اس بات پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ اسلامی قانون کا پہلا ماخذ کتابِ اللہ ہے لیکن بعض لوگوں نے اب اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ اسلامی قانون کا واحد ماخذ کتابُ اللہ ہے۔ یہ بات صریحاً غلط ہے۔ قرآن اسلامی قانون کا واحد ماخذ نہیں ہے، بلکہ سب سے اہم اور سب سے مقدم ماخذ ہے۔ قرآن خود اس بات کا مدعی نہیں ہے کہ وہی تنہا ماخذِ قانون ہے، بلکہ وہ جس طرح اپنی پیروی اور اطاعت پر زور دیتا ہے اسی طرح رسول کی پیروی اور اطاعت پر بھی زور دیتا ہے اور صاف الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ رسول تمھیں جس بات کا حکم دیں اس کو کرو اور جس بات سے روکیں اس سے رک جاؤ۔ اسی طرح اجتہاد اور عرف و مصلحت وغیرہ کا اسلامی قانون میں جس حد تک اعتبار ہے قرآن اس کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن کے اولین ماخذِ قانونِ اسلامی ہونے کا صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہدِ مبارک میں یہ اثر تھا کہ ان کے اندر سب سے زیادہ عزت و احترام کے مستحق وہی لوگ سمجھے جاتے تھے جو قرآن کے علم و فہم میں سب سے زیادہ ممتاز تھے۔ مجال نہیں تھی کہ کوئی مسئلہ دین و شریعت سے متعلق اٹھے اور یہ سوال سب سے پہلے ہر شخص کے سامنے نہ آئے کہ اس بارے میں کتابُ اللہ کیا رہنمائی دیتی ہے۔ جب تک یہ بات طے نہیں ہو جاتی تھی کہ اس امر میں کتابُ اللہ خاموش ہے اس وقت تک کسی دوسری چیز کی طرف رجوع کرنے کا سرے سے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
قرآن سے قانون اور اصول زندگی اخذ کرنے کے مدعی تو اس زمانہ میں بہت سے پیدا ہو گئے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قرآن سے قانون اخذ کرنا اتنا سہل نہیں ہے جتنا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے لیے کچھ شرطیں ہیں جو ہر شخص پوری نہیں کر سکتا اور جو شخص یہ شرطیں پوری نہیں کر سکتا وہ اگر قرآن کا مفسر بھی بن بیٹھے گا تو وہ اللہ کے دین کو بازیچۂِ اطفال بنانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں کر سکے گا۔ مَیں ان شرطوں کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
۱۔ جو شخص قرآن کا مطالعہ فقہی اور قانونی نقطہ نظر سے کرنا چاہے اسے سب سے پہلے یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید قانون اور فقہ کی کتابوں کے طرز پر مرتب نہیں ہے بلکہ اس کی ترتیب ایک دوسرے اصول پر مبنی ہے۔ اس کے اندر عقائد، ایمانیات، اخلاق، موعظت، قصص اور امثال سب ملے جلے بیان ہوتے ہیں۔ ان مختلف اقسام کی چیزوں کے اندر سے ان چیزوں کو چھانٹنا جو قانونی قدرو قیمت رکھتی ہیں اور ان کا صحیح درجہ متعین کرنا ہر شخص کے بس کا کام نہیں ہے یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو قرآن کے ان سارے پہلووں سے واقف ہو اوردین میں ان میں سے ہر چیز کا جو مقام ہے اس کو جانتا ہو۔ قرآن کا لفظ لفظ دریائے معانی ہے اور قانون میں ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کی جو اہمیت ہوتی ہے وہ معلوم ہے، جو شخص قرآن کے ان رنگا رنگ جلوؤں میں امتیاز نہ کر سکتا ہو اور اس کے ایک ایک لفظ کا پورا پورا حق ادا نہ کر سکتا ہو اس کے لیے اس سے قانون اخذ کرنا اور اس کے حدود کو صحیح صحیح متعین کرنا ناممکن ہے۔
۲۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اس کام کے لیے قرآن کی زبان کا کما حقّہٗ علم ضروری ہے۔ صرف عام مروجہ عربی زبان کا علم نہیں۔ بلکہ اس زبان کا علم جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے۔ جو لوگ قرآن کے زمانہ نزول کے عربی ادب کے ذوق آشنا نہیں ہیں ان کے لیے قرآن کی بہت سی خوبیوں اور باریکیوں کو سمجھنا ناممکن ہے۔ بالخصوص قانون میں چونکہ حروف، الفاظ، اسلوب، ترکیب اور تقدیم و تاخیر، ہر چیز کی جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے، اہمیت ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کے لیے قرآن کا وہ مطالعہ ہرگز کافی نہیں ہوتا جو اس کے ترجموں یا تفسیروں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ترجموں اور تفسیروں کی مدد سے جو مطالعہ کیا جاتا ہے وہ صرف حصولِ برکت یا زیادہ سے زیادہ اس مقصد کے لیے ہو سکتا ہے کہ آدمی قرآن کی عام تعلیم و ہدایت اور عام موعظت و نصیحت سے کچھ فائدہ اٹھالے۔ یہ مطالعہ تحقیق و تدقیق اور حکمت کے نکات سمجھنے کے لیے ہرگز کارآمد نہیں ہے۔ اس زمانے میں قرآن حکیم پر یہ ظلم عام ہے کہ جو لوگ اس کی زبان کی ابجد تک سے ناآشنا ہیں وہ اس کی تفسیریں لکھ رہے ہیں اور جو لوگ اس کی آیات کی صحیح طور پر تلاوت بھی نہیں کر سکتے وہ اس کے نکتے بیان کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان نکات تک ان کے سوا نہ سلف میں سے کسی کی رسائی ہوئی اور نہ خلف میں سے کوئی ان کو پا سکا۔
۳۔ تیسری چیز یہ ہے کہ آدمی ملتِ ابراہیمی کے بقایا، عرب کے معروف و منکر، ملت موسوی اور ملت عیسوی کے احکام و قوانین سے بھی فی الجملہ واقف ہو۔ ان چیزوں سے ایک حد تک باخبر ہونا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن ان میں سے بعض کی تصدیق کرتا ہے بعض کی تردید کرتا ہے بعض کو نظر انداز کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور بعض کو ترقی دیتا ہے۔ اگر آدمی ان سے واقف نہ ہو تو نہ قرآن کی ترمیمات و اصطلاحات کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کر سکتا ہے اور نہ دین کامل کے احکام و قوانین میں جو حکمتیں ہیں ان کو صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے۔ اسی چیز سے دین میں نسخ کی ضرورت اور اس کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اس چیز نے درحقیقت دین کی تدریجی ترقی کے تقاضوں ہی کے تحت دین میں جگہ پائی ہے۔
۴۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت سے باخبر ہو کر اسلامی معاشرے کی تدریجی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون کس طرح درجہ بدرجہ ظہور میں آیا ہے۔ اسلامی شریعت کی اس تدریج سے جو شخص واقف نہ ہو وہ نہ صرف اس کے نظام میں بہت سی حکمتوں سے واقف نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ اس کے نفاذ کے بہت سے عملی تقاضوں کو بھی سمجھ نہیں سکتا۔ جو لوگ کسی بگڑے ہوئے معاشرے میں اس کو از سرنو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں وہ اگر اسلامی قانون کی اس ترتیب اور تدریج سے اچھی طرح واقف نہ ہوں تو بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے سر کو اس جگہ رکھ دیں جس جگہ ان کا پاؤں ہونا چاہیے اور اس کے پاؤں کو اس جگہ رکھنے کی کوشش کریں جہاں اس کا سر ہونا چاہیے تھا اور اس طرح اپنی اس بے تدبیری کی بدولت اس کے نفاذ ہی کو ناممکن بنا دیں۔
____________