HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مصلحت

اسلامی قانون کا پانچواں ماخذ مصلحت ہے۔ ’مصلحت‘ سے مراد اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت ہے۔ مصلحت ماخذ قانون اس دائرہ میں ہے جس دائرہ کو ہم مباحات کا دائرہ کہتے ہیں۔ جس دائرہ میں اسلام نے نہ تونفی کے پہلو سے اس میں کوئی دخل دیا ہے بلکہ اس کے بارہ میں ’انتم اعلم بامر دنیاکم‘ ۱؂ (اپنے دینوی معاملات سے تم لوگ بہتر طور پر واقف ہو) فرما کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے ہے کہ ہم اس میں جس روش کو اپنے مفاد و مصلحت کے موافق پائیں اس کو اختیار کر لیں اور اگر اجتماعی مفاد کے لیے کوئی قانون سازی کرنا چاہیں تو جس چیز میں اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت نظر آئے اس کے مطابق قانون بنا لیں۔ اس دائرہ میں اپنے مصالح کو پیش نظر رکھ کر ہم جو قانون بھی بنائیں گے وہی اسلامی قانون ہو گا اور اسی کی اطاعت میں اللہ کی رضا ہو گی۔ اس دائرہ میں قانون سازی کی آزادی پر اگر کوئی پابندی ہے تو صرف یہ پابندی ہے کہ کوئی قانون کتاب و سنت کے کسی اصول کے خلاف نہ بن جائے۔

یہ بات کہ مصلحت ایک خاص دائرہ میں اسلام میں قانون کا ماخذ ہے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ پہلے سے ہمارے ہاں قولاً اور عملاً مسلم ہے۔

اسی چیز کو مالکیہ ’مصالح مرسلہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مصالح مرسلہ یعنی جن کا تعین شریعت نے مسلمانوں کے لیے چھوڑ دیا ہے ان کو خود متعین نہیں کر دیا ہے بعض فقہاء مالکیہ کے اس اصول سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اس اختلاف کی کوئی اہمیت اس وجہ سے نہیں رہ جاتی کہ ایک طرف وہ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں دوسری طرف وہ اس بات کو ایک دوسرے نام سے مانتے ہیں جو اس اصول میں مضمر ہے۔

میرے نزدیک حنفیہ جس چیز کو ’استحسان‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں اس سے بھی درحقیقت مراد یہی چیز ہے۔ اگرچہ اصول فقہ کی کتابوں میں اس کی تقریر اس طرح کی جاتی ہے کہ بات کچھ الجھ کے رہ جاتی ہے لیکن میرے نزدیک استحسان کا یہ قاعدہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اس فارمولے پر مبنی ہے کہ ’ماراٰہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن‘ (جس بات کو مسلمان بہتر سمجھ لیں وہی اللہ کے نزدیک بہتر ہے) اس اصول کے متعلق ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کا تعلق اگر ہو سکتا ہے تو مباحات کے دائرہ ہی سے ہو سکتا ہے جس میں مسلمانوں کی صواب دید ہی اصلی رہنما اصول ہے۔ ان دائروں سے اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا جن میں شریعت نے خود اپنے امرو نہی کے ذریعے سے خیر اور شر کے پہلو معین کر دیے ہیں۔ اس اصول کے استعمال کی بے شمار مثالیں ہماری اجتماعی زندگی میں موجود ہیں۔ مثلاً ٹکسالوں اور جیل خانوں کا قیام اور ان کو قانونی حیثیت دینا، حکومت کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے مالداروں پر بعض ٹیکس عائد کرنا، ملک کے نظم و نسق کی ترقی کے لیے مختلف سکیموں کی تنفیذ وغیرہ۔

________

۱۔ صحیح مسلم: کتاب الفضائل باب ۳۸

____________

B