوسرے مواقع پر آپ نے دینی امور میں بے پروائی کرنے والے اور کسی نا پسندیدہ حکمران کی اطاعت کا حکم دیا ہے:

انھا ستکون من بعدی امراء یصلون الصلاۃ لوقتھا ویوخرونھا عن وقتھا فصلوھا معھم فان صلوھا لوقتھا وصلیتموھا معھم لکم ولہم، وان اخروھا عن وقتھا فصلیتموھا معھم فلکم وعلیھم، من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاھلیۃ ومن نکث العھد ومات ناکثا للعھد، جاء یوم القیامۃ لا حجۃ لہ.)احمد بن حنبل، مسند المکیین(

’’میرے بعد ایسے امرا ہوں گے، جو وقت بے وقت نماز پڑھیں گے۔تم ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہو۔اگر وہ وقت پر نماز پڑھیں گے تو انھیں اور تمھیں ا س کا ثواب مل جائے گا۔اور اگر وہ تاخیر کریں گے تو تمھیں ثواب مل جائے گا اور ان کے لیے اس کا وبال ہو گا۔یہ اس لیے کہ جونظم ریاست سے الگ ہوا، اور اسی حالت میں مر گیا، وہ جاہلیت کی موت مر ا۔اور جس نے عہد توڑا اور عہد توڑ کر مرا،وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس بات کے جواز میں پیش کرنے کے لیے، اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی۔‘‘

ناپسندیدہ حکمران کی اطاعت کے بارے میں بھی آپ نے یہی فرمایا:

عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کان راسہ زبیبۃ.(بخاری،کتاب الاحکام)

’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمع و طاعت پر قائم رہو،خواہ تم پر ایک حبشی غلام، جس کا سر منقے کی طرح چھوٹا سا ہو، حکمرانبنا دیا جائے۔‘‘

ان تمام حالتوں میں حکمران کی اطاعت سے نکلا نہیں جا سکتا،یعنی نہ اس کی اطاعت ترک کی جا سکتی ہے اور نہ اس کی حکومت الٹنے کے لیے اقدام کیا جا سکتا ہے۔ایسی صورت میں کیا گیا اقدام گویا اسلام کا قلادہ گردن سے اتارنے کے مترادف ہے۔آپ کا فرمان ہے:

من خرج من الجماعۃ، قید شبرۃ، فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ.(احمد بن حنبل، مسند الانصار)

’’جو الجماعۃ سے نکلا، خواہ اس کا نکلنا بالشت برابر ہو، تو یہ ایسا ہے کہ اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار دیا۔‘‘

حکمران کی اطاعت اصل میں قانون ریاست کی اطاعت سے کنایہ ہے۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی طرح ریاست کے قانون کی پیروی بھی کی جائے گی، خواہ وہ قانون کیسا ہی ہو۔ملک کے ساتھ وفاداری سے لے کر گلی اور سڑک پر چلنے کے لیے بنے ہوئے ضابطے تک کی پیروی اس حکم میں شامل ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت ان کی طرف سے کفر بواح کے ارتکاب تک واجب ہے۔اس کے بعداگر کوئی ان کی اطاعت سے نکل جائے تو ’میتۃ جاھلیۃ‘ کے حکم کی زد میں نہیں آتا، کیونکہ ’اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم‘ کے مطابق مسلمانوں پر صرف انھی اولی الامر کی اطاعت واجب ہے، جو اصل مرجع اطاعت کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول ہی کو دیتے ہوں۔اور ہر وہ معاملہ جس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کتاب و سنت میں کردیا ہو،اس کے بارے میں اپنے لیے فیصلے کا کوئی حق نہ سمجھتے ہوں۔یہ مفہوم اس آیت میں ’منکم‘ کے اضافے سے پیدا ہوا ہے۔یعنی حکمران اس وقت تک واجب الاطاعت ہے،جب تک وہ ’منکم‘کی ضمیر مجرور کا حصہ، یعنی مسلمان ہے۔جب وہ مسلمانوں سے نکل جائے گا،اس کی اطاعت مسلمانوں پر واجب نہیں رہے گی۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ حکمران کھلے کفر کے ارتکاب کے بعد مسلمانوں کے اندر سے نکل جائے گا۔اور کفر صرف یہی نہیں ہے کہ حکمران عقائد اسلامیہ کا انکار کر دے،بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ امور ریاست، فصل نزاعات اور قانون سازی میں قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ پر اصرار کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ.‘ (المائدہ ۵: ۴۴) چنانچہ اس طرح کی صورت میں شذوذ اختیار کیا جا سکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو انھیں اس منصب سے معزول کرنے کی جد و جہد بھی کی جا سکتی ہے۔لیکن یہ واضح رہے کہ خروج یا بغاوت کی اجازت ضرور دی گئی ہے،لیکن یہ نہ دین کے واجبات میں سے ہے اور نہ دین نے کسی بھی حیثیت سے اس کا حکم دیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ایسا کفر اولی الامر کی طرف سے سامنے آجائے کہ جس کو کفر قرار دینے کی بنیادوہم و گمان یا منطقی موشگافیوں پر نہ ہو، بلکہ قرآن وسنت میں اس کے ثبوت کے لیے برہان قاطع موجود ہو۔ اسی شرط کے بیان کے لیے آپ نے ’وعندکم من اللّٰہ فیہ برھان‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ محض اپنے گمان پر اس کے کفر کا فتویٰ جاری کر کے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ حکمران کی تکفیر کرنے کے لیے رائے کی بنیاد قرآن مجید کی صریح نصوص اور برہان قاطع پر رکھی جائے۔ جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجایش نہ ہو۔

[۱۹۹۴ء]

___________________

B