قانون اسلامی کا تیسرا ماخذ اجتہاد ہے۔ قانون کا ماخذ تو دراصل اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی ہوتی ہے، لیکن اجتہاد کی صورت میں چونکہ براہ راست کتاب و سنت کے نصوص سے حکم معلوم کرنے کے بجائے کوشش کر کے کتاب و سنت کے اشارات سے ایک حکم معین کرنا پڑتا ہے اس وجہ سے اس کو کتاب یا سنت کے بجائے اجتہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اجتہاد کے لغوی معنی تو انتہائی کوشش کرنے کے ہیں۔ لیکن شرعی اصطلاح میں اس انتہائی کوشش کو کہتے ہیں جو کتاب و سنت کے اشارات و مضمرات سے کوئی حکم معلوم کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
اس کوشش کے باب میں پہلی چیز، جس کی طرف خود لفظ اجتہاد اشارہ کر رہا ہے، ملحوظ رکھنے کی یہ ہے کہ یہ کوشش سہل انگارانہ یا نیم دلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ پورے دل و جان سے ہونی چاہیے اور تحقیق و تلاش کے جتنے وسائل و ذرائع بھی اس کار عظیم کے لیے مطلوب ہیں وہ سب استعمال ہونے چاہیں جب تک آدمی یہ اطمینان نہ کر لے کہ اس راہ کا کوئی پتھر بھی اب ایسا نہیں رہ گیا ہے جو الٹا نہ جا چکا ہو اس وقت تک زبان نہ کھولے۔ حضرت معاذ والی روایت کے یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ ’اجتہد رأیی ولا آلو جھداً ۱ ، اگر کتاب و سنت کے واضح احکام میں کوئی رہنمائی نہ ملی تو میں کوشش کر کے اپنی رائے متعین کرنے کی کوشش کروں گا اور اس کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔ یعنی یہ نہیں کروں گا کہ جو خیال ذہن میں آ جائے اسی کے مطابق معاملات کا فیصلہ کردوں، بلکہ اپنے امکان کے حد تک جستجوئے حق کروں گا اور ان تمام مسائل کو آزماؤں گا جو اس معاملہ میں کسی صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ حضرت معاذ کے یہ الفاظ ان لوگوں کے لیے ایک تنببیہ ہیں جو قرآن و حدیث تو درکنار سرے سے عربی زبان ہی سے کوئی مس نہیں رکھتے۔ لیکن اس کے باوجود جو وسوسہ دل میں گزر جاتا ہے اس کو مجتہدانہ شان کے ساتھ پیش کرنے میں ذرا بھی باک نہیں محسوس کرتے۔
یہ امر بھی یہاں ملحوظ رکھنے کا ہے کہ حضرت معاذ یہ نہیں فرماتے کہ جب کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملے گا تو میں اپنی رائے پر عمل کروں گا یا اپنے طور پر فیصلہ کروں گا بلکہ وہ یہ فرماتے ہیں کہ ’میں انتہائی کوشش کر کے اپنی رائے متعین کروں گا‘ ’اجتہد رأیی ولا آلوجھداً‘ کے الفاظ خود ظاہر کر رہے ہیں کہ اس صورت میں اظہار رائے کے لیے ان پر کچھ قیدیں اور پابندیاں ہیں جو ان کو ملحوظ رکھنی ہیں اور بعض نہایت کڑی مشکلات ہیں جن سے ان کو عہدہ برآ ہونا ہے یہ بات نہیں ہے کہ اگر کتاب و سنت سے بالکل بے نیاز ہو کر جو جی میں آئے حکم دے سکتے ہیں اور ان کا یہ حکم اجتہاد بن جائے گا۔ جن لوگوں نے اس حدیث کا یہ مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے انھوں نے حضرت معاذ کے الفاظ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے بجائے ان کے اندر خود اپنے معنی پہنانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک مجتہد کسی اجتہادی معاملہ میں کتاب و سنت کے اشارات کی مدد سے جو رائے بھی قائم کرتا ہے جب تک اس کی رائے پر اجماع نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی حیثیت ایک رائے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے انھوں نے اس کو ’’اپنی رائے‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ اگر اس حدیث کی بنا پر کسی کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اجتہاد نام ہے آزادانہ رائے قائم کرنے کا تو بہرحال یہ ایک غلط فہمی اور سخت افسوس ناک غلط فہمی ہے خواہ اس میں کوئی چھوٹا مبتلا ہو یا بڑا۔
اجتہاد ایک نہایت مشکل اور نہایت کٹھن کام ہے۔ اس کے لیے شریعت کا گہرا علم بھی ضروری ہے اور ان حالات کے مالہ وما علیہ سے بھی اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے جن کے بارہ میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہے۔ قانون بجائے خود بھی ایک مشکل چیز ہے، اس کے اندر حروف و الفاظ تو درکنار، کاما (comma) اور ڈیش (dash) تک کو بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی شخص کو شریعت کے براہ راست سمجھنے کا علم حاصل نہ ہو وہ قانون کی عام چیزوں کے سمجھنے کا حق بھی ادا نہیں کر سکتا چہ جائیکہ وہ اجتہاد کر سکے۔ اجتہاد میں معاملہ صرف قانون کی واضح دفعات کے سمجھ لینے ہی کا نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کے مضمرات و اشارات اور کتاب و سنت کے لوازم و مقتضیات کی روشنی میں نئے پیش آمدہ حالات کا شرعی حکم متعین کرنا ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے ظاہر ہے کہ نہایت اعلی فنی قابلیت ضروری ہے۔ صرف فنی قابلیت ہی نہیں، بلکہ ذوق سلیم بھی ضروری ہے۔ شریعت کے اعلی علم اور اس کے فہم کے اعلی ذوق کے بغیر کوئی شخص اجتہاد کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے یہ بات تو صحیح ہے کہ اسلام میں اجتہادکسی خاص طبقہ یا گروہ کا جارہ نہیں ہے، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام میں ہر شخص اجتہاد کا مجاز ہے۔ جس کام کے لیے قابلیت کا ہونا بالکل بدیہی امر ہے اس کا مجاز ہر شخص کیسے ہو سکتا ہے۔
اجتہاد میں اس قابلیت کے ساتھ ایک بہت بڑی اخروی ذمہ داری کا بھی سوال ہے۔ جو شخص اجتہاد کرتا ہے وہ صرف لوگوں کی دنیا ہی کے معاملات میں دخیل بنتا ہے۔ اس وجہ سے اگر وہ نااہلیت کے باوجود اجتہاد کی جسارت کرتا ہے تو صرف اپنی ہی آخرت برباد نہیں کرتا، بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کی آخرت بھی خطرے میں ڈالتا ہے چنانچہ جہاں تک تلف کا تعلق ہے ان حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اجتہاد کے معاملہ میں حددرجہ احتیاط کرتے ہیں۔ جن بزرگوں کے صاحب اجتہاد ہونے میں کسی پہلو سے بھی شک نہیں کیا جا سکتا ان کا بھی حال یہ تھا کہ حتی الامکان وہ فتوی دینے اور اجتہاد کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جو شخص اجتہاد کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ اور بندہ کے درمیان دخیل بنتا ہے اور اس چیز کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔
اجتہاد کی اس علمی و اخلاقی اہمیت کے سبب سے اس کے لیے ہماری اصول فقہ کی کتابوں میں کچھ شرطیں بیان ہوئی ہیں۔ اگر شرطوں کو اصطلاحی الفاظ سے الگ کر کے سادہ الفاظ میں پیش کیا جائے تو یہ تین شرطیں ہیں
۱۔ ایک یہ کہ اجتہاد کا اہل وہ شخص ہے جس کو کتاب و سنت پر پورا پورا عبور حاصل ہو۔
۲۔ دوسری یہ کہ وہ پیش آمدہ حالات و مسائل کی تہ تک پہنچنے والا ہو اور ان کے مالہ وما علیہ کو اچھی طرح سمجھنے والا ہو۔
۳۔ تیسری یہ کہ وہ اپنے اخلاق و سیرت کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد آدمی ہو تاکہ لوگ اپنے دین کے معاملہ میں اس پر اعتماد کر سکیں۔
اجتہاد کے کام کی نوعیت اور اس کی ذمہ داریوں کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو آپ اعتراف کریں گے کہ یہ کم سے کم باتیں ہیں جو ایک ایسے شخص کے اندر پائی جانی چاہیں۔ جو اجتہاد کرنے کی عظیم ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اگر یہ باتیں کسی شخص کے اندر نہیں ہیں، نہ اسے کتاب و سنت سے ماہرانہ واقفیت ہے، نہ وہ زندگی کے حالات و مسائل کو بخوبی سمجھتا ہے اور نہ وہ دیانت اور تقوی کے لحاظ سے ہی قابل اعتماد ہے تو ایسے شخص کا اجتہاد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ استہزا اور لوگوں کے دین و ایمان کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
اجتہاد کی شرطیں جب بیان کی جاتی ہیں تو ہمارے زمانہ کے بعض مدعیان اجتہاد ان کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے اتنی کڑی شرطیں لگانے کے معنی تو یہ ہوئے کہ اس زمانہ میں اجتہاد کوئی کر ہی نہ سکے۔ ان حضرات کے نزدیک دنیا کے ہر کام کے لیے قابلیت و صلاحیت کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ہر شخص کو اجتہاد کرنے کی چھوٹ حاصل ہے، اگرچہ قرآن و حدیث کی زبان کے علم کے لحاظ سے اس کا حال یہ ہو کہ وہ فاعل اورمفعول میں بھی امتیاز نہ کر سکتا ہو اخلاق و سیرت کے لحاظ سے اس کا درجہ لوگوں میں یہ ہو کہ دین کے معاملہ میں اس پر دو آدمی بھی اعتماد کرنے والے نہ مل سکیں۔ اجتہاد کی ضرورت کتنی شدید ہی سہی لیکن اگر ایسے ہی لوگ اجتہاد کرنے والے ہیں تو ہر شخص جس کو اپنا دین عزیز ہو گا وہ اس طرح کے اجتہاد پر تقلید کو ہزار درجہ ترجیح دے گا۔
ہمارے چاروں ائمہ مجتہدین پر مسلمانوں کو جو غیر معمولی اعتماد ہے اس کی وجہ محض قدامت پرستی نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ ان ائمہ عظام کا ان شرائط پر بدرجہ کمال پورا اترنا ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مجتہد میں پائی جانی ضروری ہیں۔ یہ ائمہ کتاب و سنت کے علم میں بھی یکتائے روزگار تھے، زندگی کے معاملات و حالات کو سمجھنے میں بھی بے نظیر تھے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے اور مشکل سے مشکل حالات اور سخت سے سخت آزمائشوں کے اندر ان پر استوار رہنے میں بھی خیر القرون کے مسلمانوں کی مثال تھے۔ ان کے انھی گوناگوں اوصاف کے سبب سے مسلمانوں کو ان پر اعتماد ہوا اور یہ اعتماد امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور مستحکم ہوتا گیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی جن لوگوں کے اجتہادات پر مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے وہ بھی ہر اعتبار سے انھی ائمہ کے زمرہ میں شامل ہونے کے لائق تھے اب جو لوگ بھی اس کار عظیم کا بیڑا اٹھائیں گے وہ اس بات کو پہلے سے سمجھ لیں کہ اس دیار کی روایات بڑی شاندار ہیں۔ اس دیار میں اگر کسی کو کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو وہ علم اور تقوی دونوں کا کافی سرمایہ لے کر آئے۔
جہاں تک اجتہاد کی ضرورت کا تعلق ہے اس پر کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ضرورت ایک مسلم ضرورت ہے۔ زندگی برابرنت نئے مسائل سے دوچار رہتی ہے۔ ان مسائل کا حل اگر شریعت سے معلوم کرنے کی کوش نہ کی جائے تو ہماری زندگی کا ربط شریعت سے ٹوٹ جائے گا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو کوئی مسلمان اسلام پر قائم رہتے ہوئے گوارا نہیں کر سکتا۔ ہماری مادی زندگی کے قیام وبقا کے لیے جتنی ضرورت ہو اور پانی کی ہے ہماری روحانی و ایمانی حیات کے لیے اس سے کہیں زیادہ ضرورت اجتہاد کی ہے۔ ہمارے سامنے جو حالات و مسائل پیش آئیں اگر ہم ان کے بارہ میں شریعت کا حکم معلوم کیے بغیر اپنے آپ کو ان کے حوالہ کر دیں تو اس کا نتیجہ صرف یہی نکلے گا کہ ان حالات کے حد تک ہماری زندگی غیر اسلامی ہو جائے گی۔ بلکہ اس امر کا بھی اندیشہ ہے کہ ان حالات کا دباؤ ہمیں اپنی زندگی کے بقیہ حصہ میں بھی اسلامی روش سے ہٹنے پر مجبور کر دے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ مسلمان کی زندگی آدھی تیتر اور آدمی بٹیر نہیں ہو سکتی۔ اس کی اصل خصوصیت تو اس کی یک رنگ اور ہم آہنگی ہی ہے۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے اسلام کے حکم اور اس کے اشارہ کے مطابق اٹھائے۔ زندگی جن حالات و تغیرات سے بھی گزرتی ہے ان میں کوئی مرحلہ بھی ایک مسلم کے لیے ایسا نہیں آتا جس میں وہ اسلام سے استفتا کا محتاج نہ رہتا ہو۔ اپنی اس خصوصیت کے سبب سے مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اجتہاد کے بغیر اپنی اسلامیت کو برقرار رکھ سکے۔
ایک مسلمان کے لیے صرف یہی ضرورت نہیں ہے کہ وہ نئے پیش آنے والے حالات و واقعات کے بارہ میں اسلام کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے، بلکہ ایک ذی علم اور ذی شعور مسلمان پر تو شریعت کی طرف سے یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ جن پچھلے اجتہادات پر عمل پیرا ہے ان کا بھی برابر جائزہ لیتا رہے کہ کس حد تک اسلام کے اصل ماخذ قانون۔۔۔کتاب و سنت۔۔۔سے موافقت رکھتے ہیں۔ یہ جائزہ بھی درحقیقت ایک اجتہاد ہی ہے دین کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے یہ جائزہ بہت ضروی ہے۔ جو لوگ اس جائزہ سے بے پروا ہو جاتے ہیں وہ آہستہ آہستہ تقلید و جمود کے شکار ہو جاتے ہیں اور حیات ایمانی کے اصل سرچشموں، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ ان کا تعلق نہایت کمزور ہو جاتا ہے۔
بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہم نے اس بات کی گنجائش تسلیم کر لی کہ آدمی اس جائزہ کے بغیر بھی اپنی حیات ایمانی کو زندہ رکھ سکتا ہے، مگر اس بات کے تسلیم کرنے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل کے بارہ میں شریعت کا حکم معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس چیز کی ضرورت اور شرعی اہمیت سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہوا۔ جو لوگ پچھلے اماموں کی تقلید کے قائل ہیں اور اس معاملہ میں غلو کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں وہ بھی نئے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت کے منکر نہیں ہوئے انھوں نے اگر اجتہاد کی مخالفت کی ہے تو ان مسائل میں کی ہے جن میں پچھلے ائمہ کے اجتہادات موجود ہیں اور ان کی اس مخالفت کے بھی کچھ وجوہ ہیں جن کی طرف آگے چل کر اشارہ کروں گا۔
بہرحال جہاں تک ایسے معاملات و مسائل کا تعلق ہے جو نئے تھے اور جن کے بارہ میں ہمارے پچھلے ذخیرہ اجتہاد کے اندر کوئی رہنمائی موجود نہیں تھی اس زوال و انحطاط کے باوجود جو علم دین اور اصحاب علم دین پر طاری رہا ہے، ہر مسلمان ملک کے علما نے اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اجتہادات کیے اور اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی رہنمائی کی۔ اگر تمام اسلامی ممالک کے علما کے اس طرح کے سارے اجتہادات یک جا کر دیے جائیں تو اس دور آخر کے اجتہادات کا ایک بڑا ذخیرہ تیار ہو جائے گا۔
یہ کام اگر مناسب رفتار کے ساتھ مناسب مقدار میں نہیں ہو سکا تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں تھی کہ علما کو اجتہاد کی ضرورت سے انکار تھا، بلکہ اس کے بڑے سبب دو تھے۔
ایک بڑی وجہ اس کی یہ تھی کہ مغرب کے لادینی اثرات کے تحت جو اٹھارویں صدی کے اواخر میں پوری طرح زور پکڑ گئے عموماً مسلمان حکومتوں نے بھی غیر اسلامی قوانین اختیار کرنے شروع کر دیے۔ ایک محدود دائرے کے سوا اجتماعی و سیاسی زندگی کے ہر گوشے میں وضعی قوانین دخیل ہو گئے۔ جن مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کا عملاً تسلط قائم ہو گیا وہاں اسلامی قوانین کا پڑھنا پڑھانا بھی محض عربی مدرسوں میں بطور تبرک ہی رہ گیا۔ میں نے انگریزوں کے دور اقتدار میں ایک دینی درسگاہ میں فقہ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اس زمانہ میں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ نماز، روزہ اور نکاح و طلاق کے چند ابواب کے سوا فقہ اسلامی کے بقیہ ابواب کا مصرف کیا ہے؟ جب طبیعتیں اس طرح کند ہو جائیں اور قانون عملی زندگی سے اتنا بے تعلق ہو جائے تو اس طرح سیکھنے سکھانے کا ذوق بھی مردہ ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس کے اندر اجتہاد کا ولولہ پیدا ہو۔ یہ تو ہمارے عربی مدارس اور ہمارے علما کی کرامت ہے کہ ان مخالف حالات کے اندر بھی انھوں نے ’ہدایہ‘ اور ’شامی‘ کا نام زندہ رکھا ورنہ شاید لوگ ان کے نام بھی بھول جاتے۔ موجودہ زمانے کے لوگ اس چیز پر تو بہت دانت پیستے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے، لیکن اس بات پر غور کرنے کی زحمت کوئی صاحب بھی گوارا نہیں فرماتے کہ جاہلیت کے غلبہ و تسلط کے اس عالمگیر اندھیرے میں آخر اجتہاد کے لیے محرک کون سا باقی رہ گیا تھا۔
اس کی دوسری بڑی وجہ جو درحقیقت پہلی ہی وجہ کا ایک قدرتی نتیجہ ہے یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ غیر ملکی حکمران اپنی ضرورت کے لیے مجبور ہوئے کہ اپنے نظریات کی درس گاہیں قائم کریں اور ان میں وہ علوم سکھائیں جن کو وہ علوم سمجھتے ہیں یا جن کی ان کو ضرورت تھی۔ دوسری طرف جو لوگ اسلامی درد رکھتے تھے ان کو اپنے اسلامی ورثہ کی حفاظت کی فکر ہوئی اور انھوں نے پرانے طرز کی درس گاہیں سنبھالیں یا قائم کیں۔ نئے طرز کی درس گاہوں میں اسلامی علوم کا گزر نہیں تھا اور پرانے طرز کی درس گاہوں میں نئے علوم حرام تھے۔ نئی درس گاہوں میں بڑی چیخ و پکار کے بعد اگر دینی تعلیم کو کچھ بار حاصل ہوا بھی تو اس کی حیثیت اکبر مرحوم کی زبان میں بادہ مغرب میں تھوڑی سی زمزم سے زیادہ نہ تھی۔ اسی طرح اسلامی مدارس کی اصلاح کی تحریک کے تحت اگر بعض عربی مدارس میں نئے علوم کے لیے کچھ جگہ نکالی بھی گئی تو بس اتنی کہ عربی خواں طلبہ کی زبانوں پر کچھ انگریزی الفاظ بھی چڑھ گئے۔ نہ دینی علوم کی ہوا ان کو لگنے پائی اور نہ جدید علوم و افکار سے یہ آشنا ہو سکے۔ میں اس صورت حال پر اس عہد کے ان دونوں تعلیمی نظاموں میں سے کسی کو بھی ملامت کا مستحق نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں دونوں ہی کے چلانے والے اپنی اپنی جگہ پر مجبور و بے قصور تھے۔ انگریزوں نے جو نظام تعلیم قائم کیا، اس کے اندر ہماری دینی تعلیم ایک بالکل بے جوڑسی چیز تھی۔ اس کے نظریہ اور اس کے نظریہ میں بنیادی فرق تھا۔ پھر انگریزی درس گاہوں کا ماحول قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم کے لیے اتنا ہی ناموزوں تھا جتنا زعفران کی کاشت کے لیے صحرائے افریقہ کا کوئی تپتا ہوا حصہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہماری عربی درس گاہوں میں انگریزی اور جدید علوم کو گھسانے کی کوشش بھی ایک سعی لاحاصل تھی۔ انگریزوں کے تسلط اور جدید درس گاہوں کے سرکاری اہتمام میں قیام نے ان درس گاہوں کو ایسی کسمپرسی کے عالم میں ڈال دیا تھا کہ انھوں نے جن علوم کے پڑھنے پڑھانے کا بیڑا اٹھایا تھا انھی کی تعلیم کے لیے ان کو سرمایہ حاصل ہونا دشوار تھا کجا کہ وہ نئے علوم کی تعلیم و تدریس کا انتظام کر پاتیں۔ بہرحال یہ جو کچھ ہوا اس انقلاب کا ایک قدرتی نتیجہ تھا جس سے ہماری قوم کو گزرنا پڑا تھا۔ میں اس صورت حال کا الزام کسی پر بھی ڈالے بغیر صرف اس نتیجہ پر بحث کرنا چاہتا ہوں جو نظام تعلیم کے اس انقسام سے ہمارے حصہ میں آیا۔ وہ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ نئی درس گاہوں سے تعلیم پا کر نکلے وہ دین سے بے بہرہ نکلے اورجنھوں نے پرانی درس گاہوں سے تعلیم پا ئی وہ اپنے گردو پیش کی دنیا کے حالات و مسائل سے بالکل بے خبر رہے۔ اس وجہ سے ان سے فارغ ہو کر نکلنے والوں میں سے مشکل ہی سے کوئی ان شرائط پر پورا اتر سکا جو اوپر ہم نے ایک صاحب اجتہاد کے لیے بیان کی ہیں۔ اگر گنتی کے چند افراد اس قابل ہوئے کہ وہ پیش آنے والے مسائل میں شریعت کی روشنی میں مسلمانوں کی کچھ رہنمائی کر سکیں تو وہ ان تعلیمی نظاموں میں سے کسی کا ثمرہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق و رہنمائی اور اس کی بخشی ہوئی ذہانت سے اس قابل ہو گئے کہ دین کی کچھ خدمت کر سکے۔
ممکن ہے اس مرحلہ میں کسی صاحب کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب مسلمانوں کے اندر چند مخصوص اماموں کی تقلید کا رجحان پیدا ہو جانا اور پھر اس تقلید کا دین و شریعت بن جانا بھی تو ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے مختلف فقہی گروہوں میں بے جا حمیت و تعصب پیدا ہو جانے سے بھی اس ذہنی وسعت اور آزادی کو بڑا نقصان پہنچا جو اجتہاد فکر کے نشوونما کے لیے ضروری تھی۔ اس تعصب کے سبب سے ہر گروہ نے حق کو اپنے اپنے مسلک فقہی کے اندر محصور سمجھ لیا اور اپنے آئمہ و علما کی اجتہادی رایوں پر ان کے دلائل کی روشنی میں غور کرنا اور ان کے صحیح و سقیم میں امتیاز کرنا بالکل چھوڑ دیا حالانکہ اس طرح کی تحقیق و تنقید کی سب سے زیادہ تاکید ہمارے ان آئمہ ہی نے کی تھی۔ یہ چیز روح اجتہاد کو تازہ رکھنے کے لیے بھی ضروری تھی اور ملت کے اندر اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کے نقطہ نظر سے بھی اس کی بڑی اہمیت تھی۔ لیکن یہ سوال قابل غور ہے کہ اسلامی شریعت کے مزاج کے تقاضوں اور ہمارے بزرگ ائمہ کی نہایت پر زور تاکیدات کے بالکل علی الرغم، آخر مسلمانوں کے اندر تقلید کے اس رجحان نے کس طرح جگہ بنا لی اور پھر اس طرح جڑ پکڑ لی کہ اب اس کو اس کی جگہ سے ہلانا محال ہو رہا ہے۔
میرے نزدیک اس تقلید کے پیدا ہونے اور جڑ پکڑ جانے کے بھی چند اسباب ہیں۔ دنیا کی تمام خرابیوں کی طرح یہ خرابی بھی ہمارے اندر بتدریج پروان چڑھی ہے اور اس کے اسباب مخفی نہیں ہیں۔ میں ان میں بعض کی طرف یہاں اشارہ کروں گا۔ اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی علوم کے زوال و انحطاط کے سبب سے ایسے لوگوں کا پیدا ہونا کم ہو گیا جو اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے ہوں۔ ظاہر ہے کہ جب منصب اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والوں کی پیداوار ہی کم ہو جائے تو اس کام کو جاری رکھنے اور مسلمانوں پر اپنی شان اجتہاد کا سکہ بٹھانے والے کہاں سے آتے۔ جہاں تک مسلمانوں کے ذہن کا تعلق ہے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں بھی وہ اجتہاد کے قبول کرنے کے لیے بند نہیں ہوا۔ جب بھی مسلمانوں میں کوئی شان اجتہاد کا حامل اٹھا مسلمانوں نے اس کو دلوں میں جگہ دی اور آنکھوں پر بٹھایا۔ اجتہاد کے بند ہونے کی تاریخ بغداد کی بربادی کی تاریخ سے ملائی جاتی ہے لیکن امام ابن تیمیہ اس کے بعد مسلمان حکومتوں کی نہایت شدید افراتفری کے دور میں اٹھے اور انھوں نے ایک عالم سے اپنے اجتہاد کا لوہا منوا لیا۔ مگر ابن تیمیہ ایک عبقری تھے۔ عبقری روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اصلی چیز یہ تھی کہ وقت کے نظام کے اندر وہ صلاحیت باقی ہوتی جس سے بلند پایہ اشخاص پیدا ہو سکتے۔ مگر یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ وقت کا نظام اس صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا اس وجہ سے صف اول کے اشخاص بہت کم پیدا ہوئے اور درجہ دوم و سوم کے لوگوں کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ اجتہاد کر کے مسلمانوں پر اپنے اجتہاد کا اعتماد قائم کر سکتے۔
اس کا دوسرا سبب مسلمانوں کا اخلاقی زوال ہے۔ اس اخلاقی زوال کے سبب سے بہت سے ذہین و فطین لوگ وقت کے حکمرانوں کے درباروں سے وابستہ ہو گئے اور انھوں نے ان کی خوشنودی اور مقصد برآری کے لیے اجتہادات فرمائے اور فتوے لکھے۔ اگر ان کے اندر ذہانت اور علم کے ساتھ ساتھ وہ سیرت اور وہ اخلاقی بلندی بھی موجود ہوتی جو مجتہد کے لیے ایک ضروری شرط ہے تو مسلمان ان کے اجتہادات پر ضرور اعتماد کرتے۔ لیکن لوگوں نے ان کی دین فروشی اور دنیا سازی کے تماشے دیکھ دیکھ کر سلامتی اسی میں پائی کہ ان دنیا پرستوں کے اجتہادات کے بجائے ان اگلوں کی تقلید ہی پر قناعت کریں جن کے علم کی طرح ان کی سیرت بھی ہر کسوٹی پر کھری ثابت ہو چکی تھی۔ اسی پہلو سے شرائط اجتہاد کے سلسلہ میں سیرت کی اہمیت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر دنیا کے بھی کسی اہم معاملہ میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ اس پر ایک ایسے معاملہ میں اعتماد کیا جائے جس میں تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے۔ آج بھی غور کیجیے تو درحقیقت ہم اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ لوگ اجتہاد کو کوئی کفر اور تقلید کو کوئی جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ ہیں بھی تو ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اصلی چیز یہی ہے کہ اس زمانہ میں جو لوگ اجتہاد کے مدعی بن کر کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کی نگاہوں میں نہ ان کے علم کا کوئی وزن قائم ہوتا ہے نہ ان کے تقوی کا۔ لوگ مجتہد کے اندر امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی کی سیرتوں کے پرتو ڈھونڈتے ہیں اور امام ابن تیمیہ کی عزیمت اور شاہ ولی اللہ کا تقدس تلاش کرتے ہیں۔ اس تلاش میں لوگ حق بجانب بھی ہیں۔ آخروہ ان لوگوں کے اجتہادات پر کس طرح اعتماد کر لیں جن کو وہ دنیا کی خاطر ہر چیز کو فروخت کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
اب اگر تقلید کو ختم کر کے اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہے تو یہ کام محض تقلید کی مذمت کرنے اور اجتہاد کی منقبت بیان کرنے سے نہیں ہو گا۔ بلکہ ان اسباب کا موثر طریقوں سے ازالہ کرنا ہو گا جو اجتہاد کی اس بندش اور تقلید کے اس عالمگیر فروغ کے سبب بنے ہیں۔ میرے نزدیک اس مقصد کے لیے جن باتوں کا اختیار کیا جانا ضروری ہے، ان میں سے چند کا میں ذکر کروں گا۔
اس کے لیے پہلی ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم بالکل بدلے۔ قدیم و جدید درس گاہوں کی تقسیم کو ختم کر کے ایک ہی جامع نظام تعلیم جاری کیا جائے اور اس نظام کی بنیاد عربی زبان اور قرآن و حدیث کی تعلیم پر ہو۔ موجودہ نظام میں جو اہمیت آج انگریزی تعلیم کو حاصل ہے وہ اہمیت عربی کو دی جائے اور انگریزی کو ایک ثانوی حیثیت دی جائے جدید علوم و فنون کی اہمیت کم نہ کی جائے، لیکن قرآن و حدیث اور فقہ کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ فی الواقع مستحق ہیں تاکہ طلبہ قرآن و حدیث کو براہ راست سمجھ سکیں اور پورے اعتماد کے ساتھ ان کی قانونی مشکلات میں کوئی رائے قائم کر سکیں۔ ہمارے لا کالجوں اور ہماری یونیورسٹیوں میں پورا اسلامی قانون اس کے فلسفہ کے ساتھ پڑھا جائے اور طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات جاگزیں کی جائے کہ موجودہ دور ایک عبوری دور ہے اس کے ختم ہونے کے بعد اسی قانون اور اسی فلسفہ قانون کو اس ملک میں موجودہ قانون اور موجود فلسفہ قانون کی جگہ لینی ہے۔ اسلامیات کا نصاب بہت جامع اور مکمل ہونا چاہیے اور اس کی تعلیم دینے والے بھی وہ لوگ ہونے چاہیں جو اپنے فنون میں کمال رکھنے والے ہوں۔ لاکالجوں میں اسلامی قانون کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ طلبہ اسلامی فقہ کی مختلف شاخوں میں بھی موازنہ اور مقابلہ کر سکیں اور ان کی رہنمائی ایسے اساتذہ کریں جو دوسرے قوانین پر اسلامی قانون کی برتری کے قائل ہوں اور اعتماد کے ساتھ ان کی ترجیح دوسرے قوانین پر ثابت کر سکیں۔
یہ طے کرنا تعلیمی ماہروں کا کام ہے کہ موجودہ عبوری دور میں ان مختلف اور متنوع تقاضوں کو کس طرح پورا کیا جائے۔ لیکن اگر ایسے لوگوں کے پیدا کرنے کی فی الواقع ضرورت ہے جو اسلامی قانون میں اجتہاد کا درجہ حاصل کر سکیں تو اس کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ نظام تعلیم میں مطلوبہ تبدیلی پیدا کی جائے۔ ہمارے لاکالجوں میں اب تک جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ نصاب میں اسلامی اصول فقہ بھی شامل کر لیا گیا ہے لیکن نہ تو اس مقصد کے لیے موزوں کتابیں دستیاب ہیں، نہ ایسے اساتذہ ان کالجوں میں موجود ہیں جو اپنی قابلیت سے کتابوں کی کمی پوری کر سکیں۔ کام تو مبارک شروع ہوا ہے لیکن یہ جس نیم دلی اور سرد مہری کے ساتھ شروع ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے جی ڈرتا ہے کہ کہیں یہ مفید ہونے کے بجائے الٹا مضر ثابت نہ ہو۔
دوسری چیز جو اس سلسلہ میں ضرروی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول بدلے۔ ان کے اندر اسلامی قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی ماحول ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلامی قانون کوئی منفرد اور تنہا چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک وسیع فکری، اعتقادی، نظریاتی اور اخلاقی نظام کا ایک جزو ہے اور اس کے تمام اجزاء باہم دگرمربوط ہو کر ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کو صرف کسی نہ کسی طرح پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس کی صرف ڈگری حاصل کر لینا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس ڈگری کے ساتھ ڈگری حاصل کرنے والے میں اس ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا بھی ضروری ہے جس کے بغیر اس کا حق ادا ہونا ناممکن ہے۔ رومن یا انگریزی قانون کا ایک ماہر جج اور اسلامی قانون کا ایک ماہر قاضی، دونوں اپنے اپنے دائروں میں کام تو ایک ہی طرح کے کرتے ہیں لیکن دونوں کی ذمہ داریوں کی نوعیت میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ ایک صرف اپنے قانون کے الفاظ کے آگے جواب دہ ہے یا زیادہ سے زیادہ اپنے ضمیر کے سامنے، برعکس اس کے دوسرے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خدا کے قانون کی توضیح یا تنفیذ کرتا ہے اور اس کی اصلی جواب دہی کل کو خدا کے آگے ہے۔ ایک جج اگر قانونی موشگافیوں میں مہارت رکھتا ہے تو وہ بہت بڑا جج ہے، لیکن کوئی قاضی ایک معیاری قاضی نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسلامی قانون کی اصلی روحانیت کاحامل نہ ہو اور قانون کے لفظوں کے معانی سمجھنے کے ساتھ ساتھ وہ اس احکم الحاکمین سے ڈرنے والا بھی نہ ہو جس نے یہ قانون نازل فرمایا ہے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح کے جج اور وکیل پیدا کرنے کے لیے ہماری موجودہ یونیورسٹیوں اور موجودہ کالجوں کا ماحول نہایت ناسازگار ہے۔ ان کے اندر اس سیرت و اخلاق اور اس ذہن و مزاج کی تخلیق اور پرورش ناممکن ہے جو منصب افتا و اجتہاد اور فریضۂ قضا کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے ضروری ہے۔ مَیں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ پچھلوں کے اجتہاد کے مقابل میں اگلوں کی تقلید کو ترجیح دینے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب لوگوں کے نزدیک یہ بھی رہا ہے کہ لوگ کمزور سیرت کے مدعیان اجتہاد پر اعتماد کرنے میں اپنی آخرت کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے۔
تیسری ایک اور چیز بھی اس سلسلہ میں ضروری ہے جس کا تعلق جدید و قدیم، دونوں ہی طبقات سے ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قانون کا مطالعہ فرقہ وارانہ تعصب کے ساتھ نہ کیا جائے۔ بلکہ ہر قسم کے گروہی تعصبات سے آزاد ہو کر کیا جائے۔ فقہ خواہ امام مالک کی ہو یا امام ابوحنیفہ کی امام شافعی کی ہو یا امام احمد بن حنبل کی یہ سب اسلامی ہی فقہ ہے۔ ان سب کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے۔ ان کے اصول استنباط و اجتہاد ایک سے ہیں۔ یہ سب فقہیں ہمارا مشترک سرمایہ ہیں۔ ان میں سے جس فقہ کے کسی اجتہاد کو بھی ہم اس کے دلائل کی روشنی میں جانچ کر اختیار کر لیں گے۔ انشاء اللہ ہم حق پر ہی ہوں گے۔ حق سے انحراف کا اندیشہ کسی میں بھی نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں بعض ضروری باتیں اور بھی ہیں جن کو میں دوسرے موقع پر بیان کروں گا۔
اجتہاد خواہ کسی بڑے مجتہد کا ہو یا کسی چھوٹے مجتہد کا، اس کی حیثیت ایک رائے سے زیادہ نہیں ہے۔ حضرت معاذ والی حدیث کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔ انھوں نے اپنے اجتہاد کو رائے ہی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہ رائے کتاب و سنت کے اشارات اور نظائر و قیاسات پر مبنی ہوتی ہے اور اس کا قائم کرنے والا کتاب و سنت کا ایک ماہر اور دین کا ایک رمزشناس ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا درجہ اس رائے سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں ایک عام آدمی مجرد عقل و فہم کی مدد سے قائم کرتا ہے۔ اس کے رائے ہونے میں تو کلام نہیں ہے، لیکن یہ اس مفہوم میں رائے نہیں ہے جس مفہوم میں یہ لفظ ہم اپنی عام بول چال میں بولتے ہیں اس کے رائے ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کی حیثیت نص کی نہیں ہے۔ اس میں صحت کے ساتھ غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کا ردو قبول اس کے دلائل پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک اجتہاد کے دلائل سے مطمئن ہے تو اس کے لیے وہ اجتہاد حجت ہے۔ پھر اس کے لیے اس کو نظر انداز کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس کی بنا پر دوسروں سے لڑنا جھگڑنا یا ان کی تکفیر و تفسیق کرنا درست نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ ائمہ اپنے اجتہاد کے خلاف کبھی کبھی دوسروں کے اجتہاد پر بھی عمل کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اجتماعی و سیاسی معاملات میں توصحیح روش ہی یہی ہے کہ نظام جس اجتہاد پر چلے آدمی عملاً اس کی اطاعت کرے اگرچہ اس کا اپنا اجتہاد اس سے مختلف ہو۔
اجتہادی مسائل میں سے صرف وہی مسئلہ رائے کے درجہ سے بالاتر ہو جاتا ہے جس پر مجتہدین امت کا اجماع ہو جائے۔ اجماع اجتہاد کی سب سے اعلی قسم ہے۔ کسی اجتہاد پر اجماع ہو جانے کے بعد اس کی حیثیت صرف ایک رائے کی نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ شریعت کے نصوص کی طرح ایک حجت شرعی بن جاتا ہے جس کی مخالفت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
ایک یہ کہ اجماع کا تعلق چونکہ اجتہاد سے ہے اس وجہ سے شریعت میں معتبر صرف وہی اجماع ہے جو مجتہدین امت کا اجماع ہو۔ اس میں اصلی اہمیت صرف اتفاق رائے کی نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کے اتفاق رائے کی ہے جو اجتہاد کا منصب رکھتے ہوں۔ عوام کے اس اتفاق رائے کی تو شریعت میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے جس سے مجتہدین الگ ہوں یا جس میں ان کی رائے ملحوظ نہ رکھی گئی ہو۔
دوسری یہ کہ اجماع کسی شرعی بنیاد پر ہونا چاہیے، یعنی سوال یہ ہو کہ فلاں معاملہ میں شریعت کا حکم کیا ہے، پھر کوئی حکم شرعی معین ہو اور اس پر اصحاب اجتہاد متفق ہو جائیں۔ مجرد یہ بات کہ مسلمان قوم کسی چیز پر متفق ہو گئی ہے قطع نظر اس بحث سے کہ اس بارہ میں شریعت کا حکم کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے۔ یہ وہ اجماع نہیں ہے جس کو شریعت میں ایک حجتِ شرعی کی حیثیت حاصل ہے۔
اجماع سے متعلق جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ ایک دور کے تمام مجتہدین، ایک وقت میں ایک ہی طرح کے الفاظ میں کسی اجتہاد پر اتفاق کریں تو یہ اجماع ہے، یہ محض تکلف ہے، جب کسی چیز کی فنی تعریف کی جائے گی تو اس طرح کے التزام مالایلزم محض تعریف کی منطقیت کی وجہ سے بسا اوقات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس طرح کی چیزوں کو دین کے اصولوں کا مذاق اڑانے کا بہانہ بنا لے تو وہ پرائے شگون پر اپنی ناک کٹوا بیٹھے گا۔ اجماع کی فنی تعریف جو کچھ بھی ہو، لیکن اصل مقصود صرف یہ ہے کہ جس امر اجتہادی پر مجتہدین وقت متفق ہوں اور اس کے خلاف کوئی مؤثر اور قابل ذکر اختلاف معلوم نہ ہو اس کے متعلق یہ تسلیم کیا جائے گا کہ اس پر اجماع ہے۔ محض اس مفروضہ پر کہ ممکن ہے اس دور کے کسی مجتہد کو اس سے اختلاف رہا ہو اور وہ ہمارے علم نہ آیا ہو اس کے اجماع ہونے سے انکار کر دینا کوئی معقول بات معلوم نہیں ہوتی۔ زندگی کے کاروبار اس طرح کے مفروضات پر نہیں چلا کرتے۔ نہ تو کسی دور کے اہل اجتہاد ہی مخفی رہتے ہیں اور نہ وہ مسائل ہی مخفی رہتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو یہ جستجو ہو کہ ان پر اجماع ہوا ہے یا ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
ہمارے جو ائمہ اجماع کو حجت ماننے کے باوجود اس کے وقوع کو نہیں مانتے وہ اجماع کے خلاف نہیں ہیں بلکہ درحقیقت ان فقہا کے خلاف ہیں جو اپنے کسی اختیار کردہ مسلک و مذہب کی حمایت کے جوش میں بات بات پر اجماع کا دعوی کر بیٹھتے تھے۔ عام قاعدہ ہے کہ آدمی جس بات کو خود مان لیتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ساری دنیا اس کو مانے۔ بسااوقات وہ اپنی اس خواہش کو واقعہ فرض کر لیتا ہے اور دعوی کر بیٹھتا ہے کہ اس مسلک کے ہم نوا سب ہیں۔ ہماری فقہ کی کتابوں میں اس طرح کے غالیانہ دعاوی کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ اجماع کے یہ دعوے عموماً ایسے مسائل سے متعلق ہیں جن کی دین میں کوئی خاص اہمیت نہیں محسوس ہوتی۔ ظاہر ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اجماع کا دعوی تسلیم کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ آخر اس قسم کے اجماعات کی تحقیق کس طرح ہو؟ معاملہ اگر غیر معمولی اہمیت کا حامل نہیں ہے تو اس کا بھی امکان ہے کہ جس چیز کے بارے میں ایک شخص اجماع کا مدعی ہے دوسرے اہل فکر نے اس کو اس نگاہ سے سرے سے دیکھا ہی نہ ہو۔
خلافت راشدہ کے زمانہ میں تو یہ بات تھی کہ جب کوئی اہم اجتہادی مسئلہ پیش آتا تو امیر المومنین وقت کے اکابر علم و اجتہاد کو بلاتا ان سے مشورہ کرتا پھر مشورہ اور غور و بحث کے بعد جو بات طے پا جاتی وہ اجماعی بات سمجھی جاتی۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے وقت میں تو تقریباً تمام بڑے بڑے مجتہد صحابہ مرکز خلافت یعنی مدینہ ہی میں موجود بھی رہتے تھے۔ جو لوگ باہر ہوتے تھے مدینہ کے اکابر کے اتفاق رائے کے بعد نہ تو وہ خود اپنی رایوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور نہ دوسروں ہی کو کسی کی رائے کا انتظار رہ جاتا تھا۔ اس وجہ سے اس مبارک دور کے متعلق تو واضح طور پر معلوم ہے کہ فلاں بات پر اجماع ہو گیا، لیکن بعد کے زمانوں میں جب کہ انتشار کی وجہ سے یہ صورت حال قائم نہ رہ سکی یا حکمرانوں نے اجتہادی امور میں اصحاب اجتہاد کی رائیں معلوم کرنا اور غور و بحث کے بعد کسی بات کو طے کرنا چھوڑ دیا، تو کسی بات پر اجماع کا معلوم کرنا مشکل ہو گیا۔ اس وجہ سے بعض ائمہ بعد کے زمانوں میں کسی اجماع کے انعقاد کو نہیں مانتے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعد کے زمانوں کے متعلق کسی بات پر باضابطہ اجماع منعقد ہونے کا دعوی کرنا فی الواقع مشکل ہے، لیکن اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود یہ سوال ایک قابل غور سوال ہے کہ بعد کے زمانوں میں اگر کسی امر پر تمام معروف اہل اجتہاد متفق ہیں اور کسی قابل ذکر صاحب اجتہاد کا اختلاف اس کے بارے میں منقول نہیں ہے تو کیا اس کے اجماع ہونے سے محض اس مفروضہ کی بنا پر انکار کیا جائے گا کہ ممکن ہے کچھ اصحاب اجتہاد کو اس اجماع کی اطلاع نہ ہو سکی ہو اس وجہ سے انھوں نے اپنی رائیں اس کے بارے میں نہ ظاہر کی ہوں یا ظاہر کی ہوں لیکن ان کا اختلاف رائے ہم کو نہ پہنچ سکا ہو۔
اسی طرح ائمہ اربعہ اگر کسی بات پر متفق ہوں تو اس کی حیثیت بھی محض ایک رائے کی نہیں رہ جاتی اگرچہ ہم اس کو اصطلاحی اجماع کا درجہ دے سکیں اور اس سے اختلاف کرنے کو ناجائز نہ ٹھہرائیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر دور کے اہل علم بیشتر انھی ائمہ سے وابستہ رہے ہیں، ان سے الگ مسلک اعتماد حاصل نہ کر سکا۔ اس وجہ سے اگر ائمہ اربعہ کسی اجتہاد پر متفق ہیں تو اس کو صرف انھی کی رائے کی حیثیت سے نہیں لینا چاہیے بلکہ ان کو زمانوں کے تمام قابل اعتماد لوگوں کی رائے سمجھنا چاہیے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اگر کسی خاص خطے میں کوئی صحیح قسم کی اسلامی حکومت ہو اور اس کے مجتہدین کسی امر اجتہادی پر اجماع کر لیں تو یہ اجماع حجت ہو گا یا نہیں؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ اجماع اس حکومت کے مسلمانوں کے لیے تو حجت ہو گا، لیکن دوسروں کے لیے یہ حجت نہ ہوگا، اس لیے کہ اس اجماع کی حیثیت اجماع امت کی نہیں ہے اور اسی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اجماع کے خلاف بھی اجماع ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
________
۱ سنن ابی داؤد: کتاب الاقضیۃ، باب اجتھاد الرأی فی القضاء۔
____________