HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آئین کمیشن کے سوالنامے کے جوابات (حصہ دوم)

سوال نمبر۳۔

مذکورہ بالا سوالات کے بارے میں آپ جن نتائج تک پہنچے ہیں ان کی روشنی میں:

۱۔ کیا آپ پارلیمانی نظام حکومت کو ترجیح دیتے ہیں یا صدارتی طرز حکومت کو؟

۲۔ کیا آپ وحدانی طرز حکومت کے حق میں ہیں یا وفاقی طرز حکومت کے حق میں؟

جواب:

اسلامی نظام حکومت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو پالیمانی نظام حکومت ہو یا صدارتی طرز حکومت ان میں سے کوئی نظام حکومت بھی ایسا نہیں ہے جس کو ہم بعینہٖ اپنے لیے اختیار کر سکیں۔ ان دونوں کے اندر خوبیاں بھی ہیں اور نقائص بھی لیکن ہمارے دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ساتھ ان کا میل ہے یا نہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ساتھ ان میں سے کسی کا بھی میل نہیں ہے۔ اسلامی نظام حکومت کی روشنی میں ان پر مفصل تنقید کے لیے تو اس مختصر جواب نامہ میں گنجائش نہیں ہے لیکن ان دونوں کے اندر اسلامی پہلو سے جو بڑے بڑے نقص ہیں ہم بالا جمال ان کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں۔

پہلے پارلیمانی نظام حکومت کو لیجیے:

اس نظام میں عملاً ٰتو تمام اختیارات وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو حاصل ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی لازماً اس میں ایک نمائشی صدر حکومت یا بادشاہ بھی ہوتا ہے جو وزرا کا تقرب اور ریاست کے بعض دوسرے رسوم ادا کرتا اور ادا کرواتا ہے۔ اسلامی نظام میں اس قسم کے کسی نمائشی گڈے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے جو صدر ریاست یا خلیفہ ہوتا ہے اس کو وہ تمام حقیقی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو حکومت کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ اسلامی نظام پارلیمانی نظام کی اس غیر فطری ثنویت سے بالکل پاک ہے اور اس کا مزاج کسی شکل میں بھی اس چیز کو قبول نہیں کر سکتا۔

اس میں دوسری خرابی اسلامی نقطہ نظر سے ہے کہ نظام درحقیقت پارٹی گورنمنٹ سسٹم ہے۔ جو پارٹی لیجسلیچر کے اندر اکثریت حاصل کر لیتی ہے۔ ریاست کا نمائشی صدر یا بادشاہ اس کے لیڈر کو حکومت بنانے اور چلانے پر مقرر کرتا ہے۔ اکثریت کی پارٹی کا لیڈر وزیر اعظم بنتا ہے۔ وہ اس وقت تک حکومت کرتا ہے جب تک اس کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل رہے۔ یہ پارٹی سسٹم نہ ہو تو یہ نظام حکومت نہیں چل سکتا۔ لیکن اسلامی نظام اس پارٹی سسٹم کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ:

یہ پارٹی سسٹم اصولاً اسلامی نظام حکومت کے مزاج کے بالکل خلاف ہے۔ اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کو اپنے نظام حکومت کی بنیاد بنانے کے بجائے اس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔

اسی طرح وہ صدارتی طرز حکومت بھی جو امریکہ میں رائج ہے اسلام کے طرز حکومت کے بالکل خلاف ہے۔

اول تو عاملہ اور مقننہ کے درمیان اس قسم کی حد بندی جس قسم کی حد بندی صدارتی نظام میں ضروری سمجھی گئی ہے اسلام کے مزاج کے بالکل خلاف ہے۔ اسلام میں خلیفہ قانون سازی (جس حد تک قانون سازی میں انسانوں کا دخل جائز ہے) کے معاملات میں براہ راست حصہ لے سکتا ہے۔ وہ جو قانون مفید سمجھے۔ شرعی حدود کے اندر اس کو اپنی شوریٰ کے سامنے پیش کر سکتا ہے اور اگر ضرورت محسوس کرے تو وہ مجلس قانون ساز کے سامنے اپنے نقطہ نظر کی تائید میں لمبی تقریر بھی کر سکتا ہے۔

ثانیاً صدارتی نظام میں ایک مرتبہ صدر کے منتخب ہو جانے کے بعد اس کی مقررہ مدت صدارت تک کے لیے جو آزادی و بے قیدی اور جو غیر مسؤلیت اس کے لیے تسلیم کر لی گئی ہے اسلام اس کو ایک لمحہ کے لیے بھی تسلیم نہیں کرتا صدارتی نظام میں جب ایک مرتبہ صدر بن گیا تو اس کے زمانۂ صدارت کے اندر کوئی اس کو اس کی جگہ سے ہلا نہیں سکتا اگرچہ ملک کا ایک ایک ووٹر مطالبہ کر رہا ہو۔ کہ اس کو ہٹایا جائے۔ مجلس قانون ساز اس کے غلط سے غلط اقدام پر بھی گرفت کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کر سکتی ہے تو بس یہ کہ اس کے راستے میں کچھ رکاوٹیں پیدا کرے اور اڑنگے ڈالے، لیکن ان رکاوٹوں اور اڑنگوں سے صدر کی مطلق العنائی میں تو مشکل ہی سے کوئی فرق پیدا ہوتا ہے البتہ ملک کی سیاسی زندگی میں بہت سی ناہمواریاں اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

اسلام خلیفہ کے لیے اس قسم کی غیر مسؤلیت ایک لمحہ کے لیے بھی جائز تسلیم نہیں کرتا۔ اگر آج خلیفہ کا انتخاب ہوا اور کل اس کے منتخب کرنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص اس منصب کے لیے نااہل ہے تو وہ اس کو معزدل کر سکتے ہیں کم از کم قانون میں اس معزدلی کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔

یہ چند باتیں ہم نے محض بطور اشارہ عرض کی ہیں ورنہ یہ دونوں نظام مختلف پہلوؤں سے اسلامی نظام سے اس قدر بے جوڑ ہیں کہ اگر پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا کوئی ارادہ ہو تو ان میں سے کسی کے اختیار کرنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۲۔ وفاقی یا وحدانی نظام حکومت کے جہاں تک جواز کا تعلق ہے دونوں ہی اسلام میں جائز نہیں سوال جو کچھ ہے وہ صرف ہمارے مصالح کا ہے۔ ہمارے مصالح ان میں سے جس نظام کے لیے متقاضی ہوں وہ بر بنائے مصالح اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا رجحان وحدانی طرز حکومت کی طرف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی طرز حکومت کے جو فوائد گنائے جاتے ہیں وہ تو یہاں مطلوب نہیں ہیں اور اس کے جو نقصانات ہیں ان کے نہایت تلخ تجربات ہم کر چکے ہیں۔ مقامی مفادات و رجحانات میں سے کوئی چیز بھی ایسی ہمارے علم میں نہیں ہے جس کی کوئی حقیقی اہمیت ہو۔ اس وجہ سے ملک کے استحکام کو خاص میلانات و رجحانات پر ترجیح دینی چاہیے۔ اگر کچھ مقامی مفادات (Interests) ایسے نظر آئیں جو واقعی ہوں اور جن کو وحدانی طرز حکومت میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ان کے لیے وہ تدبیریں اختیار کی جائیں جو ایک وحدانی نظام حکومت میں بھی اختیار کی جا سکتی ہیں۔

سوال نمبر۴۔

اگر آپ پارلیمانی طرز حکومت کی سفارش کرتے ہیں تو آپ حکومت کے استحکام کے لیے اور اس کے ساتھ پارٹی پالنکس کی بنا پر روزمرہ کے انتظامی امور میں بے جا مداخلت کی موثر روک تھام کے لیے کیا تدابیر تجویز کرتے ہیں۔

جواب:

اس سوال کے جواب کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ہم نے اس طرز حکومت کی سفارش نہیں کی ہے ہمارے نزدیک اس طرز حکومت کو سلامتی کے ساتھ چلانے کی کوئی تدبیر بھی ممکن نہیں ہے۔ صرف انگریزوں کے لیے اس کو کامیابی سے چلانا ممکن ہوا ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ سیاست میں بڑے ٹھنڈے مزاج کے اور بڑے ہی روایت پرست واقع ہوئے ہیں۔

سوال نمبر ۵۔

چونکہ صدارتی طرز حکومت میں اختیارات منقسم ہوتے ہیں اور اس تقسیم اختیارات کی وجہ سے انتظامیہ اور مقننہ ایک دوسرے سے آزاد رہ کر کام کرتی ہیں۔ اس لیے ایک ایسا طریق کار اختیار کرنا ضروری ہے جس سے حکومت کے مختلف شعبوں کے درمیان موافقت پیدا ہو اور تعطل رونما نہ ہونے پائے۔

اگر آپ صدارتی طرز حکومت پسند کرتے ہیں تو پھر کیا آپ کے نزدیک روک تھام اور توازن کا وہی نظام جو امریکی دستور میں قائم کیا گیا ہے ہماری ضروریات کو بھی پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ خصوصاً مطالبات زر، خارجی تعلقات، وزراء و سفراء اور انتظامیہ اور فوج کے اونچے عہدے داروں کے تقرر کے معاملے میں۔ یا آپ اس میں کس قسم کی ترمیم کے خواہاں ہیں۔

جواب:

اوپر سوال نمبر ۳ کے جواب میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہم اس نظام کو اسلام سے بے جوڑ سمجھتے ہیں اس وجہ سے ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔

سوال نمبر۶۔ اگر آپ وحدانی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو براہ کرم ان تبدیلیوں کی نشان دہی کیجیے جو آپ کے نزدیک موجودہ انتظامی ڈھانچے میں کرنی ہوں گی۔

جواب:

اس سلسلے میں خاص چیز جس کی ہم ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے دونوں بازوؤں میں اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ جو معاملات بالکل علاقائی نوعیت کے ہیں اور اندیشہ ہے کہ وحدانی طرز حکومت کے قیام کی صورت میں مرکزی حکومت ان کو کما حقہ اہمیت نہ دے سکے گی ان کو علاقائی مجالس کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ مجالس عوام کی منتخب کردہ ہوں اور ان کو ایک خاص حد تک قانون سازی کے اختیارات بھی ہوں اس طرح مرکزی حکومت کا بوجھ بھی کچھ ہلکا رہے گا اور مقامی مفادات بھی نقصان سے محفوظ رہیں گے۔ ہمارے پیش نظر وہ طریقہ ہے جو فرانس کے نظام حکومت میں اختیار کیا گیا ہے۔ اس چیز کو تقسیم اختیارات کی وہ شکل ہرگز نہ دی جائے جو ایک وفاقی طرز حکومت میں ہوا کرتی ہے۔

سوال نمبر۷۔

اگر آپ وفاقی طرز حکومت کو ترجیح دیتے ہیں تو بتائیے کہ:

۱۔ وفاق بنانے والی وحدتیں کون کون سی ہونی چاہئیں۔

۲۔ ان وحدتوں میں سے ہر ایک کے لیے آپ کس طرز کی حکومت تجویز کرتے ہیں؟

۳۔ آپ مرکز اور وحدتوں کے درمیان قانون سازی کے اختیارات کس طرح تقسیم کریں گے؟

۴۔ آپ وفاقی دارالحکومت کے انتظام کی کیا صورت تجویز کرتے ہیں؟

جواب:

ہم چونکہ وفاقی طرز حکومت کے حق میں نہیں ہیں اس وجہ سے مذکورہ بالا سوالوں کے جواب کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔

سوال نمبر۸۔

کیا آپ اس بات کے حق میں ہیں کہ صدر کو قانون سازی کے اختیارات ہوں۔ اگر آپ اس بات کے حق میں ہیں تو انھیں کن حالات کے تحت استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟

جواب:

اسلام میں مملکت کے لیے قانون سازی کا حق کسی شخص واحد کو کسی حال میں بھی حاصل نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اپنے عہدے اور مرتبے کے لحاظ سے وقت کا امیر المومنین ہی کیوں نہ ہو۔ خلیفہ کو قانون سازی کا جو حق حاصل ہے وہ صرف ایک خاص دائرے کے اندر ہے اور وہ بھی شوریٰ کے مشورے کے ساتھ مشروط ہے۔ البتہ جنگ کے حالات اور ایمرجنسی صورتوں میں جبکہ شوریٰ کا اجلاس ممکن نہ ہو خلیفہ یا صدر کو وقتی احکام دینے کا حق حاصل ہے لیکن وقتی احکام نہ تو مستقل قوانین کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ وہ شریعت کے قطعی نصوص کے خلاف ہو سکتے ہیں۔

سوال نمبر۹۔

صدر کا انتخاب کیسے ہو؟ کیا آپ سفارش کرتے ہیں کہ انتخاب:

۱۔ بالغ رائے دہندگی کے اصول پر ہو؟

۲۔ یا محدود بالغ رائے دہندگی کے اصول پر۔ مثلاً اس شرط کے ساتھ کہ ووٹر خواندہ ہو۔ یا ایک خاص حد تک جائیدا کا مالک ہو۔

۳۔ یا ایک انتخابی ادارے کے ذریعے سے؟

۴۔ اگر آپ ’۲‘ کے حق میں ہیں تو پھر مانع رائے دہندگی کو آپ کن حدود سے محدود کریں گے؟

۵۔ اگر آپ ’۳‘ کو ترجیح دیتے ہیں تو کیا آپ اس انتخابی ادارے کے قیام کی سفارش کرتے ہیں جس کے ذریعے حال ہی میں صدر کا انتخاب ہوا ہے۔ (یعنی بنیادی جمہوریتوں کے حکم مجریہ ۱۹۵۹ کے تحت لوکل کونسلوں کے منتخب ارکان) اگر آپ اس امر کے حق میں نہیں ہیں تو پھر آپ کون سا انتخابی ادارہ تجویز کرتے ہیں؟

جواب:

۱؂ صدرکا انتخاب بالغ رائے و ہندگی کے اصول پر براہ راست ہونا چاہیے۔

خلیفہ کے انتخاب میں اسلام نے اسی طریقے کو پسند فرمایا ہے۔

سوال نمبر۱۰۔

ضمیمہ ’د‘ میں وہ ساری دفعات درج ہیں جو سابق دستور میں صدر کے اوصاف، عہدے کی میعاد اور علیحدگی کے متعلق رکھی گئی تھیں۔ کیا آپ اس بات کے حق میں ہیں کہ انھی کو من و عن اختیار کر لیا جائے۔ یا آپ ان میں کسی ترمیم کے خواہاں ہیں۔ اگر آپ صدارتی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو کیا آپ اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ ایک نائب صدر بھی ہو۔ اسے کس طرح منتخب کیا جائے اور اس کے فرائض و اختیارات کیا ہونے چاہئیں؟

جواب:

اس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔

۔۔۔انتخاب صدر بالغ رائے دہندگی کے اصول پر براہ راست ہو گا جیسا کہ جواب نمبر۹ میں گزرا۔

۔۔۔صدر کے لیے مسلمان کے ساتھ ساتھ متقی اور تعلیم یافتہ کی شرط کا اضافہ ہونا چاہیے۔

۔۔۔صدر کی علیحدگی کے اسباب میں اس کی ایسی بیماری یا کمزوری کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جس کے بعد وہ ریاست کے فرائض بحسن و خوبی انجام نہ دے سکتا ہو۔

۔۔۔نائب صدر کا ایک مستقل عہدہ ہمارے نزدیک ایک بالکل غیر ضروری چیز ہے۔

سوال نمبر۱۱۔

کیا آپ ایک ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں یا دو ایوانی کے حق میں؟ ارکان کی تعداد کیا ہونی چاہیے؟ اور آپ اسے کس طرح معین کریں گے؟

جواب:

مجلس قانون ساز ایک ایوانی ہونی چاہیے۔ دو ایوانی مجلس قانون ساز ایک بالکل غیر عقلی اور غیر فطری چیز ہے۔ ارکان کی تعدادا سے ہمیں زیادہ بحث نہیں ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں پاکستان کے دونوں بازوؤں کی نمائندگی کی برابر برابر ہونی چاہیے۔

سوال نمبر۱۲۔

مجلس قانون ساز کے اراکین کا انتخاب کس طرح ہونا چاہیے؟ کیا آپ تجویز کرتے ہیں کہ:

الف۔ انتخاب بالغ رائے دہندگی کے اصول پر ہو۔یا

ب۔ محدود بالغ رائے دہندگی کے اصول کے مطابق جس میں خواندگی یا جائیداد وغیرہ کی شرائط ہوں۔ یا

ج۔ انتخابی ادارے کے ذریعے سے۔

۲۔ اگر آپ ’ب‘ کے حق میں ہیں تو پھر رائے دہندگی کو کن حدود سے محدود کیا جائے؟

۳۔ اگر آپ ’ج‘ کو ترجیح دیتے ہیں تو کیا پھر آپ اس انتخابی ادارے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے ذریعے سے حال ہی میں صدر کا انتخاب ہوا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کس دوسرے انتخابی ادارے کی تجویز کرتے ہیں؟

جواب:

بالغ رائے دہندگی کے اصول پر براہ راست انتخاب کا طریقہ زیادہ مامون ہے۔

سوال نمبر۱۳۔

سابق آئین میں اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا کہ انتخابات مخلوط اصول رائے دہندگی کے مطابق ہوں یا جداگانہ اصول کے مطابق۔ آئین نے اسی کا فیصلہ پارلیمان پر چھوڑ دیا تھا۔ آخر الامر اس کا فیصلہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کی قراردادوں کی رو سے ہوا۔ اس فیصلے کی رو سے مخلوط انتخاب کا اصول اختیار کیا گیا تھا۔ کیا آپ اس فیصلے کے حق میں ہیں یا اس میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں؟

جواب:

پاکستان میں مخلوط طریقہ اختیار کرنا پاکستان کے بنیادی نظریے کی نفی ہے۔

۔۔۔یہ غلطی اگر پہلے کی گئی ہے تو اب اس کا اعادہ نہ کیا جائے۔ مخلوط طریق انتخاب مذہبی نقطہ نظر سے بھی پاکستان کے لیے سخت مضر ہے۔ ہم ایک سلسلہ مضامین اس مسئلے پر عنقریب شروع کر رہے ہیں ہم اس کو کمیشن کے فاضل ارکان کی خدمت میں انشاء اللہ پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کے غیر مسلموں کو اس چیز کے سبب سے آزردہ یا مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو جو حقوق دیے ہیں وہ کسی سیاسی نظام نے بھی اپنے اندر بسنے والی اقلیتوں کو نہیں دئیے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں بدلائل یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے غیر مسلم باشندے مفتوح اہل ذمہ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ معاہدہ اہل ذمہ کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔ ان کے حقوق عام اہل ذمہ سے مختلف ہیں۔ چونکہ اس مسئلے سے عام طورم پر لوگ واقف نہیں ہیں اس وجہ سے کمیشن کے فاضل ارکان سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ ہماری مذکورہ کتاب ضرور پڑھ لیں اس باب میں ہمارا ناچیز مشورہ یہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں غیر مسلموں کے حقوق پوری وضاحت کے ساتھ ضرور بیان کر دیئے جائیں لیکن کفر اور اسلام دونوں کو ایک صف میں جمع کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔

سوال نمبر۱۴۔

مجلس قانون ساز کی رکنیت کے لیے کیا شرائط ہونی چاہئیں؟ اگر آپ دو ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر آپ کے نزدیک ایوان بالا کی ہئیت ترکیبی کیا ہونی چاہیے؟

الف۔ کیا آپ اس کے لیے یہ تجویز کریں گے کہ اراکین کا انتخاب قومی زندگی کے مختلف شعبوں سے خصوصی استعداد کی بنا پر ہو اور اس کے ساتھ علم و تجربہ رکھنے والے ممتاز افراد کے لیے جگہ پیدا کرنے کے لیے نامزدگی بھی ہو۔

ب۔ یا یہ ایوان بھی ایوان زیریں کی طرح تمام کا تمام انتخاب کے ذریعے مرتب ہو اور اس کے اراکین کی شرائط استعداد ایوان زیریں کی طرح تمام کا تمام انتخاب کے ذریعے سے مرتب ہو اور اس کے اراکین کی شرائط استعداد ایوان زیریں کی شرائط استعداد سے زیادہ ہوں۔

جواب:

مجلس قانون ساز کی رکنیت کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی شرطیں رکھی جائیں جس سے ان لوگوں کے لیے مجلس قانون ساز تک پہنچنے کی راہیں بند ہو جائیں جو فسق و فجور کے لحاظ سے بدنام رہے ہوں یا جو امانت و دیانت کے پہلو سے کھوٹے ثابت ہو چکے ہوں۔ البتہ اس امر کا لحاظ رہے کہ تعلیم کے باب میں کوئی ایسی قید نہ لگا دی جائے جس سے سرکاری سکولوں اور کالجوں سے باہر کے پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ ہی کی تعریف سے خارج ہو جائیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ابھی اس ملک میں نہایت اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی بڑی جماعت موجود ہے جس کی تعلیم انگریزی طرز کے مدرسوں اور کالجوں سے الگ ہوئی ہے۔

رہا سوال کا دوسرا حصہ جو ایوان بالا کی ہئیت ترکیبی سے متعلق ہے تو ہم چونکہ دوسرے ایوان کے حق میں نہیں ہے اس وجہ سے یہ حصہ ہم سے متعلق نہیں ہے ویسے اگر ہم اس کے حق میں ہوتے تو اس کے لیے ہم یہ عرض کرتے کہ یہ صرف اسلامی قانون کے اعلی ماہرین ہی پر مشتمل ہو۔ لیکن ہم ملک کے سیاسی نظام کی پیشانی پر اس گومڑ کو پسند نہیں کرتے۔

سوال نمبر۱۵۔

آپ کی رائے میں

الف۔ دونوں ایوانوں کے متعلقہ اختیارات اور ان کی مدت

ب۔ ان کے باہمی تعلقات اور

ج۔ صدر کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت

کیا ہونی چاہیے؟

جواب:

ہم اس ثنوبت کے چونکہ قائل نہیں ہیں اس وجہ سے اس سوال کے جواب کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔

سوال نمبر۱۶۔

اگر آپ وفاقی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو پھر کیا آپ وفاقی وحدتوں یعنی صوبوں کے لیے ایک ایوانی مجلس قانون ساز تجویز کرتے ہیں یا دو ایوانی؟

سوال نمبر ۱۷۔

اگر آپ صوبوں کے لیے دو ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر

الف۔ دونوں ایوانوں کے جدا جدا اختیارات اور ان کی مدت قیام۔

ب۔ ان کے باہمی تعلقات

ج۔ اور صوبے کے سربراہ یعنی گورنر کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟

سوال نمبر۱۸۔

اگر آپ یک ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر بتائیں کہ صوبائی مجلس قانون ساز کے گورنر کے ساتھ کیا تعلقات ہونے چاہئیں؟

سوال نمبر۱۹۔

کیا آپ اس امر کے حق میں ہیں کہ گورنر کو قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوں اگر ایسا ہے تو پھر بتائیں کہ وہ انھیں کن حالات کے تحت استعمال کرے۔

جواب:

مذکورہ بالا چاروں سوالات وفاقی طرز حکومت سے متعلق ہیں ہم وفاقی طرز حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ان کے جواب کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔

سوال نمبر ۲۰۔

سابق آئین کی دفعہ ۷۰ میں گورنر کے اوصاف استعفیٰ کے طریق کار اور عہدے کی میعاد وغیرہ امور کے بارے میں جو صورتیں رکھی گئی تھیں کیا آپ انھی کو اختیار کریں گے یا ان میں تبدیلی ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب:

ایک اسلامی ریاست کے نکتہ نظر سے گورنر کے لیے صرف پاکستانی ہونا یا چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان صفات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے تقویٰ، دیانت، امانت اور قابلیت کی وہ صفتیں بھی ضروری قرار دی جائیں جو ایک اسلامی ریاست کے اندر ایک گورنر کے اندر ہونی ضروری ہیں۔

سوال نمبر۲۱۔

سابق آئین کی دفعہ ۲۱۳ میں گورنر کو جو تحفظ دیا گیا تھا، آپ اس کے حق میں ہیں اگر حکومت وحدانی ہو تو کیا آپ پھر بھی اسے اسی قسم کا تحفظ دینے کی سفارش کرتے ہیں۔

سوال نمبر۲۲۔

کیا آپ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ نئے دستور میں بنیادی انسانی حقوق اسی طرح صراحت کے ساتھ مقرر کیے جائیں جس طرح سابق آئین میں کیے گئے تھے؟ یا آپ کا یہ خیال ہے کہ برطانیہ کی طرح ان حقوق کے تحفظ کا کام ہمیں قانون ساز کی نیک نیتی اور عدلیہ کی دانش مندی اور تجربہ کاری پر چھوڑ دیا جائے اور یہ یقین کر لیا جائے کہ عدالتیں معروف مسلّم اصولوں پر خود عمل کروائیں گی؟

جواب:

یہ بنیادی حقوق جو ہمارے سابق دستور میں ثبت ہوئے ہیں ایک لادینی ریاست کے دستور کے لے تو بالکل موزوں ہیں لیکن ایک اسلامی ریاست کے دستور میں ان سے الجھنیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ان کی موجودگی میں شریعت کی بعض باتوں کا اجرا و نفاذ دستور کے خلاف ہو جائے گا۔ اس وجہ سے ہماری رائے یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ قید لگا دی جائے کہ یہ تمام حقوق اسلامی شریعت کے تحت ہوں گے۔

سوال نمبر ۲۳۔

کیا آپ مستقبل کی مجالس قانون ساز اور حکومت کے لیے تمہید اور اصولی ہدایات جو سابق آئین میں موجود تھے، نئے آئین میں بدستور رکھنا چاہتے ہیں؟

جواب:

اسی مقدس طغرانے تو سابق دستور کو ایک اسلامی ریاست ہونے کا شرف بخشا تھا ورنہ اور اس میں کیا دھرا تھا۔ اب اگر فی الواقع ایک اسلامی دستور بنانا ہے تو یہ تمہید بھی ایک ضروری چیز ہے اور وہ راہنما اصول بھی ضروری ہیں جو سابق دستور میں ثبت ہوئے تھے بلکہ ہم تو نہایت ادب کے ساتھ یہ عرض کریں گے کہ رہنما اصولوں کی بہت سی چیزوں کو عملی دفعات کی حیثیت دی جائے اس لیے کہ ایک اسلامی ریاست میں یہ اصول صرف اشارہ دینے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ریاست ہوتی ہی انھی مقاصد کے لیے ہے۔

سوال نمبر۲۴۔

سابق آئین میں سپریم کورٹ اور عدالت ہائے عالیہ کے دائرہ اختیار اور ان عدالتوں کے ججوں کے اوصاف، مدت، تقریر اور برطرفی سے متعلق جو دفعات تھیں کیا آپ انھی کو اختیار کر لینے کے حق میں ہیں یا ان میں کوئی ترمیم ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب:

جہاں تک اوصاف کا تعلق ہے سابق آئین میں بڑی ترمیم کی ضرورت ہے۔ اسلام نے قاضیوں اور ججوں کے لیے علم و فضل کی شرط کے ساتھ بڑی سخت قیدیں اور شرطیں اخلاقی عائد کی ہیں۔ ایک اسلامی ریاست کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو لازماً اسلامی شریعت کا ماہر صاحب اجتہاد، متقی اور صاحب ثقافت و عدالت ہونا چاہیے۔ اس قسم کا کوئی اشارہ سابق دستور میں نہیں ہے۔ بلکہ اس میں تو ان ججوں کے لیے مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر ایک اسلامی ریاست کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس کوئی غیر مسلم ہو تو یہ اسلام کے ساتھ ایک سنگدلانہ مذاق ہے۔

________

۱؂ ہماری مراد یہاں (Head of the state) کے انتخاب سے ہے اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم صدارتی طرز حکومت کے حق میں ہیں۔ صدارتی طرز حکومت سے متعلق ہم اپنی رائے متعلقہ سوال کے جواب میں عرض کر چکے ہیں۔

____________

B