مسلم فیملی لاز آرڈی نینس اور پاکستان کے علما کا تبصرہ
۲؍ مارچ کو مرکزی حکومت کے ’’مسلم فیملی لاز آرڈی نینس ۱۹۶۱‘‘ کے نام سے جاری کردہ ’’قانونی حکم اور اس کے متعلق وزیر قانون جناب محمد ابراہیم صاحب کے توضیحی بیان کو ہم نے بغور دیکھا۔ ہم اس بات پر افسوس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ عائلی کمیشن کی رپورٹ پر اہل علم (یعنی علم دین کے جاننے والوں) کی طرف سے جو مدلل تبصرے کیے گئے تھے اور اس کی کمزوریوں کی جو صاف صاف نشاندہی خود کمیشن کے ایک عالم دین رکن اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کی گئی تھی، ان سب کو مرکزی حکومت نے بے تکلف نظر انداز کر دیا اور اس کمیشن کی بیشتر سفارشات کو قانون کا جامہ پہنا دیا مزید افسوس اس بات کا ہے کہ وزیر قانون نے اس نئی قانون سازی کو عین مطابق قرآن قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ہم اس بیان کے ذریعے سے پورے دلائل کے ساتھ اس آرڈیننس کی کمزوریوں اور اس کے نقصانات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں، تاکہ حکومت پھر ایک مرتبہ غور کرلے اور اس غلطی کی تلافی کرے۔ اب تک موجودہ حکومت کی یہ ایک قابل قدر روایت رہی ہے کہ اس کے کسی فیصلے کی غلطی اگر اس پر واضح کر دی گئی ہے تو اس نے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے میں تامل نہیں کیا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ اس آرڈی ننس کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔
ذیل میں آرڈیننس کی قابل اعتراض دفعات پر سلسلہ وار تبصرہ اسی تعمیری غرض کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دفعہ کی رو سے دادا اور نانا کے ان پوتوں اور پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کو دادا اور نانا کا وارث قرار دیا گیا ہے جن کے باپ یا ماں مورث کی زندگی ہی میں وفات پا گئے ہوں۔ محترم وزیر قانون کے خیال میں یہ قرآنی قانون کی پیروی ہے، لیکن اس کے اندر قرآن کے چار صریح قاعدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے:
۱۔ قرآن ایک مورث کے ترکے میں صرف ان رشتہ داروں کے حصے مقرر کرتا ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوں۔ لیکن آرڈیننس کی یہ دفعہ بعض ان رشتہ داروں کو حصہ دلواتی ہے جو مورث کی زندگی میں وفات پا چکے ہیں۔ گویا اس دفعہ کی رو سے پہلے یہ فرض کیا جائے گا کہ وہ وفات یافتہ رشتہ دار مورث کی وفات کے وقت زندہ ہیں اور اس مفروضے کی بنا پر واقعی زندہ رشتہ داروں کے ساتھ ان کا حصہ نکالا جائے گا۔ پھر ان کا حصہ نکالتے ہی انہیں مردہ تسلیم کر لیا جائے گا اور آگے ان کے وارثوں میں وہ حصہ تقسیم کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کی کس آیت سے یہ قانونی مفروضات اور قانونی حیلے اخذ کیے گئے ہیں؟
۲۔ قرآن کریم میں جن رشتہ داروں کے حصے مقرر کیے گئے ہیں ان میں بیٹوں اور بیٹیوں کے علاوہ ماں، باپ، بیوی، شوہر اور مورث کے کلالہ ہونے کی صورت میں بھائی اور بہن بھی شامل ہیں۔ لیکن آرڈیننس کی یہ دفعہ ان میں سے صرف بیٹوں اور بیٹیوں کو اس امتیاز کے لیے منتخب کرتی ہے کہ مورث کی زندگی میں مرجانے کے باوجود وہ حصہ وصول کرنے کے لیے مورث کی موت کے وقت زندہ فرض کیے جائیں اور پھر آگے حصہ تقسیم کرنے کے لیے مردہ تسلیم کر لیے جائیں۔ یہ امتیاز قرآن کی کس نص یا اس کے کس اقتضایا دلالت یا اشارے سے ماخوذ ہے؟
۳۔ قرآن کی رو سے ایک مورث کے ترکے میں اس کے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کا حق ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ صاحب اولاد ہوں یا نہ ہوں، شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں، بالغ ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن اس آرڈیننس میں مزید امتیاز یہ برتا گیا ہے کہ جو بیٹے اور بیٹیاں مورث کی زندگی میں لاولد مر گئے ہوں ان کو تو حصہ وصول کرنے کے لیے زندہ فرض نہیں کیا جائے گا، البتہ جو اولاد چھوڑ گئے ہوں ان کا حصہ وصول کیا جائے گا۔ اس امتیاز کے لیے قرآن میں کیا دلیل ہے؟
۴۔ یہ آرڈیننس مزید امتیاز یہ برتتا ہے کہ فوت شدہ صاحب اولاد بیٹوں اور بیٹیوں کی بھی صرف اولاد کو حصہ پہنچاتا ہے، درآں حالیکہ قرآن کی رو سے اگر مورث کے مال میں ان کا کوئی حق ہے تو پھر وہ ان کی ماں یا ان کے باپ اور ان کی بیوی یا شوہر کو بھی پہنچنا چاہیے۔ مثلاً ایک متوفیہ بیٹی کا حصہ نکالا جائے تو اس کا شوہر بھی حقدار ہے اور اگر وہ زندہ ہو، اور اسی کی ماں بھی حقدار ہے اگر وہ متوفی باپ سے حصہ پارہی ہو، اور اس کا باپ بھی حقدار ہے اگر متوفیہ ماں سے حصہ پا رہی ہو۔ نانا سے صرف نواسوں اور نواسیوں کا حصہ دلوانا اور دوسرے وارثوں کو چھوڑ دینا قرآن کے کس حکم پر مبنی ہے؟
ان سوالات کے جواب میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ تمام نئے مفروضات اور قاعدے صرف قرآن کے اس منشا کو پورا کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں کہ یتامیٰ کی مدد کی جائے اگرچہ بجائے خود یہ قاعدے اور مفروضے قرآن سے ماخوذ نہیں ہیں۔ لیکن یہ غذردو وجوہ سے بالکل غلط ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا قانون میراث سرے سے اس اصول پر مبنی ہی نہیں ہے کہ کسی پر رحم کھا کر اس کی مدد کی جائے، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ قرآن ایک مالدار رشتہ دار کو میراث کا حق پہنچاتا۔ محض اس بنا پر کہ وہ قاعدے کے مطابق حقدار رشتوں کے دائرے میں آتا ہے اور ایک انتہائی مفلس اور قابل رحم رشتہ دار کو محروم رکھتا محض اس بنا پر کہ وہ قاعدے کے مطابق حقدار رشتوں کے دائرے میں شامل نہیں ہے۔ ایک اپاہیج مفلس بھائی کو محروم کرنا اور ایک دولت مند باپ کی جائداد کا وارث بنانا بالکل غلط ہو جاتا اگر قانون میراث بنانے سے قرآن کا منشا یہ ہوتا کہ حاجت مندوں کی مدد کی جائے۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر یہ عذر قطعاً غلط ہو گا۔ یہ ہیکہ اگر فی الواقع قرآن کا ایسا کوئی منشا ہوتا کہ یتیم پوتوں اور نواسوں کی مدد دادا اور نانا کی میراث میں ان کو حصہ دار بنا کر کی جانی چاہیے تو آخر کیا امر اس میں مانع تھا کہ قرآن اپنے اس غامض منشا کو ایک صاف حکم کے ذریعے سے کھول دیتا اور اگر قرآن نہ کھولا تھا تو یہ منشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو مخفی نہیں رہنا چاہیے تھا، انھوں نے ایسا حکم کیوں نہیں دیا؟ اگر حضور نے اس کو نہیں کھولا تھا آخر کیا معقول وجہ ہے کہ قرآن کا یہ منشا تمام خلفا سے، تمام صحابہ سے، تمام ائمہ اہل بیت سے تمام مجتہدین سے اور پچھلی تیرہ صدیوں میں اسلام کے سارے فقہا سے مخفی رہ گیا اور اس کو پایا تو اس زمانے میں چند ان لوگوں نے جنھوں نے چاہے جس علم کی بھی تعلیم و تربیت پائی ہو قرآن و سنت کے علم کی تعلیم و تربیت نہیں پائی۔
باپ کی زندگی میں فوت ہو جانے والے بیٹوں اور بیٹیوں کی اولاد کو جو مشکلات پیش آتی ہیں ان کو رفع کرنے کا صحیح طریقہ بارہا علما کی طرف سے پیش کیا جا چکا ہے، مگر افسوس ہے کہ اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ البتہ اس معاملے میں شریعت کے خلاف طریقوں کو درخور اعتنا سمجھا جاتا ہے اور انھیں رواج دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۱ ۔
اس دفعہ کی رو سے یہ لازم کیا گیا ہے کہ تمام نکاح جو کسی علاقے میں ہوں وہ اس علاقے کی یونین کونسل کے مقرر کردہ نکاح رجسٹرار کے پاس درج کیے جائیں اور اگر نکاح رجسٹرار کے سوا کسی اور نکاح خواں نے نکاح پڑھایا ہو تو اس کی اطلاع نکاح رجسٹرار کو کی جائے۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تین مہینے قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ تک کی سزا دی جائے گی یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
جہاں تک کہ نکاح کی رجسٹری کا تعلق ہے، اس کی ضرورت اور اس کے فائدے سے انکار نہیں۔ اگر اس رجسٹری کے لیے ملک میں جگہ جگہ مناسب انتظامات موجود ہوں اور لوگوں کے علم میں اس کے فائدے لائے جائیں تو امید ہے کہ لوگ خود اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے رجسٹریشن کی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن اس کو قانوناً لازم کرنا اور اس کی خلاف ورزی کو ایک جرم مستلزم سزا قرار دینا متعدد وجوہ سے غلط ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں نکاح خواں کا سرے سے کوئی باقاعدہ منصب ہی نہیں ہے۔ ایک نکاح شرعاً بالکل صحیح طور پر منعقد ہو جاتا ہے اگر عورت اور مرد نے دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کر لیا ہو۔ نکاح کا خطبہ پڑھا جانا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ کسی قاضی یا عالم کا موجود ہونا اور اس کا خطبہ پڑھنے کے بعد ایجاب و قبول کرانا زائد از ضرورت مستحبات میں سے ہے۔ نکاح اس کے بغیر منعقد ہو جاتا ہے لیکن یہ رجسٹریشن کا حکم نکاح خواں کا ایک باقاعدہ منصب قائم کرتا ہے۔
دوسری بات وضاحت طلب یہ ہے کہ جس نکاح کی رجسٹری نہ ہوئی ہو اور شریعت کے مطابق دو شہادتیں اس پر قائم ہو جائیں آیا اس کو آپ کی عدالت تسلیم کرے گی یا نہیں؟ اس نکاح کی بنا پر عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا جائز وارث تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ ان سے پیدا شدہ اولاد کو جائز اولاد مانا جائے گا یا نہیں؟ وہ اولاد اپنے باپ سے میراث پائے گی یا نہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یہ شریعت اسلامیہ سے کھلا تصادم ہے کیونکہ شریعت کی رو سے ایک نکاح جائز ہو گا اور آپ کے قانون کی رو سے ناجائز ہو گا۔ شریعت کی رو سے کچھ حقوق ثابت ہوں گے اور آپ کے قانون کی رو سے وہ باطل ہو جائیں گے اور اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو پھر آپ کا ازروئے قانون رجسٹریشن کو لازم کرنا اور رجسٹری نہ کرانے والوں کو سزائیں دنیا عملاً بے معنی ہو جاتا ہے۔
تیسری بات قابل غور یہ ہے کہ آیا واقعی یہ رجسٹریشن جائز نکاحوں کے ثبوت کا کوئی یقینی ذریعہ ہے؟ اور آج تک مسلمانوں میں جو نکاح رجسٹری کے بغیر ہوتے رہے ہیں ان پر اس طریقے کو کوئی واضح فوقیت حاصل ہے؟ ہمارے خیال میں تو رجسٹریشن کو اس حد تک اہمیت دینا صحیح نہیں ہے۔ ملک کی موجودہ بگڑی ہوئی حالت میں اس بات کا بہت کافی امکان ہے کہ ایک بااثر غنڈہ رشوت اور سازش کے ذریعے سے کسی شریف عورت کے ساتھ اپنے نکاح کا بالکل فرضی اندراج کرا دے اور اس پر اپنے ساتھی غنڈوں کی گواہیاں ثبت کرا دے۔ اس طرح کے اندراجات سے وہ ساری قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں جو مروج طریق نکاح کی صورت میں فرض کی جا سکتی ہیں۔
ان وجوہ سے ہم پھر اپنی اس رائے پر اصرار کریں گے کہ رجسٹریشن کی سہولتوں کو صرف مہیا کر دینے پر اکتفا کیا جائے اور بتدریج لوگوں کو اس بات کا عادی کیا جائے کہ وہ رضاکارانہ طریقے پر ان سے فائدہ اٹھائیں۔ معاشرے کے ہر مسئلہ کو جبرو تعزیر کے زور سے حل کرنے کی کوشش نہ صحیح ہے اور نہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
یہ دفعہ تعدد ازواج پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔ قبل اس کے ہم اس دفعہ کا تجزیہ کر کے اس پر بحث کریں۔ ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ تعدد ازواج کو اصلاً ایک برائی سمجھنا اور صرف ناگزیر ضرورت کی حالت میں اس کو جائز قرار دینا ایک غیر اسلامی تخیل ہے۔ اسلام اس تخیل سے قطعاً ناآشنا ہے۔ یہ مغرب سے درآمد ہوا ہے اور اس کے جواز کو ناگزیر ضرورت کے ساتھ مقید کرنے کی کوشش مغرب کے سامنے ایک معذرت کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قرآن جن انبیا کو خدا کے مقرر کردہ امام اور پیشوا اور مقتدا قرار دیتا ہے، ان میں سے بیشتر تعدد ازواج پر عامل تھے۔ خود سرور انبیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد بیویاں تھیں۔ کوئی منکر حدیث بھی اس امر واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قرآن میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا ذکر ہے۔ (وازواجہ امھاتھم۔ ۳۳: ۶۔ نیز قل لازواجک وبنتک ونساء المومنین ۳۳: ۵۹)۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں خلفا بیشتر صحابہؓ، اکثر ائمہ اہل بیت اور اسلامی تاریخ کے بیشتر اکابر جن پر مسلمانوں کو فخر ہے بیک وقت متعدد بیویاں رکھنے والے تھے۔ ان میں سے کس کس کے متعلق آخر آپ ثابت کریں گے کہ ان کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی سخت ضرورت تھی؟ اس چیز کو اصلاً ایک برائی تسلیم کر لینے کے بعد تو لازماً یک زوجی کے قائل اہل مغرب بہت سی ناجائز داشتائیں اورآشنائیں رکھنے کے باوجود صالح قرار پاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں سے کسی نے کسی ضرورت کی بنا پر بھی ایک سے زائد قانونی بیویاں نہیں رکھیں اور مسلمانوں کے بیشتر اکابر کم از کم نیم صالح تو قرار پاتے ہی ہیں کیونکہ وہ ضرورۃً اس ’’برائی‘‘ پر عمل کرتے رہے۔
مزید برآں یہ بات قابل غور ہے کہ تعدد ازواج کے معاملے میں تو ہمارے وزیر قانون صاحب اور ہمارے دوسرے لیڈروں اور حکمرانوں کو قرآن کا کوئی مخفی منشا تلاش کر کے اس پر پابندیاں عائد کرنے کی اس قدر سخت ضرورت محسوس ہوئی، لیکن قرآن نے جن برائیوں سے صریح الفاظ میں منع کیا ہے ان میں سے کسی کو قانون کے ذریعے سے روکنے کی انھوں نے کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر ایک شخص ایک بیوی کے موجود ہوتے ہوئے طوائفوں کے ہاں جائے یا کوئی داشتہ رکھے یا آزادانہ شہوت زانی کرتا پھرے تو فرمائیے کہ آپ کے قانون میں اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ کیا سزا اس کے لیے تجویز کی گئی ہے؟ کن بیگمات نے اس کے خلاف کبھی احتجاج کیا اور اس کو ازروئے قانون روکنے کا کبھی مطالبہ کیا؟ کب آپ نے کوئی کمیشن بٹھایا کہ اس کے سد باب کے لیے بھی کوئی تدبیر تجویز کی جائے؟ اس صریح برائی کو تو آپ رواداری کا مستحق سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن اسے انتہائی سخت جرم قرار دیتا ہے اور اس کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے۔ مگر تعدد ازواج پر آپ پابندیاں عائد کرنے کی فکر کرتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم قرآن کے منشا کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طرز عمل کسی صحیح ذہنیت کی غمازی نہیں کرتا۔ کیوں صاف صاف اعتراف نہیں کیا جاتا کہ قرآن کا منشا پورا کرنا پیش نظر نہیں ہے بلکہ ان اہل مغرب کے سامنے معذرت پیش کرنا مقصود ہے جو مسلمانوں سے سابقہ پیش آتے ہی سب سے پہلے تعدد ازواج پر برسنا شروع کر دیتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ غیر قانونی تعدد ازواج ان کے ہاں جس بڑے پیمانے پر رائج ہے اتنا مشکل ہی سے دنیا کی کسی سوسائٹی میں آج تک رائج رہا ہو گا۔ حتی کہ ان کے بعض ملکوں میں آج خود یو۔این۔او کی ایک رپورٹ کے مطابق ناجائز ولادتوں کا اوسط ساٹھ (۶۰) فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
اب ہم اس دفعہ کے مشتملات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ اس میں ایک شخص کو جو ایک بیوی یا زائد بیویوں کی موجودگی میں مزید نکاح کرنا چاہتا ہو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ:
اولاً اپنی موجودہ بیوی یا بیویوں کی رضامندی حاصل کرے۔
ثانیاً وہ اپنے علاقے کی یونین کونسل کے چیئر مین سے اجازت حاصل کرنے کی درخواست کرے۔
ثالثاً، ایک پنچایت کو جو اس شخص کے نمائندے اور اس کی بیوی یا بیویوں کے نمائندے اور یونین کونسل کے چیئر مین پر مشتمل ہو گی اس بات پر مطمئن کرے کہ اس کا مزید ایک بیوی کرنا ضروری اور حق بجانب ہے۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد پنچایت سے اجازت نامہ حاصل کرنے پر وہ نکاح کرنے کا مجاز ہو گا۔ لیکن پنچایت کے اس فیصلے کے خلاف مغربی پاکستان میں کلکٹر کے پاس اور مشرقی پاکستان میں سب ڈویژنل آفیسر کے پاس اپیل کی جا سکے گی اوراس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا جس کے خلاف کہیں کوئی اپیل نہ ہو سکے گی، قطع نظر اس کے کہ وہ نکاح کی اجازت دینے کے حق میں ہو یا اجازت منسوخ کرنے کے حق میں۔ مزید برآں اس دفعہ میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا قاعدے کے خلاف نکاح کر لے:
۱۔ اس کی بیوی یا بیویوں کو فوراً مہر دلوایا جائے گا خواہ وہ اصلاً مہر معجل ہو یا موجل۔
۲۔ اس کو ایک سال قید یا پانچ ہزار روپے جرمانے تک کی سزا دی جائے گی یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
۳۔ اس کا نکاح علاقے کے رجسٹرار کے پاس درج نہیں کیا جائے گا۔ جس کے معنی غالباً یہ ہیں کہ وہ سرے سے قانوناً مسلم ہی نہیں ہو گا۔
۴۔ اس کی بیوی یا بیویوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اس شکایت کی بنیاد پر عدالت میں خلع کا مطالبہ کرے یا کریں۔
وزیر قانون صاحب ہم کو یہ یقین دلانے کی کوشش فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ انھوں نے قرآن کے منشا کو پورا کرنے کے لیے کیا ہے۔ لیکن قرآن کے جس منشا کی وہ نشان دہی فرماتے ہیں۔ وہ خود ان کے الفاظ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ نکاح اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ شوہر سب بیویوں کے درمیان عدل کرے۔ وزیر قانون صاحب کا ارشاد ہے کہ وہ تعدد ازواج پر پابندیاں اس لیے عائد فرما رہے ہیں کہ لوگ اس اجازت سے غلط فائدہ اٹھا کر ایک سے زائد بیویاں کر لیتے ہیں اور عدل کی شرط پوری نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ عدل کا سوال آیا نکاح سے پہلے پیدا ہوتا ہے یا نکاح کے بعد؟ ظاہر بات ہے کہ یہ سوال ایک سے زائد نکاح کر لینے کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ آیا شوہر نے عدل کیا ہے یا نہیں۔ وجہ شکایت قرآن کی رو سے جائز طور پر صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ شوہر نے عدل نہ کیا ہو اور اسی وقت ایک بیوی کو جس کے ساتھ عدل نہ ہو رہا ہو یہ مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے کہ یا تو اس کے ساتھ عدل کیا جائے یا شوہر صرف ایک بیوی رکھے۔ قرآن کا نام لے کر اس کے اس منشا کو پورا کرنے کی یہ شکل قرآن کے کس لفظ یا اشارے یا فحویٰ سے اخذ کی گئی ہے کہ نکاح سے پہلے شوہر اپنی موجودہ بیوی یا بیویوں کی رضامندی حاصل کرے اور ایک پنچایت کو اپنی ضرورت کا اطمینان دلائے؟ پھر قرآن کے کس لفظ یا اشارے یے یہ حکم اخذ کیا گیا ہے کہ جو نکاح موجود بیوی یا بیویوں سے اجازت لیے بغیر اور ایک پنچایت سے لائسنس حاصل کیے بغیر کیا گیا ہو وہ قانوناً تسلیم ہی نہ کیا جائے اور اس شخص کو جیل بھی بھیجا جائے، اور قبل اس کے کہ اس کی بیوی یا بیویوں کو عدل نہ کیے جانے کی شکایت پیدا ہو مجرد نکاح کر لینا ہی وہ جائز وجہ شکایت ہو جس کی بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے یا کر سکتی ہیں؟ براہ کرم ہمیں یہ بتایا جائے کہ یہ سب کچھ قرآن کے کس مقام سے اخذ کیا گیا ہے؟ اور اگر قرآن میں یہ نہیں ہے تو کیا کہیں کوئی شہادت اس امر کی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی کے بعد جتنی شادیاں کیں ان سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع کر کے انہیں اس بات پر مطمئن کیا ہو کہ مجھے مزید بیویوں کی ضررت ہے یا صحابہ کرام میں سے کسی کو دوسری شادی کرنے سے پہلے اس بات پر مجبور کیا گیا ہو کہ وہ کسی پنچایت کے سامنے اپنی ضرورت ثابت کریں؟ یا تاریخ اسلام میں کبھی کسی بیوی کو صرف اس بنا پر خلع کے مطالبے کا حق دیا گیا ہو کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے؟ یا کسی شخص کو اس جرم میں پکڑا گیا ہو کہ اس نے پچھلی بیویوں سے اجازت لیے بغیر اور پنچایت سے لائسنس لیے بغیر مزید ایک نکاح کر ڈالا ہے؟
اگر پیش نظر قرآن کا نام لے کر مغربی تخیلات کو اسلامی قانون میں داخل کرنا ہو تب تو بات دوسری ہے، ورنہ قرآن کے منشا ہی کو پورا کرنا فی الواقع پیش نظر ہو تو یہ پوری دفعہ منسوخ کر دینے کے قابل ہے کیونکہ قرآن اور سنت اور فقہ اسلامی اس کے بنیادی تخیلات اور اس کے اصول و قواعد سے بالکل ناآشنا ہیں۔ اس کے بجائے صرف ایک چیز اس دفعہ میں ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی صورت میں ان کے درمیان عدل نہ کرے اس کے خلاف اس بیوی کو عدالت میں شکایت لے جانے کا حق ہو گا جس کے ساتھ عدل نہ کیا جا رہا ہو اور عدالت شوہر کو اس کے ساتھ انصاف کرنے پر مجبور کرے گی۔
اس دفعہ میں طلاق کے جو احکام وضع کیے گئے ہیں وہ تقریباً پورے کے پورے قرآن کے احکام کے خلاف ہیں اور ان احکام کو نافذ کرنے کے نتائج مسلم معاشرے کے حق میں اس قدر فتنہ انگیز ہوں گے کہ شاید ابھی ان کا پورا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی پہلی شق میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کسی صورت میں طلاق دے (غالباً ’’کسی صورت سے‘‘ مراد یہ ہے کہ خواہ وہ طلاق رجعی ہو یا بائن یا مغلظ) وہ یونین کونسل کے چیئر مین کو اپنے اس فعل کی اطلاع دے گا۔ دوسری شق میں یہ طے کیا گیا ہے کہ جو شخص اطلاع نہ دے اس کو ایک سال قید یا پانچ ہزار روپے جرمانہ تک کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ تیسری اور پانچویں شق میں طے کیا گیا ہے کہ:
۱۔ طلاق کی عدت طلاق دینے کے وقت سے نہیں شروع ہو گی بلکہ یونین کونسل کے چیئر مین کو نوٹس ملنے کے بعد سے شروع ہو گی۔
۲۔ اور یہ عدت عورت کے غیر حاملہ ہونے کی صورت میں نوے (۹۰) دن کی ہو گی جو حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک یا ۹۰ دن تک (ان میں سے جو مدت بھی طویل تر ہو) محتد ہو گی۔ یعنی اس مدت کے اندر رجوع کا حق ہو گا۔
۳۔ یونین کونسل کا چیئر مین نوٹس ملنے کے بعد تیس دن کے اندر ایک پنچایت مقرر کرے گا جو زوجین کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے گی اور اس کے ناکام ہونے کی صورت میں طلاق نافذ ہو گی۔
یہ تمام شقیں قرآن کے صریح احکام سے ٹکراتی ہیں، وزیر قانون صاحب اپنے بیان میں فرماتے ہیں کہ:
’’اسلامی قانون طلاق کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب کبھی میاں اور بیوی میں اختلافات رونما ہوں تو قریبی رشتہ دار اور دوسرے لوگ ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں تاکہ فوری تفریق نہ ہونے پائے۔‘‘
لیکن دراصل انھوں نے قرآن کے دو احکام کو بالکل غلط طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے، اور قرآن کے دیئے ہوئے حق طلاق کو ایک پنچایت کے ساتھ معلق کر کے رکھ دیا ہے۔ قرآن مجید میں طلاق کے احکام بالکل الگ بیان کیے گئے ہیں اور میاں اور بیوی کے اختلافات کو رفع کرنے کی صورت الگ بیان کی گئی ہے۔ سورہ بقرہ میں آیت ۲۲۷ سے لے کر ۲۴۲ تک اور سورہ احزاب کی آیت ۴۹ میں اور سورہ طلاق کی پہلی سات آیتوں میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ کوئی قانونی فہم رکھنے والا شخص ان احکام کو پڑھتے ہوئے قطعاً یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ یہاں شوہر کے حق طلاق کو کسی پنچایت یا عدالت کے سامنے پیش کرنے اور اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے مفتید کیا گیا ہے۔ ان تمام احکام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شوہر جب چاہے طلاق دینے کا مختار ہے۔ ایک آیت کے اندر صاف الفاظ میں ’’بیدہ عقدۃ النکاح‘‘ (۲:۲۳۷) کا فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ عقد نکاح کو برقرار رکھنا یا توڑ دینا شوہر کے اختیار میں ہے اور اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کے لیے وہ قطعاً کسی دوسرے کی طرف رجوع کرنے کا پابند نہیں ہے۔ دوسری طرف سورہ نساء کی آیت ۳۴،۳۵ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں نیک بیویاں شوہروں کی اطاعت گزار ہوتی ہیں۔ اگر بیوی نشوز کا رویہ اختیار کرے تو شوہر کو اسے مطیع بنانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنے کا حق ہے اور اگر زوجین کے درمیان کو جھگڑا ہو تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم بیوی کے خاندان سے مقرر کیا جائے تاکہ وہ دونوں مل کر ان کے جھگڑے کو رفع کرانے کی کوشش کریں۔ اس آیت میں سرے سے طلاق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے اور کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس سعی مصالحت کے بغیر شوہر طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ان دو الگ قوانین کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر کے ایک قانون کا منشا دوسرے قانون کے ذریعے سے فوت کرنے کی کوشش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
دراصل اس دفعہ کا پورا تخیل مغرب کے انتہائی ناقص قوانین نکاح و طلاق سے اخذ کیا گیا ہے اور نام یہ لیا جا رہا ہے کہ یہ قرآنی طلاق کے اصولوں پر مبنی ہے۔ مغرب ایک مدت دراز تک طلاق کو ایک برائی اور ایک ناجائز کارروائی سمجھتا رہا اور اسلام پر اعتراض کرتا رہا کہ اس میں یہ چیز جائز ہے۔ پھر اپنے اس غلط تخیل کے بدترین نتائج دیکھ لینے کے بعد جب اس نے طلاق کے جواز کی ضرورت محسوس کر لی تو اپنے سابق طرز فکر کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے طلاق کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ شکل اختیار کی کہ عورت اور مرد دونوں کے علیحدگی چاہنے کی صورت میں انھیں عدالتی فیصلے کا پابند کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندانوں کے گندے کپڑے کھلم کھلا عدالتوں میں دھوئے جانے لگے۔ طلاق چاہنے والے چونکہ مجبور تھے کہ ایک عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں کہ ان کے لیے جدائی ناگزیر ہو چکی ہے، اس لیے انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات اور زیادہ تر بداخلاقی کے اتہامات مجبوراً لگائے کیونکہ اصل وجوہ طلاق لازماً وہی نہیں ہو سکتے جو کسی عدالت کو مطمئن کر دیں۔ اس طرح ان غلط قوانین طلاق کی بدولت مغربی معاشرہ طلاق کے انتہائی فتنہ انگیز مقدمات سے لبریز ہو گیا۔ اب ہمارے نئے قانون ساز ان اہل مغرب کی اندھی تقلید میں ہمارے معاشرے کو اس فتنہ سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔
آرڈیننس کی اس دفعہ کی مذکورہ بالا شقوں میں حسب ذیل امور صریح طور پر قرآن کے خلاف ہیں:
۱۔ اس میں عورت کی عدت یونین کونسل کے چیئر مین کو نوٹس دینے کے بعد سے شروع ہوتی ہے خواہ طلاق دینے کے مہینہ دو مہینے بعد ہی یہ نوٹس دیا گیا ہو۔ حالانکہ قرآن کی رو سے طلاق زبان سے نکالتے ہی عدت کی مدت شروع ہو جاتی ہے۔
۲۔ اس میں عدت کی مدت غیر حاملہ عورت کے لیے نوے دن قرار دی گئی ہے حالانکہ قرآن کی رو سے تین حیض اس کی مدت ہے۔
۳۔ اس میں حاملہ عورت کے لیے عدت کی مدت وضع حمل یا نوے دن، (ان میں سے جو مدت بھی طویل تر ہو) قرار دی گئی ہے۔ حالانکہ قرآن کی رو سے حاملہ کی عدت وضع حمل پر ختم ہو جاتی ہے اور غیر حائضہ عورت کی مدت عدت بھی نوے دن نہیں بلکہ تین مہینے رکھی گئی ہے۔
۴۔ اس میں طلاق کے نفاذ کو یونین کونسل کے چیئرمین تک اطلاع پہنچنے اور اس کی سعی مصالحت کرنے پر موقوف کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ قرآن کے بالکل خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں۔
۵۔ اس میں شوہر کے خاندان اور بیوی کے خاندان کے ایک ایک حکم کے ساتھ یونین کونسل کے چیئر مین کا مزید اضافہ کر دیا گیا ہے حالانکہ قرآن صرف دونوں خاندانوں کے ایک ایک حکم کے سامنے اختلافات پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یونین کونسل کا چیئر مین لازماً اپنے علاقے کے تمام خاندانوں کا کوئی معتمد علیہ سرپرست نہیں ہو سکتا۔ بلکہ آپ کے کسی قانون کی رو سے اس کا مسلمان ہونا تک ضروری نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں خاندان یا ان میں سے کوئی ایک اس بیرونی آدمی کے سامنے اپنے گھریلوں جھگڑے رکھنے پسند نہ کریں۔ کسی بیرونی شخص کے سامنے میاں اور بیوی کے بعض ایسے معاملات بھی آ سکتے ہیں کہ اگر ازروئے قانون ان کا لانا لازم کر دیا جائے تو شاید وہی خواتین جو آج اس طرح کے قانون کا بڑے جوش و خروش سے خیر مقدم فرما رہی ہیں، اس وقت چیخ اٹھیں گی جب یہ جھگڑے پنچایتوں میں آنے شروع ہوں گے اور بعید نہیں کہ جب طلاق کا نفاذ ایک پنچایت کے اطمینان پر موقوف ہو جائے تو ہمارے ہاں بھی شوہر اپنی بیویوں پر جھوٹے اخلاقی الزامات لگانا شروع کر دیں تاکہ پنچایت کو طلاق کے ناگزیر ہونے کا قائل کر سکیں۔
اس دفعہ کی شق ۶ ایک اور فتنہ انگیز صورت پیدا کرتی ہے۔ اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ہر وہ نکاح جو کسی موثر طلاق کے ذریعے سے ختم ہو چکا ہو اس کے فریقین دوبارہ باہم نکاح کر سکیں گے بغیر اس کے کہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے بعد طلاق پا چکی ہو۔ اس شق کا منشا یہ ہے کہ بیک وقت دی ہوئی طلاقیں خواہ تین ہی کیوں نہ ہوں مغلظ نہیں ہوں گی اور عملاً ان کی تاثیر ایک ہی طلاق کی ہو گی۔ بلاشبہ یہ چیز بعض فقہی مذاہب کے نزدیک درست ہے لیکن حنفی مذہب کے خلاف ہے۔ حنفی مذہب میں اگر تین طلاق بیک وقت دی گئی ہوں تو اس سے طلاق مغلظ واقع ہو جاتی ہے اور مطلقہ عورت سے اس کا سابق شوہر نہ تو مدت عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اور نہ عدت گزر جانے کے بعد اس کے ساتھ پھر نکاح کر سکتا ہے جب تک کہ اس کی تحلیل نہ ہو جائے۔ اس ملک کے باشندوں کی عظیم اکثریت حنفی ہے۔ ان حنفی باشندوں کو جو اعتماد امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور مذہب حنفی کے ائمہ و فقہا کے علم و تقویٰ پر ہے وہ اعتماد آج کل کے قانون سازوں پر نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا۔ اس قانون سازی کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے عقیدے اور قانون رائج الوقت کے درمیان اختلاف واقع ہو جائے گا اور اس سے ان کی معاشرتی زندگی میں بڑی پیچیدگیاں رونما ہوں گی۔ مثال کے طور پر ایک شوہر اگر اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دینے کے بعد اس سے رجوع کر لے تو اس کی حنفی بیوی اوراس کا خاندان اس رجوع کو جائز تسلیم نہیں کریں گے۔ بیوی نہ شوہر سے آزاد ہو کر دوسرا نکاح کر سکے گی کیونکہ قانون اس میں مانع ہو گا اور نہ اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کر سکے گی کیونکہ اس کے عقیدے کی رو سے یہ زنا کا ارتکاب ہو گا کیا اس پیچیدگی کو آپ کا کوئی قانون رفع کر سکتا ہے؟ کیا آپ کے قوانین یہ طاقت رکھتے ہیں کہ لوگوں کے عقائد تبدیل کر سکیں۔
اس دفعہ میں لڑکیوں کے لیے عمر نکاح کی مدت ۱۴ سال سے بڑھا کر ۱۶ سال کر دی گئی ہے، یعنی ۱۶ برس سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح اب ازروئے قانون نہ ہو سکے گا۔ عمر نکاح مقرر کرنے کا قانون پہلی مرتبہ جب انگریزی دور میں بنایا گیا تھا اس وقت بھی علما نے اس پر احتجاج کیا تھا اور اب اس موقع پر ہم پھر اس پر اعتراض کرنے کے لیے مجبور ہیں، کیونکہ یہ قرآن مجید کے صریح حکم کے خلاف اور ان مصالح سے متصادم ہے جنھیں اسلامی شریعت نے اہمیت دی ہے۔ قرآن مجید میں بالفاظ صریح ایسی لڑکی کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے جس کو ابھی حیض نہ آیا ہو۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر۴ میں بتایا گیا ہے کہ جن عورتوں کا حیض آنا بند ہو چکا ہو یا جن عورتوں کو ابھی حیض آنا نہ شروع ہوا ہو ان کے معاملے میں عدت طلاق تین مہینے ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ عدت طلاق کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ پہلے نکاح ہو چکا ہو۔ اس طرح قرآن مجید صریح طور پر اس لڑکی کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیتا ہے جس کو حیض آنا نہ شروع ہوا ہو۔ ہمارے ملک میں بالعموم لڑکیوں کو ۱۳ برس کے لگ بھگ عمر میں حیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قرآن کی رو سے اس سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ نکاح جائز ہے، لیکن اس آرڈیننس کی رو سے ۱۶ برس سے کم عمر کی لڑکی سے نکاح ناجائز ہے۔
قرآن کے ساتھ اس تصادم کے علاوہ یہ سوال قابل غور ہے کہ اس ملک میں کیا کوئی ایسا قانون ہے جس کی رو سے ۱۶ برس سے کم عمر کی لڑکی نابالغہ ہو اور اس کے ساتھ مباشرت زنا بالجبر قرار پائے، اس خرابی کی روک تھام کے لیے کوئی موثر ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسی لڑکی اگر اپنی مرضی سے زنا کرائے تو اس جرم کا قانون کے علم میں آنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اس کا نکاح جب بھی کیا جائے وہ لازماً قانون کے علم میں آئے گا اور اس کے مرتکبین سزا پائیں گے۔ اب یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک لڑکی کے زانیہ ہو جانے کا سدباب نہ ہو مگر اس کے نکاح کا سد باب کر دیا جائے۔ اور اگر ایک باپ اپنی ۱۴۔۱۵ برس کی عمر کی لڑکی کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر اس کا نکاح کر دینا چاہے تو نہ کر سکے اور اس کے بگڑنے کے خطرے کو مجبوراً برداشت کرتا رہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ صغر سنی کی شادی بالعموم ہمت افزائی کی مستحق نہیں ہے اور جن علاقوں میں اس کا رواج قباحتیں پیدا کر رہا ہے وہاں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے لیکن معاشرے کی ہر خرابی کا علاج لازماً جبر ہی نہیں ہے۔ عوام میں تعلیم و تلقین کے ذریعے سے اس رجحان کو روکا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ قانوناً نکاح کی عمر مقرر کر کے اس سے کم عمر کے نکاح کو سرے ہی سے حرام کر دیا جائے۔
یہ ایک حق نصیحت ہے جو اس ملک کی بھلائی کے لیے اس آرڈیننس کی غلطیوں کی نشان دہی کر کے ہم ادا کر رہے ہیں۔ اس کو ادا کر دینے کے بعد ہمار افرض ختم ہو جاتا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ جن غلطیوں کی نشان دہی دلائل کے ساتھ کر دی گئی ہے، ان کی اصلاح کرے۔‘‘
۱۔ (مولانا مفتی) محمد حسن (مرحوم) مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور۔ ۲۔ (مولانا) ابوالبرکات سید احمد قادری ناظم مرکزی انجمن حزب الاحناف پاکستان، لاہور۔ ۳۔ (مولانا) سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور۔ ۴۔(مولانا) محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث، جامعہ اشرفیہ، لاہور۔ ۵۔ (مولانا مفتی) جعفر حسین مجتہد، سابق ممبر بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ، دستور ساز اسمبلی پاکستان۔ ۶۔ (مولانا) محمد عطاء اللہ حنیف صدر جمعیت اہل حدیث، لاہور۔ ۷۔ (مولانا) سید محمود احمد رضوی نائب ناظم، مرکزی انجمن حزب الاحناف پاکستان، لاہور۔ ۸۔ (مولانا) ابن الحسنات سید خلیل احمد قادری خطیب مسجد وزیر خان، لاہور۔ ۹۔(مولانا حافظ) عبدالقادر اوپڑی خطیب جامع قدس اہل حدیث لاہور ۱۰۔(مولانا حافظ) محمود احمد روپڑی ناظم جامع قدس اہلحدیث لاہور۔ ۱۱۔(مولانا) ابویحییٰ امام خاں نوشہروی، لاہور۔ ۱۲۔ (مولانا) عبدالستار خاں نیازی لاہور۔
مجھے اصل دفعات سے وہی اختلاف ہے جو اس مضمون میں ظاہر کیا گیا ہے، لیکن ان دفعات کی وضاحت میں جو امور تحریر فرمائے گئے ہیں ان کے بعض اجزا سے اتفاق نہیں ہے۔ ۱۳۔ (مولانا) حافظ کفایت حسین مجتہد، ادارۂ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، لاہور
مضمون بالا کی بعض جزئیات اگرچہ تفصیل طلب یا غور طلب ہیں مگر اصل مقصد کے لحاظ سے میں اس پورے مضمون سے متفق ہوں۔ ۱۴۔ (مولانا) حافظ محمد عبداللہ روپڑی متولی جامع قدس اہلحدیث، لاہور۔
مشرقی پاکستان میں اس بیان کے شائع ہونے سے پہلے وہاں کے مختلف علاقوں کے حسب ذیل ۳۶ نامور علما نے بھی اس پر دستخط کر دئیے۔
۱۵۔ مولانا اطہر علی شیخ المدرس، امداد العلوم کشور گنج۔ ۱۶۔ مولانا شمس الحق فرید پوری مہتمم جامع قرآنیہ ڈھاکہ۔ ۱۷۔ مولانا اکرم خاں۔ آزاد پبلی کیشنز لمیٹڈ ڈھاکہ۔ ۱۸۔ مولانا ابوجعفر محمد صالح پیر صاحب سرسینہ شریف۔ ۱۹۔ مولانا نور محمد اعظمی نواکھالی۔ ۲۰۔ مولانا محمد عبدالحق ناظم جمعیۃ المدرسین مشرقی پاکستان۔ ۲۱۔ مولانا نظیر احمد مدرستہ اسلامیہ جیری، نواکھالی۔ ۲۲۔ مولانا محمد اسماعیل مہتمم مدرسہ مظاہر العلوم، چاٹگام۔ ۲۳۔ مولانا صدیق احمد چکرالوی۔ دارالتصنیف مدرسہ ظمیریا۔ پاٹیہ چاٹگام۔ ۲۴ہ مولانا احمد حسین مہتمم مدرسہ جیری چاٹگام۔ ۲۵۔ مولانا محمد احمد ہیڈ مولانا مدرسہ جیریا قاسم العلوم چاٹگام۔ ۲۶۔ مولانا عبیدالرحمن مہتمم مدرسہ کھارانہ۔ پاٹیہ، چاٹگام۔ ۲۷۔ مولانا عبدالوہاب مدرس ہاٹ ہزاری مدرسہ، چاٹگام۔ ۲۸۔ مولانا جلیل الرحمن مدرسہ سرندیپ نواکھالی۔ ۲۹۔ مولانا فیض اللہ مفتی اعظم ہاٹ ہزاری مدرسہ چاٹگام۔ ۳۰۔ مولانا محمد اسماعیل مہتمم مدرسہ ناصرالعلوم الاسلام فتح پور۔ ۳۱۔ مولانا احمد الحق دارالفقہ مدرسہ ہاٹ ہزاری، چاٹگام۔ ۳۲۔ مولانا تاج الاسلام صدر مدرس مدرسہ یونفیہ۔ ۳۳۔ مولانا محمد یسین امام جامع مسجد عباد اللہ باریسال۔ ۳۴۔ مولانا محمد عبدالطیف سیکرٹری آم تلی اسلامیہ سینیرمدرستہ کھلنا۔ ۳۵۔ مولانا اسحق مفتی مدرسہ عالیہ کھلنا۔ ۳۶۔ مولانا امجد حسین مدرس اسلامہ مدرسہ اسٹیشن روڈ جیسور۔ ۳۷۔ مولانا حکیم عبدالعلی مفسر قرآن فرید پور۔ ۳۸۔ مولانا محمد منظور الحق مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم نتراکونا۔ ۳۹۔ مولانا دین محمد خاں مفتی مفسر القرآن ڈھاکہ۔ ۴۰۔ مولانا محمد عبدالرحیم مصنف کتب اسلامیہ ڈھاکہ۔ ۴۱۔ مولانا عبدالوہاب مہتمم مدرسہ اشرف العلوم چوک بازار ڈھاکہ۔ ۴۲۔ مولانا ممتاز الدین شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈھاکہ۔ ۴۳۔ پروفیسر غلام اعظم مگ بازار ڈھاکہ۔ ۴۴۔ حافظ محمد سلیمان امام و خطیب جامع مسجد چوک بازار ڈھاکہ۔ ۴۵۔ مولانا محمد صدیق احمد مفتی دارالافتاء مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈھاکہ۔ ۴۶۔ مولانا عزیزالرحمن حنفی مجددی۔ امام و خطیب مسجد پتواٹولی ڈھاکہ۔
اس بیان کی تائید میں بعد میں مشرقی پاکستان کے بیاسی اور پشاور ریجن کے ایک سو ستائیس مشہور علما کرام نے الگ الگ بیانات بھی دئیے۔
________
۱ ہم ان لوگوں کے نقطہ نظر کو صحیح نہیں سمجھتے جو آج ہماری قوم کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک میں اقتدار کبھی قوم کی طرف منتقل ہی نہیں ہوا بلکہ اس کو بالا بالا کچھ غاصبین اچک لیتے رہے ہیں اور اب بھی اسی طرح کے غاصبین ہی ہیں جو اقتدار کو غصب کیے ہوئے ہیں۔ یہ تاثر رکھنے والوں اور یہ تاثر دینے والوں کے نزدیک غالباً قوم سے مراد ان کی اپنی ذات اور ان کے اپنے چند گنتی کے اتباع ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ جب ان کا تصور قوم یہ ہو گا تو ان کو اقتدار ملنے کے معنی یہی ہوں گے کہ یہ پوری قوم ہی اقتدار سے محروم رہی۔ مثل مشہور ہے نہ کہ ہم بھوکے تو جگ بھوکا۔ بعض خوش فہم لوگوں نے یہ دھونس جمانے کی کوشش کی ہے کہ یہ اس قوم کا حساس ہونا ہے کہ اس نے اپنے حقوق کے غصب کرنے والوں کے خلاف بغاوت نہیں کی بلکہ شرافت کی راہ اختیار کی۔ ہم اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ قوم بغاوت کر سکتی تھی یا نہیں اپنی قوم کی اس شرافت کی تحسین کرتے ہیں کہ اس نے مفسدین کی خواہشات کے علی الرغم کوئی غلط راہ نہیں اختیار کی۔ لیکن دھونس جمانے والوں کی اس دھونس کو سن کر ہمیں ان بھولے بھالے لوگوں کی اس ترنگ پر ہنسی ضرور آتی ہے۔
____________