ایک عزیز دوست نے اپنے گرامی نامہ میں یہ شکوہ کیا ہے کہ لاہور سے علما کی ایک جماعت کی طرف سے آئین کمیشن کے سوالنامے کا جو جواب شائع ہوا ہے اس پر میں نے صرف ضد اور انانیت کے سبب سے دستخط نہیں کیے۔ اگر ضد اور انانیت کا سوال نہ ہوتا تو میں اس جواب پر ضرور دستخط کر دیتا۔ میں اپنے نفس کو برائیوں اور کمزوریوں سے پاک قرار نہیں دیتا۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوء۔ لیکن اس معاملے میں میں اپنے نفس کو پوری احتیاط کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد اللہ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اس میں ضد اور انانیت کو کوئی دخل نہیں بلکہ صرف دیانت دارانہ اختلاف رائے کو دخل ہے۔ میں ایمانداری کے ساتھ غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس جواب کے اکثر حصے سے چونکہ میں اتفاق نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے مجھے اپنا جواب الگ بھیجنا چاہیے۔ اول تو یہی بات بڑی معیوب ہے کہ اگر کسی شخص سے کسی ایک معاملے میں مجھے اختلاف ہو تو میں اس کی ہر بات سے خواہ وہ صحیح ہو یا غلط اختلاف کرنے کی بیماری میں مبتلا ہو جاؤں، اس بیماری میں کوئی شامت زدہ آدمی ہی مبتلا ہو سکتا ہے جس شخص میں معقولیت کا ذرا بھی شائبہ ہو گا وہ خدا سے اتنا بے خوف کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن کوئی صاحب اگر مجھے ایمان اور دیانت سے اتنا ہی خالی سمجھتے ہیں تو وہ للہ اس بات پر غور فرمائیں کہ یہ معاملہ کسی ایک شخص کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس اجتماع کی دعوت دینے والوں اور اس کے شرکاء میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو میری نگاہوں میں بڑی قدرو عزت کا مقام رکھتے ہیں۔ اس کے شرکا اور داعیوں میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہ تھے جن کی میں صرف عزت ہی نہیں کرتا بلکہ ان سے نہایت گہری عقیدت رکھتا ہوں اور وہ میرے حال پر بزرگانہ شفقت فرماتے ہیں۔ پھر اس کے شرکا اور داعیوں میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب تھے جن کی میں نہایت کرتا عزت ہوں اور انھوں نے مجھ پر ہمیشہ کرم فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے شرکا اور داعیوں میں مولانا سید داؤد غزنوی صاحب تھے جن سے میرے دیرینہ نیاز مندانہ روابط ہیں۔ ان محترم بزرگوں کی کسی رائے سے اختلاف کرنا تو میرے لیے ممکن ہے اس لیے کہ دینی اور سیاسی معاملات میں ایک آدمی اپنے بزرگوں اور مخدوموں سے بھی اختلاف کر سکتا ہے لیکن اگر ان کے خلاف میرے اندر ضد اور عناد کا کوئی جذبہ پیدا ہو جو مجھے ان کی صحیح باتوں سے بھی اختلاف پر آمادہ کر دے تو میں اس چیز کو اپنی انتہائی بدقسمتی سمجھتا ہوں۔ میں ان حضرات کو مذہب اور قوم سے محبت کرنے والا سمجھتا ہوں۔ ان کے خلوص نیت پر اعتماد رکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود اپنا یہ فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ان کی کوئی بات میری سمجھ میں نہ آئے تو میں اس کو تسلیم کرنے سے انکار کردوں، اگرچہ دوسروں کی نظر میں ان کی رائے کے بالمقابل میری رائے کتنی ہی غلط اور کمزور ہو۔ میں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال نہیں رکھتا کہ ان سوالوں کے جواب میں جو رائیں میں نے ظاہر کی ہیں وہ غلط نہیں ہو سکتیں۔ میں ان کو صرف اپنے علم اور اپنی عقل کی حد تک صحیح سمجھتا ہوں اور عند اللہ میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں ہر حال میں صرف وہی بات کہوں جو میرے علم اور میری عقل کی کسوٹی پر پوری اترتی ہو۔ دوستوں کو چاہیے کہ وہ جس طرح اپنی کسی رائے کو نیک نیتی اور دیانت پر مبنی سمجھتے ہیں اسی طرح میری رائے کو بھی نیک نیتی اور دیانت پر محمول کریں اور اگر وہ کسی بات کو قبول کر سکیں تو اس کو قبول کر لیں اگر نہ قبول کر سکیں تو اس کو رد کر دیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو بدگمانی کے فتنے میں مبتلا نہ کریں۔ کیا معلوم کہ میرے جیسا کمزور اور گناہگار انسان بھی کل کو خدا کے سامنے کسی معاملے میں نیک نیت ثابت ہو جائے۔
اس سلسلے میں بعض دوستوں نے اتفاق و اتحاد کی اہمیت اور ضرورت پر بھی بہت زور دیا ہے مجھے اتفاق و اتحاد کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں ہے لیکن میں نہایت ہی ادب کے ساتھ یہ کہوں گا کہ اگر اتفاق و اتحاد کی ضرورت و اہمیت ان بزرگوں کے سامنے بھی اتنی ہی ہوتی جتنی فی الواقع ہونی چاہیے تھی تو میں توقع کرتا ہوں کہ ان سوالوں کا ایک ایسا جواب نہایت آسانی سے تیار ہو سکتا تھا جس کو اس ملک کے تمام علما کی اگر نہیں تو ان کی اکثریت کی تصدیق و تصویب تو ضرور حاصل ہو جاتی اور یہ چیز فی الواقع ایک موثر اور مفید چیز ہوتی۔ لیکن جب اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی بلکہ اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل رہی جنھوں نے اپنے اپنے جوابات اپنے ہی طور پر بھیجے اور گمان غالب ہے کہ ان کے جوابات اس جواب سے مختلف بھی ہوں گے تو آخر اس سے میرا ہی الگ ہو کر کوئی جواب لکھنا کیوں قابل اعتراض ٹھہرے۔ بالخصوص جب کہ میرے جوابات کسی پہلو سے دین کے محاذ کو کمزور کرنے والے نہیں ہیں بلکہ میں نے بلالحاظ اس کے کہ آئین کمیشن کے ارکان کیا قبول کریں گے اور کیا نہیں قبول کریں گے۔ ہر سوال کے جواب میں بے کم و کاست وہ کچھ بیان کر دیا ہے جو میرے نزدیک دین کا تقاضا ہے۔
ایک اور حقیقت بھی ظاہر کردینا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ جس کے اظہار کا وقت شاید آ گیا ہے وہ یہ کہ ہمارا یہ خیال نہیں ہے کہ اسلام کے بارے میں ہمارے اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے درمیان ایمان اور عقیدے کا کوئی اختلاف ہے وہ بھی بار بار اسلام کا نام لیتے ہیں اور ہم بھی اسلام چاہتے ہیں۔ بالخصوص صدر ریاست فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے تو نہ صرف اصولاً بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق تفصیلاً مختلف مواقع پر جو کچھ کہا ہے اس سے ہم نے یہی سمجھا ہے کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اسلام ہی کی رہنمائی میں کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے نوجوانوں کو الحاد و بے دینی سے روکنے، عورتوں کو بے پردگی اور بے حیائی سے احتراز کرنے اور اپنے ملک کے عوام و خواص کو احکام اسلام کی پابندی کی جو نصیحتیں کی ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ اس ملک کے دستور سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ابھی کل کی بات ہے کہ انھوں نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی زندگی اور ان کی حکومت کا حوالہ دیا ہے۔ ان باتوں سے ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک کی اجتماعی زندگی کی تشکیل میں اسلام کو وہی اہمیت وہ بھی دینا چاہتے ہیں جو اس کو ہم دینا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے اسلام سے متعلق ہمارے اور ان کے عقیدے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اختلاف جو کچھ ہے وہ عملی مسائل میں اسلام کی تطبیق کے بارے میں ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ یہ اختلاف بہت نمایاں اور بین ہے۔ یہ اتنا نمایاں اور بین ہے کہ بعض اوقات یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید ہمارے اور ان کے مابین نظریے کا اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اختلاف بڑے دور رس نتائج رکھتا ہے۔ اس کے سبب سے ذہنوں اور دماغوں کے اندر ایک کشمکش پائی جاتی ہے جس کا دور ہونا حکومت، عوام اور ملک کے دینی طبقات کی یک جہتی کے لیے ضروری ہے جو لوگ اس کشمکش کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہم ان کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جتنی توجہ حکومت نے اس ملک کے دوسرے اہم مسائل کی طرف کی ہے اس سے کہیں زیادہ توجہ کا مستحق یہ مسئلہ ہے۔ اسی کے حل سے اس ملک کو حقیقی استحکام حاصل ہو گا اسی سے یہ ملک صحیح معنوں میں ایک اسلامی ملک بنے گا اور ہمارے کمیونزم کے سیلاب کو بھی اگر کوئی چیز روک سکے گی تو یہی چیز روک سکے گی۔ کمیونزم نے اپنی جو شکل اب جاپان میں دکھائی ہے اس سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ مضبوط ایمان کے بغیر کوئی چیز ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
لیکن اس کشمکش کو دور کرنے کی شکل کیا ہے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زمانے کی ترقی اور حالات کی تبدیلی سے یہ کشمکش آپ سے آپ دور ہو جائے گی۔ لیکن ہم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسلام کوئی وہم نہیں ہے کہ مزعومہ ترقیوں کی روشنی اس وہم کو دور کر دے گی۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے خیال سے بھی اتفاق نہیں کرتے جو ثقافت اسلامیہ وغیر جیسے اداروں کے نوتصنیف مذہب سے لگائے بیٹھے ہیں کہ قدیم و جدید کے درمیان کی اس خلیج اختلاف کو وہ پاٹ سکے گا۔ اس قسم کے اداروں کی کوششیں کچھ خام قسم کے نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شکوک میں ضرور مبتلا کر دیں گی لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ طاقت کے استعمال کا ظاہر ہے کہ اس طرح کے معاملات میں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دنیا کے تجربات گواہ ہیں کہ طاقت ذہنوں اور دلوں کی تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ کمزور ہتھیار ہے۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کا اگر کوئی صحیح حل ہے تو یہ ہے کہ ہماری حکومت کے ذمہ دار حضرات کوئی ایسی مناسب شکل اختیار کریں جس سے ایک مرتبہ اس ملک کے قابل اعتماد علما سے انہیں براہ راست تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ان مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملے جن کے بارے میں ان کا اور دینی طبقات کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے الگ الگ ہے۔ یہ مسائل تعداد میں زیادہ نہیں ہیں لیکن ایک ذہنی کشمکش کا باعث ہیں اور کشمکش ہی کو ان کے حل کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے یہ بہتر ہو گا کہ تفہیم و تفاہم کو ان کے حل کا ذریعہ بنایا جائے۔
یہ بات ہم اس حسن ظن کی بنا پر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نزدیک اسلام کے بارے میں حکومت اور مذہبی طبقات کے درمیان جو فرق ہے وہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا عقید کا نہیں ہے بلکہ عملی زندگی کا اس کے انطباق کا ہے۔ اسی طرح ہم اس معاملے میں نیت اور ارادے کا بھی کوئی فساد نہیں محسوس کرتے۔ بلکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ چونکہ دونوں طبقات کی تعلیم و تربیت الگ الگ طریقوں پر ہوئی ہے اس وجہ سے دونوں کا زاویہ نگاہ مختلف مسائل میں الگ الگ ہو گیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ یہ اختلاف کوئی معمولی اختلاف نہیں ہے جس کو آسانی سے دور کیا جا سکے لیکن جہاں مذہب کے بارے میں اصولی طور پر اتفاق رائے موجود اور نیتوں میں کوئی فساد موجود نہ ہو وہاں تفہیم و تفاہم کی کامیابی کے بڑے امکانات ہیں۔ بشرطیکہ یہ حقیقت ہر ایک پر واضح ہو کہ کشمکش کی راہ نہ ملک کے لیے مفید ہے نہ مذہب کے لیے نہ حکومت کے لیے نہ جمہور کے لیے۔ علاوہ ازیں مذہب کے ترجمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن مسائل کا تعلق براہ راست اسلام سے نہیں ہے ان کو وہ اپنی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ اس سے بلاوجہ بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔
____________