HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

التزام جماعت کا صحیح مفہوم

 

عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من رای من امیرہ شیئا یکرھہ، فلیصبر، فانہ من فارق الجماعۃ شبرا، فمات (علیہ الامات)۱؂میتۃ جاھلیۃ.(بخاری، کتاب الفتن، کتاب الاحکام)

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے امیر کی کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اسے چاہیے کہ صبر سے کام لے، کیونکہ جو بالشت برابربھی، جماعت (نظم اجتماعی)سے الگ ہوا، اور اسی حالت میں مرگیا، اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔

 

شرح حدیث

 

اس سے دین اور دنیا کا ہر ناپسندیدہ عمل مراد ہے۔ روایت کے الفاظ میں کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے،جس کی بنا پر، ہم اس ناپسندیدگی کودین یا دنیا میں سے کسی ایک کے ساتھ خاص کر سکیں۔ دوسرے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات واضح فرما دی ہے کہ ان ناپسندیدہ امور کا تعلق دین اور دنیا، دونوں سے ہے اور اس کی حد بھی متعین فرما دی ہے کہ یہ بے پروائی بڑھتے بڑھتے صریح کفر تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ مثلاً عاصم بن عبداللہ کی روایت میں آپ نے فرمایا:

انھا ستکون من بعدی امراءیصلون الصلاۃ لوقتھا ویوخرونہا عن وقتھا فصلوھا معہم فان صلوھا لوقتھا و صلیتموھا معہم لکم ولھم، وان اخروھا عن وقتھا فصلیتموھا معہم فلکم وعلیھم من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاھلیۃ ومن نکث العہد و مات ناکثا للعھد جاء یوم القیامۃ لاحجۃ لہ.(احمد بن حنبل، مسند المکیین(

’’میرے بعد ایسے امرا ہوں گے،جو وقتبے وقت نماز پڑھیں گے۔تم ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہو۔اگر وہ وقت پر نماز پڑھیں گے، تو انھیں اور تمھیں اس کا ثواب مل جائے گااور اگر وہ تاخیر کریں گے تو تمھیں ثواب مل جائے گااور ان کے لیے اس کا وبال ہو گا۔یہ اس لیے کہ جو نظم ریاست سے الگ ہوا اور اسی حالت میں مر گیا، وہ جاہلیت کی موت مرااور جس نے عہد توڑا اور عہد توڑ کر مرا، وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اپنے جرم کے حق میں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی۔‘‘

دینی امور کی طرح،دنیوی امور کے بارے میں، آپ نے فرمایا:

عن عبادۃ بن الصامت فقال دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکان فیما اخذ علینا ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا وعسرناویسرنا واثرۃ علینا وان لا ننازع الامر اھلہ الا ان ترواکفرا بواحا عندکم من اللّٰہ فیہ برھان.(بخاری،کتاب الفتن(

’’عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا۔اور اس لیے بلایا کہ سمع و طاعت کی بیعت کریں(کہ ہم ہر طرح کے حالات میں اپنے حکمران کی اطاعت کریں گے،خوش دلی اور ناراضی کے باوجود، تنگی و آسانی میں اور جب ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے تب بھی۔اور اس پر بھی بیعت کریں کہ ہم اپنے امیر سے نہ جھگڑیں۔آپ نے فرمایا:سوائے اس صورت کے کہ تم اس کی طرف سے کسی کھلے کفر کا ارتکاب ہوتا دیکھ لواور کفر بھی ایسا کہ جس کے بارے میں واضح دلیل ہو،(محض اپنے کسی خیال پر ایسا نہیں کیا جا سکتا)۔‘‘

ناپسندیدہ حکمران کے بارے میں بھی آپ نے یہی فرمایا:

عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کان راسہ زبیبۃ(بخاری،کتاب الاحکام)

’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمع وطاعت پر قائم رہو،خواہ تمھارے اوپر ایک حبشی غلام، جس کا سر منقے کی طرح چھوٹا سا ہو،حکمران بنا دیا جائے۔‘‘

ان روایات کی روشنی میں،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’شیئا یکرھہ‘(نا پسندیدہ باتوں) سے کوئی بھی نا پسندیدہ اور مکروہ چیز مراد ہے۔

صبر‘ کا مطلب، لوگ، عام طور پر، عجز و مسکنت سمجھتے ہیں، یعنی یہ کہ مصیبت کو ’بہرحال‘ برداشت کرنا، جو بے بسوں اور درماندوں کا شیوہ ہے۔ لیکن، لغت عرب اور استعمالات قرآن میں اس کا اصل مفہو م یہ نہیں ہے۔۲؂صبر، عجز و تذلل قسم کی کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ درحقیقت تمام عزم اور قوت کی وہ بنیاد ہے جس سے انسان کے اندر ثابت قدمی اور اپنے موقف پر استحکام کے ساتھ جمے رہنے کا وصف پیدا ہوتا ہے۔ اس حدیث میں بھی یہ لفظ اپنے اس حقیقی مفہوم یعنی اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

صبر‘ سے مراد حکمران کی اطاعت اور ’الجماعۃ‘ سے التزام رکھنا ہے،یعنی اوپر کی مذکورہ تینوں صورتوں میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حکمران کی اطاعت کرتا رہے تاکہ وہ الجماعۃ (ریاست اسلامیہ)کے ساتھ وابستہ رہے اور یہ اطاعت اس پراس وقت تک لازم ہے، جب تک حکمران شریعت کی بالادستی تسلیم کرتے رہیں۔عبادہ بن صامت کی مذکورہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’الا ان ترواکفرا بواحا‘ اسی شرط کو بیان کرتا ہے۔ کفربواح کے ارتکاب سے پہلے ہر حالت میں حکمران کی اطاعت کا یہ حکم نص قرآنی پر مبنی ہے:

أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ.(النساء۴: ۵۹)

’’اے ایمان والو،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم (مسلمانوں) میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر کسی معاملے میں،اختلاف رائے ہو، تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘

یہ آیت حکمران کو بھی ہمارا مطاع قرار دیتی ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی شرط کے مطاع ہیں، حکمران اس طرح بلاشرط مطاع نہیں ہو سکتا۔چنانچہ یہ شرط لگا دی گئی کہ جب تک وہ قرآن و سنت پر عامل ہے اور شریعت اسلامیہ کو قانون بالا(Supreme Law) تسلیم کرتا ہے، اس وقت تک اس کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ اس حقیقت کی طرف ’اولی الامر منکم‘ میں ’منکم‘ کے اضافے سے اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہ اگرچہ بیان واقعہ کا اسلوب ہے، لیکن اس سے اس حکم پر ایک شرط عائد ہو گئی ہے کہ’وہ جب تک تم میں سے‘یعنی مسلمانوں میں سے ہے، اس وقت تک واجب الاطاعت ہے۔ اور تم میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ’اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول‘ کے حکم پر عامل ہو،یعنی جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہو۔

بالادستی سے مراد یہ ہے کہ فصل نزاعات اور قانون سازی میں اللہ کی دی ہوئی شریعت کی پابندی کی جائے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ کفر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اسلام کے عقائد کا انکار کر دے، بلکہ حکمرانوں کے معاملے میں یہ بھی کفر ہے کہ وہ فصل نزاعات اورقانون سازی میں اللہ کی دی ہوئی شریعت کی خلاف ورزی کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ... ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ... ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ(المائدہ ۵: ۴۴۔۴۷)

’’ اور جو لوگ اس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں،جسے اللہ نے نازل کیا ہے، وہیکافر ہیں ... وہی ظالم ہیں ... وہی فاسق ہیں۔‘‘

اسی آیت کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ’فلیصبر‘ یعنی تو اسے چاہیے کہ حکمران کی اطاعت پر ثابت قدم رہے۔ہم اوپر بھی اشارہ کر آئے ہیں کہ حکمران کی اطاعت کا یہ حکم التزام جماعت کے لیے دیا گیا ہے۔ التزام جماعت کے بارے میں، ہم آگے چل کرواضح کریں گے۔

بالشت برابر‘ حدیث میں، اس کے لیے ’شبرا‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ عربی زبان کا ایک معروف لفظ ہے،جس کے معنی بالشت کے ہیں، ’شبرا‘ جب اس طرح بولا جائے تو اسی معنی میں مستعمل ہے، جس میں مثلاً: ’مثقال ذرۃ‘ یا ’حبۃ خردل‘ وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سب تراکیب و الفاظ قلت و تفریط میں مبالغے پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں اس سے مراد’نہایت ادنیٰ درجے میں ’الجماعۃ ‘ سے روگردانی‘ ہے۔ اس اسلوب سے اس جرم کی یہ سنگینی واضح ہوتی ہے کہ اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ صورت بھی، آدمی کو اسلام کی اطاعت سے نکال کر جاہلیت کے دائرہ میں لے جا سکتی ہے۔

الجماعۃ‘ سے مراد سیاسی نظم کی پابند قوم یا گروہ ہے۔اس کا مفہوم بالکل وہی ہے، جس کے لیے جدید اصطلاح میں’ اسٹیٹ‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جب ملت اسلامیہ اپنی سرزمین میں خود مختار ہو اور اسی کا کوئی فرد اس پر حکمران ہو تو ان کے اس عمل سے جو ریاست یا نظم سیاسی وجود میں آئے گا،وہ ’الجماعۃ‘ کہلائے گا۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی نظم اجتماعی سے وابستہ ہوں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ’ الجماعۃ‘ کے بجائے ’ السلطان‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے

عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من کرہ من امیرہ شیئا فلیصبر علیہ فانہ لیس احد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ الامات میتۃ جاہلیۃ.(بخاری،کتاب الفتن۔مسلم،کتاب الامارہ)

’’آپ نے فرمایا:جسے اپنے امیر (حکمران) کی کوئی بات ناگوار گزرے، اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلااور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘

ان دونوں روایتوں میں’الجماعۃ‘اور’السلطان‘ایک دوسرے کے مترادف کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں۔جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’الجماعۃ‘درحقیقت ’السلطان‘یعنی’سیاسی اقتدار‘ کے معنی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔چنانچہ اس لفظ کا اطلاق کسی ایسی جماعت ہی پر کیا جا سکتا ہے جو کسی سر زمین میں سیاسی طور پر خود مختار قوم کی حیثیت سے رہتی ہو اور اس میں نظام امارت بھی قائم ہو، اس لیے سیاسی اقتدار سے محروم کسی دینی جماعت یا تنظیم پر اس لفظ کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔

یہ لفظ مقتدرجماعت ہی کے معنی میں عربی زبان میں مستعمل تھا۔چنانچہ آثار صحابہ میں بھی، یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جو اس بات پر، مزید مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ اس لفظ کا مفہوم یہی ہے:

’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی ذمہ داری قبول کر لی تو سب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کی،مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کچھ عرصے تک بیعت نہیں کی۔چنانچہ ایک دن جب انھوں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پران کی خلافت کو تسلیم کرتے ہوئے بیعت کر لی تو ظہر کی نماز کے بعد حضرت ابوبکر نے ان کی بیعت کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ’’آج علی’الجماعۃ‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘ (تاریخ الامم و الملوک طبری ۶/ ۱۹۱)

جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ کرلیا اور ملت اسلامیہ ایک خلافت کے تحت جمع ہو گئی تو صحابہ نے، اس مناسبت سے اس سال کا نام ’عام الجماعۃ‘ رکھ دیا تھا،یعنی وہ سال جس میں مسلمان ایک نظام اجتماعی کے تحت جمع ہوئے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ صحابۂ کرام حکومت و ریاست کے ساتھ ساتھ وحدت امت (وحدت ریاست) کا مفہوم بھی’الجماعۃ‘ میں شامل سمجھتے تھے۔

اسی طرح یزید بن معاویہ کی بیعت کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم کو حکومت کے ساتھ وفاداری اور بیعت کا مشورہ دیتے ہوئے یہی الفاظ استعمال کیے تھے کہ ’اتقیا اللّٰہ ولا تفرقا جماعۃ المسلمین‘۔ (طبری ۶/ ۱۹۱) ’’خدا کے بندو،اللہ سے ڈرو،اور مسلمانوں کے ’نظمِ اجتماعی‘ کے انتشار کا باعث نہ بنو۔‘‘

اس لیے اس مفہوم کی روایات کی بنیاد پر بعض لوگوں کا یہ توتصور صحیح نہیں ہے کہ کسی بھی ایسی تنظیم یا جماعت سے منسلک رہنا ضروری ہے جو غلبۂ اسلام کے لیے کوشاں ہو۔ حدیث کے اس مطلب کی روشنی میں جس کو ہم نے اوپر واضح کیا ہے یہ حکم ہمارے ملک میں حکومت پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے اور اس کے قوانین کی پابندی کرنے سے پورا ہو جاتا ہے۔ اور ہم علی وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان ہی اس سرزمین کے مسلمانوں کے لیے ’الجماعۃ‘ ہے۔

ریاست اسلامیہ کے ساتھ امساک اور وفاداری کا یہ حکم بھی قرآن مجید کی نص پر مبنی ہے۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ. وََلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۳۔۱۰۴)

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے مل کر تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا۔اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔اور تم آگ کے ایک گڑھے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا۔اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی ہدایات کو واضح کرتا ہے تاکہ تم میں سے ایک گروہ اس اختیار کے ساتھ قائم ہوکہ وہ نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روک دے اور اس گروہ کو قائم کرنے والے ہی فلاح پائیں گے۔‘‘

اس باب کی تمام روایات ہمارے نزدیک اسی آیت پرمبنی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ہی کے ایک پہلو کی توضیح کرتے ہوئے یہ احکام دیے ہیں۔اگر اس آیت پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ’اعتصام بحبل اللّٰہ‘ پر قائم رہنے اور تفرقے سے بچنے کے لیے اپنے اندر ایک نظم اجتماعی قائم کریں۔ چنانچہ ’ولتکن منکم امۃ‘ کا یہی مطلب ہے۔ پھر جب کسی چیز کے بنانے یا قائم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو بننے کے بعداس کو قائم رکھنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرنا اور اس کے خلاف اقدامات نہ کرنااس حکم میں خود بخود شامل ہے۔یہی چیز دراصل التزام جماعت ہے۔

الگ ہونے‘ سے مراد ریاست اسلامیہ یا نظم اجتماعی کو چھوڑ کر الگ ہونا ہے، جس کی ایک صورت حکومت کی اطاعت ترک کرنا یا اس کے خلاف بغاوت کرنا ہے۔حافظ ابن حجر’فارق الجماعۃ‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: ’وھی کنایۃ عن معصیۃ السلطان و محاربتہ‘۔ ’’یہ حکومت کی نافرمانی اور اس سے محاربہ سے کنایہ ہے۔‘‘ (فتح الباری ۱۳/ ۷) یعنی اس کی ادنیٰ حالت حاکم کی اطاعت سے محض ہاتھ کھینچ لینا ہے اور اس کی انتہائی صورت بغاوت (محاربہ) ہے۔

یعنی اس نے اپنے اس اقدام سے رجوع نہ کیا اور توبہ کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیا۔

یعنی جو شخص حکومت اسلامیہ کی اطاعت اس حالت میں ترک کردے کہ صاحب اقتدار کی طرف سے ’کفر بواح‘ (کھلا کفر) ظاہر نہ ہوا ہوتو ایسا شخص اگر اسی حالت میں مر جائے تو اس کا مرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اسلام قبول کیے بغیر مر جانا۔اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بھی بیان فرمایا ہے:

من فارق الجماعۃ شبرا فکانما خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ.(احمد بن حنبل عن حارث الاشعری)

’’جو نظام ریاست سے الگ ہو ا تو گویا اس نے اسلام کا قلادہ گردن سے اتار پھینکا۔‘‘

چنانچہ اس جرم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’من شذ شذ فی النار‘ کے الفاظ میں دوزخ کی سزا کی وعید بھی سنائی ہے کہ جو’الجماعۃ‘ سے الگ ہوا،اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسلمانان عرب کو قریش کی قیادت پر مجتمع دیکھا تو ان کے لیے اپنے بعد انتقال اقتدار کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:

لایعادیہم احد الاکبہ اللّٰہ فی النار علی وجہہ ما اقاموا الدین.(بخاری، کتاب الاحکام)

’’جب تک وہ دین پر قائم ہیں، اس وقت تک، جس نے ان کی مخالفت کی، اللہ اسے دوزخ میں اوندھے منہ جھونک دیں گے۔‘‘

یعنی اس جرم کا ارتکاب کسی شخص کو اس سزا کا مستحق بھی بنا سکتا ہے۔ 

[۱۹۹۴ء]

_________

 

۱؂اخرجہ البخاری فی کتاب الفتن، والمسلم فی کتاب الامارہ۔

۲؂تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایے: لفظ’ صبر‘ کی تحقیق: تدبر قرآن ا/ ۱۸۸، امین احسن اصلاحی۔

___________________

B