عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ایاکم والظن، فان الظن اکذب الحدیث. ولا تجسسوا ولا تحسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللّٰہ اخوانا.(موطا امام مالک)
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سے زیادہ بے بنیاد چیز کوئی نہیں۔ ٹوہ میں رہنے اور کان لگانے سے احتراز کرو ۔ دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں سے حسد نہ کرو۔ آپس میں بغض و کینہ نہ رکھو۔ ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو، ان برائیوں سے بچ کر اللہ کے بندے بن جاؤ اور آپس میں بھائیوں کی طرح رہو۔
ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث: اس جملے میں ’اکذب الحدیث‘ سے مراد یہ ہے کہ گمان سب سے زیادہ بے بنیاد چیز ہے، یعنی گمان سے بڑی بے بنیاد چیز کوئی نہیں۔ اس کی بنیاد کسی حقیقت پر نہیں ہوتی، بلکہ محض ذہن کے کسی خیال پر ہوتی ہے۔
ولا تجسسوا ولا تحسسوا: اردو میں ان کا مفہوم: ’ٹوہ میں رہنے ‘اور’کان لگانے‘ کے محاوروں سے بیان کیا جا سکتاہے۔
تنافس: اس لفظ میں مقابلے کا مفہوم ہوتا ہے، یعنی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کو ’تنافس‘ کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا ہے۔
تباغض، تدابر: یہ الفاظ بغض اور دشمنی کے معنی میں آتے ہیں۔
۱۔ ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث: گمان کرنے سے بچو ، کیونکہ اس سے بڑی بے بنیاد چیز کوئی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا.(الحجرات۴۹: ۱۲)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، گمانوں سے بہت اجتناب کیا کرو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں، اور ٹوہ میں نہ لگو، اور نہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت کرے۔‘‘
قرآن کی اس آیت میں فرمایاگیا ہے کہ ہمیں گمانوں سے بچنا چاہیے، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں، لیکن اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گناہ والے گمان کون سے ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث حدیث میں انھی گناہ والے گمانوں کی صفت بیان کردی ہے کہ یہ سب بے بنیاد ہوتے ہیں، چنانچہ قرآن اور حدیث سے جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’ہمیں گناہ والے گمانوں سے بچنا چاہیے اور گناہ والے گمان بے بنیاد خیالوں پر مبنی ہوتے ہیں۔‘
گمان جو بے بنیاد ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرلے، یعنی صرف جذبات کے تحت کسی واقعے کے بعد غصے یا نفرت کی وجہ سے، اس کے بارے میں بری رائے قائم کر لے کہ اس نے برے مقاصد کے لیے یہ کیا تھا یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے یا پھر ایسے لوگوں کے بارے میں بدظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ یہ بد نیت نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ اگر کسی شخص کے قول یا فعل میں بھلائی یا برائی کا یکساں احتمال ہو اور اسے ہم محض سوے ظن سے کام لے کر برائی ہی پر محمول کرلیں۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے جاتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی دوسرے کا جوتا پہن لے اور ہم یہ رائے قائم کر لیں کہ ضرور ا س نے جوتا چرانے کے لیے اٹھایا تھا، حالانکہ یہ فعل غلطی سے بھی ہو سکتا ہے۔ بلا وجہ اچھے امکان کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنا بد گمانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ بد گمانی صریح گناہ ہے۔
قرآن مجید نے ہمیں صرف بدگمانی سے ہی نہیں روکا، بلکہ گمانوں کی کثرت سے روکا ہے۔ اس کا منشا صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بد گمانی سے بچے، بلکہ یہ بھی ہے کہ آدمی یقین کو چھوڑ کر گمانوں کا اسیر نہ ہوجائے۔ اگر آدمی اچھے گمانوں کو دل میں جگہ دینے لگے اور ان کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کو اس عادت کا نقصان یہ ہوگا کہ وہ برے گمانوں کو بھی دل میں جگہ دینے لگے گا جو صریح گناہ ہوتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص اس کے برعکس یہ اصول ٹھہرا لے کہ جو رطب ویا بس گمان اس کے دل میں پیدا ہوتے جائیں، ان سب کو سینت کر رکھتا جائے، تو گمانوں کے ایسے شوقین کی مثال اس شکاری کی ہے جو مچھلیاں پکڑنے کے شوق میں ایسا اندھا ہو جائے کہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے سانپ بھی پکڑلے۔ ظاہر ہے کہ مچھلیوں کے شوق میں جو شخص ایسا اندھا بن جائے گا، اندیشہ ہے کہ اس شوق میں وہ کسی دن اپنی زندگی ہی گنوا بیٹھے گا۔ قرآن نے یہاں اس خطرے سے مسلمانوں کو روکا ہے کہ گمانوں کے زیادہ درپے نہ ہو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں جو انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے یہ تعلیم نکلی کہ ایک مومن کو بدگمانیوں کا مریض نہیں بن جانا چاہیے،بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں سے حسن ظن رکھنا چاہیے۔ اگر کسی سے کوئی ایسی بات صادر ہو جائے جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہو تو حتی الامکان اس کی اچھی توجیہ کرے۔‘‘(تدبر قرآن ۷/ ۵۰۸)
بد گمانی تو ہے ہی، جس کی سزا قیامت کے دن مل جائے گی، لیکن اس دنیا میں بھی اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آدمی جس معاشرے میں رہتا ہے، اس معاشرے کے افراد کے بارے میں اس کی اچھی یا بری رائے ہی اسے دوسروں سے جوڑنے یا توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اگر آدمی دوسروں کے بارے میں سوے ظن رکھے تو ظاہر ہے کہ وہ ان سے زیادہ دیر تک محبت اور ہمدردی کے تعلقات نہ رکھ سکے گا۔ جبکہ ایک صالح معاشرے کے لیے افراد میں باہمی ہمدردی اور محبت کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس محبت و ہمدردی کے لیے ضروری ہے کہ افراد ایک دوسرے کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں اور ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف ہوں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں اچھی رائے بنائیں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ اس کی اچھی سے اچھی توجیہ کریں تاکہ ہمارا دل اس کے بارے میں میلا نہ رہے، لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ان لوگوں کے بارے میں بھی اچھی رائے رکھ کر فریب کھاتا رہے جن کے برے مقاصد کھل کر سامنے آگئے ہوں۔
دوسرے یہ کہ بدگمانی کرنے والا شخص جلد ہی اپنے ارد گرد کے لوگوں سے کٹ جاتا ہے۔ وہ دوسروں پراپنی انھی رایوں کے تحت اعتماد بھی نہیں کر سکتا۔ کسی پر بھروسا کرتے وقت یہی سوے ظن اسے روک لیتا ہے۔ چنانچہ ایک وقت وہ بھی آ جاتا ہے کہ جب وہ اپنے سوا ہر کسی کو برا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اس کی گفتگووں، رویوں اور معاملات میں صاف نظر آنے لگتی ہے۔ پھر لوگ اس کے اس رویے سے تنگ آ کر اس سے دور دور رہنے لگتے ہیں۔ لوگ اسے سلام بھی کہہ لیتے ہیں۔ اس کے سلام کا جواب بھی دے دیتے ہیں، لیکن کوئی اس کا دم ساز اور رفیق نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا مفلس کون ہو گا کہ جس کا کوئی رفیق اور دوست نہ ہو۔
۲۔ ولا تجسسوا ولا تحسسوا: نہ کان لگاؤ اور نہ کسی کی ٹوہ میں رہو۔ ان دونوں لفظوں میں بہت لطیف سا فرق ہے۔ تجسس کسی مقصد کے لیے خبروں کے حصول میں لگنے کے معنی میں آتا ہے۔ اردو میں ’ٹوہ میں رہنا‘ تجسس کے قریب قریب صحیح معنی ادا کر دیتا ہے، جبکہ ’تحسس‘ کے معنی دھیمی آوازوں کو سننے کے ہیں یعنی کان لگانا۔
جس طرح اوپر والے ٹکڑے میں بدگمانی سے روکا گیا ہے، ویسے ہی یہاں بری نیت سے تجسس اور تحسس سے روکا گیا ہے، یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ میں نہ لگو۔ یہ چیز خواہ بد گمانی کی بنا پر ہو یا کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کی جائے یا محض اپنا استعجاب دور کرنے کے لیے کی جائے، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے۔ ایک مومن کا کام یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے، ان کی کھوج کرید کرے اور پردے کے پیچھے سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کیا کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔
لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی بات کان لگا کر سننا، ہم سایوں کے گھر میں جھانکنا اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا، ایک بڑی بداخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یا معشر، من اٰمن بلسانہ ولم یدخل الایمان قلبہ لا تتبعوا عورات المسلمین. فإنہ من اتبع عوراتھم یتبع اللّٰہ عورتہ و من یتبع اللّٰہ عورتہ یفضحہ فی بیتہٖ.(ابوداؤد،رقم۴۸۸۰)
’’اے وہ لوگو، جو زبان سے ایمان لے آئے ہو، مگر جن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے رازوں کے درپے ہو گا اللہ اس کے درپے ہو جائے گا۔ اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اس کو اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے۔‘‘
یہ تجسس بھی ظن و گمان کی طرح آدمی کے دل میں دوسروں کے بارے میں بری آرا قائم کرنے کا سبب بنتا ہے، جس سے آدمی دوسروں کے بارے میں غلط رویے اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا نقصان اسی نفرت و کینہ کی صورت میں نکلتا ہے جس کا باعث بد گمانی بنتی ہے۔
لا تنافسوا ولا تحاسدوا: دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش نہ کرو، اور اگر کوئی نعمتوں میں تم سے بڑھ کر ہے تو اس سے حسد نہ کرو۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.(الذٰریٰت۵۱: ۵۶)
’’میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
اس آیت میں انسان کا مقصد حیات بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ کا بندہ بن کر رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کام کیے جائیں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جانے والے ہوں، ورنہ ہم خدا کی بندگی سے غافل ہو جائیں گے۔ ان کاموں سے دور رہنا چاہیے جو ہمیں اللہ سے دور کر دیں۔ ’تنافس فی الدنیا‘ بھی ایسی ہی چیز ہے جو ہمارے دل کو خدا سے غافل کر کے دنیا سے جوڑ دیتی ہے۔
جب ایک آدمی ایمان و عمل سے آگے بڑھنے کے بجائے ثروت و دولت کے پیچھے پڑ جائے تو وہ آہستہ آہستہ خدا سے دور ہونے لگتا ہے، اور دنیا سے اس کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر وہ دین کے کام بھی دنیا میں نام و نمودہی کے لیے کرنے لگتا ہے، اور اپنی نیکیوں کے اشتہار دے کر دنیا میں بلند سے بلند تر مقام حاصل کرنا اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔
اس دوڑ میں فطری طور پر کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ پیچھے رہ جانے والے آگے بڑھ جانے والوں سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ جو آگے بڑھ جاتے ہیں وہ کم تر درجے کے لوگوں کو اپنے پاس بٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ چیز باہمی تعلقات اور معاشرتی بھلائیوں کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔
حسد کرنے والے اپنے آپ میں جلتے رہتے ہیں۔ ان کی خوشیاں اور مسرتیں انھی منفی سوچوں میں گم ہو جاتی ہیں جو وہ دوسروں کے بارے میں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اللہ جب انھیں کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ شکر کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ کاش، مجھے وہ چیز ملی ہوتی جو فلاں آدمی کے پاس ہے۔ یہ بھلا میرے کس کام کی۔
نعمت ملنے پر شکر کے بجائے نا شکری اللہ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو ۔ شکر سپاس گزاری، حمد و ثنا اور احسان مندی کے اس گراں قدر جذبے کا نام ہے، جو آدمی کے دل میں کسی نعمت کے ملنے پر مسرت کے احساس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی نعمت دے کر یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا میرا یہ بندہ شکر گزار بنتا ہے یا نا شکرا۔ نا شکری اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔اگربندہ اپنے مالک کا شکرا دا کرنے کے بجائے اس افسوس کا اظہار کرے کہ کاش، مجھے اس کے بجائے فلاں چیز مل جاتی تو یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ ہم اپنی طرف ہی دیکھ لیں۔ کوئی بھکاری ہمارے دروازے پر آجائے اور ہم اسے مقدور بھر نقدی دے دیں اور وہ لینے کے بعد دعا و سلام کے بجائے اگر کسی اور چیز کا مطالبہ کر دے تو ہمارے دل میں بھی آئے گا کہ بہت ہی کمینہ خصلت انسان ہے یا بہت ہی بے صبرا ہے۔ ہمارا یہ ردعمل مالک و آقا ہونے کے ناتے سے نہیں، بلکہ ہم مرتبہ ہوتے ہوئے ہے۔ اور جب یہ معاملہ بندے اور مالک کے درمیان ہو اور مالک بھی ایسا کہ جو اپنی شانوں میں یکتا و بے مثل ہو تو بات بہت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔
اب نہ جانے اس ناراضی کے دور کرنے میں کتنی نیکیاں کام آ جائیں۔ ہمیں اللہ کی ناراضی سے بچنا چاہیے تاکہ ہماری پہلے سے موجود، اچھی بری جیسی بھی نیکیاں ہیں، کم از کم وہ تو ہمارے پاس محفوظ رہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک نعمت کے مل جانے پر اللہ سے دوسری نعمت نہ مانگی جائے، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ جو کچھ مانگا جائے سلیقہ سے مانگا جائے۔ حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں کہ تمھیں ایک تسمہ کی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ سے مانگو۔
حسد ویسے بھی کوئی صحت مند جذبہ نہیں ہے۔ یہ آدمی کے کردار، افکار، اعمال، حتیٰ کہ اس کی جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس سے منفی افکار و اعمال جنم لیتے ہیں اور معاشرے میں کئی فساد اس سے رونما ہو تے ہیں، چنانچہ ہمیں نہ صرف اپنی نیکیوں کو بچانے کے لیے حسد سے بچنا چاہیے، بلکہ زندگی کی خوشیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے بھی اس سے دور رہنا چاہیے۔
ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللّٰہ اخوانا: بغض و کینہ اور آپس کے بیر سے بچو اور بھائی بھائی بن جاؤ کہ یہی اللہ کے بندوں کی خوبی ہے۔ اوپر جو چیزیں بیان ہوئی ہیں، ان میں دشمنی خفی رہتی ہے۔ یہاں اس ٹکڑے میں اس ظاہری دشمنی اور تعلقات کے ترک کرنے سے منع فرمایا ہے۔
سوے ظن، تجسس، تحسس اور حسد و تنافس سے جو دوسرں کے لیے دل میں کجی پیدا ہو جاتی ہے، وہ دشمنی اور ترک تعلقات کا سبب بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہی فرمایا ہے کہ ان تمام برائیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھائی بھائی بن جائیں۔ اس طرح ان برائیوں سے بچ کر بھائی بھائی بن کے رہنا ہی اللہ کے بندوں کا شعار ہے۔
مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں سوے ظن سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اور نہ ان کے ثبوت کے لیے دوسروں کی ٹوہ میں رہنا چاہیے۔ اور نہ بری نیت سے دوسروں کے راز جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ چیز باہمی ہمدردی اور محبت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ بھائی چارے کو ختم کرتی ہے۔
دنیا کی نعمتیں اگرچہ بہت عزیز ہوتی ہیں، لیکن ان کی دوڑ میں نہیں لگنا چاہیے اور نہ کسی کی نعمتوں کی کثرت سے حسد کرنا چاہیے، کیونکہ یہ نیکیوں اور بھلائیوں کو آگ کی طرح کھا جاتا ہے اور دلی رنجشوں کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں دوسروں سے دشمنی اور ترک تعلقات سے بھی منع فرمایا گیاہے، تاکہ مسلمان معاشرے میں محبت و الفت کے ساتھ رہ سکیں۔ اس طرح محبت سے رہنا ہی اللہ کے بندو ں کے شایان شان ہے۔
[۱۹۸۹ء]
___________________