بیگم سلمیٰ تصدق حسین نے پنجاب اسمبلی میں مذکورہ بالا نام سے ایک مسودہ قانون پیش کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ یہ مسودہ قانون بعض اخبارات میں شائع ہو چکا ہے اور اس کے بعض پہلوؤں پر مخالف اور موافق بحثیں بھی ہوئیں ہیں۔ لیکن یہ جس اہمیت کا حامل ہے اور شریعت اور معاشرت پر اس کے جو دور رس اثرات پڑ سکتے ہیں اس کے اعتبار سے اہل علم نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ ہمارے نزدیک اگر یہ مسودہ قانون اسی صورت میں پاس ہو جائے جس صورت میں یہ مرتب کیا گیا ہے تو اس سے وہ فوائد تو شاید حاصل نہ ہو سکیں جو اس کی فاضل مرتبہ نے پیش نظر رکھے ہیں البتہ بہت سی ایسی خرابیاں ہمارے معاشرے میں پھوٹ پڑیں گی جن کا خیر مقدم کرنے کے لیے دوسرے دیندار مسلمان تو درکنار شاید خود بیگم صاحبہ موصوفہ بھی آسانی کے ساتھ تیار نہ ہوں۔ اس وجہ سے ہم اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ اس مسودے کے خام پہلوؤں کی وضاحت کر دیں تاکہ اگر بیگم صاحبہ پسند فرمائیں تو اس کی روشنی میں یا تو خود ہی اس پر نظر ثانی فرما لیں یا دوسرے اصحاب علم سے اس کے بارے میں مشورہ کر لیں۔ اگر وہ فی الواقع اپنی دینی بہنوں کی بھلائی ہی چاہتی ہیں (اور مجھے یہی حسن ظن ہے کہ وہ بھلائی ہی چاہتی ہیں) تو میرے نزدیک یہ بھلائی اسی شکل میں حاصل ہو سکتی ہے جب یہ مسودہ قانون ٹھیک ٹھیک اس روشنی میں مرتب کیا جائے جس روشنی میں اس مسودے کا شروع میں بل کا منشا بیان کرتے ہوئے حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اس کی فاضل مرتبہ نے اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ وہ مسلمان قوم کی ایک فرد ہیں جن کے پاس ایک ضابطہ حیات خود اللہ تعالی کا اتارا ہوا موجود ہے جس میں ہماری زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تمام اصولی ہدایات مرقوم ہیں۔ چنانچہ اس مسودے کی ابتدا میں اس کا منشا مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
ہرگاہ یہ امر قرین مصلحت ہے کہ اسلامی قانون کے احکام متعلقہ شادی، انفساخ نکاح، طلاق، مہر اور حضانت کو قرآنی قوانین کی روح کے مطابق بنانے کے پیش نظر مجتمع کیا جائے اور ان کی وضاحت کی جائے۔
ہم اس تمہید پر محترمہ بیگم صاحبہ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ انھوں نے مسلمان ہونے کے بنیادی تقاضے کو ملحوظ رکھا اور قرآن کو زندگی کے عملی معاملات میں ایک رہنما کتاب مانا۔ اس کی نسبت اگر ہمیں کوئی شکایت ہے تو بس یہ ہے کہ ایک واضح بات گول مول الفاظ میں کہی گئی ہے۔ اس قسم کا ذہنی تحفظ عموماً ان لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے جو شریعت سے فرار کی راہ شریعت کا کلمہ پڑھتے ہوئے اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بلاوجہ کوئی بدگمانی نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن کا نام تو لیا گیا ہے لیکن سنت کو ایک قلم نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی قانون کو اسلام کے مطابق مجتمع کرنا پیش نظر ہے تو اس کے لیے تنہا قرآن ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی لازمی ہے۔ اسلامی قانون کی بنیاد صرف قرآن ہی پر نہیں ہے بلکہ سنت پر بھی ہے۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق نہیں کی جا سکتی اسی طرح اسلام میں کتاب اور سنت کے درمیان بھی تفریق کی گنجائش نہیں ہے۔ سنت سے میری مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثابت شدہ طریقہ ہے۔ اسلام میں اس سے انحراف کھلا ہوا کفر ہے اور جو قانون سازی سنت سے ہٹ کر کی جائے اس کو اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کتنی ہی بلند آہنگی سے کیا جائے کہ وہ ’’قرآنی قوانین کی روح‘‘ کے مطابق ہے۔ اس وجہ سے اگر یہ لفظ تمہید میں سہواً چھوٹ گیا ہے تو یہ ایک بہت بڑی فردگذاشت ہے اور اس کی اصلاح ہونی چاہیے اور اگر خدانخواستہ یہاں سنت کو نظر انداز کرنے میں وہی فاسد ذہنیت کام کر رہی ہے جس کا زہر منکرین حدیث پھیلا رہے ہیں تو میں بیگم صاحبہ کی خدمت میں باادب عرض کروں گا کہ وہ سنت کو نظر انداز کرنے کے بعد قرآن کو بھی ممنون احسان نہ ہی فرمائیں تو زیادہ اچھا ہے۔ اگر یہ بیڑی بھی پاؤں میں رہی تو آخر اسلام سے فرار میں اس سے کچھ نہ کچھ تو رکاوٹ پیدا ہو گی ہی۔ پھر ایسی الجھن میں پڑنے سے کیا فائدہ جس کا نہ دنیا میں کوئی نفع اور نہ آخرت میں۔
پھر یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ صاف صاف ’’قرآنی احکام‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے ’’قرآنی قوانین کی روح‘‘ کی پرپیچ اور پر تکلف ترکیب کے استعمال کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قرآنی احکام کی روح سے پہلے تو اس کے الفاظ کا سوال آتا ہے۔ روح کا سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ اس کے الفاظ کے تقاضوں سے فارغ ہو لیں۔ پہلے جو کچھ قرآن نے اپنے نصوص میں صاف صاف بتا دیا ہے اس پر اپنے قانون کی بنیاد رکھیے۔ پھر جس شعبہ زندگی سے متعلق قرآن کے نصوص میں کوئی رہنمائی نہ مل رہی ہو وہاں اس کی روح کے مطابق قانون بنائیے اور اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اس کے اسوہ حسنہ کو اپنے لیے رہنما بنائیے جو قرآنی قوانین کی روح کو سب سے زیادہ سمجھنے والا تھا۔ ہاں اگر اس کی سنت میں بھی کوئی رہنمائی نہیں مل رہی ہے تو پھر بلا شبہ آپ کو حق ہے کہ قرآنی قوانین کی روح سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ مگر یہ بات تو نہ صرف عجیب بلکہ نہایت ہی احمقانہ ہو گی کہ آپ نہ تو قرآن کے الفاظ اور اس کے نصوص کی پروا کریں نہ نبی کی سنت کی پروا کریں ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اپنی ہوائے نفس کی رہنمائی میں قانون بنائیں اور دعویٰ یہ کریں کہ آپ نے یہ قانون ’’قرآنی احکام کی روح‘‘ کے مطابق بنایا ہے۔
یہ تنبیہہ کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ آج کل ہمارے ہاں ’’قرآنی قوانین کی روح‘‘ کی اصطلاح بہت چلی ہوئی ہے اور جن لوگوں نے یہ اصطلاح چلائی ہے ان کا منشا اس سے یہی ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کے اندر روح تو اپنی خواہشات نفس کی ہو لیکن ان پر لیبل قرآن کا چپکا دیا جائے۔ چنانچہ افسوس ہے کہ اس مسودہ قانون کے اندر بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ دعویٰ تو یہ کیا گیا ہے کہ شادی اور نکاح سے متعلق مسائل کو قرآن کی روح کے مطابق منضبط کیا جائے۔ لیکن کیا یہ گیا ہے کہ معاشرتی خرابیوں سے زیادہ اس میں خود قرآن کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب ہم اصل مسودے پر تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہیں اور چونکہ مسودے کی مرتّبہ نے قرآن ہی کو اس کا اصل ماخذ بتایا ہے اس وجہ سے ہم بھی بحث و استدلال میں اپنے آپ کو قرآن ہی تک محدود رکھیں گے۔
اس مسودہ قانون کے ذریعے سے پہلی چیز جو چاہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:
’’الف۔ کوئی مسلمان مرد تاوقتیکہ اس نے کسی دیوانی عدالت سے اس امر کے متعلق ڈگری نہ حاصل کر لی ہو کہ وہ اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے کا اہل ہے، دوسری عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔
ب۔ کوئی عدالت کسی مسلمان مرد کو پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے کے لیے ڈگری دینے کی مجاز نہ ہو گی تاوقتیکہ شخص مذکورہ عدالت کو اس امر کے بارے میں مطمئن نہ کر دے کہ
۔۔۔ا س کی بیوی کم از کم دس سال کے عرصے سے کسی متعدی مرض میں مبتلا ہے۔
۔۔۔یا وہ بانجھ ہے۔
۔۔۔یا وہ فاتر العقل ہے۔
۔۔۔اور کہ اس کے ذرائع آمدنی دونوں بیویوں اوراس کے اور ان کے بچوں کے کفیل ہو سکتے ہیں یا
۔۔۔کہ وہ دونوں بیویوں سے برابر کا انصاف روا رکھ سکتا ہے اور یکساں محبت کا برتاؤ کر سکتا ہے۔‘‘
مختصر الفاظ میں اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایک بیوی رکھتے ہوئے اس قانون کے بن جانے کے بعد کسی دوسری عورت سے شادی کرنے کا مجاز نہیں ہو سکتا، جب تک وہ ایک دیوانی عدالت سے اس بات کی سند نہ حاصل کر لے کہ وہ دوسری شادی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور کوئی عدالت اس کو دوسری شادی کی ڈگری دینے کی مجاز نہیں ہو سکتی جب تک وہ عدالت میں اپنی موجودہ بیوی کا بانجھ ہونا، یا فاتر العقل ہونا یا دس سال سے کسی متعدی مرض میں مبتلا ہونا نہ ثابت کر دے نیز یہ نہ ثابت کر دے کہ اس کے ذرائع آمدنی اس کے لیے بھی اور اس کی دونوں بیویوں اور ان کے بچوں کے لیے بھی کافی ہیں اور یہ کہ وہ دونوں بیویوں کے ساتھ برابر کا انصاف بھی کرے گا اور ان کے ساتھ یکساں محبت بھی کرے گا۔
جب ہم مسودے کی اس دفعہ کو اس قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں جس کے مطابق اس کے مرتب کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے تو اس میں سب سے پہلی بات جو صریحاً قرآن کے بالکل خلاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں مرد کو اگر وہ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسرا عقد کرنا چاہے عدالت کی اجازت کا پابند کر دیا گیا ہے۔ درآنحالیکہ قرآن نے جہاں یہ اجازت دی ہے وہاں مرد پر بعض پابندیاں ضرور عائد کی ہیں لیکن عدالت سے اجازت حاصل کرنے کی کوئی پابندی اس پر عائد نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کے الفاظ اپنے مفہوم میں بالکل صاف ہیں۔ فرمایا ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامٰی فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبٰعَ۔ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ ذٰالِکَ اَدْنٰی اَلَّا تَعُولُوْا۔ النسا۔۳
اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو نکاح کر لو اپنی پسند کی عورتوں سے دو دو کر کے۔ تین تین کر کے چار چار کر کے اور اگر اندیشہ ہو کہ تم بیویوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر بس کرو۔ یا اپنی لونڈی پر۔ یہ طریقہ زیادہ قریب ہے اس بات سے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔
اس آیت میں ایک مرد پر جو ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنا چاہے مندرجہ ذیل پابندیاں عائد کی گئی ہیں:
۱۔ یہ کہ اس بات کے لے کوئی معاشرتی، خانگی یا اخلاقی ضرورت داعی ہو، محض تنوع اور تلذذ کے لیے یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا اشارہ وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی (اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تب) سے نکلتا ہے۔
۲۔ یہ کہ بہرحال یہ تعداد بیک وقت چار سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
۳۔ یہ کہ ان بیویوں کے ساتھ حتی الامکان مساویانہ برتاؤ کیا جائے۔
اگر ان شرطوں کے ساتھ یہ شرط بھی قرآن مرد پر عائد کرنا چاہتا کہ وہ نکاح کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت بھی حاصل کرے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا ذکر بھی صاف صاف نہ کر دیتا۔ لیکن اس کی تصریح تو درکنار آیت میں اس کا کوئی اشارہ بھی موجود نہیں ہے۔
اگر محض ان شرطوں کی بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ اس زمانے میں مرد عموماً ان شرطوں کا احترام نہیں کرتے جس کے سبب سے بہت سی عورتیں نہایت مظلومیت اور بے کسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہی ہیں اس وجہ سے مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ مرد کی اس آزادی کو قدغن کر دیا جائے اور ایسا کرنا قرآنی احکام کی روح کے مطابق ہو گا تو ہم اس چیز کو مختلف پہلوؤں سے غلط سمجھتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ یہ اللہ کی کتاب پر ایک اضافہ ہے جس کے کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ آپ کو اگر قرآن کی کوئی بات پسند نہیں ہے تو آپ آزاد ہیں کہ اس کو چھوڑ کر جو طریقہ بھی آپ کوپسند ہے اس کو اختیار کر لیجیے۔ لیکن یہ بڑی زیادتی ہے کہ آپ اپنی ہوائے نفس کی پیروی میں ایک بات ایجاد کریں اور پھر اس کو قرآن پر تھوپیں کہ یہ اس کے ’’احکام کی روح‘‘ کے مطابق ہے۔
دوسرا اعتراض اس پر یہ ہے کہ اس اضافے سے نہ صرف یہ کہ وہ مقصد نہیں حاصل ہو سکتا جس کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی یہ تحریف کی جا رہی ہے بلکہ الٹے اس سے اس مقصد کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس سے ہمارا معاشرہ بھی نہایت بری طرح متاثر ہو گا اور خود عورت بھی، جس کے حقوق کے تحفظ ہی کے لیے بیگم صاحبہ نے یہ قوانین تحریر فرمائے ہیں نہایت ہی سخت مصیبتوں میں مبتلا ہو جائے گی۔ ہم مسئلے کے اس پہلو کو یہاں کسی قدر وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری جو بہنیں اس کو اپنے حقوق کے نقطہ نظر سے بڑی اہمیت دے رہی ہیں وہ اس کے حقیقی عواقب سے آگاہ ہو جائیں۔
پہلے اس نقصان کو ملاحظہ فرمائیے جو اس سے خود ہماری ان بہنوں کو پہنچ سکتا ہے جن کے تحفظ ہی کے لیے اس قانون کو بنایا جا رہا ہے۔
اگر فی الواقع ایک مرد کو جو ایک نئے نکاح کا شائق ہے اس نکاح کی اجازت عدالت سے اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ اپنی پہلی بیوی کو بانجھ یا فاتر العقل، یا کسی مرض متعدی میں مبتلا نہ ثابت کر دے اور اپنے مالی وسائل کی کفالت اور اپنے مساویانہ سلوک کے بارے میں بھی عدالت کو مطمئن نہ کر دے تو لازماً اس کا رجحان یہ ہو گا کہ وہ ایسی بیوی سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرے اور اس کے لیے واحد راستہ جو وہ اختیار کر سکتا ہے طلاق ہی کا راستہ ہے اس وجہ سے وہ مجبوراً یہی راستہ اختیار کرے گا اوران پابندیوں کے علی الرغم جو اس مسودہ قانون میں طلاق پر عائد کی گئی ہیں وہ طلاق کی راہ بہرحال پیدا کر ہی لے گا۔ نہ اس چیز میں اس کے لیے ’’طلاق الاحسن‘‘ کی پابندیاں روک بن سکیں گی اور نہ وہ کسی ’’سبب معقول‘‘ کے پیدا کرنے ہی سے قاصر رہے گا جیسا کہ ہم آگے چل کر طلاق کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے دکھائیں گے۔
اب غور کیجیے کہ اگر یہ قانون بن کر نافذ ہو جاتا ہے تو ہماری ان ہزاروں بہنوں کا کیا حشر ہو گا جن کے شوہر ان کو کسی عدالت میں بانجھ یا فاتر العقل یا مدقوق تو ثابت نہیں کر سکتے لیکن وہ تنہا ان کے اوپر قناعت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یا تو وہ ان کو زنجیر پا سمجھتے ہوئے گھر میں ڈالے رکھیں گے یا ان سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ پیچھا چھڑانے کی واحد شکل جو وہ اختیار کر سکتے ہیں طلاق ہے۔ ایسی صورت میں ان ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں شریف عورتوں کے انجام پر غور کیجیے جو اپنی جوانیاں کھو چکیں، جو اپنے شوہروں کے لیے بچے جن چکیں، اور جن کے اندر دوسرے مرد کے لیے اب کوئی خاص کشش باقی نہیں رہی۔ کیا وہ اس قانون کے نتیجے میں مطلقہ بن کر نہایت برا بڑھاپا گذارنے پر مجبور نہ ہوں گی؟ کیا یہ کسی طرح بھی مطابق مصلحت ہو سکتا ہے کہ ان بے چاریوں کو سوکن کے جلاپے سے بچانے کے لیے ذلت اور مصیبت کی ایک جہنم میں جھونک دیا جائے؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے اس امر کو بھی ملحوظ رکھیے کہ ہمارا معاشرہ مغربی معاشرے سے بالکل مختلف مزاج رکھتا ہے۔ اس میں ایک عورت مطلقہ بن کر صرف ازدواجی زندگی ہی سے محروم نہیں ہوتی ہے بلکہ خاندان اور براداری کے اندر اپنا بہت کچھ نسوانی شرف بھی کھو دیتی ہے۔
معاشرے کو اس سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے وہ بحیثیت مجموعی اس سے بھی زیادہ ہے۔ اسلام نے تعدد ازدواج کی جو اجازت دی ہے اس میں جہاں اور بہت سی شخصی اور اجتماعی مصلحتیں ہیں جیسا کہ آگے ہم بیان کریں گے وہاں ان کے اندر ایک بہت بڑی مصلحت معاشرے کے اخلاقی تحفظ کی بھی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے عفت و عصمت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے سخت قوانین بنائے ہیں۔ زنا ایک ایسا جرم ہے جس کا اسلامی معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ سختی جائز اور معقول اسی حالت میں ہو سکتی ہے جب کہ قانون جنس غالب کے مفرط جنسی جذبات سے بالکل بے پروا نہ ہو بلکہ اگر کوئی شخص کسی سبب سے تشنگی محسوس کرتا ہے تو اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے خود قانون کے اندر ایک مناسب حد تک گنجائش موجود ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کے لیے ناجائز راستے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس کا نتیجہ پورے معاشرے کے حق میں نہایت مہلک اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس معاشرے نے یک زوجگی کے اصول کو شدت کے ساتھ اپنایا ہے اس کو زنا کا دروازہ پوری وسعت کے ساتھ لازمی طور پر کھلا رکھنا پڑا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے کسی شخص کے لیے دوسرا نکاح کرنا بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے لیکن زنا وہاں شاید نکاح سے بھی زیادہ پاکیزہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اگر ان کی تقلید میں یک زوجگی کے قانون کو اپنانے پر اصرار ہے تو پھر دوسرے پہلو میں بھی پوری فراخ دلی کے ساتھ ان کی پیروی کرنی پڑے گی۔
علاوہ ازیں کبھی معاشرہ بحیثیت مجموعی اس بات کا محتاج ہو جاتا ہے کہ تعدد ازدواج کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ ایسی صورت میں اگر یہ طریقہ نہیں اختیار کیا جاتا تو پورے معاشرے پر صنفی انتشار کا ایسا بحران طاری ہو جاتا ہے کہ وہی لوگ جو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسرے نکاح کے ذکر سے بھی شرماتے ہیں نکاح اور بیاہ کی سرے سے قید ہی اڑا دینے کی تجویز پر غور کرنے لگتے ہیں۔ اور جن بیگمات کی پیشانیاں سوکن کے تصور سے بھی عرق آلود ہوتی ہیں وہ اس بات کی تمنا میں مرنے لگتی ہے کہ کاش کسی مرد کی ’’داشتہ‘‘ ہی بن کے زندگی بسر کرنے کا موقع نصیب ہو جائے۔ یہ محض مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ میں اس کے ثبوت میں ایک ایسے معاشرے کی مثال پیش کرتا ہوں جو یک زوجگی کے نظریے کا سب سے بڑا علم بردار اور بیگم صاحبہ کے نقطہ نظر سے غالباً ایک مثالی معاشرہ ہے۔
۱۶؍فروری ۵۵ کے نوائے وقت میں اس کے لندن کے نامہ نگار کا ایک خط شائع ہوا ہے اس کی مندرجہ ذیل سطریں ملاحظہ ہوں:
۱۹۱۴ اور ۱۹۳۹ کی عالمگیر جنگوں اور سلطنت برطانیہ کے دفاع نے انگلستان میں عورتوں کا تناسب مردوں سے زیادہ کر دیا ہے۔ چناچہ یہاں اکثر عورتیں شادی کا ارمان دل ہی میں لیے ہوئے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یوں تو وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن زندگی کا حقیقی سکون انہیں میسر نہیں آتا۔ لندن کے ایک پادری صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل اگر غلطی سے کسی دوشیزہ کو شادی شدہ سمجھ لیا جائے تو وہ چند لمحوں کے لیے باغ باغ ہو جاتی ہے۔
اکثر کنواری لڑکیوں نے زندگی کا مقصد ہی شادی سمجھ رکھا ہے وہ شادی کے لیے ماری ماری پھرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ لڑکوں کے پیچھے ماری ماری پھرتی ہیں۔ انہیں جو لڑکا مل جاتا ہے وہ اسے اپنا ممکنہ شوہر سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔
پادری صاحب مزید فرماتے ہیں:
جو دوشیزائیں مسز کہلا سکتی ہیں وہ اپنے آپ کو اعلیٰ وارفع سمجھنا شروع کر دیتی ہیں اوراحساس برتری کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سہیلیوں کو ذرا نفرت سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں جن کو شوہر نہیں ملتے۔ عام لڑکیاں جب ایک دوسری سے ملتی ہیں تو سب سے پہلے ان کی نگاہیں دوسری کی انگلی میں ’’شادی کی انگوٹھی‘‘ تلاش کرتی ہیں۔ ان حالات میں لڑکیاں شادی کے خیال ہی سے محبت شروع کر دیتی ہیں۔
پادری صاحب نے گلہ کیا ہے کہ لڑکی جونہی پندرہ کے سن میں پہنچتی ہے اسے شادی کا خیال ستانا شروع کر دیتا ہے۔ دراصل یہ شکایت فضول ہے۔ انگلستان اوریورپ میں مردوں کی کمی ایک مسئلہ بن چکی ہے اورمغربی تہذیب میں بے راہ روی کے جو گھناؤنے مظاہرے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہی مردوں کی کمی ہے۔ عورت کی شادی کی خواہش ایک قدرتی خواہش ہے لیکن مغرب کے داناؤں نے اس کا علاج یہ نکالا ہے کہ مرد شادی تو ایک ہی کرے لیکن عیاشی جتنی عورتوں سے چاہے کرے۔ مغربی تہذیب، مذہب اور قانون یہ تو برداشت کر لیتے ہیں کہ شادی شدہ مرد داشتہ رکھ لے لیکن دوسری شادی ان کے نزدیک معیوب اور تہذیب کے خلاف ہے۔
دیکھ لیجیے انگلستان اوریورپ کا معاشرہ اس وقت جس بحران میں مبتلا ہے اس کا واحد علاج تعدد ازدواج ہے لیکن ان ملکوں کے لال بجھکڑ زنا کو تو ثواب قرار دے لیں گے لیکن ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کے ذکر کو بھی خلاف تہذیب قرار دیں گے۔ اور یہی حال وہاں کی عورتوں کا بھی ہے۔ وہ بیسو اور داشتہ بن کر زندگی بسر کرنے میں تو کوئی قباحت نہیں خیال کرتیں بلکہ کتنی اسی ارمان میں بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن اگر ان کے سامنے تعدد ازدواج کا نام بھی لے لیجیے تو یہ ان کی شان میں ایک ایسی گستاخی ہو گی جو کسی طرح بھی قابل معافی نہیں۔۔۔ہمارے ملک کی بیگمات بھی یہی چاہتی ہیں کہ اور چاہے جو پاپڑ بھی انھیں بیلنے پڑیں لیکن تعدد ازدواج کی ’’لعنت‘‘ بہرحال اس ملک سے ختم ہونی چاہیے۔ ان بہنوں کی خواہش اور کوشش اگر یہی ہے تو یہ چیز تو ختم ہو جائے گی لیکن اس کو خوب یاد رکھیے کہ اس کے بعد کی منزل وہی ہے جس سے آج انگلستان کی عورتیں گزر رہی ہیں۔
ایک بیگم صاحبہ نے جو اپوا کی بیگمات میں ایک بڑا مقام رکھتی ہیں ابھی پچھلے دنوں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ان کے حقوق مردوں نے سیدھے سیدھے نہ دئیے تو پاکستان کی عورتیں بھی وہی طریقے اختیار کرلیں گی جو ان کی مغربی بہنوں نے اختیار کر لیے ہیں۔ ان کی مغربی بہنوں نے جو طریقے اختیار کیے ہیں اور اس سے انھوں نے جو شاندار نتائج حاصل کیے ہیں اس کا ایک ہلکا سا تصور دینے کے لیے ہم ذیل میں اسی اختیار کے نامہ نکار کی ایک اور چٹھی کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں جس کا ایک اقتباس ہم اوپر نقل کر آئے ہیں۔ اس سے انہیں بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ ان کی مغربی بہنوں نے کیا کچھ پایا ہے اور ان کے نقش قدم پر چل کر یہ کیا کچھ پالیں گی۔ نامہ نگار کا بیان ملاحظہ ہو:
آپ پوچھیں گے کہ لندن میں اتنی لڑکیاں کیوں ہیں؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ گذشتہ دو جنگوں اور سلطنت برطانیہ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں بے شمار مرد کام آ چکے ہیں۔ سارے برطانیہ ہی میں یورپ کی طرح عورتوں کی تعداد زیادہ اور مردوں کی کم ہے۔
دوسرے ہر سال ہزاروں لڑکیاں جرمنی، فرانس اور اٹلی سے ’’لندن کی شہرت‘‘ کے قصے سن کر۔۔۔رزی اور شوہر۔۔۔کی تلاش میں لندن آ جاتی ہیں۔
تیسرے ہر سال کوئی پچیس ہزار لڑکیاں برطانیہ کے مختلف صوبوں سے آتی ہیں۔ کیوں؟
گھر میں ماں ’’بوائے فرینڈ‘‘ سے ملنے پر اعتراض کرتی تھی، یہاں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں۔ منگیتر سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ ایکٹرس بننے کا شوق بھی صاحبزادیوں کو چراتا ہے اورکچھ دنیا دیکھنے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے اور پھر یہاں پر سینکڑوں شاخوں والے ’’لائنز‘‘ اوراے بی سی کے سستے کھانے والے ریستوران ہیں جہاں ہزاروں لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ’’ول ورتھ‘‘ اور ’’اسپنسر اینڈ مارکس‘‘ کے وسیع و عریض اسٹوروں میں ’’شاپ گرل‘‘ بن سکتی ہیں۔ ہوٹلوں میں ’’Receptionist‘‘ بن سکتی ہیں۔ سکرٹری بن سکتی ہیں اور فوٹو گرافوں کے ’’ماڈل‘‘ اور ہندوستانی اور پاکستانی ’’شہزادوں‘‘ کے ’’حرم‘‘ کی زینت۔۔۔
ان میں سے اکثر چار پانچ سے لے کر سات آٹھ پونڈ فی ہفتہ تک کماتی ہیں جس سے بمشکل اپنا ضروری خرچ چلاتی ہیں اور کپڑے وغیرہ بناتی ہیں اور جنھیں بچا کر اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی بھیجنا ہوتا ہے۔ وہ زندہ رہنے کے لیے پوری غذا بھی نہیں کھا سکتیں۔۔۔اور تقریباً تمام ہی شام کو تفریح کے لیے ’’شکار‘‘ کی تلاش میں رہتی ہیں جو انھیں پکچر دکھا دے، ریستوران میں ایک وقت کا کھانا کھلا دے یا کسی اچھے کافی ہاؤس میں کافی کی ایک پیالی ہی پلا دے۔۔۔اور انھیں اس ’’آزادی‘‘ اور ’’دنیا دیکھنے‘‘ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
یہاں عورت آزاد ہے لیکن اس کی حالت قابل رحم ہے۔ یہاں عام عورت کی کوئی عزت نہیں۔ کوئی مقام نہیں۔ اگر وہ مشرق کی ’’مظلوم عورت‘‘ کی ’’جیل کی زندگی‘‘ کی ایک جھلک دیکھ لے تو آزادی اور مساوات سے فوراً توبہ کر لے۔ یہاں ہزاروں عورتیں ساری عمر گھر اور اولاد کو ترستے ہوئے زندگی بسر کر دیتی ہیں اور انھیں اپنی مظلومی اور کس مپرسی کا پورا احساس ہوتا ہے۔ (نوائے وقت مورخہ۶؍فروری ۵۵)
یہ اقتباسات ہم ان بہنوں کے ملاحظہ کے لیے پیش کرتے ہیں جو دھمکی دے رہی ہیں کہ اگر ان کے مطالبہ مساوات اور ان کے حقوق کو سیدھے سیدھے تسلیم نہ کیا گیا تو وہ اپنی مغربی بہنوں کے طور طریقے اختیار کر لیں گی۔ وہ اگر ٹھنڈے دل سے اپنی مغربی بہنوں کی اس درگت کی جائز لیں گی تو ہمیں امید ہے کہ ان کے مقابلے میں اپنی جہالت کو بدر جہا بہتر پائیں گی اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں گی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دلوں کے مچلتے ہوئے جذبات اول تو کسی حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے، دوسرے ہماری ان بہنوں کو اس کا اتفاق ہی کب ہوتا ہے، کہ وہ یورپ یا امریکہ کی عام عورت کی واقعی زندگی کا اندازہ کر سکیں؟ انہیں تو عموماً انہی عورتوں کو دیکھنے کے مواقع ملتے ہیں جو انہی کی طرح بالکل فارغ البال ہیں اور سیر سپاٹے کے سوا جن کا کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔
بات اپنے دائرے سے باہر نکلی جا رہی ہے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جب معاشرہ اس کا محتاج ہوتا ہے کہ تعدد ازدواج کے طریقے پر عمل کرے لیکن محض جھوٹی صاحبیت کی پاسداری میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زنا عام ہو جاتا ہے عورت کی قیمت دو کوڑی کی رہ جاتی ہے یہاں تک کہ نہ تو اسے کسی مشرقی کے بدنام ’’حرم‘‘ میں داخل ہونے سے انکار کی مجال رہ جاتی اور نہ ہی وہ کسی کی ’’داشتہ‘‘ بننے میں کوئی عار محسوس کرتی۔ بلکہ زندگی بھر اس ارمان میں رہتی ہے کہ کاش کوئی آدم کا بیٹا جھوٹ موٹ ہی اپنی طرف اس کو منسوب ہونے کی عزت سے سرفراز کر دے۔
ممکن ہے اس پر یہ کہا جائے کہ اگر یورپ کے ملکوں میں یہ صورت حال ہے تو وہاں تعدد ازدواج کو جائز ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ صورت حال نہیں ہے، یہاں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس وجہ سے یہاں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں گذارش ہے کہ اگر آپ کے ہاں صورت حال یہ نہیں ہے تو تعدد ازدواج یہاں کب عام ہے؟ غربا کا طبقہ جو اس ملک کی اصلی آبادی کی حیثیت رکھتا ہے، ایک سے زیادہ بیوی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان کے اندر تو شاید لاکھوں میں کوئی مثال تعدد ازدواج کی مشکل ہی سے مل سکے۔ صرف خاص برادریاں ہیں جن کے کھاتے پیتے گھرانوں میں یہ خرابی موجود ہے کہ ان کے بعض افراد ایک سے زیادہ شادیاں کر لیتے ہیں اور بدقسمتی سے اس کی مثالیں بھی ان کے ہاں پائی جاتی ہیں کہ وہ عموماً بیویوں میں انصاف اور مساوات کے تصور سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک جزوی شر کو مٹانے کے لیے ایک ایسا قانون بنا ڈالا جائے جو معاشرے کو ایک ناروا پابندی میں باندھ کے رکھ تو دے گا لیکن اس سے ان مظلوموں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا جن کی حمایت کی آڑ لے کر یہ قانون بنایا جا رہا ہے۔ اس قانون کا لازمی نتیجہ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا یہ نکلے گا کہ نکاح جدید کے شائقین اپنی ان بیویوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے جو ان کی اس خواہش کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں اور ہمارے موجودہ معاشرے میں شاید ہزار میں سے پانچ عورتیں بھی اس انجام سے دو چار ہونے کے لیے تیار نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ تو ان کی حفاظت کے لیے قانون بنائیں گی اور ان بے چاریوں کے زندگی کے رہے سہے سہارے بھی چھن جائیں گے۔
یہ خرابی ہمارے معاشرے میں اب تک جس پیمانے پر ہے اس کے علاج کے لیے بجائے اس کے کہ ایک غلط قسم کے قانون کی بیڑی اپنے پاؤں میں ڈال لی جائے یہ بالکل کافی ہے کہ معاشرے میں اسلامی حقوق اور اسلامی عدل و انصاف کا احساس پیدا کیا جائے مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں اس بات کا کما حقہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اپنے شوہروں سے ان حقوق کے لیے جرأت کے ساتھ لڑ سکیں جو اسلام نے ان کو بخشے ہیں اور ہمارے ہر شہر کے اندر خواتین کی ایسی انجمنیں بھی ہونی چاہیں جو اس قسم کی مظلوم خواتین کی مدد کریں اور اگر وہ اپنے شوہروں کی طرف سے نان نفقہ اور حقوق زوجیت سے محروم کی جا رہی ہوں تو اسلامی قوانین کے مطابق عدالتوں کے ذریعے سے ان کے حقوق دلوائیں یا ان کے لیے خلع اور فسخ نکاح کا مطالبہ کریں۔
تعدد ازدواج اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ شروع سے یہ چیز موجود ہے۔ لیکن صحابہ رضی اللہ عنھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی کسی شخص کی مجال نہیں تھی کہ وہ اپنی ایک سے زیادہ بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی ادنیٰ ناانصافی بھی کر سکے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اول تو معاشرے میں اس بات کا احساس تھا کہ اسلام میں اس قسم کی ناانصافی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ثانیاً خود عورتوں کے اندر بھی اپنے حقوق کا اتنی شدت کے ساتھ احساس تھا کہ جہاں ان میں سے کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہوئی وہ فوراً اپنا معاملہ عدالت میں لے کر پہنچی۔ ثالثاً اس وقت کی عدالتیں بھی آج کل کی عدالتوں کی طرح نہیں تھیں کہ ان سے کمزور کے لیے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے ہم معنی ہو۔ پھر آج بھی اگر مقصود مظلوم عورتوں کی حمایت ہی ہے نہ کہ محض مغرب کی اندھی تقلید میں اسلامی اصولوں کی قطع و برید، تو آخر یہ طریقہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا کیوں نہیں اختیار کیا جا سکتا؟
____________