آئین کمیشن کے سوال نامہ کے جواب میں چند باتیں ہم بھی کمیشن کے محترم ارکان کی خدمت میں عرض کرنی چاہتے ہیں لیکن ان باتوں کی نوعیت کمیشن کے شائع کردہ سوالوں کے ہی جواب کی نہیں ہو گی بلکہ ایک ایسے شخص کے دل کی آواز کی ہو گی جو اس ملک کے حالات کو سیاسی طالع آزمائی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جس کی دلی آرزو صرف یہ ہے کہ یہ ملک ہر پہلو سے ترقی کرے اس کی حکومت زیادہ سے زیادہ مستحکم ہو اور یہاں ہر شعبہ زندگی میں صرف اللہ تعالی ہی کا قانون جلدی نافذ ہو۔ اس آرزو کی کشمکش سے ممکن ہے ہماری بعض باتیں سوالنامہ کے متعین کردہ حدود سے تجاوز ہو جائیں لیکن ہمیں امید ہے کہ کمیشن کے محترم ارکان ہماری یہ بے ضابطگی یہ خیال کر کے معاف فرمائیں گے کہ ہم جو کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں یہ کوئی نغمہ نہیں ہے بلکہ ایک فریاد ہے اور فریاد کسی شے کی پابند نہیں ہوا کرتی۔
ہم سب سے پہلے کمیشن کے محترم ارکان کو اس عظیم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائیں گے جو صدر ریاست کی طرف سے ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جس کے وہ حامل قرار پائے ہیں۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں نے اس ملک کو ایک خطرناک انتشار سے بچا کر اس کی جو خدمت انجام دی ہے ہمارے نزدیک تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے لیکن اس اہمیت کا تمام ترانحصار اس کمیشن کے کام پر ہے۔ اگر کمیشن نے صحیح کام کرنے کی توفیق پائی۔ اس نے ایک ایسا دستور بنا دیا جو اس ملک کے باشندوں کے جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہو اور یہ ملک مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو گیا تو آج اس کمیشن کے ارکان کو اس ملک کے عام باشندے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن ہماری قوم کی آئندہ نسلیں ان میں سے ایک ایک کے نام کو ہمیشہ فخر و احترام کے جذبات کے ساتھ یاد رکھیں گی۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ کمیشن ایک صحیح قسم کا دستور بنانے میں ناکام ہو گیا تو پھر نہ تو تاریخ ہی میں اس انقلاب کی کوئی اہمیت باقی رہ جائے گی جو فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے ہاتھوں برپا ہوا اور نہ اس کمیشن کا نام کوئی عزت سے لے گا۔ بلکہ ہم نہایت صدمہ اور غم کے ساتھ یہ دور انگیز حقیقت بھی ظاہر کر دینا چاہتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں اس ملک اور اس قوم کے مستقبل کے متعلق بھی کوئی اچھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ جو قوم پورے تیرہ سال سے ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اپنی منزل مقصود اور اپنے لیے راہ عمل متعین نہ کر سکے گی آخر اس کو ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جگہ گھیرے رکھنے کا کیا حق حاصل ہے؟ اللہ تعالی غفلتوں کی تلافی کے لیے بمطابقت ضرورت دیا کرتا ہے لیکن قوموں کی زندگی اور موت سے متعلق اس کے جو متعین ضابطے ہیں وہ تو ہر صورت اٹل ہیں ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔
دوسری گزارش جو ہم کمیشن کے فاضل ارکان سے کریں گے وہ یہ ہے کہ انھوں نے جو سوال نامہ شائع کیا ہے اگرچہ اس کے اکثر سوالات بجائے خود مفید اور ضروری نظر آتے ہیں لیکن اصلی سوال جو اس قوم سے پوچھنے کا تھا کمیشن نے وہ نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان میں قائم ہونے والی ریاست سے متعلق اس قوم کا تصور کیا رہا ہے۔؟ اس نے جان اور مال کی عظیم قربانیاں کس قسم کی ریاست قائم کرنے کے لیے دی تھیں؟ کن نظریات و عقائد اور کن خصوصیات و ممیزات پر اس ملک کی حکومت کھڑی کی جائے تو اس کے وہ خواب پورے ہو سکیں گے جو پاکستان کے مطالبہ کے روز اوّل سے وہ دیکھتی رہی ہے؟ ہمیں افسوس ہے کہ کمیشن نے انتظامی نوعیت کے تو بہت سے سوال پوچھ ڈالے ہیں لیکن یہ اصلی سوال جو پوچھنے کا تھا وہ اس نے نہیں پوچھا۔ اگر اس سوال کے نہ چھیڑنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا جو جواب دیں قوم کے ایک ایک فرد کے دل میں اور بچے بچے کی زبان پر ہے کمیشن اس سے اچھی طرح باخبر ہے تو ہمیں اس کے نظر انداز کیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر یہ تغافل دیدہ و دانستہ ہے اور مقصود اس سے اس سوال کی ذمہ داریوں سے دامن بچانا ہے تو ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس سوال کی ذمہ داریوں سے دامن بچا کر اگر کوئی دستور بنانے کی کوشش کی گئی تو وہ دستور اس ملک میں کبھی بھی ایک مضبوط حکومت کی بنیاد نہیں بن سکے گا۔
اس اصولی گزارشات کے بعد اب ہم چند باتیں کمیشن کے سوالنامے کو سامنے رکھ کر عرض کریں گے۔ لیکن یہ امر واضح رہے کہ کمیشن کے سوالوں میں سے ہم صرف انھی سوالوں سے دلچسپی رکھتے ہیں جو کوئی اصولی اور مقصدی اہمیت رکھنے والے ہیں۔ ان سوالوں سے ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں ہے جو محض انتظامی نوعیت کے ہیں اور جن کے دونوں پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو بھی اختیار کر لیا جائے تو اس سے ہمارے نزدیک کوئی خاص خرابی انشاء اللہ واقع نہیں ہو گی۔
سوال نمبر۱۔
آپ کے نزدیک پاکستان میں جمہوری حکومت کے پارلیمانی طریقے کی بتدریج ناکامی کی نوعیت اور اس کے اسباب کیا ہیں جن کی بدولت آخر کار ۱۹۵۶ کے دستور کی تنسیخ عمل میں آئی؟
جواب:
اس کے جواب میں ہماری گزارش یہ ہے کہ کسی ملک میں جمہوری حکومت (طریقہ اس کا پارلیمانی ہو یا کوئی اور) کی کامیابی کے لیے دو منزلیں مسلّمہ طور پر لازمی سمجھی گئی ہیں ایک یہ کہ ملک کے عوام میں سیاسی بیداری ہو ان کو اپنے حقوق کا اچھی طرح احساس ہو وہ اپنے لیڈروں اور حکمرانوں کا احتساب کر سکتے ہوں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور ان کو قائم رکھنے کے لیے جان اور مال کی قربانیاں دے سکتے ہوں۔
دوسری یہ کہ ملک میں ایک سے زیادہ ایسی منظم سیاسی پارٹیاں موجود ہوں جن کو اہل ملک کا اعتماد حاصل ہو جن کے لیڈر مضبوط قومی کردار کے حامل ہوں اور ملک کے ساتھ جن کی وفاداری ہر شبہ سے بالاترہو۔
جن ملکوں میں یہ دونوں شرطیں موجود پائی گئی ہیں وہاں جمہوریت نہایت کامیابی کے ساتھ چلی ہے لیکن جہاں یہ چیزیں موجود نہیں پائی گئی ہیں یا پائے جانے کے بعد کسی اسٹیج میں آ کر ختم ہو گئی ہیں وہاں جمہوریت بھی یا تو پائی ہی نہیں گئی ہے یا پائی گئی ہے تو بعد کے مراحل میں آ کر ختم ہو گئی ہے۔
یہ تو اس سوال کا اصولی جواب تھا اب پاکستان کے حالات پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ جب انگریز اس ملک کو چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں تو ان کے سپرد کردہ اقتدار کی وارث اس ملک میں مسلم لیگ ہوئی ہے۔ مسلم لیگ کو یہ وراثت بالکل جائز طور پر حاصل ہوئی۔ جس طرح بھارت میں کانگرس ہندو جنتا کی واحد نمائندہ تھی اسی طرح یہاں مسلم لیگ مسلمان قوم کی واحد نمائندہ تھی۔ اس کے اس بلاشرکت غیرے نمائندگی کے دعوے کو اس ملک میں کوئی پارٹی چیلنج کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ مسلم لیگ کے مسلمہ لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ مسلمان قوم پر ان کا ایسا ہمہ گیر اثر تھا کہ ان کے مخالف خلوتوں میں تو ممکن ہے ان کے اوپر تنقید کر لیتے رہے ہوں لیکن پبلک میں ایک سخت خطرہ مول لیے بغیر ان پر تنقید کرنے کی جرات کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم کو جو اثر و اعتماد قوم میں حاصل تھا اس کی بنا پر وہی جائز حقدار تھے کہ انگریزوں سے اس قوم کی طرف سے اختیارات وصول کریں اور جب انھوں نے وصول کیا تو گویا بالواسطہ اختیارات کو پاکستان میں بسنے والی قوم نے وصول کیا۔۱
اس انتقال اقتدار کی حقیقت پر اس بات سے کوئی اثر نہیں پڑتا کہ قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل کے تاج برطانیہ کے نمائندہ تھے۔ یہ ایک رسمی چیز تھی جس سے آزادی و اقتدار کے انتقال کا وہ واقعہ جھوٹا نہیں ہو سکتا جو اگست۱۹۴۷ میں پیش آیا تھا۔
اس اقتدار کے حاصل کرنے کے بعد اس ملک میں جمہوریت کے چلانے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ پر عائد ہوتی تھی۔ مسلم لیگ کی بنیادی کمزوری یہ تھی کہ اس کی قیادت میں قومی کردار رکھنے والے لیڈر صرف دو تھے۔ ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے لیاقت علی خاں مرحوم۔ ان دو کے سوال لیگ کی پوری قیادت میں (ایک آدھ مرغان مرغقسم کے آدمیوں کو چھوڑ کر) ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کی سیرت اور اخلاق پر اعتماد کیا جا سکے۔ یہ قیادت زیادہ تر ایسے افراد پر مشتمل تھی جو بالکل خود غرض اور غیرذمہ دار قسم کے لوگ تھے۔ یہ تو محض قائد اعظم کا زور اور اقتدار تھا کہ انھوں نے ان بے کردار اور بگ ٹٹ قسم کے لوگوں کو قابو میں رکھ چھوڑا تھا۔ پاکستان کے قیام کے تھوڑے عرصے بعد جب قائد اعظم وفات پا گئے اور پھر کچھ مدت بعد خاں لیاقت علی خاں مرحوم شہید کر دئیے گئے تو مسلم لیگ کی قیادت بالکل کھوکھلی ہو کر رہ گئی۔
رہا قوم کا حال تو پاکستان اور اسلام کے نعرے کے ذریعے سے مسلم لیگ نے اپنے پیچھے پوری قوم کو لگا تو ضرور لیا تھا لیکن اس قوم کی اس نے کبھی کوئی تربیت نہیں کی۔ اس کو یہ بتانے کی کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی کہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ ذمہ داریاں اس کو کس طرح ادا کرنی ہیں؟ اس قوم سے نعرے تو بہت لگوائے گئے لیکن اس بات کی اس کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی کہ اس کے اپنے حقوق کیا ہیں؟ اور ان حقوق کو حاصل کرنے اور ان کے محفوظ رکھنے کے لیے اسے اپنے لیڈروں اور اپنے حکمرانوں کو کس طرح درست رکھنا چاہیے؟ اس سیاسی تربیت سے محروم رہ جانے کے سبب سے یہ قوم سیاسی شعور سے پہلے بھی محروم رہی ہے اور اب بھی محروم ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ اپنے جذبات کے لحاظ سے ایک نہایت قابل تعریف قوم ہے۔۲
نتیجہ اس صورت حال کا یہ نکلا کہ مسلم لیگ کے لیڈر بالکل ہی بے قابو ہو گئے۔ نہ آگے سے ان کو کوئی روکنے والا رہ گیا اور نہ پیچھے سے کوئی ان کے احتساب کی جرات کر سکا۔ یہ لوگ خدا اور آخرت سے تو پہلے ہی سے بے موچا تھے جب حالات نے انھیں اپنے دنیوی سربراہ اور اپنی قوم کے خوف سے بھی بالکل نچنت کر دیا تو پھر تو یہ بالکل ہی مطلق العنان ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے پاکستان کو ایک خوان یغما سمجھ لیا اور ان کا مقصد زندگی صرف یہ رہ گیا کہ جائز اور ناجائز جن طریقوں سے بھی ممکن ہو سکے اقتدار پر قائم رہیں اور ملک کو تباہ کریں۔
لیگ کی قیادت کی ناکامی کے بعد قوم تندرست ہوتی تو دوسری قیادت ابھر سکتی تھی لیکن قوم ہیں۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے: سیاسی بیداری بالکل مفقود تھی۔ اس وجہ سے دوسری جماعتیں جو وجود میں آئیں کسی قومی خدمت کے پروگرام کے ساتھ وجود میں نہیں آئیں بلکہ ان کے وجود میں آنے کا واحد محرک صرف یہ چیز تھی کہ لیگ کے ساتھ ان کو ہاتھ رنگنے کے وہ مواقع حاصل نہیں تھے جن کی وہ متمنی تھیں۔
اس دوران میں جو لوگ حکومت کے سربراہ کار بنے بدقسمتی سے وہ بھی اپنے عہدے کی حرمت برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اس گندے کھیل سے بالاتر رہ کر ملک کے آئین اور اس کے دستور کی حفاظت کرتے لیکن وہ خود بھی اس کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔ بالخصوص غلام محمد صاحب مرحوم کی روش بڑی ہی مایوس کن رہی۔ ان کے غیر آئینی اقدامات سے ملک کے وقار اور اس کی آئینی ترقی کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے۔ اگرچہ ہمارا یہ خیال نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا سروسز کے ساتھ کوئی ساز باز تھا وہ نہ تو عام معنوں میں سروسز کے آدمی تھے اور نہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ ہم ان کے اقوال کی ذمہ داری پاکستان کے سروسز کے لوگوں پر ڈالیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے طرز عمل نے اس ملک کے جمہوری اقدار کو بڑا شدید صدمہ پہنچایا۔
خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے اور ایک فتنے سے دوسرے فتنے کو راہ ملتی ہے۔ لیگ کا انتشار اور اس کی قیادت کی ناکامی نے بہت سے فتنوں کے دروازے کھول دیئے۔ سرحد، بلوچستان اور مشرقی پاکستان میں کھلم کھلا ایسے نعرے بلند ہونے لگے تھے جو ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کر دینے والے تھے۔ ملک کے اندر نہ تو کوئی ایسا معتمد علیہ لیڈر رہ گیا تھا جو لوگوں کو صحیح راہمنائی دے سکے اور نہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی موجود تھی جو صحیح قومی نصب العین پر عوام کو جمع کر سکے۔ اس وجہ سے صاف نظر آ رہا تھا کہ علاقائی تعصبات بھڑ کا کر انتشار پسند لیڈر جگہ جگہ ایسے فتنے کھڑے کر دیں گے جو خدانخواستہ پاکستان ہی کو تباہ کر کے رکھ دیں گے ہونے والے انتخابات میں جو پارٹیاں میدان میں اتر رہی تھی ان کا کردار ان کا قول اور ان کا عمل سب کچھ آزمایا ہوا تھا۔ ان کے نعرے تمام تر جذباتی اور انتشار انگیز تھے لیکن عوام اپنی بے شعوری کے سبب سے انھی کے گرد جمع ہو رہے تھے جو پارٹیاں مذہبی نعروں کے ساتھ اٹھی تھیں ان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں بن سکی تھی کہ یہ میدان کی غالب اور حاوی پارٹیوں کی طرف ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ کہ شاید ان کی نظر کرم کے فیض سے ان کے خوان کرم کا کوئی ٹکڑا ان کی جھولی میں بھی پڑ جائے۔
یہ حالات تھے کہ ۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ کا وہ انقلاب ظہور میں آیا جس نے دستور کو منسوخ کر دیا اور اس ملک میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔۳
اس انقلاب کے پہلے مرحلے میں سکندر مرزا صاحب ایسی نوعیت سے سامنے آئے کہ بظاہر یہ انقلاب ان کا کارنامہ نظر آیا لیکن معاً ان کا جو حشر ہوا اس نے واضح کر دیا کہ انقلاب کی بانی درحقیقت فوج تھی نہ کہ مرزا صاحب۔ ہمارے نزدیک فوج نے یہ اقدام محض ملک کو انتشار اور بدنظمی سے بچانے کے لیے کیا۔ اس کے اندر نہ تو قوم کے ہاتھوں سے اقتدار کو غصب کرنے کی کسی خواہش کو دخل تھا اور نہ سروسز کے لوگوں کے ساتھ اس مقصد کے لیے کوئی سازش یا جتھہ بندی کی گئی تھی۔ جو لوگ اس قسم کا گمان رکھتے ہیں ہمارے نزدیک ان کا یہ گمان بالکل بے بنیاد ہے۔ جمہوریت بلاشبہ ایک مطلوب و محبوب چیز ہے لیکن خود ملک کی سلامتی جمہوریت سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک فوج نے خطرے کے آخر وقت میں ملک کو بچانے کا وہ فرض انجام دیا جو اس پر عائد ہوتا تھا۔ اگر اس وقت فوج یہ اقدام نہ کر گزرتی تو وہ ایک ایسی کوتاہی کی مرتکب ہوتی جس کی تلافی شاید پھر کبھی نہ ہو سکتی۔۴
سوال نمبر۲۔
ان اسباب یا ایسے ہی دوسرے اسباب کے پھر رونما ہونے کا سدباب کرنے کے لیے آپ کیا تدابیر تجویز کرتے ہیں؟
جواب:
اس سوال کا ایک جواب تو یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ جب اس ملک کے عوام میں نہ صحیح قسم کی سیاسی بیداری ہی موجود ہے اور نہ یہاں قوم پرور سیاسی پارٹیاں ہی موجود ہیں تو بہتر تو یہی ہے کہ جس طرح آئین اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر رکھی جا سکتی ہے اسی طرح یہ بساط لپٹی ہوئی پڑی ہی رہے۔ اور اگر جمہوریت کی نمائش کسی حد تک ضروری ہی سمجھی جائے تو اس کی کوئی ایسی معصوم سی شکل یہاں کے لیے تراشی جائے جس سے یہاں کے کم علم اور کم فہم عوام مانوس ہو سکیں۔
لیکن ہمارے نزدیک اس سوال کا یہ جواب صحیح نہیں ہے۔ جن لوگوں نے دستور کو معطل کیا ہے ان کے پیش نظر انتشار کو ختم کرنا تھا نہ کہ جمہوریت کو اسی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو بحال کریں اور بالکل صحیح معنوں میں بحال کریں۔ آزادی اور جمہوریت ہمارے نزدیک دو ہم معنی حقیقتیں ہیں اگر کسی ملک کے عوام آئین اور جمہوریت سے محروم کر دئیے گئے ہیں تو بالفاظ دیگر وہ آزادی سے محروم کر دئیے گئے ہیں اور آزادی سے محرومی کسی حال میں بھی برداشت کیے جانے کے لائق چیز نہیں ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں عوام میں نہ صحیح سیاسی شعور موجود ہے اور نہ کوئی صحیح قسم کی قیادت موجود ہے لیکن یہ دونوں چیزیں ایسی نہیں ہیں جن کا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔ ایک ایسی قوم کے اندر جو آزاد ہو چکی ہو اور جو اپنی آزادی کو باقی بھی رکھنا چاہتی ہو ان دونوں چیزوں کا پایا جانا اس کے سیاسی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ گندم، لوہا، پانی اور بجلی ہر چیز کے بغیر ایک قوم اپنی آزادی کا تحفظ کر سکتی ہے لیکن صحیح سیاسی شعور اور بے غرض قیادت کے بغیر کوئی قوم دنیا میں اپنی ہستی قائم نہیں رکھ سکتی۔ اس وجہ سے آئین کمیشن کو بہرحال ایک ایسے آئین کا نقشہ تیار کرنا ہے جو نہ صرف اسی قوم کو صحیح جمہوری زندگی کی آزادیاں بخشے بلکہ ساتھ ہی ان چیزوں کا بھی اہتمام کرے جو اس جمہوری زندگی کو صحیح نہج پر چلانے اور اس کو ترقی دینے کے لیے اساس کار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مقصد مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے:۔
۱۔ یہاں انگریزی نظام یا امریکی دستور کی نقالی کرنے یا سابقہ دستور کی طرح کفر اور اسلام دونوں کا ایک مرکب دستور بنانے کی بجائے سوفیصدی ایک اسلامی دستور بنایا جائے۔ ایک خاص اسلامی دستور اپنی فطری سادگی کے سبب سے یہاں کے عوام کے لیے قابل فہم بھی ہو گا اور قابل عمل بھی اور ان کے دل کی تمناؤں کے مطابق ہونے کے سبب سے ان کی عقیدت اور ان کے احترام کا مرجع بھی بن سکے گا۔ اس کے لیے ملک کے عوام کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا ہو گا کہ وہ خود بھی اس کے ہر اصول کا احترام کریں اور اپنے لیڈروں اور حکمرانوں سے بھی اس کا احترام کرائیں۔ یہ چیز قوم کے ایک بہت بڑے طبقے کے اندر وہ مذہبی و سیاسی بیداری پیدا کر دے گی جو صحیح جمہوریت کے قیام و بقا کی پہلی شرط ہے۔
۲۔ اگر کمیشن یہ معلوم کرنا چاہے کہ ایک صحیح اسلامی دستور کے بنیادی اصول کیا ہیں تو اس کا آسان راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ جنوری ۵۱ میں اس ملک کے مختلف مکتب خیال کے علما نے متفقہ طور پر جو اصول کر دئیے تھے وہ ان کو اپنے سامنے رکھ لے اگر اس کے بعد بھی کچھ مسائل باقی رہ جائیں تو وہ ملک کے جید اور صاحب فکر علما سے تبادلہ خیال کر کے یا ایک سوال نامے کے ذریعے سے اہل علم کی رائیں معلوم کر کے طے کیے جا سکتے ہیں۔
۳۔ اس دستور میں نہایت وضاحت کے ساتھ دو تدابیر معین کر دی جائیں جو اس ملک میں صحیح قسم کی اسلامی قیادت کی تربیت کے لیے اس ملک کی ریاست کو اختیار کرنی ہوں گی۔ یہ واضح رہے کہ ایک اسلامی ریاست کے فرائض انجام دینے یا اس کے اندر قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے اس سے مختلف صفات مطلوب ہوا کرتی ہیں جو ایک عام ریاست کی خدمت کے لیے مطلوب ہوتی ہیں۔ اسلامی ریاست چلانے والوں کے لیے نمونہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی زندگی ہے۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ریاست اس نمونے کے اشخاص پیدا کرنے کا خود اہتمام کرے تاکہ اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے اہل اشخاص اس کے اداروں سے برابر پیدا ہوتے رہیں۔
۴۔ اس دستور کی عوام سے منظوری حاصل کی جائے۔۵
تاکہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ یہ دستور ان کے اوپر حکمرانوں کی طرف سے لادا نہیں گیا ہے بلکہ اس کو انھوں نے خود منظور کیا ہے۔ یہ منظوری استصواب عام کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے جس میں انھیں اس بات کی پوری آزادی دی جائے کہ اگر انھیں یہ دستور بحیثیت مجموعی پسند ہو تو اس کو قبول کریں اور اگر بحیثیت مجموعی ناپسند ہو تو اس کو رد کر دیں۔
۵۔ اس دستور کو پیش کرنے اس کو پبلک سے منظور کرانے اور اس کو اس ملک میں نافذ کرنے کے لیے ہر مرحلے میں موجودہ حکمران اس دیانت داری اور بے لوثی کی عملی مثال پیش کریں جو ایک اسلامی مملکت کی قیادت کے شایان شان ہے۔ تاکہ یہ عملی نمونہ دوسروں کے لیے مثال بن سکے۔ اور آئندہ کام کرنے والوں کو ماضی کی غلط روش کے بجائے ایک نیا نقطہ آغاز پیروی کے لیے مل سکے۔ یہ چیزیں ان سب خرابیوں کا سدباب کر دیں گی جو ماضی میں اس ملک میں پیدا ہوتی رہی ہیں اور جن کے سبب سے اس کی سیاسی زندگی تباہ ہوئی ہے۔
________
۱ ہم ان لوگوں کے نقطہ نظر کو صحیح نہیں سمجھتے جو آج ہماری قوم کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک میں اقتدار کبھی قوم کی طرف منتقل ہی نہیں ہوا بلکہ اس کو بالا بالا کچھ غاصبین اچک لیتے رہے ہیں اور اب بھی اسی طرح کے غاصبین ہی ہیں جو اقتدار کو غصب کیے ہوئے ہیں۔ یہ تاثر رکھنے والوں اور یہ تاثر دینے والوں کے نزدیک غالباً قوم سے مراد ان کی اپنی ذات اور ان کے اپنے چند گنتی کے اتباع ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ جب ان کا تصور قوم یہ ہو گا تو ان کو اقتدار ملنے کے معنی یہی ہوں گے کہ یہ پوری قوم ہی اقتدار سے محروم رہی۔ مثل مشہور ہے نہ کہ ہم بھوکے تو جگ بھوکا۔
۲ بعض خوش فہم لوگوں نے یہ دھونس جمانے کی کوشش کی ہے کہ یہ اس قوم کا حساس ہونا ہے کہ اس نے اپنے حقوق کے غصب کرنے والوں کے خلاف بغاوت نہیں کی بلکہ شرافت کی راہ اختیار کی۔ ہم اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ قوم بغاوت کر سکتی تھی یا نہیں اپنی قوم کی اس شرافت کی تحسین کرتے ہیں کہ اس نے مفسدین کی خواہشات کے علی الرغم کوئی غلط راہ نہیں اختیار کی۔ لیکن دھونس جمانے والوں کی اس دھونس کو سن کر ہمیں ان بھولے بھالے لوگوں کی اس ترنگ پر ہنسی ضرور آتی ہے۔
۳ بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ جب بھارت میں جمہوریت پوری کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے تو آخر ہم ان سے کس اعتبار سے پیچھے تھے کہ اگر ہمارے اقتدار کے غاصبین ہمیں اقتدار ہی پر دیتے تو ہم جمہوریت کو کامیابی کے ساتھ نہ چلا سکے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال محض خوش فہمی اور خود فریبی پر مبنی ہے۔ بھارت میں گاندھی جی اور متعدد چوٹی کے لیڈروں کے مرجانے کے باوجود آج بھی نصف درجن سے زیادہ ایسے لیڈروں کے نام لیے جا سکتے ہیں جو ہمارے اپنے نقطہ نظر سے اچھے ہوں یا برے لیکن اپنی قوم اور اپنے ملک کے وہ نہایت قابل اعتماد لیڈر ہیں اور نہایت کامیابی کے ساتھ وہ حکومت کو چلا سکتے ہیں۔ برعکس اس کے ہمارا حال یہ ہے کہ لیاقت علی خاں مرحوم کے بعد کوئی شخص ان صلاحیتوں کا حامل بھی نہ اٹھا جو لیاقت علی خاں کے اندر تھیں فخر کرنے کو تو جس کا جی چاہے فخر کرے کہ وہ جواہر لال، راجگوپال اچاریہ، راجندر ہوشاہ، پنت جے پرکاش اور ماسٹر تارا سنگھ وغیرہ سب سے بڑا لیڈر ہے لیکن اس قسم کی خود فریبیوں سے قوموں کی مشکلیں نہیں حل ہوا کرتیں۔ پھر انگریزوں سے حقوق حاصل کرنے کی جنگ میں ان کے لاکھوں آدمیوں کو یہ تربیت بھی اچھی طرح ملی ہوئی ہے کہ قومی حقوق کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے؟
۴ ہمیں ان حضرات کی رائے سے بالکل اتفاق نہیں ہے جو ملازمین سرکار کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ انھیں قوم کے نمائندوں کے ماتحت صرف نوکری کرتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ یہ نمائندے حضرات سارے ملک کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیں۔ اگر ملک میں جمہوریت وقار اور ایمانداری کے ساتھ چل رہی ہو تب تو سرکاری ملازمین کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ ملک کی سیاست سے بالاتر رہیں۔ لیکن اگر وہ ملک کو تباہ ہوتے دیکھیں اور صرف قوم کے نمائندوں کے ماتحت نوکری کرتے رہنے پر قانع رہیں تو ہماری نظروں میں ایسے سرکاری ملازمین کی لکڑے کے کندوں سے زیادہ وقعت نہیں ہے۔
۵ یہ امر واضح کر دینا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور کے معاملے میں ہم صرف بیسک ڈیموکریسی میں منتخب ہونے والے نمائندوں ہی کی منظوری کافی نہیں سمجھتے بلکہ اس مسئلے پر ہر بالغ کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔
____________