چند مزید خرابیاں
یہاں تک تو ہم نے صرف اس عام خرابی کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس بل کے قانون بن جانے کی صورت میں رونما ہو گی۔ لیکن اس کے علاوہ اس میں اسی مسئلے سے متعلق بعض اور بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہیں جو اپنے محل میں اگرچہ صحیح ہوں لیکن بیگم صاحبہ نے ان کو بالکل بے محل عائد کر کے عجیب قسم کا تضاد پیدا کر دیا ہے۔ مثلاً اس قانون کی رو سے اگر کوئی شخص ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کو نہ صرف ایک دیوانی عدالت سے اس کے لیے ڈگری حاصل کرنی پڑے گی نہ صرف شادی کے لیے اہلیت کا باقاعدہ عدالتی ثبوت مہیا کرنا پڑے گا نہ صرف اپنی موجودہ بیوی کومدقوق یا بانجھ یا فاتر العقل ثابت کرنا پڑے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ اس کی آمدنی دونوں بیویوں اور ان کے بچوں کے لیے کفایت بھی کر سکتی ہے اور وہ ان دونوں کے ساتھ یکساں انصاف بھی کرے گا اور یکساں محبت بھی کرے گا۔
گزارش یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی موجودہ بیوی کو مبتلائے برص و دق یا بانجھ یا فاتر العقل ثابت کر دیا تو اس کے بارے میں یہ سوال کہاں پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بیوی کے ساتھ اور اپنی نئی بیوی کے ساتھ یکساں انصاف بھی کرے گا اور یکساں محبت بھی کرے گا۔ اس کے متعلق اگر کوئی جائز سوال پیدا ہوتا ہے تو محض یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شوہر اس کو اپنے حبالہ عقد میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کو روٹی اور کپڑا دیتا رہے۔ یہ تو غریب شوہر کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گی کہ اس سے ایک فاتر العقل اور مجنون یا بانجھ یا مبروص عورت کے ساتھ فرائض زوجیت ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا جائے اور برابر کی محبت کا بھی تقاضا کیا جائے اور وہ بھی ایک دیوانی عدالت کے ذریعے سے۔
آخر عدالت کے پاس اس چیز کے معلوم کرنے کا کیا ذریعہ ہو گا کہ اس شخص کا ذریعہ آمدنی نہ صرف دونوں بیویوں کے لیے کفایت کرے گا بلکہ ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے بھی کفایت کرے گا۔ اور یہ کہ وہ دونوں کے ساتھ یکساں انصاف بھی کرے گا اور یکساں محبت بھی کرے گا؟ یہ کون بتا سکتا ہے کہ اس شخص کے دونوں بیویوں سے کتنے بچے پیدا ہوں گے اور اس کی جو آمدنی آج ہے کل بھی وہ باقی رہے گی یا نہیں رہے گی؟ جو شخص بھی نئی شادی کا ارمان لے کر عدالت میں جائے گا وہ یہ تو کہنے سے رہا کہ میں دونوں بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں کروں گا یا دونوں کے ساتھ یکساں محبت نہیں کروں گا۔ وہ تو لازماً یہی کہے گا کہ میں دونوں ہی پر جان نثار کروں گا آخر عدالت یہ کس طرح معلوم کرے گی کہ یہ صحیح کہہ رہا ہے یا غلط۔ آخر اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر قائم بھی رہے گا؟ اگر کہا جائے کہ اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے تو یہ تو ایک ایسی چیز ہے جس کا حق عام اسلامی قانون کے تحت ہر عورت کو حاصل ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر سے اس قسم کی کسی زیادتی کی شکایت رکھتی ہے تو اسلامی قانون کی رو سے وہ عدالت میں مرافعہ کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شادی سے پہلے عدالت میں اس معاملے کے لے جانے کا کیا فائدہ ہوا؟
پھر ستم یہ ہے کہ شوہر اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد بھی اگر عدالت سے دوسری شادی کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بیگم صاحبہ کے اس بل کی رو سے موجودہ بیوی کو طلاق یا افتراق کے مطالبے کا قانونی حق حاصل ہو گا۔ طلاق کا مفہوم تو واضح ہے افتراق کا مطلب غالباً یہ ہے کہ بیوی صاحبہ قیام تو فرمائیں گی میاں سے بالکل الگ تھلگ لیکن ان کے جملہ مصارف میاں کے سر ہوں گے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ مصارف کچھ ایسے ویسے نہیں ہوں گے بلکہ میاں کو اپنی کل آمدنی کا چوتھائی حصہ بیوی صاحبہ کی نذر کرنا پڑے گا اور یہ ادائیگی اس طرح ہو گی کہ یہ رقم ہر مہینے کی دسویں تاریخ کو عدالت میں جمع کرانی پڑے گی اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر رہا تو یہ رقم بطور بقایا مالیہ اراضی وصول کی جائے گی۔
گزارش یہ ہے کہ اگر آخر انجام یہی ہونا تھا کہ اس تمام ہفتخوان عدل و انصاف کے طے کرنے کے بعد بھی بات اونچی بیوی صاحبہ ہی کی رہے گی۔ انہیں طلاق کے مطالبے کا بھی حق رہے گا اور افتراق کے مطالبے کا بھی اور غریب شوہر کی مجموعی آمدنی کے چوتھائی حصے کے ہتھیانے کا بھی تو پھر ان بہت ساری دفعات کی کیا ضرورت تھی۔ تب تو بس یہ ایک ہی دفعہ سارے قضیہ کو طے کر دینے کے لیے کافی تھی کہ اگر کوئی مرد غلطی سے دوسری شادی کی جرأت کر بیٹھے تو اس کی پہلی بیوی کو طلاق یا افتراق کے مطالبے کا حق ہونا چاہیے اور بصورتِ افتراق شوہر کی چوتھائی آمدنی پر مالکانہ متصرف ہونے کا۔ بلکہ یہ بھی ایک تکلف ہے پھر تو آسان راستہ وہی ہے جس کی طرف اپوا کی شاخ کراچی کی محترمہ صدر صاحبہ نے اپنی ایک تقریر میں جو انھوں نے کراچی کی اپوا کانفرنس میں فرمائی ہے رہنمائی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مرد دوسری شادی کر لے تو ایسی صورت میں عورت کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ اپنے شوہر کو طلاق دے دے۔
یہ امر بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ بصورت افتراق کل آمدنی کا چوتھائی حصہ بطور نان نفقہ دینا تجویز کیا گیا ہے درآنحالیکہ بیوی کا کل حصہ شوہر کی میراث میں اکثر حالات میں آٹھواں اور صرف بعض حالات میں چوتھائی ہے اور یہ نفقہ ان بیوی صاحبہ کے لیے تجویز کیا گیا ہے جو یا تو بانجھ ہے یا مدقوق یا فاترالعقل۔ بھلا بتائیے کہ کون فاتر العقل مرد ہے جو ایسی خوبیاں رکھنے والی بیگم صاحبہ کو سفید ہاتھی کی طرح پالے گا۔ پھر تو جس قیمت پر بھی ممکن ہو اس کی کوشش اور آرزو یہی ہو گی کہ وہ ان کو ’’طلاق احسن‘‘ دے کر بطریق احسن ان کے میکے رخصت کرے اگرچہ ان کو وہاں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو سکے۔
نان نفقہ کے متعلق یہ فقاہت ہمارے سامنے بالکل پہلی مرتبہ آئی ہے کہ وہ مرد کی مجموعی آمدنی کا چوتھائی حصہ ہونا چاہیے۔ قرآن نے اس سلسلے میں جو رہنمائی کی ہے اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں معیار مجموعی آمدنی نہیں بلکہ آدمی کا معیار معیشت (Standard of Living) ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مجموعی آمدنی اور معیار معیشت میں بڑا فرق ہے۔ فرض کیجیے ایک مرد کی کل آمدنی سو روپے ماہوار ہے اور اس کے چار پانچ بچے ہیں اگر خدانخواستہ اس کو یہ افتاد پیش آ جائے کہ اس کی بیوی افتراق کا مطالبہ کر بیٹھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلی بیوی صاحبہ کے لیے تو ہر مہینے کی دسویں کو اپنی تنخواہ کے پچیس روپے سرکاری خزانے میں جمع کر دے گا اور خود چار پانچ بچوں اور اگر بوڑھے ماں باپ بھی خیر سے زندہ ہیں تو سات آٹھ افراد کے پورے کنبے کی پرورش پچھتر(۷۵) روپے میں کرے اور اگر اس آزمائش میں خدانخواستہ کوئی ایسے بزرگ مبتلا ہو جائیں جو کارخانے داروں اور مالکان مل کے زمرہ میں شامل ہیں یا صف اول کے تاجروں میں ہیں یا چوٹی کے زمینداروں میں ہیں تو وہ مجبور ہوں گے کہ ہر مہینے حساب کر کے اپنی مجموعی آمدنی کا چوتھائی حصہ ان افتراق پسند کرنے والی بیوی کے حوالے کریں درآنحالیکہ وہ خود اپنی ذات اور اپنی نئی نویلی بیوی پر اپنے پورے کنبے سمیت مشکل سے اپنی کل آمدنی کا چوتھائی حصہ خرچ کرتے ہوں گے۔
یہ بات کہ قرآن مجید نے نان نفقہ کے معاملے میں معیار آمدنی کو نہیں بلکہ معیشت کو قرار دیا ہے نہایت آسانی سے اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر اس کو یہی معیار قرار دینا ہوتا تو وہ ایک نہایت مختصر لفظوں میں یوں کہہ سکتا تھا کہ اپنی بیویوں کو اپنی آمدنی کا ایک چوتھائی بطور نان نفقہ دیا کرو۔ لیکن اس نے جہاں کہیں بھی نان نفقہ کا ذکر کیا ہے کہیں بھی یہ الفاظ نہیں استعمال کیے ہیں۔ بلکہ ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قرآن آدمی کی معیشت کو نان نفقہ کے لیے معیار قرار دیتا ہے۔ چند آیتیں ملاحظہ ہوں:
وَعَلیَ الْمَوْلُوْدِ لَہ‘ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعرُوفِ لَا تُکَلَّفُ نَفس’‘ اِلَّا وُسْعَھَا لَا تُضَآرُّ وَالِدَۃ’‘ بِوَلَدِھَا وَلَا مَولُود’‘ لَہ‘ بِوَلَدِہٖ۔ (بقرہ:۲۳۳)
اور باپ پر ان کو کھلانا اور پہنانا ہے دستور کے مطابق۔ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ نہ بوجھ ڈالا جائے۔ نہ ماں کو اس کے بچے کے سبب سے کوئی نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کے بچے کے سبب سے۔
اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِکُمْ وَلَا تُضَارُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُورَھُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ۔ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہ‘ اُخْرٰی لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہ‘ فَلْیُنْفِقْ مِمَّا اَتَاہُ اللّٰہُ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَا اَتَاھَا۔ (طلاق:۶۔۷)
اور ان کو رکھو اس حیثیت سے جس حیثیت سے تم اپنی مقدرت کے مطابق رہتے ہو۔ اور ان کو تنگ کرنے کے لیے ان کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ وضع حمل سے فارغ ہو جائیں۔ اور اگر وہ تمھارے لیے دودھ پلائیں تو ان کو دودھ پلائی دو۔ اور اس کے لیے رواج کے مطابق آپس میں قرار داد کر لو۔ اور اگر اس میں دشواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی۔ اور اہل گنجائش اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کریں اور جس کی روزی تنگ ہو تو جو کچھ اللہ نے اس کو دیا ہے اسی میں سے خرچ کرے۔ اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اتنا ہی جتنا اس کو دیا ہے۔
یہ دونوں آیتیں ایسی ہی عورتوں کے نان نفقہ سے متعلق ہیں جن کے لیے بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحب کا یہ بل ہے۔ لیکن ان میں کہیں آمدنی کا کوئی متعین حصہ نان نفقہ کے لیے تجویز نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کو دستور اور معروف پر چھوڑا گیا ہے کہ ایک شخص اپنے معیار زندگی کے لحاظ سے نان نفقہ دے۔ خواہ وہ اس کو خود باہم طے کر لیں یا دو پنچ مل کر طے کر دیں یا کوئی عدالت ان کے حالات اور معیار زندگی کو سامنے رکھ کر طے کر دے۔
طلاق سے متعلق بیگم صاحبہ جو قانون بنوانا چاہتی ہیں اس کی پہلی دفعہ یہ ہے:
طلاق کی تمام صورتیں ماسوا طلاق الاحسن کے ناجائز تصور کی جائیں گی۔
اس کی دوسری دفعہ یہ ہے:
طلاق صرف اس صورت میں جائز تصور کی جائے گی جب کہ کسی قانونی عدالت نے شوہر کو یہ ڈگری دے دی ہو کہ طلاق بطریق احسن دی گئی ہے۔ اور اس کے لیے معقول وجوہ کار فرما تھیں۔
بیگم صاحبہ نے جس طرح ایک بیوی کی موجودگی کی حالت میں دوسری شادی کے معاملے کو عدالت کے ساتھ باندھ کر رکھ دیا ہے اسی طرح طلاق کے معاملے میں بھی شوہر کی آزادی کو بالکل سلب کر کے اس کو عدالت کی اجازت کا پابند بنا دیا ہے اور ساتھ ہی عدالتوں پر پہ پابندی عائد کر دی ہے کہ اول تو وہ طلاق الاحسن کے سوا کسی اور طریقے پر دی ہوئی طلاق کو طلاق ہی نہ تسلیم کریں۔ وہ لازماً اس بات کی تحقیق کریں کہ طلاق بطریق احسن دی گئی ہے یا نہیں۔ ثانیاً وہ طلاق کے ہر معاملے اس بات کو بھی دیکھیں کہ طلاق کے لیے معقول وجوہ موجود ہیں یا نہیں۔ اگر معقول وجوہ موجود نہ پائیں تو وہ طلاق کو سرے سے جائز ہی نہ قرار دیں۔
اب آئیے دیکھیے کہ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو اس سے کیا کیا مفاسد پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس میں سب سے پہلی دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ نکاح اور طلاق کے معاملے کو قرآن مجید نے تو سرتاسر شوہر کی صوابدید پر چھوڑا ہے۔ ان معاملات میں اس کی آزادی کو ہرگز کسی قاضی یا کسی عدالت کے فیصلوں کا پابند نہیں کیا ہے۔ قرآن کا صاف ارشاد ہے کہ:
بیدہ عقدۃ النکاح۔ (البقرہ: ۲۳۷)
جس کے اختیار میں رشتہ نکاح کی گرہ ہے۔
جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ اس گرہ کے باندھنے اور کھولنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ تاریخ اسلامی کے ہر دور میں اور ہر مسلمان حکومت میں پوری امت کا اسی پر عمل رہا ہے اور اسی پر عمل ہے۔ لیکن بیگم صاحبہ مرد کی اس آزادی کو سلب کر کے اس کو عدالت کے فیصلے کا تابع بنا رہی ہیں۔
دوسری چیز اس میں قابل غور یہ ہے کہ شریعت نے اگر طلاق کے معاملے کو مرد کی صوابدید اور اس کے فیصلے پر چھوڑا تھا تو خدانخواستہ کوئی بے وقوفی نہیں کی تھی کہ آج بیگم صاحبہ کو اس کی اصلاح کی ضرورت پیش آئے۔ اصل یہ ہے کہ طلاق کوئی لذت یا تفریح کی چیز کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔ جو شخص بھی طلاق دیتا ہے (الا ماشاء اللہ) وہ مجبور ہو کر ہی اور بادل نخواستہ ہی طلاق دیتا ہے اور اکثر حالات میں اس کا کوئی نہ کوئی سبب بھی موجود رہتا ہے جو میاں اور بیوی اور ان کے رازداروں کے علم میں تو ہوتا ہے لیکن نہ تو میاں کی یہ مصلحت ہوتی ہے کہ اس کا عام طور پر اظہار ہو اورنہ عورت ہی کے لیے یہ کچھ بہتر ہوتا ہے کہ یہ چیز ہر جگہ زیر بحث آئے۔ بلکہ عموماً اس کا زیر بحث آنا کمزور فریق ہونے کے سبب سے عورت کے لیے زیادہ مضر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اغلباً دونوں فریق کی مصلحت یہی ہوتی ہے کہ چپ چپاتے طلاق ہو جائے اور خواہ مخواہ کو اس کے اسباب کی زیادہ کھوج کرید نہ ہو۔ ایک خاص حد تک اگر اس معاملے میں دونوں فریق کے اولیا یا بزرگان خاندان دخل دیں اور اپنے اثرات سے کام لے کر فریقین میں صلح کرا دیں تو قرآن نے اس کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ مگر بیگم صاحبہ ہر طلاق کو جو ایک عدالتی معاملہ بنا رہی ہیں تو یہ ایک بہت بڑے فتنے کی ذمہ داری وہ اپنے سر لے رہی ہیں اور میں یہ پیشین گوئی کرتا ہوں کہ زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ خود انہی کی بہنیں اس قانون کو بنوانے پر ان کو گالیاں دیں گی اور ان پر لعنت بھیجیں گی۔
تیسری بات اس سلسلے میں یہ قابل غور ہے کہ طلاق کے معاملے کو عدالتوں کے ساتھ باندھ دینا تجربے سے کچھ مفید نہیں ثابت ہوا ہے۔ بلکہ بعض حالتوں میں تو اس سے ایسی ناقابل برداشت مصیبت پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ چیخ چیخ اٹھے ہیں۔ رائٹر کی ایک تازہ خبر ملاحظہ ہو:
ایتھنز ۱۰ مارچ۔ پانچ ہزار سے زیادہ کشتگان ’’قانون ازدواج‘‘ نے یونانی وزیر اعظم فیلڈ مارشل پاپاگوس سے ایک یادداشت میں اپیل کی ہے کہ طلاق کے یونانی قواعد کو سہل بنانے کے لیے اقدام کریں۔ ان کشتگان قانون ازدواج نے یادداشت میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اپنی بیویوں سے جدا ہوئے پانچ سال سے لے کر بیس برس تک ہو چکے ہیں لیکن موجودہ قوانین نے انہیں ابھی تک طلاق دینے کی اجازت نہیں دی۔
طلاق کے یونانی قوانین زیادہ پرانے تو نہیں ہیں لیکن ان کے تحت بیوی کو دماغی، اخلاقی، یا جسمانی کمزوری کی بنا پر ہی طلاق دی جا سکتی ہے۔(نوائے وقت۔۱۱؍ مارچ)
بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحبہ نے بھی کم و بیش انہی لائنوں پر اپنا مسودہ مرتب فرمایا ہے اس وجہ سے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے نتائج بعض حالات میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے اتنے خطرناک نکل سکتے ہیں کہ آج ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات بھی اپنے اندر متعدد قباحتیں رکھتی ہے کہ ایک طلاق احسن کے سوا طلاق کے دوسرے تمام طریقے ناجائز تصور کیے جائیں گے۔
طلاق احسن کا طریقہ جو قرآن نے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ شوہر علی الترتیب دو طہروں میں اپنی بیوی کو الگ الگ دو طلاقیں دے۔ پھر تیسرے مہینے میں یا تو اس سے رجعت کرلے اگر رجعت کرنا چاہتا ہے ورنہ خوبصورتی کے ساتھ اس کو رخصت کر دے اس دوران میں بہتر یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی ایک ہی مکان میں رہیں تاکہ اگر ان کے اندر ساز گاری پیدا ہونے کا کوئی ادنیٰ امکان بھی ہو تو یہ یک جائی اس کے لیے محرک کا کام دے سکے۔
اگر اس طلاق کے سوا طلاق کی دوسری تمام شکلیں ناجائز قرار دے دی جائیں جیسا کہ بیگم صاحبہ کی تجویز ہے تو ان حالات میں کیا کیا جائے گا جن میں میاں بیوی کی یکجائی یا تو سرے سے متعذر ہے یا تین مہینے انتظار کرنے کے لیے نہ تو نقلی کوئی وجہ موجود ہے نہ عقلی؟ نابالغہ، غیر مدخولہ اور کسی دوسرے ملک میں رہ جانے والی بیویوں کے طلاق کے معاملات آخر اس ایک ہی ضابطہ پر کس طرح پورے اتریں گے؟
طلاق احسن کے سوا طلاق کے کسی دوسرے طریقے کا عدالتوں کا درخور اعتنانہ سمجھنا اس حالت میں تو بیشک اچھا خیال کیا جائے جب کہ میاں بھی اس بات پر پچھتا رہا ہو کہ وہ کیوں ایک ہی مرتبہ میں اپنی بیوی کو طلاقیں دے بیٹھا اور بیوی بھی اس غم میں نڈھال ہو رہی ہو کہ وہ اپنے محبوب شوہر سے محروم ہو گئی۔ لیکن اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ شوہر نے انتہائی نفرت کے ساتھ بیوی کو طلاق دی ہو اور وہ بدستور اس نفرت پر قائم بھی ہو تو ایسی صورت میں اگر عدالت اس کی طلاق اس بنا پر ناجائز ٹھہراتی ہے کہ یہ طلاق احسن نہیں ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ وہ ایک ایسی بیوی کو اس کے سرزبردستی منڈھ رہی ہے جس سے اس کا دل کا ریشہ ریشہ بیزار ہے۔ کیا یہ عورت کے ساتھ احسان ہو گا؟ ممکن ہے اس کا جواب یہ کہا جائے کہ اگر شوہر کو اس کی بیوی واقعی ناپسند ہو گی تو اس کے لیے اس سے از سر نو چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ وہ اس کے لیے طلاق احسن کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن فرض کیجیے وہ عورت اپنے شوہر سے دل و جان سے بیزار تھی اور ان تین طلاقوں سے وہ خوش ہوئی تھی کہ چلو ایک عذاب سے رہائی ہوئی۔ لیکن بیگم صاحبہ کے اس قانون کے بعد وہ مظلوم عورت مجبور ہو گی کہ بدستور اپنے ظالم شوہر کے ساتھ بندھی ہی رہے کیونکہ اس کی طلاق بیگم صاحبہ کے تجویز کردہ طریقے کے مطابق نہیں ہے۔ کیا یہ اس عورت کے ساتھ کوئی احسان ہو گا؟
ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کے معاملے کو اس معنی میں بدعت سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے جس معنی میں بیگم صاحبہ نے اس کو بدعت سمجھا ہے۔ یہ چیز حضرت عمر جیسے خلیفہ راشد کے اجتہادات میں سے ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ طلاق کو جو تین مہینوں کے اندر دینے کی پابندی عائد کی گئی ہے تو شوہر کے فائدے کے لیے عائد کی گئی ہے تاکہ اس دوران میں اگر وہ چاہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر سکے۔ لیکن اگر ایک شوہر اپنے اس حق سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تو اسے بہرحال یہ حق حاصل ہے کہ وہ ازخود اپنے کسی حق سے دست بردار ہو جائے۔ اس سبب سے ایک نشست کی تین طلاقوں کو نافذ تو کر دیتے تھے لیکن ساتھ ہی اس طرح طلاق دینے والے کو اس جرم کی سزا بھی دیتے تھے کہ اس نے کتاب اللہ کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سزا کی موجودگی میں اس طریقہ طلاق کو وہی شخص اختیار کر سکتا تھا جو اپنے ارداہ طلاق میں اتنا پختہ اور اتنا سنجیدہ ہو کہ سزا کا اندیشہ بھی اس کو اس سے نہ روک سکے۔ اب غور کیجیے کہ اگر ایک شخص اپنے ارادہ طلاق میں اتنا مضبوط ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرح طلاق دینا اسلامی تعزیرات کا ایک جرم ہے اور اس کی اس کو لازماً سزا بھگتنی پڑے گی وہ اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالتا ہے تو آخر ایسے شخص کو اس کی بیوی کے ساتھ باندھے رکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ بیگم صاحبہ بجائے اس کے کہ اس طریقے ہی کو کالعدم قرار دینے کے لیے قانون بنوائیں، اس بات کی کوشش کریں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ ہی صحیح طریقے پر جاری ہو جائے۔ اس سے لوگوں کو احسن طریقے پر طلاق دینے کی تعلیم بھی ہو گی اور وہ مشکل بھی نہ پیدا ہو گی جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اور اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اس ملک کی عظیم اکثریت کو اس کے قبول کرنے میں کوئی تامل بھی نہیں ہو گا۔
طلاق کے ہر مقدمے میں اس کے جائز قرار دینے سے پہلے بیگم صاحبہ نے عدالتوں کے لیے یہ تحقیق کرنا بھی ضروری قرار دیا ہے کہ اس کے لیے معقول وجوہ موجود ہیں یا نہیں۔ یہ شرط ہمارے نزدیکِ بس کی گانٹھ ہے اور اس سے ہزاروں مفاسد پیدا ہوں گے۔ میاں بیوی کے تعلق میں اصلی چیز باہمی الفت و محبت ہے۔ اگر کسی جوڑے کے اندر یہ چیز باقی نہیں رہی ہے تو یہ تو ایک معقول بات ہے کہ اس کے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اگر ان کے دل پھٹ چکے ہیں تو پھر یہ بات نہایت احمقانہ ہے کہ ان کو محض اس لیے ایک ساتھ باندھے رکھا جائے کہ طلاق دینے کے لیے شوہر کے پاس کوئی معقول سبب موجود نہیں ہے۔ آخر اس سے زیادہ معقول وجہ اور کیا چاہیے کہ ایک شوہر کا دل اپنی بیوی کے اندر نہیں بس رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے بیزار ہو کر اسے طلاق دے ڈالی ہے۔ اگر یہ وجہ ایک معقول وجہ ہے تو کسی مزید سبب معقول کی تلاش فضول ہے۔ اس لیے کہ یہ وجہ موجود ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے طلاق دے رکھی ہے اور اگر یہ وجہ ان وجوہ میں شامل نہیں ہے جن کو ایک عدالت معقول باور کر سکے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہر اس شخص کو جو اپنی ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے اس بات پر مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ اپنی بیوی پر کوئی سنگین الزام اور کوئی گھناؤنی تہمت لگائے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اقدام کو کسی عدالت میں مشکل ہی سے معقول ثابت کر سکے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے یہاں بھی انگلستان اور امریکہ کی عدالتوں کی طرح جب کوئی شخص طلاق کا مقدمہ دائر کرے گا تو ساتھ ہی اپنی بیوی کے زانیہ ہونے یا کم از کم اس کے کسی سے ناجائز راہ ورسم رکھنے کا کوئی ثبوت بھی فراہم کرے گا اگرچہ وہ کتنا ہی بعیداز حقیقت ہو۔ شروع شروع میں یہ چیز ضرورت سے ایجاد ہو گی اس کے بعد آہستہ آہست اس کو سوسائٹی کا مزاج اس طرح اپنا لے گا کہ لوگوں میں اس کا احساس ہی مردہ ہو جائے گا۔
اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے بیگم صاحبہ ارشاد فرمائیں کہ وہ یہ قانون بنوا کر اس مسلمان سوسائٹی پر اور اپنی بہنوں پر کوئی احسان فرما رہی ہیں یا ان سب کے حق میں کانٹے بو رہی ہیں؟
بیگم صاحبہ نے غریب شوہروں پر ایک چپت یہ لگائی ہے کہ:
شوہر اپنی بیوی کو ایسے تمام اخراجات ادا کرے گا جو بیوی نے طلاق کے لیے دائر کردہ مقدمے اور شوہر کی دوسری شادی کے مقدمے کی مدافعت کے سلسلے میں برداشت کیے ہوں۔ یہ رقم عدالت معین کرے گی جو بیوی کے عدالت میں حاضر ہونے کے وقت ادا کی جائے گی۔ نیز شوہر اس عرصے کے لیے بھی نان نفقہ ادا کرے گا جب تک کہ مقدمہ زیر سماعت رہے۔
اس نان نفقہ سے متعلق بیگم صاحبہ کا تصور اس تصور سے بالکل مختلف ہے جو شریعت سے واضح ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو بیگم صاحبہ کے خود اپنے ہی الفاظ میں سمجھ لینا چاہیے۔ اس کی وضاحت انھوں نے ان الفاظ میں فرمائی ہے۔
نان نفقہ کی رقم شوہر کی جملہ ذرائع آمدنی جس میں سے شوہر پر واجب الادا محصولات وضع کر لیے گئے ہوں، کے ۵؍۱ حصے سے کم نہ ہو گی۔
مقدمہ کے اخراجات کے معاملے میں انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر بیوی مقدمہ دائر کرنے کے معاملے میں حق بجانب ثابت ہو تو اس کے مصارف شوہر سے دلوائے جائیں ورنہ یہ تو شوہر پر بڑی زیادتی ہو گی کہ ایک طرف تو اس غریب کو بلاوجہ ایک مقدمے میں پھنسایا جائے اور پھر اسی سے اس مقدمے کے مصارف وصول کیے جائیں اور وہ بھی پیشگی اور پھر مزید ستم یہ کیا جائے کہ نان نفقہ کے نام سے اس کی کل آمدنی پر بیوی صاحبہ کو خمس وصول کرنے کا بھی اور وہ بھی پیشگی حق دلایا جائے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر بیگم صاحبہ نے اس قسم کی قانون سازی کر کے عورت کو اتنی خطرناک چیز بنا دیا تو مرد شادی کرنے کی ہمت ہی چھوڑ بیٹھیں گے۔
یہاں تک ہم نے بیگم صاحبہ کے مسوّدے پر ایک عام تبصرہ کیا ہے اور مقصود اس سے جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا ہے یہ ہے کہ اگر بیگم صاحبہ اس سلسلے میں کسی قانون سازی کی ضرورت پر مصر ہی ہیں تو اس مسودے کو فی الواقع اس قرآن کے مطابق کر لیں جس کی روشنی میں اس کے مرتب کیے جانے کا انھوں نے دعویٰ کیا ہے۔ اب آخر میں ہم ان کی خدمت میں صرف دو باتیں اور عرض کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔
ایک یہ کہ مغرب کی کورانہ تقلید میں یہ سمجھ بیٹھنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ تعدد ازدواج محض ایک جاہلیت کی یادگار ہے یا شوہر کو طلاق کی آزادی دینا ایک بالکل خلاف عقل و تہذیب قانون ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کو ہمارے اخلاقی، عائلی اور اجتماعی نظام کے تحفظ میں بڑا دخل ہے اور ہماری انتہائی نادانی ہو گی اگر ہم اس سے سوءِ استعمال کی کچھ مثالوں سے متاثر ہو کر سرے سے ان کے ختم کر دینے ہی کی تدبیریں سوچنے لگ جائیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت اسی صورت میں دی ہے جب کوئی واقعی اخلاقی، تمدنی اور اجتماعی ضرورت داعی ہو۔ مرد کو عورتوں کا باڑہ بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی گئی ہے اور یہ اجازت بھی نہایت کڑی شرطوں کے ساتھ مشروط ہے جن کا توڑنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کسی نئی شادی کی کوئی واقعی ضرورت موجود ہے یا نہیں اسلام نے مرد کی صوابدید پر چھوڑا ہے۔ اس امر کو کسی عدالت کے فیصلے پر منحصر نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ضرورت کے اتنے پہلو ہو سکتے ہیں کہ کسی معین ضابطے کے تحت ان کو منضبط کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ اس وجہ سے اسلامی قانون اس صورت میں تو مداخلت کرتا ہے جب ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر کے کوئی ناانصافی یا حق تلفی کرتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ اس معاملے میں کوئی مداخلت پسند نہیں کرتا اور اس کی وجہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہی ہے کہ یہ چیز ضابطہ بندی کی ہے ہی نہیں۔
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے خاندان کے نظم کو سنبھالے رکھنے کے لیے مجبور ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ مثلاً ایسے بچوں کا باپ مر جاتا ہے جن کی ولایت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں بعض اوقات ناگزیر ہو جاتا ہے کہ مرد بچوں کی ماں کو اپنے حبالہ عقد میں لے لے۔ کیونکہ بیوہ کے نکاح نہ کرنے میں بھی اندیشہ ہے اور کسی غیر جگہ نکاح کرنے میں بھی بچوں کے حقوق تلف ہونے اور ماں کی محبت سے محروم ہو جاننے کا ڈر ہے۔
اسی طرح بے شمار صورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ ایک شخص کا مقصد ازدواج ایک عورت سے پورا نہیں ہو رہا ہے لیکن نہ تو وہ خود اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے تیار ہے اور نہ اس کی بیوی ہی طلاق لینے کے لیے تیار ہے۔
علی ہذالقیاس اس کا بھی امکان ہے کہ ایک شخص ایک عورت سے پوری جنسی تسکین نہ حاصل کر پاتا ہو اور وہ کسی مزید نکاح کی ضرورت محسوس کرے۔
اجتماعی اور معاشرتی ضرورت کی مثالیں ہم اوپر انگلستان اور یورپ کے حالات سے پیش کر چکے ہیں ان کے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
الغرض اس کی اتنی شکلیں ممکن ہیں اور اس کے اتنے واضح اور غیر واضح اسباب ہو سکتے ہیں کہ قانون کے لیے ان سب کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ قانون اس معاملے میں اگر کوئی موثر مداخلت کر سکتا ہے تو صرف اس شکل میں کر سکتا ہے جب کہ نکاح کرنے والے شخص کی طرف سے کوئی تعدی صدور میں آئے۔
اسی طرح طلاق کے معاملے میں یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک ابغض المباحات ہے اور اسلا نے اس کو پسند نہیں کیا ہے لیکن اسلام اس پر ہرگز ایسی پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتا جن کے سبب سے اس شخص کے لیے بھی طلاق دینا ناممکن ہو جائے جو کسی وجہ سے اپنی بیوی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی راحت صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اس کی بنیاد الفت و محبت پر قائم ہو۔ اگر یہ بنیاد اکھڑ چکی ہو تو مصنوعی طریقوں سے اس کو جمائے رکھنے کی کوشش بسا اوقات مزید خرابیوں کا سبب بنتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایسے حالات میں میاں اور بیوی دونوں کو الگ الگ شرائط کے تحت یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔
بیگم صاحبہ سے دوسری گزارش یہ ہے کہ اس ملک میں معاشرتی خرابیوں کی اصلاح اگر پیش نظر ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہو گا کہ مردوں اور عورتوں دونوں کے اندر مذہب کے تحت اپنے حدود اور اپنے حقوق کی نگہداشت کے لیے بیداری پیدا کی جائے اور اس سلسلے میں اگر قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو یہ کام سو فیصدی اسلام کے مطابق ہوناچاہیے۔ اسی طرح ہماری قوم اپنے فطری داعیات اور اپنی ملی روایات کے مطابق ترقی کر سکتی ہے۔ اگر یہ راستہ چھوڑ کر یہاں مغرب کی کورانہ تقلید کی تلقین کی گئی اور آدھی تیتر آدھی بٹیر قسم کی قانون سازی کی گئی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہماری قوم بالکل شتر مرغ بن کر رہ جائے گی۔
____________