اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جس طرح پوری امت کا ہمیشہ اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اسلامی قانون کا پہلا ماخذ کتاب اللہ ہے اسی طرح ہمیشہ اس بات پر بھی اتفاق رہا ہے کہ اس کا دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ ہے۔
لیکن اس بات کو یاد رکھیے کہ میں نے سنت کا لفظ استعمال کیا ہے، اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو کتاب اللہ کے بعد اپنی جس چیز کے اختیار کرنے اور اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کا حکم دیا ہے اس کو سنت ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے سنت اور حدیث میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ طریقہ کو کہتے ہیں اور حدیث ہر وہ قول یا فعل یا تقریر ہے جس کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کی جائے، عام اس سے کہ وہ ثابت شدہ ہو یا اس کا ثابت شدہ ہونا محل نزاع ہو۔ حدیث، حسن، صحیح، ضعیف، موضوع اورمقلوب سب کچھ ہو سکتی ہے، لیکن سنت کے متعلق یہ بحثیں نہیں پیدا ہوتیں۔
سنت کے متعلق اس زمانے میں بعض لوگ دو اعتراض اٹھاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے معلوم کرنے کا کوئی معتبر ذریعہ نہیں ہے۔ وہ اپنے اس اعتراض کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سنت کے معلوم کرنے کا واحد ذریعہ حدیث کی کتابیں ہیں اور حدیث کی کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ وہ صحت کے معاملہ میں قرآن کی طرح ہر شبہ سے بالا ترہے پھر وہ اس سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ جب حدیث کی کوئی کتاب بھی شبہ سے بالاتر نہیں ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ سنت کے معلوم کرنے کے سارے ذرائع مشتبہ ہیں۔
دوسرا اعتراض معترضین یہ اٹھاتے ہیں کہ سنت کے بارہ میں مسلمانوں میں اختلافِ رائے ہے۔ اس کی واضح اور متفق علیہ تعریف موجود نہیں ہے ایک ہی چیز کے بارے میں ایک گروہ کے نزدیک سنت کچھ اور ہے اور دوسرے کے نزدیک کچھ اور۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں اعتراضات بے بنیاد ہیں۔
جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے وہ درحقیقت دو مغالطوں پر مبنی ہے۔ ایک مغالطہ تو ان معترضین کو یہ ہے کہ حدیث کی کتابیں اگر قرآن کی طرح شبہ سے بالاتر نہیں ہیں تو لازماً وہ ان کے نزدیک جھوٹی ہیں۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ سنت کے معلوم ہونے کا ذریعہ ان کے خیال میں صرف حدیث کی کتابیں ہی ہیں۔
یہ دونوں مغالطے اگر بارادہ پیدا نہیں کیے گئے ہیں تو ہمارے نزدیک محض علم کی کمی اورصحیح صورت حال سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔
حدیث کی کتابوں میں سے کوئی کتاب قرآن مجید کی طرح غلطی کے امکانات سے تو بلاشبہ بری نہیں ہے، لیکن غلطی کے امکانات سے بری نہ ہونے کے یہ معنی سمجھ لینا کہ حدیث کی کوئی کتاب سرے سے قابل اعتبار ہی نہیں ہے کم عقلی کی آخری حد ہے۔ حدیث کی کتابوں کے متعلق یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ وہ غلطی کے امکانات سے محفوظ نہیں ہیں تو یہ بات قرآن کو مقابلے میں رکھ کر کہی جاتی ہے، یعنی یہ اس معنی میں غلطی سے محفوظ نہیں ہیں جس معنی میں قرآن غلطی کے ہر امکان سے محفوظ ہے۔ عام کتابوں کے مقابلہ میں یہ بات نہیں کہی جاتی۔ قرآن کی حفاظت کا انتظام ہر پہلو سے خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کام نقص اور خرابی کے ہر شائبہ سے پاک ہوتا ہے۔ برعکس اس کے حدیث کی حفاظت کا انتظام غیر معصوم انسانوں نے کیا ہے۔ اس وجہ سے اس کے متعلق عصمت کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن کسی چیز کے ہم پایہ قرآن قرار نہ پا سکنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ساقط الاعتبار ہے۔ اس کمی کے باوجود جو قرآن کے مقابل میں حدیث کی صحت کے اہتمام میں پائی جاتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ حفاظت کا جو اہتمام اس علم کو حاصل ہوا ہے آج تک دنیا میں وہ اہتمام کسی علم کو بھی نہ حاصل ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ دنیا میں یہی ایک علم ہے جس کے نقل و روایت میں صحت کو اس درجہ اہمیت دی گئی ہے کہ باقاعدہ اس کے لیے روایت، اسناد اور جرح و تعدیل کا ایک عظیم الشان فن وجود میں آ گیا۔ جس کسی نے بھی کسی حدیث کے روایت کرنے کی جرات کی فوراً اس کی ساری زندگی ائمہ فن کے نزدیک موضوعِ بحث بن گئی۔ اس کا اخلاق کیسا تھا؟ اس کے تعلقات و معاملات کس طرح کے لوگوں سے تھے؟ اس کے عقائد و نظریات کیا تھے؟ اس کے استاذ اور شیخ کون کون تھے اور اخلاق و عادات اور عقائد و نظریات کے لحاظ سے ان کا حال کیا تھا؟ نیز ذہن اور حافظہ کے لحاظ سے اس کا جوانی اور بڑھاپے، دونوں زمانوں میں کیا حال رہا ہے؟ یہ سارے سوالات اس کے متعلق اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور اگر کسی پہلو سے بھی اس میں کسی خرابی کی شہادت ملتی تھی تو یہ خرابی اس کی روایت کی حیثیت کو مجروح کر دیتی تھی۔
جو علم اس اہتمام کے ساتھ مرتب ہوا ہے عقل اور فطرت تقاضا کرتی ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے، نہ کہ اس کو مشتبہ اور ساقط الاعتبار قرار دیا جائے۔ ہاں اگر اس کا کوئی جزو تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے سے کھوٹا ثابت ہو جائے تو اتنے حصہ کو بلاشبہ رد کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی بنا پر پورے مجموعہ کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی عقل کسی چیز کے ردوقبول کے معاملہ میں جو روش اختیار کرتی ہے وہ یہی ہے۔ انسان جب فطرت کی اس معروف شاہراہ سے ہٹتا ہے تو اس کا یہ ہٹنا یا تو اس کے وہمی پن کا نتیجہ ہوتا ہے یا ہٹ دھرمی یا نفس پرستی کا، یا بیک وقت ان تینوں ہی کا۔ اس طرح کے لوگوں کے نزدیک ہر وہ چیز قابل قبول ہو گی جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہو اگرچہ اس کے حق میں کوئی کمزور سے کمزور دلیل بھی موجود نہ ہو اور ہر وہ چیز باطل ہو گی جو ان کی خواہشوں کے خلاف ہو اگرچہ اس کا حق ہونا سورج کی طرح روشن اور بد یہی ہو۔
اسی طرح یہ بھی ایک شدید غلط فہمی ہے جس میں بعض لوگ مبتلا ہیں کہ سنت کے معلوم کرنے کا واحد ذریعہ بس حدیث کی کتابیں ہی ہیں۔ ان کے خیال میں اگر حدیث کی کتابوں کے ناقابل اعتبار ہونے کا خیال لوگوں میں پھیلا دیا جائے تو گویا سنت کی بنیاد ہی ڈھے گئی۔ یہ خیال بھی محض ایک بے بنیاد خیال ہے۔
سنت کے معلوم کرنے کے متعدد ذریعے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ معتبر اور قابل یقین و اعتماد ذریعہ امت کا تواتر عملی ہے۔ سنت کا اصل پہلو درحقیقت اس کا عملی پہلو ہی ہے۔ دین کا علمی پہلو تو قرآن میں بیان ہو چکا ہے، البتہ اس کا عملی پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے نمایاں کیا، اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو اپنایا اور انھوں نے بھی اس کا عملاً مظاہرہ کیا۔ جو باتیں شخصی زندگیوں سے تعلق رکھتی تھیں وہ ان کی روز مرہ کی زندگی میں نمایاں ہوئیں۔ جو باتیں حیات اجتماعی و سیاسی سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ ان کے نظام سیاسی و اجتماعی کا جزو بن گئیں۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف واقع ہوا کہ سنت کیا ہے تو وہ بھی زیر بحث آئی اور اس میں بھی کسی ایک پہلو کو یا تو ترجیح حاصل ہوئی یا اس معاملہ میں اختلاف رائے کے باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔ ان ساری چیزوں کو سلف نے خلف کے لیے اپنے عمل سے بھی منتقل کیا اور اپنے قول سے بھی منتقل کیا۔ پھر تاریخ اور سیرت کی کتابوں نے بھی اس کی شہادت دی اور ہمارے علما اور فقہا نے بھی ان ساری چیزوں کو ہر دور میں تازہ رکھا۔ جس چیز کو اتنے مختلف ذرائع ہماری طرف منتقل کر رہے ہیں اس کو صرف ایک ذریعہ پر منحصر سمجھ لینا محض نادانی اور بے خبری کا نتیجہ ہے۔
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ سنت کو ضبط تحریر میں لانے کا دورِ نبوی میں وہ اہتمام کیوں نہیں کیا گیا جو اہتمام قرآن کے لیے کیا گیا؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ، جیسا کہ بعض نادانوں نے سمجھی ہے، سنت یا حدیث سے بے پروائی نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ سنت کا ایک عملی چیز ہونا ہے۔ قرآن کا غالب پہلو علمی اور ایمانی ہے اس لیے ضروری ہوا کہ اس کا ایک ایک حرف قید تحریر میں آ جائے، لیکن سنت ایک ایسی چیز تھی جس کو ہر مسلمان کے علم میں نمایاں ہونا تھا جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف بتانے کے لیے نہیں تشریف لائے تھے بلکہ اس کو کر دکھانے کے لیے آئے تھے۔ بلکہ اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کو دوسروں سے بھی کرانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ حضور کو اس راستہ پر خود بھی چلنا تھا اور دوسرے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کو بھی اس پر چلانا تھا۔ اگر سنت علمی اور فکری حقائق ہی پر مشتمل ہوتی تب تو اس کو محفوظ کرنے کا واحد طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ اس کو بلا کسی تاخیر کے ضبط تحریر میں لایا جائے لیکن جس چیز کی ایک امتی کو مشق کرنی تھی اور جس کو پورے ملک کے لیے ضابطۂ اخلاق اور نظام زندگی بننا تھا اس کی حفاظت کے لیے اولین چیز یہی تھی کہ وہ لوگوں کی عملی زندگی میں منتقل ہو۔ اس کا تحریر میں آنا ایک امر ثانوی تھا۔ چنانچہ جب امت نے اس کی ضرورت محسوس کی یہ کام بھی انجام پا گیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سنت کو سلف سے خلف کی طرف منتقل کرنے کا ایک اور ذریعہ بھی فراہم ہو گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ اگر اس کو ضبط تحریر میں نہ لایا گیا ہوتا تو سنت معدوم ہو جاتی۔
نمازوں کے اوقات کیا کیا ہیں، نمازیں کتنی بار پڑھی جائیں اور کس طرح پڑھی جائیں؟ مختلف چیزوں پر زکوٰۃ کی مقدار کیا ہو؟ روزوں کی عملی شکل و صورت کیا ہے؟ حج کے مناسک کیا ہیں اور وہ کس طرح ادا کیے جائیں؟ مسلمانوں کے لیے ظاہری شکل و صورت میں کیا چیزیں امتیازی خصوصیات رکھتی ہیں؟اسلامی نظام کی عملی شکل کیا ہوتی ہے؟ یہ اور اسی طرح کے جتنے مسائل بھی ہیں ان میں سے کون سی چیز ہے جو امت کے عملی تواتر نے ہم تک منتقل نہیں کی ہے؟ یہ ساری چیزیں ہم نے صرف حدیث کی کتابوں ہی سے نہیں جانی ہیں، بلکہ جیساکہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے، مختلف طریقوں سے اور اتنے مختلف طریقوں سے جانی ہیں کہ ان کا انکار کرنا یا ان کو مشتبہ اور مشکوک ٹھہرانا بالکل بداہت کا انکار اور ایک ثابت اور قطعی حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ حدیث کی کتابوں کا احسان یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے یہ چیزیں تحریر میں بھی آگئیں اور اس طرح تحریر میں آگئیں کہ انسانی ہاتھوں سے انجام پائے ہوئے کسی کام میں زیادہ سے زیادہ جو احتیاط ممکن تھی وہ ان کے ضبط و تدوین کے معاملہ میں ملحوظ رکھی گئی۔
اب اگر کچھ لوگ ان چیزوں میں سے بھی کسی چیز کو یا ساری ہی چیزوں کو اس لیے نہیں مانتے کہ ان کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے تو ان کے لیے قرآن کو بھی ماننے کے لیے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن بھی اگر ثابت ہے تو تواتر ہی سے ثابت ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اور سنت عملی تواتر سے۔ اگر یہ عملی تواتر کسی کے نزدیک مشتبہ اور مشکوک ہے اور اس کو کسی عربی یا عجمی سازش کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے تو کل کو ایسے شخص کے لیے اس قولی تواتر کے جھٹلا دینے میں کیا چیز آڑے آ سکتی ہے؟
رہا یہ اعتراض کہ سنت کے بارے میں اختلاف ہے تو یہ اختلاف بھی ہرگز سنت کے انکار کے لیے کوئی بہانہ نہیں بن سکتا۔ آخر سنت کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟ کیا اس امر میں کسی کو اختلاف ہے کہ سنت اسلامی قانون کا ماخذ ہے؟ اس چیز سے تو سلف سے لے کر خلف تک بعض گمراہ افراد اور ایک آدھ گمراہ فرقوں کے سوا کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت متفق ہے۔ حد یہ ہے کہ اصولی حیثیت سے اس پر شیعہ حضرات بھی متفق ہیں۔ ان کو اگر اختلاف ہے تو سنت کے ماخذ قانون ہونے میں نہیں ہے، بلکہ اس کے ثابت ہونے کے ذرائع میں ہے۔
اس متفق علیہ حقیقت کے بعد اگر سنت کے معاملہ میں کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف ایسا ہے جو دنیا کی ہر چیز میں ہے اور ہو سکتا ہے اور شاید یہ اس کائنات کی فطرت ہے کہ اس طرح کااختلاف ہر چیز میں ہو۔ اگر اس طرح کا اختلاف ہر چیز میں ہم گوارا کرتے ہیں تو آخر سنت ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ اس میں اگراس قسم کا اختلاف پایا جائے تو اس کو وجہ انکار و تکذیب بنا لیا جائے۔
مثلاً سنت کی بعض جزئیات میں اختلاف روایات کے سبب سے تعینِ اشکال کا اختلاف ہوتا ہے۔ روایتوں کے اختلاف کے سبب سے کسی فقہی مسلک کے لوگ کسی شکل کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے مسلک کے لوگ کسی اور شکل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ترجیح کے لیے ہر ایک کے پاس کچھ دلائل ہوتے ہیں ان دلائل کی روشنی میں ایمان داری کے ساتھ جانچ کر کوئی شخص جس مسلک کو بھی اختیار کرتا ہے وہ اس میں حق پر ہے اور ان شاء اللہ وہ اتباع سنت کا اجر پائے گا۔ اگر معاملے کا تعلق اجتماعی و سیاسی زندگی سے ہے تویہی روش اس طرح کے اختلاف کو حل کرنے کے لیے امت کے اربابِ حل و عقد اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر ترجیح و اختیار کی بنیاد دلائل پر ہو گی، اس میں اتباعِ ہوا کو دخل نہ ہو گا، تو جو راہ بھی اختیار کی جائے گی اسی میں اللہ کی رضا ہے اور وہ راہ ان شاء اللہ سنت کی راہ ہے۔ اس طرح کا کوئی جزوی اختلاف ہرگز ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر کوئی شخص سنت کے خلاف زبان درازیاں شروع کر دے۔
دوسرا اختلاف تعیین درجات کا ہو سکتا ہے کہ فلاں سنت۱ کا مقام اور درجہ دین میں کیا ہے؟ اس کا اختیار کرنا کس مرتبہ میں مطلوب ہے اور اس کے ترک سے کس درجے کی خرابی واقع ہوتی ہے؟ یہ اختلاف بھی کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے جو سنت ہی کے ساتھ مخصوص ہو۔ اس طرح کا اختلاف قرآن کے کسی امرو نہی سے متعلق بھی پیدا ہو سکتا ہے اور پیدا ہوا ہے۔ اگر اس قسم کے کسی اختلاف کے سبب سے قرآن سے مایوس ہو جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے تو سنت سے بھی مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان تمام اختلافات کے لیے بھی اختلاف کرنے والوں کے پاس وجوہ اور دلائل ہوتے ہیں۔ ان دلائل کی روشنی میں جانچ کر جو فیصلہ بھی کوئی شخص یا کوئی جماعت کرے، اگر اس فیصلہ میں خواہش نفس کی پیروی یا تعصب کا کوئی دخل نہیں ہے، تو اس پر ان شاء اللہ اس کو اتباع سنت ہی کا اجر ملے گا۔
اسی طرح ایک اختلاف اخبارِ آحاد کے بارے میں بھی پایا جاتا ہے۔ متواتر اور مشہور احادیث کے معاملہ میں تو سب متفق ہیں کہ یہ سنت کے معلوم کرنے کا قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔ لیکن اخبار آحاد کے معاملہ میں فقۂِ حنفی اور فقۂِ مالکی کے پیرو فقۂِ شافعی کے پیروؤں سے مختلف نقطۂِ نظر رکھتے ہیں۔ فقۂِ حنفی کے پیروان معاملات میں اخبارِ آحاد کے قبول کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں جن کا تعلق عام لوگوں کی زندگی سے ہو۔ اس کی وجہ احادیث پر بے اعتباری نہیں ہے بلکہ سنت کے معاملہ میں ان کی احتیاط ہے۔ ان کا نقطہۂ نظر یہ ہے کہ اگر کسی معاملے کا تعلق عام ضرورت سے ہے تو اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مختلف طریقوں سے نقل ہونی چاہیے اگر ایسا نہیں ہوا ہے، بلکہ ایک ہی ذریعے سے نقل ہوئی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ راوی سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہو۔ اپنے اس نظریے کی بنا پر بعض اوقات وہ کسی مضبوط بنیاد پر قیاس کو اس طرح کی حدیث پر ترجیح دے دیتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس امام مالک اگر کسی معاملہ میں خبر واحد کو اہل مدینہ کے عمل کے خلاف پاتے ہیں تو اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مدینہ صحابہ کا مرکز تھا۔ ان کا کسی عمل پر اتفاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانے کے لیے کسی راوی کی روایت کے مقابل میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے مقابل میں شافعیہ خبر آحاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر کسی معاملہ میں قولِ رسول موجود ہے تو اس کی روایت میں ضعف کے بعض امکانات تسلیم کرنے کے باوجود وہ دوسروں کے قیاس اور عمل پر بہرحال ترجیح پانے کا مستحق ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں مسلک سنتِ رسول کے احترام و اہتمام کے نقطۂ نظر سے بالکل مساوی درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی سپرٹ یہی ہے کہ سنت رسول اختیار کی جائے اور پوری احتیاط کے ساتھ اختیار کی جائے۔ اس احتیاط ہی نے یہ تین الگ الگ مسلک پیدا کر دیے۔ ہم بجائے اس اختلاف کو سنت یا حدیث کی بے اعتباری کی ایک دلیل بنائیں ہمیں ان تینوں مسلکوں کی روح دیکھنی چاہیے اور جس دیانت اور جس احترامِ سنت کو ہم پیش نظر رکھ کر ان میں سے کسی مسلک کو اختیار کریں گے، ان شاء اللہ وہی سنت کا راستہ ہو گا اور اس کے اختیار کرنے میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی۔
اس ذیل میں یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جو احادیث احکام و قوانین یا بالفاظ دیگر سنت سے تعلق رکھنے والی ہیں محدثین نے دوسری نوعیت کی احادیث کے مقابل میں ان کی چھان بین زیادہ کی ہے اور فقہا کا تو کہیے کہ موضوع بحث ہمیشہ احکامی احادیث ہی رہی ہیں، اس وجہ سے انھوں نے عقل و نقل اور روایت و درایت کی ہر کسوٹی پر ان کو اچھی طرح جانچا پرکھا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ حدیث کی کتابوں میں ایک آدھ ایسی حدیثیں بھی ملتی ہیں جو ایک شخص کی سمجھ میں نہیں آتیں یا اس کو وہ بعید از عقل و قیاس معلوم ہوتی ہیں یا ان کی زد، اس کے خیال میں، اسلام کے کسی اصول میں پڑتی ہے تو اس کو چاہیے کہ ان کی تاویل کرے اگر کوئی تاویل بن سکے۔ اگر تاویل نہ ہو سکے تو ان کے بارہ میں خاموشی کی روش اختیار کرے، ممکن ہے ان کا صحیح پہلو اس کے سامنے نہ آرہا ہو۔ اگر خاموشی کی روش بھی اختیار نہ کر سکے تو اپنے اعتراض کو اسی حدیث یا انھی احادیث تک محدود رکھے جن کے اندر کسی واضح خرابی کی وہ نشاندہی کر سکتا ہے یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ آدمی خرابی تو دو چار حدیثوں میں دکھائے، لیکن اس کی آڑ میں مطعون سارے ذخیرہ احادیث کو کرے۔ حدیث کی مستند سے مستند کتابوں کی بعض حدیثوں پر اہل علم نے پہلے بھی تنقیدیں کی ہیں لیکن کسی معقول آدمی نے یہ حرکت کبھی نہیں کی کہ وہ ان قابل تنقید حدیثوں کی بنا پر سارے ذخیرہ احادیث ہی کو سو ختنی قرار دے دے۔ یہ حرکت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یا تو علم کے ان بیش بہا خزانوں سے بالکل بے خبر ہیں جو احادیث کی کتابوں کے اندر موجود ہیں، یا ان کو ایمان اور ہدایت کے راستے سے شیطان کی طرح بیر ہے۔
________
۱۔ یہ ملحوظ رہے کہ میں نے یہاں سنت کا لفظ فقہی اصطلاح کی حیثیت سے فرض یا واجب کے مقابل میں نہیں استعمال کیا ہے، بلکہ اس کے اصل شرعی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔
____________