آئین کمیشن کا سوالنامہ اور علما کی طرف سے اس کا متفقہ جواب
حال میں صدر مملکت کے مقرر کردہ آئین کمیشن کی طرف سے ۴۰ سوالات پر مشتمل جو سوالنامہ شائع ہوا ہے اس پر غور کرنے کے لیے ۵۔۶ مئی ۱۹۶۰ کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا اور بالاتفاق ایک جواب تیار کر کے آئین کمیشن کو بھیج دیا گیا۔ اس جواب پر حسب ذیل اصحاب کی دستخط ثبت ہیں:
۱۔ مولانا مفتی محمد حسن صاحب، مہتمم جامعۂ اشرفیہ، لاہور
۲۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، صدر دارالعلوم، کراچی۔
۳۔ مولانا شمس الحق صاحب، صدر وفاق المدارس العربیہ، پاکستان پشاور۔
۴۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی، شیخ التفسیر والحدیث، جامعہ اشرفیہ، لاہور۔
۵۔ مولانا ابوالحسنات قادری، امیر حزب الاحناف پاکستان، لاہور۔
۶۔ مولانا محمد داؤد غزنوی، صدر جمعیت اہلحدیث، لاہور۔
۷۔ ابوالاعلیٰ مودودی۔
۸۔ مولانا محمد اسماعیل خطیب جامع اہلحدیث گوجرانوالہ
۹۔ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی، مہتمم دارالعلوم جامعہ نعیمیہ، لاہور۔
۱۰۔ مولانا سید محمود احمد رضوی، نائب ناظم مرکزی انجمن حزب الاحناف پاکستان، لاہور
۱۱۔ مولانا عطاء اللہ حنیف، خطیب جامع مبارک اہل حدیث، لاہور۔
۱۲۔ مولانا خلیل احمد صاحب قادری، خطیب مسجد وزیر خاں، لاہور۔
۱۳۔ مولانا مفتی سیاح الدین صاحب کاکا خیل، صدر مدرس مدرسہ اشاعت العلوم، لائل پور۔
۱۴۔ مولانا عبدالحنان صاحب، مہتمم دارالعلوم حنیفہ عثمانیہ، راولپنڈی۔
۱۵۔ مولانا محمد حنیف ندوی، لاہور۔
۱۶۔ مولانا محمد اسحاق، ایڈیٹر الاعتصام، لاہور۔
۱۷۔ مولانا نصر اللہ خاں صاحب عزیز، ایڈیٹر تسنیم، لاہور۔
۱۸۔ میاں طفیل محمد صاحب، مینجنگ ڈائریکٹر اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور۔
۱۹۔ جناب کوثر نیازی صاحب، ایڈیٹر شہاب، لاہور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: آپ کے نزدیک پاکستان میں جمہوری حکومت کے پارلیمانی طریقے کی بتدریج ناکامی کی نوعیت اور اس کے اسباب کیا ہیں جن کی بدولت آخر کار ۱۹۵۶ کے دستور کی تنسیخ عمل میں آئی؟
(آئندہ اس دستور کا ذکر سابق دستور کے نام سے کیا جائے گا)
جواب: اس سوال کا صحیح جواب دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ متعلقہ واقعات کو ان کی تاریخی ترتیب کے ساتھ دیکھا جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر یہ تحقیق ممکن نہیں ہے کہ یہاں دراصل کیا چیز ناکام ہوئی ہے اور اس ناکامی کی نوعیت کیا ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں۔
اس سلسلے میں متعلقہ واقعات کی ترتیب یہ ہے:
۱۔ تقسیم سے پہلے برطانوی ہند میں ۱۹۳۵ کے دستور پر نظام حکومت قائم تھا، جس کی رو سے حاکمیت کے اصل اختیارات برطانیہ کی پارلیمنٹ کو حاصل تھے اور برطانوی ہند کے صوبوں کا پارلیمنٹری نظام حکومت اس حاکمیت کے تحت محدود اختیارات پر کام کر رہا تھا۔
۲۔ تقسیم کے موقع پر بھارت اور پاکستان کی دو الگ خود مختار مملکتیں وجود میں آئیں۔ مگر حاکمیت براہ راست ان مملکتوں کے باشندوں کی طرف منتقل نہیں کی گئی بلکہ انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ ۱۹۴۷ کے تحت اس حاکمیت کو دونوں مملکتوں کی دستور ساز اسمبلیوں کی طرف منتقل کر دیا گیا تاکہ جب تک نیا دستور نہ بنے اس وقت تک وہ تاج برطانیہ کے جانشین کی حیثیت سے یہاں حاکمیت کے اختیارات استعمال کریں، اور پھر نیا دستور بنا کر ان اختیارات کو باشندوں کی طرف منتقل کر دیں۔ دوسرے الفاظ میں اصل مقصود تو حاکمیت کے اختیارات باشندوں کے حوالے کرنا تھا، مگر ایک عارضی انتظام کے طور پر یہ اختیارات دستور ساز اسمبلیوں کے پاس بطور امانت رکھے گئے تھے۔
۳۔ اس انتظام کے مطابق دونوں ملکوں میں باشندوں کی طرف اختیارات کا منتقل ہونا نئے دستور کے بننے اور اس کے مطابق عام انتخابات منعقد ہونے پر موقوف تھا۔ بھارت کی دستور ساز اسمبلی نے دستور بنانے کا کام نومبر ۱۹۴۹ میں مکمل کر دیا۔ اس کے بعد جلدی ہی انتخابات عام منعقد کیے گئے اور اختیارات عملاً باشندوں کی طرف منتقل کر دئیے گئے۔ دس سال سے وہاں پارلیمنٹری طرز حکومت کے مطابق ہی جمہوریت کا نظام چل رہا ہے۔ اس کی ’’بتدریج ناکامی‘‘ اور ’’دستور کی تنسیخ‘‘ کا وہاں قطعاً کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان کی داستان اس سے بالکل مختلف ہے۔
۴۔ پاکستان میں شاہی اختیارات کی حامل دستور ساز اسمبلی جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی انھوں نے دستور بنانے اور اختیارات کی امانت قوم کے حوالے کرنے میں پیہم تاخیر کی۔ اس اسمبلی کے لیے نہ کوئی مدت تھی کہ اس کے ختم ہونے کے بعد وہ آپ سے آپ ختم ہو جاتی اور نئے سرے سے انتخابات ہوتے۔ نہ اس کو برخاست کرنے کی کوئی آئینی صورت تھی کہ اسے رخصت کر کے لوگوں کو دوسرے آدمی منتخب کرنے کا کوئی موقع ملتا۔ جب تک وہ دستور نہ بناتی شاہی اختیارات اسے حاصل رہنے تھے۔ اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ ناقابل تغیر و تبدل اسمبلی کئی سال تک دستور بنانے میں تاخیر کرتی رہی۔ اس دوران میں یہ لوگ سرکاری ملازمین (Services) کے بل بوتے پر اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور صوبائی انتخابات جیتنے اور عوامی مطالبات کو ملازمین (جن سے مراد صرف سول ملازمین ہی نہیں ہیں) کی مدد سے دبانے کی کوشش کرتے رہے، حتی کہ ۱۹۵۳ تک پہنچتے پہنچتے چھ سال کے اس مسلسل عمل سے ملازمین کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا اور بڑھتا چلا گیا کہ طاقت کے اصل مالک وہ ہیں اور یہ سیاسی لیڈر ان کے بل پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اس احساس کو نتیجہ خیز بنانے میں جس چیز نے سب سے بڑھ کر کارگر حصہ لیا وہ یہ تھی کہ مسٹر لیاقت علی خاں مرحوم کی وفات کے بعد رئیس مملکت کا منصب ملازمین ہی کے طبقے کے ایک فرد (مسٹر غلام محمد مرحوم) کو حاصل ہو گیا تھا اور پھر اسی طبقے کے افراد اسی منصب پر فائز ہوتے رہے۔
۵۔ اپریل ۱۹۵۳ میں لاہور کے مارشل لا کے دوران، سیاسی لیڈروں سے ملازمین ریاست کی طرف انتقال حاکمیت کا پہلا قدم اٹھا، اور وہ گورنر جنرل کی طرف سے دستور ساز اسمبلی کے لیڈر خواجہ ناظم الدین کی برطرفی تھی۔ اس کے معنی یہ تھے کہ عوام کے نمائندہ وزیر اعظم سے تاج برطانیہ کے مقرر کردہ گورنر جنرل نے حکومت کے اختیارات سلب کر لیے۔ اگر برطانیہ میں پاکستان کی حکومت پر دوبارہ قبضہ کر لینے کے لیے کوئی ارادہ موجود ہوتا تو گورنر جنرل کی یہ کارروائی آخر کار تاج برطانیہ کی طرف انتقال حاکمیت پر نتج ہوتی۔ لیکن چونکہ وہاں ایسا کوئی ارادہ باقی نہ تھا اس لیے یہ عمل ملازمین حکومت کی طرف انتقال حاکمیت کا پہلا قدم بن گیا۔ لاہور کے مارشل لا نے اس وقت جو حالات پیدا کر رکھے تھے ان کی وجہ سے باشندگان ملک اس پر کوئی احتجاج نہ کر سکے۔ اخبارات نے اپنی خیر منائی اور یہ احساس کیے بغیر اسے سراہا کہ ان کی قوم آزادی سے پھر غلامی کی طرف طرف جا رہی ہے۔ ملازمین نے اس کا خیر مقدم کیا اور ان کے ضمیر نے انھیں یہ احساس نہ دلایا کہ وہ قوم سے تنخواہیں پا رہے ہیں اور قوم ہی کے فراہم کردہ ذرائع و وسائل اور اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔
۶۔ اس پہلی ٹھوکر سے دستور ساز اسمبلی کے سیاسی لیڈروں کو یہ خطرہ نظر آ گیا کہ وہ اب تک جن شاہانہ اختیارات کو قوم کی طرف منتقل ہونے سے روکتے رہے ہیں وہ ان کے ہاتھ میں رہنے کے بجائے ان ملازمین ریاست کی طرف منتقل ہونے لگے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ خود حاکمیت کے مالک بن کر رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے جلدی جلدی دستور بنانا شروع کیا۔ ۱۹۵۴ کے آخر تک یہ دستور تیار کر دیا گیا اور اس کو آئینی شکل دے دینے کے لیے ۲۵ دسمبر ۱۹۵۴ کی تاریح کا اعلان بھی کر دیاگیا۔ لیکن قبل اس کے کہ اس طرح باشندوں کی طرف انتقال اختیارات کی نوبت آتی، ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ کو تاج برطانیہ کے مقرر کردہ گورنر جنرل نے وہ دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی جس کو تاج برطانیہ نے ۱۹۴۷ میں دراصل اختیارات شاہی بطور امانت سپرد کیے تھے۔ اس وقت بھی برطانوی سلطنت میں پاکستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ موجود نہ تھا۔ اس لیے دستور ساز اسمبلی سے چھینی ہوئی یہ حاکمیت ملک غلام محمد صاحب کو کسی ایسی غیر مشخص حیثیت میں حاصل ہو گئی جو نہ تاج برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت تھی اور نہ باشندگان ملک کے نمائندے کی۔ زیادہ سے زیادہ ان کو بس ملازمین ریاست کی خواہشات کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ کارروائی وہ اس کے بغیر نہ کر سکتے تھے کہ یہ ملازمین اپنی قوم اور ملک کا حق غصب کرنے میں پوری طرح ان کا ساتھ دیں۔
۷۔ اس غصب کو روکنے کے لیے بغاوت کے بجائے عدالت کا راستہ اختیار کیا گیا مگر اس وقت کے فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کو اس شاہی اختیار (Prerogative) کا حامل قرار دے کر اسے جائز ٹھہرا دیا جسے انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ کے بعد خود اس گورنر جنرل کا تقرر کرنے والا بادشاہ بھی استعمال کرنے کا مجاز نہ رہا تھا، اور نہ اب وہ دوبارہ اسے واپس لے کر استعمال کرنے کے لیے تیار ہی تھا۔ حال ہی میں اس عدالت کے فاضل چیف جسٹس نے خود یہ پوزیشن واضح کر دی ہے کہ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ دراصل قانونی نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر تھا۔ اور اس مجبوری کی بنا پر دیا گیا تھا کہ ملک کی بلند ترین عدالت ان ہاتھوں پر قانون کا فیصلہ نافذ کرنے سے معذور تھی جو اس وقت اختیارات پر قابض ہو چکے تھے (ملاحظہ ہو پاکستان ٹائمز مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۶۰ میں جسٹس محمد منیر کی تقریر)۔
۸۔ اس کے بعد ملک غلام محمد مرحوم نے ایک دستوری کنونشن کے ذریعے سے ملک کا نیا دستور بنوانے کی کوشش کی۔ اگر چونکہ اس وقت تک خوش قسمتی سے ملک میں اتنی آزادی باقی تھی کہ عدالتیں دستوری مسائل میں کوئی فیصلہ دے سکتیں، اس لیے فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کو احساس دلایا کہ وہ شاہی اختیار کے حامل ہونے کے باوجود مالک الملک نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں ملک کا دستور بنوالیں، بلکہ انہیں انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ کے حدود میں رہتے ہوئے ایک دستور ساز اسمبلی ہی کے ذریعے سے جس کو نمائندہ حیثیت حاصل ہو ملک کا دستور بنوانا ہو گا۔
۹۔ ۱۹۵۵ کے وسط میں فیڈرل کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق ایک نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی جسے کم از کم آئینی طور پر پھر وہی حاکمیت کے اختیارات حاصل ہو گئے جو سابق اسمبلی سے چھینے گئے تھے۔ اس نے مارچ ۱۹۵۶ میں وہ دستور بنا کر نافذ کر دیا جو اب ’’سابق دستور‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دستور کے تحت صدارت جمہوریہ کا حلف لینے کے بعد سابق گورنر جنرل اس شاہی اختیار کا حامل نہ رہا جو اسے کسی نہ کسی طرح مل گیا تھا۔ اب وہ پارلیمنٹ کا منتخب کیا ہوا صدر تھا جو اپنے اختیارات دستور اور صرف دستور سے حاصل کر رہا تھا اور آئین، عقل، انصاف، اخلاق، یا باشندگان ملک کی مرضی، غرض کسی ممکن التصور ماخذ سے بھی اس کو یہ حیثیت حاصل نہیں تھی کہ ملک کے آٹھ کروڑ باشندوں میں سے تنہا وہ ملک کی بھلائی کا اجارہ دار بن کر کوئی ایسا فیصلہ کر دے جس کا اختیار اسے دستور نہ دیتا ہو۔ اس طرح کم از کم کاغذی آئین کی حد تک اختیارات کے انتقال کا رخ ملازمین ریاست سے باشندوں کی طرف مڑ گیا اور عملاً ان کے منتقل ہونے میں صرف یہ کسر باقی رہ گئی کہ انتخابات عام منعقد ہوں اور باشندگان ملک کے نمائندے آ کر ان کی طرف سے اختیارات کی امانت وصول کر لیں۔ ان انتخابات کے لیے کافی لیت و لعل کے بعد فروری ۱۹۵۹ کی تاریخیں بھی مقرر ہو چکی تھیں۔
۱۰۔ اس آخری مرحلے پر ان سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے جن کے ہاتھ میں مرکز اور صوبوں کی حکومتیں تھیں، اس غرض کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے کہ آئندہ انتخابات میں وہی کسی نہ کسی طرح گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو جائیں اور اس کام میں انھوں نے پھر ملازمین ریاست ہی کو آلہ کار بنانا چاہا، لیکن اب ۱۹۵۳ سے پہلے کی پوزیشن باقی نہ رہی تھی کہ ملازمین دوسروں کو گھوڑے پر سوال کرنے کا ذریعہ بنتے۔ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کی کشمکش بالآخر جس چیز پر ختم ہوئی وہ ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ کو مسٹر سکندر مرزا کے ہاتھوں دستور کی تنسیخ تھی جو انتخابات عام کی تاریخوں کا اعلان ہو چکنے کے تین مہینے بعد عمل میں آئی۔
تاریخی واقعات کے یہ دس مراحل جو ترتیب وار بیان کیے گئے ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں درحقیقت پارلیمنٹری طرز کی جمہوریت سرے سے قائم ہی نہیں ہوتی کہ اس کے ناکام ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال پیدا ہو۔ پارلیمنٹری جمہوریت صرف وزارتوں کے ذریعے سے حکومت کرنے کا نام نہیں ہے۔ اس کا اصل جوہر یہ ہے کہ اختیارات کے اصل حامل باشندے ہوں، وہ اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے اور بدلنے پر قادر ہوں، اور پھر اس طرح کے نمائندے حکومت کا انتظام چلائیں، مگر یہاں برطانوی پارلیمنٹ کے ہاتھ سے نکلے ہوئے اختیارات کی امانت نہ آج تک باشندوں کو منتقل ہوئی نہ ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے انھوں نے کبھی اپنے نمائندے منتخب کیے اور نہ بھارت کے باشندوں کی طرح انہیں اپنی مرضی کی حکومت بنانے اور بدلنے کا کوئی موقع ایک دن کے لیے بھی نصیب ہوا۔ اس کے بجائے یہاں ۱۳ سال سے چند سیاسی لیڈروں اور ملازمین ریاست کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی ہوتی رہی ہے جس میں آئین و قانون ہی کا نہیں، اخلاق اور دیانت کے بالکل ابتدائی تصورات تک کا ذرہ برابر بھی لحاظ نہیں کیا گیا ہے۔ ملک کے باشندے اسے فری اسٹائل کشتی کے دوران میں کبھی اپنے حق کے لیے شور مچاتے اور کبھی بے بسی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہے ہیں۔ اسے خواہ ان باشندوں کی شرافت اور امن پسندی سے تعبیر کیا جائے یا کمزوری اور بے شعوری کا نام دیا جائے کہ انھوں نے کبھی اپنا حق وصول کرنے کے لیے بغاوت نہیں کی، نہ خفیہ تحریکوں کا گھناؤنا راستہ اختیار کیا۔ لیکن بہرحال اسے ان کی نااہلی کا نام نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ برطانیہ کے ہاتھ سے نکلی ہوئی امانت اختیار چند طاقت ور کھلاڑیوں کی فٹ بال بنی رہی ہے، وہ کبھی ان باشندوں کے ہاتھ آئی ہی نہیں کہ وہ اس کا استعمال کرتے اور ان کی اہلیت یا نااہلی کا کوئی اظہار ہو سکتا۔
سوال۲: ان اسباب یا ایسے ہی دوسرے اسباب کے پھر رونما ہونے کا سد باب کرانے کے لیے آپ کیا تدابیر تجویز کرتے ہیں؟
جواب: پارلیمنٹری طرز حکومت کی نہیں بلکہ خود جمہوریت کی ناکامی کے جو اسباب سوال نمبر۱ کے جواب میں بیان کیے گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان کے علاج کی جو صورتیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ ہیں:
اولاً سیاسی لیڈر اور سرکاری ملازمین، دونوں طبقے خدا کا خوف کریں اور طاقت رکھنے کے باوجود حق شناسی سے کام لیں۔ یہ آزادی جو اگست ۱۹۴۷ میں ہم کو ملی تھی، یہ دراصل کروڑوں مسلمانوں کی جدوجہد محنت اور قربانی کا نتیجہ تھی۔ وہ اگر متحدہ جانفشانی نہ دکھاتے اور جان، مال اور آبرو کے ہولناک نقصانات نہ برداشت کرتے تو برطانوی پارلیمنٹ سے حاکمیت کے اختیارات کبھی پاکستان کی طرف منتقل نہ ہوتے۔ اس نتیجے کے حصول میں سرکاری ملازمین اور سیاسی لیڈروں کا حصہ خواہ کتنے ہی مبالغہ کے ساتھ بیان کیا جائے، بہرحال ان کروڑوں مسلمانوں کی جانفشانی کے مقابلے میں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پھر حقیقت کے اعتبار سے بھی برطانوی پارلیمنٹ دراصل باشندگان پاکستان کے حق میں حاکمیت سے دست بردار ہوئی تھی نہ کہ چند سیاسی لیڈروں، یا ملازمین ریاست کے حق میں۔ اس امانت کی پوزیشن کو جب تک ٹھیک ٹھیک جان اور مان نہ لیا جائے اور ایمانداری کے ساتھ اسے ادا کرنے کا مخلصانہ ارادہ پیدا نہ ہو جائے (خواہ اس کی ادائیگی پر مجبور کرنے والی کوئی طاقت خارج میں موجود ہو یا نہ ہو) اس وقت تک آئندہ کے لیے پاکستان کے دستوری مسئلے کا کوئی اطمینان بخش اور پائیدار حل ممکن نہیں ہے جو اکتوبر ۱۹۵۴ اور اکتوبر ۱۹۵۸ کے جھٹکوں کا بار بار اعادہ ہونے سے اس ملک کو بچا سکے۔
ثانیاً، اوپر کی ناگزیر اور مقدم شرط کے متحقق ہو جانے کے بعد عملاً جو اقدام ہونا چاہیے وہ یہ نہیں ہے کہ ملک کا دستور ایک کمیشن بنائے اور پھر ایک مجلس وزرا اس کو بہ ترمیم یا بلاترمیم منظور کر کے نافذکر دے۔ بلکہ صحیح تدبیر یہ ہے کہ ملک میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ طریقے سے وہی انتخابات عام منعقد کیے جائیں جو فروری ۱۹۵۹ میں ہونے والے تھے پھر ملک کے جو نمائندے منتخب ہو کر آئیں انھیں ۱۹۵۶ کے دستور کے مطابق ہی اختیارات کی وہ امانت سونپ دی جائے جو اگست ۱۹۴۷ سے اب تک گوئے چوگان بنی رہی ہے اور انھی پر یہ بات چھوڑ دی جائے کہ دستور میں جس ترمیم کی ضرورت ہو وہ باشندوں کی مرضی کے مطابق کر دیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اندیشہ ہے کہ جو دستور مارشل لا کی حالت میں ایک کمیشن بنائے گا اور ایک مجلس وزرا اس کی منظوری دے گی وہ اتنا احترام بھی حاصل نہ کر سکے گا جتنا احترام یہاں اس دستور کا ہوا ہے جو کھلے اور آزادانہ بحث مباحثہ کے ماحول میں ایک نمائندہ اسمبلی نے بنایا تھا باربار دستوروں کا بننا اور اٹھا کر پھینک دیا جانا ملک کے اندر بھی قانون کی حرمت ختم کر دے گا اور ملک کے باہر بھی ہماری عزت اور وقار کا جنازہ نکال دے گا۔
ثالثاً دستور کی تجدید کے بعد تمام ملازمین ریاست سے فرداً فرداً اس امر کا حلف لیا جائے کہ وہ دستور کا احترام کریں گے اور اپنے آپ کو اس کے ماتحت باشندگان ملک کا ملازم سمجھیں گے۔ اور اس کے خلاف نہ خود کوئی اقدام کریں گے نہ کسی اقدام کرنے والے کا ساتھ دیں گے۔ نیز ان سے یہ بھی حلف لیا جائے کہ ملک میں جو انتخابات بھی ہوں، ان میں وہ قطعاً غیر جانبدار رہیں گے اور کسی پارٹی کے حق میں یا اس کے خلاف کوئی ایسا کام نہ کریں گے جو دستور قانون کے منافی ہو۔ دنیا میں کسی جگہ حتی کہ امریکہ اور انگلستان میں بھی کوئی جمہوری حکومت اس طرح نہیں چل سکتی کہ سرکاری ملازمین ایک سیاسی جتھے کی حیثیت اختیار کر لیں اور قوم کے نمائندوں کے ماتحت نوکری کرنے کے بجائے ریاست کا نظام چلانے کی اصل ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
سوال: مذکورہ بالا سوالات کے بارے میں آپ جن نتائج پر پہنچے ہیں ان کی روشنی میں:
۱۔ کیا آپ پارلیمانی نظام حکومت کو ترجیح دیتے ہیں یا صدارتی طرز حکومت کو؟
۲۔ کیا آپ وحدانی طرز حکومت کے حق میں ہیں یا وفاقی طرز حکومت کے حق میں؟
جواب: ۱۔ اسلام میں صدارتی طرز حکومت اور پارلیمنٹری طرز حکومت دونوں مباح ہیں اور دونوں کی یکساں گنجائش ہے۔ اب یہ بات کہ ہم کونسا طریقہ اختیار کریں اس امر پر موقوف ہے کہ ہمارے حالات کے لحاظ سے موزوں تر نظام کون سا ہے۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے حسب ذیل چند امور قابل توجہ ہیں:
اول: اس ملک میں اب تک جمہوریت کا جو نشوونما بھی ہوا ہے، برطانوی طرز پر ہوا ہے اور ہمارے ہاں کے لوگوں کی سیاسی تربیت بھی پارلیمنٹری طرز حکومت سے اشبہ طریقوں پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس صدارتی طرز حکومت یہاں کے لیے بالکل نیا ہے۔ اگر یہاں کے باشندوں کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ پارلیمنٹری طرز کو جس کا انہیں کچھ نہ کچھ تجربہ ہے نہیں سمجھتے، تو صدارتی طرز ان کے لیے اس سے زیادہ ناقابل فہم ہونا چاہیے جس کا انہیں کوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔
دوم: پاکستان کے باشندے اپنے سیاسی ماضی، اپنی تعلیم و تربیت اور اپنی ذہانت و صلاحیت میں بھارت کے باشندوں سے کسی طرح بھی کم تر یا مختلف نہیں ہیں۔ تیرہ سال پہلے تک دونوں ایک ہی نظام حکومت میں رہے ہیں۔ آخر ہم پاکستانیوں کو بھارتیوں کے مقابلے میں کس لحاظ سے فروترمان لیں کہ بھارتی لوگ تو ایک پارلیمنٹری طرز کی جمہوری نظام کو سمجھ سکتے ہوں اور دس سال سے اس کو چلا بھی رہے ہوں، مگر پاکستانی لوگ اسے سمجھنے اور چلانے کے اہل نہ ہوں، حالانکہ دونوں کا سیاسی تجربہ یکساں اور ایک ہی طرز کا رہا ہے۔
سوم: جیسا کہ ہم سوال ۱ کے جواب میں بتا چکے ہیں، پارلیمنٹری طرز کی جمہوریت کو یہاں بالائی طبقوں کی سازشوں اور کشمکشوں نے ایک دن کے لیے بھی قائم ہونے اور کام کرنے کا موقع نہیں دیا ہے پھر کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پارلیمنٹری نظام ناکام ہو گیا ہے۔
چہارم: صدارتی طرز حکومت سے مراد اگر امریکی طرز کی جمہوریت ہو تو اس حقیقت سے غافل نہ رہنا چاہیے کہ وہ برطانوی طرز کی پارلیمنٹری جمہوریت سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے اس کو چلانے کے لیے بہت زیادہ سیاسی شعور اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے واقعی جمہوریت کے راستے پر قائم رکھنے کے لیے باشندوں میں بھی اور سرکاری ملازمین میں بھی اتنا شعوری اتنا عزم اور اتنی اخلاقی حس درکار ہے کہ اگر صدارت کسی وقت بھی جمہوری راستہ سے ہٹ کر بادشاہی کا راستہ اختیار کرنے لگے تو پبلک اور کانگریس اور عدلیہ اور سول سروس اور فوج اور بحریہ اور فضائیہ سب مل کر اس کو چند گھنٹوں کے اندر راہ راست پر لے آئیں۔ جہاں یہ صورت نہ ہو وہاں صدارتی طرز حکومت کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی ایوان نمائندگان کوئی ایسا قانون بنائے جو صدارتی حکومت کو پسند نہ ہو اور صدر کے زور دینے پر بھی وہ اسے تبدیل نہ کرے یا جب کبھی یہ ایوان صدر کی حکومت کا مطالبہ زر اس کی مرضی کے مطابق منظور نہ کرے تو پولیس اور فوج اس ایوان پر چڑھ دوڑے اور یا تو بزور اسے حکم حضور کی تعمیل کرنی ہو، یا پھر سرے سے ایوان ہی توڑ دیا جائے۔ دو مرتبہ یہ ڈرامہ ہمارے ہاں ہو چکا ہے۔ اب اس ملک کو ایسے ڈراموں کی مستقل تماشا گاہ تو نہ بنا دینا چاہیے۔
۲۔ اس شق کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ۱۹۵۶ کے دستور میں آزادانہ مباحثہ کے بعد ملک کے مختلف حصوں کے نمائندوں اور باشندوں کی مرضی سے وفاقی طرز اختیار کیا گیا تھا، اس لیے سردست اسی پر عمل ہونا چاہیے۔ اس میں اگر کسی تبدیلی کی ضرورت بھی ہو تو اس کا فیصلہ ملک کے نمائندوں ہی پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
سوال: اگر آپ پارلیمانی طرز حکومت کی سفارش کرتے ہیں تو پھر ان تدابیر کی نشاندہی کریں۔ جن کو کام میں لانے سے ایک طرف تو حکومت کو پائیداری اور قرار نصیب ہو اور دوسری طرف پارٹیوں کی خاطر حکومت کے نظم و نسق میں جو روزمرہ بے جا دخل اندازی ہوتی ہے اس کی موثر طریق سے روک تھام کی جا سکے۔
جواب: اس سوال کے جواب میں ہم سوال ۱،۲ کے جوابات کی طرف بالعموم اور سوال ۲ کے جواب کی تیسری شق کی طرف بالخصوص کمیشن کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ اگر انتخابات میں سرکاری ملازمین کی مداخلت کو روک دیا جائے اور منصفانہ انتخابی قوانین کو ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ ٹھیک ٹھیک نافذ کیا جائے تو ان بددیانت سیاسی کھلاڑیوں کے برسر اقتدار آنے کا بہت کم موقع باقی رہ جاتا ہے۔ جو ناجائز اغراض کے لیے نظم و نسق میں مداخلت بے جا کرتے ہیں۔ اور اپنی سیاسی اکھیڑ پچھاڑ سے ملک میں بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ایک دو مرتبہ کے انتخابات عام میں عوام کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور کریں گے جن سے نامناسب آدمیوں کو بھی اوپر آنے کے راستے مل جائیں گے لیکن اگر صبر کے ساتھ عوام ہی کو تجربات سے سبق سیکھ سیکھ کر جمہوری نظام چلانے کا موقع نصیب ہو تو پاکستان بھی چند سال کے اندر کم از کم اتنی ہی کامیابی سے یہ نظام چلا سکے گا جس کا مشاہدہ ہم اپنے ساتھ کے آزاد ہونے والے ملکوں (بھارت، برما اور سیلون) میں کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان اپنی جائیداد کا انتظام سنبھالتے ہی تجربہ کار نہیں ہو جاتا۔ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی وہ انتظامی تجربہ حاصل کرتا ہے لیکن اگر وہ دائماً کسی سرپرست کے زیر سایہ رہے اور کبھی باختیار خود کام کرنے کا موقع نہ پائے تو عمر بھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اس ملک میں جمہوری حکومت کی پائیداری (Stability) کے لیے دراصل تین چیزوں کی ضرورت ہے: ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات، دوسرے جمہوریت کو تجربات کی مدد سے نشوونما کا آزادانہ موقع حاصل ہونا، تیسرے ملازمین ریاست کا اس بات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا کہ نہ تو ان کی قوم نابالغ یتیم کی حیثیت رکھتی ہے اور نہ وہ اس کے ولی مقرر کیے گئے ہیں۔
سوال: چونکہ صدارتی طرز حکومت میں اختیارات منقسم ہوتے ہیں اور اس تقسیم اختیارات کی وجہ سے انتظامیہ اور مقننہ ایک دوسرے سے آزاد رہ کر کام کرتی ہیں، اس لیے ایک ایسا طریق کار اختیار کرنا ضروری ہے جس سے حکومت کے مختلف شعبوں کے درمیان موافقت پیدا ہو اور تعطل رونما نہ ہونے پائے۔ اگر آپ صدارتی طرز حکومت پسند کرتے ہیں تو پھر کیا آپ کے نزدیک روک تھام اور توازن کا وہی نظام جو امریکی دستور میں قائم کیا گیا ہے ہماری ضروریات کو بھی پورا کرنے کے لیے کافی ہے خصوصاً مطالبات زر، خارجی تعلقات اور وزرا و سفراء اور انتظامیہ اور فوج کے اونچے عہدیداروں کے تقرر کے معاملے میں؟ یا آپ اس میں کسی قسم کی ترمیم کے خواہاں ہیں؟
جواب: اس کا جواب سوال۳ کے جواب میں آ گیا ہے۔
سوال: اگر آپ وحدانی طرز حکومت کے حق میں ہیں تو براہ کرم ان تبدیلیوں کی نشاندہی کریں جو آپ کے نزدیک موجودہ انتظامی ڈھانچے میں کرنی ہوں گی۔
جواب: اس کا جواب سوال۳ کی شق ۲ میں دیا جا چکا ہے۔
سوال: اگر آپ وفاقی طرز حکومت کو ترجیح دیتے ہیں تو بتائیے کہ
۱۔ وفاق بنانے والی وحدتیں کون کون سی ہونی چاہیں؟
۲۔ ان وحدتوں (یعنی صوبوں) میں سے ہر ایک کے لیے آپ کس طرز کی حکومت تجویز کرتے ہیں؟
۳۔ آپ مرکز اور وحدتوں کے درمیان قانون سازی کے اختیارات کس طرح تقسیم کریں گے؟
۴۔ آپ وفاقی دارالحکومت کے انتظام کی کیا صورت تجویز کرتے ہیں؟
جواب: اس کی شق ۱،۲ اور ۳ کا جواب یہ ہے کہ ۱۹۵۶ کے دستور کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔
شق ۴ کا جواب یہ ہے کہ اس چیز کو ایک نمائندہ ایوان ہی اطمینان بخش طریقے پر طے کر سکتا ہے۔
____________