HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آئین کمیشن کا سوالنامہ (حصہ دوم)

آئین کمیشن کا سوالنامہ اور علما کی طرف سے اس کا متفقہ جواب

 

سوال ۸، ۹، ۱۰، ۱۱:

۸: کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ صدر کو قانون سازی کے اختیارات بھی حاصل ہوں؟ اگر اتفاق ہے تو آپ کے نزدیک ان اختیارات کو وہ کن حالات میں استعمال کرے؟

۹: صدر کا انتخاب کس طریقے سے ہونا چاہیے؟ کیا آپ یہ سفارش کرتے ہیں کہ انتخاب:

الف۔ بالغ رائے دہندگی کے اصول پر ہو؟

ب۔ یا محدود بالغ رائے دہندگی کے اصول پر، مثلاً اس شرط کے ساتھ کہ ووٹر خواندہ ہو، یا ایک خاص حد تک جائیداد کا مالک ہو؟

ج۔ یا ایک انتخابی ادارے کے ذریعے سے؟

د۔ اگر آپ ب کے حق میں ہیں تو پھر رائے دہندگی کو آپ کن حدود سے محدود کریں گے؟

ر۔ اگر آپ ج کو ترجیح دیتے ہیں تو کیا پھر آپ اسی انتخابی ادارے کے قیام کی سفارش کرتے ہیں جس کے ذریعے سے حال ہی میں صدر کا انتخاب ہوا ہے (یعنی بنیادی جمہوریتوں کے حکم مجریہ ۱۹۵۹ کے تحت لوکل کونسلوں کے منتخب ارکان)؟ اگر آپ اس امر کے حق میں نہیں ہیں تو پھر آپ کون سا انتخابی ادارہ تجویز فرماتے ہیں؟

۱۰۔ ضمیمہ د میں وہ ساری دفعات درج ہیں جو سابق دستور میں صدر کے اوصاف عہدے کی میعاد اور علیحدگی کے متعلق رکھی گئی تھیں۔ کیا آپ اس بات کے حق میں ہیں کہ انھی کو من و عن اختیار کر لیا جائے یا آپ ان میں کسی ترمیم کے خواہاں ہیں۔ اگر آپ صدارتی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو کیا آپ اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ ایک نائب صدر بھی ہو؟ اسے کس طرح منتخب کیا جائے اور اس کے فرائض اور اختیارات کیا ہونے چاہیں؟

۱۱۔ کیا آپ ایک ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں یا دو ایوانی کے حق میں؟ ارکان کی تعداد کیا ہونی چاہیے اور آپ اسے کس طرح متعین کریں گے؟

جواب: ان چاروں سوالات کا جواب یہ ہے کہ ۱۹۵۶ کے دستور کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

سوال: مجلس قانون ساز کے ارکان کا انتخاب کس طرح کیا جائے؟

۱۔ کیا آپ اس امر کی سفارش کرتے ہیں کہ انتخاب:

الف۔ بالغ رائے دہندگی کے اصول پر۔

ب۔ یا محدود بالغ رائے دہندگی کے اصول پر، مثلاً یہ کہ ووٹر خواندہ ہو، یا کسی خاص حد تک جائیداد رکھتا ہو؟

ج۔ یا ایک انتخابی ادارے کے ذریعے سے؟

۲۔ اگر آپ (ب) کے حق میں ہیں تو پھر رائے دہندگی کو کن حدود سے محدود کیا جائے؟

۳۔ اگر آپ (ج) کو ترجیح دیتے ہیں تو کیا پھر آپ اس انتخابی ادارے کے قیام کی سفارش کریں گے جس کے ذریعے حال ہی میں صدر کا انتخاب ہوا ہے؟

اگر آپ اس کے حق میں نہیں ہیں تو پھر آپ کونسا انتخابی ادارہ تجویز کرتے ہیں۔

جواب: ہمارے نزدیک انتخاب کی تمام ممکن صورتوں میں نسبتہً بہتر اور قباحتوں کے لحاظ سے کم تر صورت یہ ہے کہ:

۔۔۔ہربالغ کو حق رائے دہی دیا جائے، کیونکہ اولاً محدود حق رائے دہی کی جتنی صورتیں بھی ہیں ان میں ناجائز تدابیر کی کامیابی کے مواقع حق رائے دہندگی بالغان کی بہ نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ثانیاً ہم اپنے عوام کو سیاسی تربیت دے کر ملک کی آزادی کی جڑیں اسی طرح مستحکم کر سکتے ہیں کہ عوام پر سیاسی نظام چلانے کی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے اور وہ انتخابات میں مختلف جماعتوں کے منشور اور اشخاص کو جانچنے اور ان میں سے بہتر کو چھانٹنے کے لائق بنیں۔ ثالثاً محدود حق رائے دہی کی صورت میں ووٹروں کے اندر خود غرض عناصر کا تناسب بہت زیادہ ہو جاتا ہے، اس کے برعکس عام حق رائے دہی میں ان کی نسبت گھٹ جاتی ہے۔ عام باشندے خود اپنے دشمن نہیں ہوتے کہ جان بوجھ کر برے لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کر لیں۔

۔۔۔بالواسطہ انتخابات یا الکٹورل کالج کا طریقہ ہمارے ملک کے حالات میں بدترین ممکن طریق انتخابب ہے، کیونکہ ووٹروں کی محدود تعداد کو مختلف قسم کی رشوتوں سے خریدنا، تعلقات سے متاثر کرنا اور دباؤ ڈال کر مغلوب کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی امیدوار ایک بڑے حلقۂ انتخاب کے ہزار ہا عام ووٹروں کو خرید سکے یا دبا سکے یا ان پر تعلقات کا اثر ڈال سکے۔

سوال: ۱۳۔ یہ سوال کہ انتخابات مخلوط رائے دہندگی کے اصول پر ہوں یا جداگانہ رائے دہندگی کے اصول پر سابق آئین میں پارلیمان کے فیصلے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ آخر کار اس امر کا فیصلہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کی قراردادوں سے ہوا اور مخلوط رائے دہندگی کو اپنا لیا گیا۔ کیا آپ اسی فیصلے کے حق میں ہیں یا اس سلسلے میں کوئی اور تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں؟

جواب: ہمیں تعجب ہے کہ سابق پارلیمنٹ کے فیصلوں میں سے صرف طریق انتخاب ہی کا فیصلہ محترم کمیشن کو قابل لحاظ محسوس ہوا، حالانکہ یہی سب سے زیادہ قابل اعتراض تھا اور اس پارلیمنٹ نے اسے سیاسی پارٹیوں کی سازشوں اور سودے بازیوں کے بدترین دور میں سخت شرمناک ہتھکنڈوں سے پاس کیا تھا۔ درحقیقت یہ طریق انتخاب پاکستان کے بنیادی نظریہ سے ٹکراتا ہے اور اس ملک کے لیے مہلک زہر کا حکم رکھتا ہے۔ اگر کمیشن ضرورت محسوس کرے تو ہم اس کے نقصانات کے متعلق پورا مواد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس قانون کے بجائے سابق طریق کار کے مطابق ملک کے پہلے انتخابات عام منعقد کیے جائیں، پھر طریق انتخاب کا آخری فیصلہ عوام کے نمائندے خود کریں۔

 

سوال: ۱۴ تا ۲۱

۱۴۔ مجلس قانون ساز کی رکنیت کے لیے کیا شرائط ہونی چاہییں؟ اگر آپ دو ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر آپ کے نزدیک ایوان بالا کی ہئیت ترکیبی کیا ہونی چاہیے؟

الف۔ کیا یہ انتخاب پیشہ وارانہ نمائندگی کے اصول پر کیا جائے جس میں اس بات کا بھی انتظام ہو کہ علم و تجربہ رکھنے والے ممتاز افراد نامزد کیے جا سکیں؟

ب۔ یا یہ ایوان بھی زیریں کی طرح پورے کا پورا منتخب ہو اور اس کے امیدواروں کے اوصاف ایوان زیریں کے ارکان کے اوصاف سے بلند تر رکھے جائیں۔

۱۵۔ آپ کی رائے میں دونوں ایوانوں کے (الف)متعلقہ اختیارات اور ان کی مدت، (ب) ان کے باہمی تعلقات (ج) صدر کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟

۱۶۔ اگر آپ وفاقی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو پھر کیا آپ وفاقی وحدتوں یعنی صوبوں کے لیے یک ایوانی مجلس قانون ساز تجویز کرتے ہیں یا دو ایوانی؟

۱۷۔ اگر آپ صوبوں کے لیے دو ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر

الف۔ دونوں ایوانوں کے جدا جدا اختیارات اور ان کی مدت قیام

ب۔ ان کے باہمی تعلقات، ج۔ اور صوبوں کے سربراہ یعنی گورنر کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟

۱۸۔ اگر آپ یک ایوانی مجلس قانون ساز کے حق میں ہیں تو پھر بتائیں کہ صوبائی مجلس قانون ساز کے گورنر کے ساتھ کیا تعلقات ہونے چاہئیں؟

۱۹۔ کیا آپ اس امر کے حق میں ہیں کہ گورنر کو قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر بتائیں کہ وہ انھیں کن حالات کے تحت استعمال کرے؟

۲۰۔ سابق آئین کی دفعہ ۷۰ میں گورنر کے اوصاف، استعفے کے طریق کار اور عہدے کی معیاد وغیرہ امور کے بارے میں جو صورتیں رکھی گئی تھیں کیا آپ انھی کو اختیار کریں گے یا ان میں تبدیلی ضروری سمجھتے ہیں؟

۲۱۔ سابق آئین کی دفعہ ۲۱۳ میں گورنر کو جو تحفظ دیا گیا تھا آپ اسی کے حق میں ہیں؟ اگر حکومت وحدانی ہو تو کیا آپ پھر بھی اسے اسی قسم کا تحفظ دینے کی سفارش کرتے ہیں؟

جواب: ان سب معاملات میں سابق دستور کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

۲۲: کیا آپ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ نئے دستور میں بنیادی انسانی حقوق اسی طرح صراحت کے ساتھ مقرر کیے جائیں جس طرح سابق آئین میں کیے گئے تھے؟ یا آپ کا یہ خیال ہے کہ برطانیہ کی طرح اطمینان کے ساتھ ان حقوق کے تحفظ کا کام مجلس قانون ساز کی نیک نیتی اور عدلیہ کی دانشمندی و تجربہ کاری پر چھوڑ دیا جائے اور یہ یقین کر لیا جائے کہ عدالتیں معروف و مسلم اصولوں پر خود عمل کروائیں گی؟

جواب: سابق دستور میں باشندوں کو جو بنیادی حقوق عطا کیے گئے تھے ان کو جوں کا توں باقی رہنا چاہیے۔ سردست ان میں کوئی ردو بدل برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

۲۳: کیا آپ نئے آئین میں مستقبل کی مجالس قانون سازا اور حکومت کی رہنمائی کے لیے وہی دیباچہ اور رہنما اصول برقرار رکھنا ضروری سمجھتے ہیں جو سابق آئین میں موجود تھے؟

جواب: سابق دستور کا دیباچہ اور رہنما اصول نہایت ضروری ہے، اس میں بھی کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہے۔

 

سوال ۲۴، ۲۵، ۲۶

۲۴۔ سابق آئین میں سپریم کورٹ اور عدالت ہائے عالیہ کے دائرہ اختیار اور ان عدالتوں کے ججوں کے اوصاف، مدت، تقرر اور برطرفی سے متعلق خود جو دفعات تھیں، کیا آپ انھی کو اختیار کر لینے کے حق میں ہیں یا ان میں کوئی ترمیم ضروری سمجھتے ہیں۔

۲۵۔ کیا آپ اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سے متعلق سابق آئین کی دفعات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا اس بارے میں کچھ اور تجاویز پیش کرتے ہیں؟

۲۶۔ سابق دستور کی دفعات ۱۷۹ تا ۱۸۳ سرکاری ملازمین کی شرائط ملازمت، میعاد، عہدہ، بھرتی اور نظم و ضبط وغیرہ امور سے بحث کرتی ہیں۔ کیا آپ انھی کو مناسب سمجھتے ہیں یا ان میں کسی ترمیم اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اگر آپ تبدیلی کے حق میں ہیں تو براہ کرم مطلوبہ تبدیلیوں کی نشاندہی کریں۔

جواب: ان امور میں بھی سابق دستور ہی کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

سوال ۲۷: فرانس میں ایک جامع نظام موجود ہے جسے انتظامی قانون کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ قانون (الف) خود اپنے ملازمین کے ساتھ حکومت کے تعلق (اور باب نظم و ضبط وغیرہ) کو، اور (ب) سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران میں پبلک کے ساتھ سرکاری ملازمین کے برتاؤ کو ضابطے اور قاعدے میں لاتا ہے۔ اس کے لیے وہاں انتظامی عدالتیں قائم ہیں جن کے اوپر سب سے بڑی انتظامی عدالت ہے جو کونسل آف سٹیٹ کہلاتی ہے۔ یہ کونسل زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور مذکورہ بالا امور میں فیصلے کی آخری عدالت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ بہت سے اہم معاملات میں حکومت کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتی ہے۔ فرانس میں یہ نظام نہایت تسلی بخش سمجھا جاتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک اس نظام کو کچھ رد و بدل کے ساتھ اس ملک میں رائج کر دینا فائدہ مند ثابت ہو گا؟

جواب: فرانسیسی قانون کے اس طریقے کو پاکستان میں اختیار کرنے سے ہمیں اختلاف ہے۔ اسلامی تصور انصاف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ایک ہی قانون اور ایک ہی عدالت حکام کے لیے بھی اور رعیت کے لیے بھی اتفاق کی بات ہے کہ اسی اسلامی تصور کو اس اینگلوسیکسن نظام قانون میں بھی اختیار کیا گیا تھا جس کے تحت ہم انگریزوں کی غلامی کے دور میں زندگی بسر کرتے رہے۔ اب یہ نیا تصور، جس سے ہمارے ہاں کے لوگ بالکل ناآشنا ہیں فرانس سے درآمد کرنے کی کیا حاجت ہے؟ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ ہم سات سال سے مسلسل ملازمین ریاست کی آقائی کے خطرے میں مبتلا ہیں، فرانس کا یہ نیا نظام قانون اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ سرکاری ملازمین کا ایک ’’فرمانروا طبقہ‘‘ (Ruling Class) اس قانون کے زیر سایہ پروان چڑھے گا جس کا قانونی مرتبہ عوام سے بلند قرار پائے گا۔

 

سوال ۲۸ تا ۳۲

۲۸۔ سابق آئین میں پبلک سروس کمیشن سے متعلق جو دفعات تھیں، کیا آپ انھی کو اختیار کرنے کی سفارش کرتے ہیں یا کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

۲۹۔ کیا تمام مدارج کے انتخابات کا انتظام پاکستان انتخابی کمیشن کے سپرد کیا جائے؟ اور کیا اسی کو ان تمام تدابیر پر عملدرامد کرنے کا ذمہ دار قراردیا جائے جو عام اور ضمنی انتخابات کے لیے تیاری کرنے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے ضروری ہیں؟

۳۰۔ کیا انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظر ثانی کرنے کا کام انتخابی کمیشن انجام دے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ بنیادی جمہورتیوں کے انتخاب کے لیے فہرستیں تیار کرنا اور پھر انتخابات کرانا انتخابی کمیشن کی نگرانی میں ہو یا یہ فرائض انتظامیہ کو سونپے جائیں؟

۳۱۔ کیا چیف الیکشن کمشنر اور انتخابی کمشنروں کا تقرر صدر ریاست اپنی جوابدید سے کرے یا اس تقرر کے لیے مقننہ کی منظوری بھی لازمی سمجھی جائے؟ یا آپ انتخابی کمیشن کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے اس کے تقرر کا کوئی اور طریقہ تجویز کرتے ہیں، یا آئین میں اس کے لیے کچھ اور دفعات رکھوانا چاہتے ہیں؟

۳۲۔ سابق آئین کی دفعہ ۱۴۲ حد بندی کمیشن سے بحث کرتی ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے کیا آپ اسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا کسی تبدیلی کی سفارش کرتے ہیں؟

جواب۔ ان تمام امور میں سابق دستور کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

سوال۳۳: سابق دستور کی جو دفعات ان اقدامات سے بحث کرتی ہیں جو دوران جنگ یا داخلی اضطرابات کی حالت میں کیے جانے ہیں، کیا آپ انھی کو کافی سمجھتے ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں؟

جواب۔ اگرچہ ہم سابق دستور کی دفعات ۱۹۲ اور ۱۹۶ کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں اور ان کی اصلاح ہمارے نزدیک ضروری ہے۔ مگر سردست ہماری رائے یہی ہے کہ سابق دستور جوں کا توں بحال کیا جائے اور اس کی ترمیم و اصلاح کے کام کو عوام کی نمائندہ اسمبلی پر چھوڑا جائے۔

سوال۳۴: کیا آپ نئے دستور میں ایسی کچھ دفعات رکھنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی اقدار اور زندگی کے تغیر پذیر حالات پر ان کے انطباق کا مطالعہ کرنے میں مدد دی جائے؟ اگر ایسا ہے تو آپ اس کے لیے کیا خاص تدابیر تجویز کرتے ہیں؟

جواب: ہمیں سخت افسوس ہے کہ یہ سوال ہمارے سامنے اس شکل میں رکھا گیا ہے کہ ’’کیا تم مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی قدروں کے مطالعے میں مد دینے کے لیے نئے دستور کے اندر کسی دفعہ کا شامل کیا جانا ضروری سمجھتے ہو؟‘‘ اس صورت سوال سے اس طرز فکر کی کوئی اچھی تصویر آدمی کے سامنے نہیں آتی جس کے ساتھ یہ مسئلہ کمیشن کی توجہ کا مستحق بنا ہے۔ ہم اپنا فرض ادا کرنے میں سخت کوتاہی برتیں گے اگر اس کام کا مرحلۂ آغاز ہی میں کمیشن کو اور آگے ان ارباب اقتدار کو جن کے ہاتھ میں کمیشن کی رپورٹ پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہے دوباتوں سے صاف صاف آگاہ نہ کر دیں۔

اول، یہ کہ پاکستان عام مسلمانوں کی قربانیوں سے بنا ہے اور خدا کے فضل و کرم کے بعد دوسری کوئی چیز اگر اس کے بقا و استحکام کی ضامن ہے تو وہ عام مسلمانوں کا یہ عزم ہے کہ اس مملکت کو باقی رکھا جائے۔ کوئی غیر مسلم اس مملکت کو وجود میں نہیں لایا ہے۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے بغیر یہ بن سکتا تھا اور نہ یہ باقی رہ سکتا ہے اگر خدا نخواستہ عام مسلمان اس سے مایوس ہو جائیں اور ان کے اندر اس کو زندہ رکھنے کے لیے کٹنے اور مرنے کا جذبہ باقی نہ رہے۔

دوم، یہ کہ چند اونچے درجے کے سرکاری ملازمین اور چند خوشحال طببقات کے سوا عام مسلمان اس ملک کو ایک اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں جس کا قانون اسلامی ہو، جس کا نظام اسلامی ہو، جس کی تعلیم اسلامی ہو، اور جس کی تہذیب اسلامی ہو۔ اسی مقصد کے لیے مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیے جان و مال اور آبرو کی قربانیاں دیں۔ اسی کے لیے ان کو قیام پاکستان سے دلچسپی تھی، اسی کے لیے وہ بقائے پاکستان سے دلچسپی رکھتے ہیں اس دلچسپی کو ختم کر دینے سے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ عام مسلمانوں کو مایوس اور بدل کر دینے کے بعد وہ مٹھی بھر لوگ اس مملکت کو کیا سہارا دے سکتے ہیں جو اسلام کے نام سے گھبراتے ہیں۔

ان دو حقیقتوں کو خوب سمجھ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیجیے کہ آپ جو دستور بنانا چاہتے ہیں اس میں کس کو مطمئن کرنا آپ کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتا ہے؟ اگر آپ اس ملک کی ۸۵فیصدی مسلم آبادی کے اطمینان کو کوئی اہمیت دیتے ہیں تو پھر آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان اس مملکت سے صرف اتنی سی بات نہیں چاہتے کہ انھیں اس سے بس اپنے دین کی قدروں کے مطالعہ میں مدد مل جائے۔ ان قدروں کا تو وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی مطالعہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔ صرف اتنے سے کام کے لیے انھیں لڑ بھڑ کر ایک نئی مملکت بنوانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ وہ جس چیز کے خواہاں ہیں وہ اس پوری مملکت کو ایک اسلامی ریاست بنانا ہے۔ اور اس غرض کے لیے ان کو کم سے کم جو چیز مطمئن کر سکتی ہے جس سے کم پر وہ ہرگز راضی نہیں ہیں، وہ یہ ہے کہ سابق دستور کی دفعات ۲۴ تا ۲۶، ۲۸ تا ۳۰، ۳۲ (۲)، ۱۹۷ اور ۱۹۸ کو علیٰ حالہا باقی رکھا جائے۔ اگرچہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ دفعات بھی ناقص اور ناکافی ہیں اور ان سے زائد بہت کچھ ضروری ہے۔ لیکن جو کچھ پہلے مانا جا چکا ہے اس سے پیچھے جانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

 

سوال ۳۵ تا ۳۷

۳۵: سابق آئین میں یوم آئین کے بعد سے دس سال تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ کیا آپ اس قسم کی تخصیص کو ضروری سمجھتے ہیں؟

۳۶۔ آپ اچھوتوں اور پس ماندہ طبقات کے لیے کون سی خصوصی دفعات تجویز کرتے ہیں؟

۳۷۔ سابق دستور میں مستثنیٰ اور مخصوص علاقوں کے لیے جو دفعات رکھی گئی تھیں کیا آپ ان میں کسی تبدیلی کی سفارش کرتے ہیں؟

جواب: ان کا جواب یہ ہے کہ سابق دستور ہی کے مطابق عمل کیا جائے۔

سوال ۳۸: دستور میں ترمیم کے لیے آپ کیا صورتیں تجویز کرتے ہیں؟ کیا آپ سادہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے یا اس سے بڑے مثلاً دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت کے ذریعے ترمیم پسند کریں گے؟

جواب: اگر سابق دستور بحال ہو تو اس کی دفعہ ۲۱۶ درباب ترمیم دستور برقرار رہنی چاہیے۔ لیکن اگر اب کوئی نیاد ستور بنایا جائے تو ہم اس کی ترمیم کے لیے مجرد حاضر ارکان کی اکثریت کے ووٹ کا طریقہ اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے۔

سوال ۳۹: ایک ایسی جمہوریت کے قیام کے لیے جو تغیر پذیر حالات کے ساتھ مطابقت پیدا کرتی جائے اور جو انصاف، مساوات اور رواداری کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو آپ دوسری کیا تجویز پیش کریں گے؟

جواب: اس سوال کے جواب میں ہم کمیشن کو اسلامی مملکت کے ان ۲۲ بنیادی اصولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو جنوری ۵۱ میں ہر مکتب خیال کے علما نے بالاتفاق مرتب کیے تھے۔ ان کی ایک کاپی ہمارے اس جواب کے ساتھ منسلک کی جا رہی ہے۔ اس سے کمیشن کو معلوم ہو جائے گا کہ انصاف، مساوات اور رواداری کے اسلامی اصول فی الحقیقت کیا ہیں اور ان پر ایک جمہوریت کیسے قائم ہو سکتی ہے جوہر دور میں چل سکتی ہو۔

سوال ۴۰۔ کیا آپ ہمارے دائرہ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی اور تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں؟

جواب: ہم حسب ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں:

۱۔ گذشتہ سال جسٹس ایس اے رحمن کی صدارت میں جو لا کمیشن مقرر کیا گیا تھا اس کی رپورٹ کا صفحہ۵ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس مملکت کے باشندوں کی عظیم اکثریت اسلامی قانون چاہتی ہے اس لیے دستور میں صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ قرآن اور سنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے گا۔ بلکہ ایجابی طور پر طے ہونا چاہیے کہ مملکت کے قانون کا اولین ماخذ قرآن اور سنت ہوں گے۔

۲۔ صدر مملکت کا انتخاب دستور نافذ ہونے کے بعد از سر نو ہونا چاہیے۔

۳۔ ملک کے دستور میں لازماً ان امور کی صراحت ہونی چاہیے کہ:

الف۔ ملک میں مارشل لا صدر مملکت کے باقاعدہ اعلان کے ذریعے سے صرف ان حالات میں لگایا جا سکے گا جبکہ ملک میں کھلی بغاوت رونما ہو اور سول گورنمنٹ اسے رفع کرنے میں ناکام ہو جائے۔ یا جبکہ حالت جنگ میں دفاعی اغراض کے لیے اس کی ضرورت ہو۔

ب۔ مارشل لا صرف اس وقت تک نافذ رہ سکے گا جب تک دیوانی حکومت انتظام سنبھالنے کا قابل نہ ہو جائے۔

ج۔ مارشل لا کے حکام کا فرض قیام امن سے زائد کچھ نہ ہو گا۔

د۔ مارشل لا کے حکام کسی غیر فوجی آدمی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے مجاز نہ ہوں گے (یا کم از کم یہ کہ صرف ایسے لوگوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے گا جو بالفعل مسلح مزاحمت کرتے ہوئے یا حملہ آور دشمن سے عملاً تعاون کرتے ہوئے گرفتار ہوں)

ہ۔ مارشل لا کے احکام کا اطلاق کسی حالت میں مارشل لا سے پہلے کے افعال پر نہ ہو سکے گا۔

و۔ کسی انڈمنٹی ایکٹ میں مارشل لا کے حکام کو صرف ان افعال سے بری الذمہ کرنے کی گنجائش رکھی جائے گی جو نیک نیتی کے ساتھ کیے گئے ہوں اور ان کا ارتکاب قیام امن کی ضرورت کے لیے ناگزیر ہو۔

ز۔ مارشل لا کے بعد سزاؤں اور ضبطیوں وغیرہ کے احکام کے خلاف لوگوں کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق ہو گا۔

ہماری یہ تجاویز نہ صرف انصاف کے معروف اصولوں پر مبنی ہیں، بلکہ ہم معزز ارکان کمیشن کو توجہ دلائیں گے کہ وہ براہ کرم ۱۸۰۴ کا ریگولیشن ۱۰ اور وہ ہدایات جو مارشل لا کے سلسلے میں لارڈولزلی نے دی تھیں اور وہ قوانین براعت (Indemnity Acts) جو انگریزی دور حکومت میں وقتاً فوقتاً پاس کیے گئے تھے بغور ملاحظہ فرمائیں۔ اس تقابل سے انھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہماری یہ تجاویز اس انصاف کے حدود سے ذرہ برابر متجاوز نہیں ہیں جسے ایک غیر قوم اس ملک پر حکومت کرنے میں ملحوظ رکھتی تھی۔

____________

B