HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

معروف

اسلامی قانون کا چوتھا ماخذ معروف ہے۔ ’معروف‘ سے مراد رواج اور دستور ہے۔ قرآن مجید نے متعدد معاملات میں سوسائٹی کے دستور اور رواج کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے چند آیتیں بطور مثال ملاحظہ ہوں:

اَلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (البقرہ۔ ۲: ۱۸۰)
تم پر فرض کیا گیا ہے والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرنا۔

یہ حکم میراث کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے دیا گیا تھا۔ جب میراث کی آیت نازل ہو گئی اور اس میں والدین اور قرابت مندوں کے حصے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہو گئے تو خاص اس معاملہ میں رواج پر عمل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا۔

ایک جگہ فرمایا:

وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہ‘ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (البقرۃ۔ ۲: ۲۳۳)
اور بچے والے کے ذمے بچوں کی ماؤں کا دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا ہے۔

جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکنے کے بعد اس سے یہ چاہے کہ وہ اس کے بچہ کو اس کے زمانۂ رضاعت تک دودھ پلائے تو اس صورت میں عورت پر دودھ پلانے کی ذمہ داری ہے اور بچے کے باپ یا اس کے اولیا پر یہ ذمہ داری ہے کہ دستور کے مطابق عورت کے کھانے کپڑے اور اس کی دوسری ضروریات کی ذمہ داری اٹھائیں۔

اسی سلسلہ میں دوسری جگہ فرمایا:

لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمْ النِّسَآءَ مَالَمْ تَمَسُوْھُنَّ اَوْتَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً وَ مَتِّعُوْھُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ‘ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ‘ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ۔ (البقرۃ۔ ۲: ۲۳۶)
اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے متعین مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے باب میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ان کو دستور کے مطابق دے دلا کر رخصت کرو۔ صاحب وسعت اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی حالت کے مطابق۔

یہ ہدایت ان عورتوں سے متعلق ہے جن کو ان کے شوہروں نے ملاقات اور مہر کی تعین سے پہلے طلاق دے دی ہو۔ اس صورت میں دستور کے مطابق ان کو کچھ دینے دلانے کی ہدایت ہے۔

ایک اور جگہ ہے:

وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَمَنْ کَانَ فَقِیْراً فَلْیَاکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (النسآء۔۴: ۶)
اور جو غنی ہوا اس کو چاہیے کہ وہ پرہیز کرے اور جو محتاج ہو تو وہ دستور کے مطابق اس سے فائدہ اٹھائے۔

یہ ہدایت کسی یتیم کی جائداد کے متولی اور منتظم سے متعلق ہے۔ اگر وہ کھاتا پیتا آدمی ہے تو اس کو اپنے مصارف کا بار اس جائداد پر نہیں ڈالنا چاہیے اور اگر غریب آدمی ہے تو وہ دستور کے مطابق اس جائداد سے اپنا حق محنت لے سکتا ہے۔

اس قسم کے معاملات میں متعین اور قطعی احکام دینے کے بجائے شریعت نے ان کو دستور پر جو چھوڑا ہے تو اس میں بڑی حکمت ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے بہت سے معاملات ہیں جن کی صحیح نوعیت متعین ہو ہی نہیں سکتی جب تک ان سے متعلق دوسرے بہت سے پہلوؤں کا اچھی طرح جائزہ نہ لیا جائے۔ مثلاً جس مطلقہ سے دودھ پلوانے کی خدمت لینی ہے اس کے کھانے کپڑے اور اس کی دوسری ضروریات کا اندازہ کرنے میں بچے کے باپ یا اس کے اولیا کی حیثیت بھی دیکھنی ہو گی عورت کے خاندان کا معیار زندگی بھی ملحوظ رکھنا ہو گا اس شہر کے عام مصارف کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا جس شہر میں بچے کی دیکھ بھال کے لیے عورت کو قیام کرنا ہے اس امر کی بھی تحقیق کرنی ہو گی کہ اس شہر میں بچے کی رضاعت کا اگر کوئی متبادل انتظام اختیار کیا جائے تو اس پر کیا مصارف ہوں گے اور اس میں کن مشکلات کے اندیشے ہیں۔ جہاں اتنے سارے سوال ایک معاملہ کی صحیح نوعیت متعین کرنے کے لیے طے کرنے ہوں اور جہاں ہر سوال کا جواب وقت زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدل سکتا ہو وہاں کوئی متعین حکم جو سب کے لیے یکساں ہو نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس معاملہ کا فیصلہ معروف ہی پر چھوڑنا مطابق حکمت ہے تاکہ حالات پر نگاہ رکھ کے جو فیصلہ مناسب ہو وہ کیا جا سکے۔

اسی طرح فرض کیجیے کسی یتیم کی جائداد کے انتظام کا معاملہ ہے اس جائداد کی حیثیت بھی دیکھنی ہو گی اور منتظم کی قابلیت بھی۔ علاوہ ازیں وقت کے معاشی حالات اور اس مقام کے تقاضے بھی ملحوظ رکھنے ہوں گے جہاں جائداد واقع ہے۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھنے کے بعد یہ طے ہو گا کہ اس جائداد کے منتظم کے لیے اپنے مصارف پر کس قدر خرچ کرنا معروف کے مطابق ہے۔

معروف کا صحیح مفہوم

قرآن مجید نے رواج یا اس کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنے کے بجائے ’معروف‘ کا لفظ جو استعمال کیا ہے اس سے بعض اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے۔

معروف کے معنی جانی پہچانی ہوئی بات کے ہیں۔ یعنی وہ بات جس کو عقل سلیم قبول کرتی ہو۔ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو اور جو اچھے لوگوں میں رائج اور مقبول ہو۔ اس لفظ کے استعمال سے کسی سوسائٹی کے وہ دستور و رواج آپ سے آپ خارج از بحث ہو گئے جن کو قبول کرنے سے عقل سلیم انکار کرتی ہو، جو عدل و انصاف کے عام تقاضوں کے خلاف ہوں یا جو صرف انھی طبقات کے اندر پائے جاتے ہوں جو ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے گرے ہوئے ہوں۔

انسانی قانون کے متعلق پہلے باب میں یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کا تو اصل ماخذ ہی دستور و رواج ہے لیکن اس کے برعکس اسلامی قانون کی اصل بنا تو کتاب و سنت اور ان سے اخذ و استباط پر ہے لیکن ایک محدود دائرہ کے اندر اس نے بھی سوسائٹی کے رواج کی عزت افزائی کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کو معروف کے لفظ سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ اس رواج کو فطرت سلیم اور عقل سلیم کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہونی چاہیے جو انصاف یا اخلاق و شریعت کے مسلمات کے خلاف ہو۔

قرآن میں جہاں جہاں معروف پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کے متعلق ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان سے مراد صرف اہل عرب ہی کا معروف ہے یا کسی بھی قوم کا معروف اس سے مراد ہو سکتا ہے؟ ہمارے نزدیک قرآن میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد تو درحقیقت عرب ہی کا معروف ہے لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن کی اول مخاطب عرب ہی کی سوسائٹی تھی۔ یہ وجہ نہیں تھی کہ عرب کے سوا کسی اور قوم کے معروف کا اسلام میں کوئی وزن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے مفسرین نے معروف کو عام رکھا ہے، اس کو کسی معین قوم کے معروف کے ساتھ خاص نہیں کر دیا ہے۔ اوپر میں نے رضاعت سے متعلق جو آیت نقل کی ہے اس میں معروف کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:

ای بماجرت بہ عادۃ امثالھن فی بلدھن من غیر اسراف ولا اقتار بحسب قدرتہ فی یسارہ و توسطہ۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ البقرہ آیت ۲۳۳)
معروف سے مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی عورتوں کے بارہ میں جس معیار کے نان نفقہ کا رواج ان کے ملکوں میں رائج ہو۔ اس معیار کے مطابق ان کے مصارف برداشت کیے جائیں نہ اس میں اسراف ہو نہ تنگی۔ ساتھ ہی مرد کی غربت و امارت یا اس کی متوسط الحالی کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔

ہماری فقۂِ حنفی میں رواج اور معروف پر بہت سے فتوے ملتے ہیں اور فتوے دینے والوں نے اپنے اپنے ملکوں کے رواج ہی کو اختیار کیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہ معروف کو عام مفہوم میں لیتے ہیں اس کو عرب کے معروف کے ساتھ خاص نہیں کرتے۔ عقل کا بھی تقاضا یہی ہے کہ اس کو عام ہی رکھا جائے کیونکہ اول تو اسلامی قانون صرف عربوں ہی کے لیے نہیں نازل ہوا ہے بلکہ ساری دنیا کے لیے نازل ہوا ہے۔ ثانیاً اگر اس معروف کو کسی ایک قوم کے معروف کے ساتھ خاص کر دیا جائے تو وہ حکمت ہی باطل ہو کر رہ جائے گی جو معروف کی اجازت دینے میں مضمر ہے۔

____________

 

B