HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

چند مشورے

کمیشن کی جو تجاویز غلط اور مضر ہیں میں نے ان کی غلطیاں اور ان کے نقصانات تفصیل کے ساتھ بیان کر دیئے ہیں۔ جن تجاویز سے میں نے بحث نہیں کی ہے ان میں سے بعض تو مفید ہیں اور بعض اگرچہ مفید نہیں ہیں لیکن کچھ ایسی مضر بھی نہیں ہیں۔ کمیشن کی سب سے زیادہ مفید تجویز شادی بیاہ کی عدالتوں کے قیام سے متعلق ہے۔ یہ ایک ہی چیز اگر عمل میں آ جائے تو ہزاروں خرابیوں کا علاج بن سکتی ہے۔ اگرچہ کمیشن نے اس کی جو شکل تجویز کی ہے اس میں بعض خلا محسوس ہوتے ہیں اور میں ان کی طرف اشارہ بھی کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس خیال سے اغماض کیا کہ اگر اس تجویز نے عملی جامہ پہنا تو عمل میں آتے آتے یہ خلا خود بھر جائیں گے۔

اب میں چند باتیں اس ملک کے علمائے کرام اورارباب اقتدار اور ملک کی لیڈر خواتین کی خدمت میں الگ الگ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

علما کی خدمت میں

حضرات علما کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ اس ملک میں اب اسلام کے مستقبل کا انحصار بہت بڑی حد تک انہی کی یک جہتی، رواداری اور وسعت نظر پر ہے۔ اگرچہ مخالف اسلام عناصر اب یہاں کافی حد تک منظم ہو چکے ہیں اور اثر و نفوذ کے تمام وسائل و ذرائع انہی کے قبضے میں ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کے عوام اور یہاں کا ذہین طبقہ بحیثیت مجموعی ابھی اسلام ہی کے ساتھ ہے اور اگر اہل دین متحد ہو کر اسلام کے لیے کام کریں تو وہ انہی کا ساتھ دے گا۔ ہمارے ذہین طبقے میں دیوبندیت اور بریلویت یا حنفیت اور اہل حدیثیت کی گروہی قسم کی معرکہ آرائیوں کے خلاف تو ضرور بیزاری پائی جاتی ہے اور اس بات کا نہایت قوی اندیشہ ہے کہ اگر جلد اس کے تدارک کی کوئی شکل نہ پیدا ہوئی تو یہ چیز ان میں سے بہتوں کو خود اسلام سے بھی بدگمان کر دے گی لیکن خدا کے فضل سے ابھی اسلام کے خلاف ان کے اندر کوئی بے زاری نہیں پیدا ہوئی ہے اور اگر پیدا ہوئی بھی ہے تو ابھی وہ ایک نہایت ہی محدود دائرے کے اندر ہے جس کو اگر خود علما کی غلطی سے مزید غذا نہ مل گئی تو امید ہے کہ وہ متعدی نہیں ہونے پائے گی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل دین کی تمام توجہ گروہی تعصبات کو بھڑکانے کے بجائے لوگوں کے اندر نفس اسلام کی حمیت کا شعور پیدا کرنے پر صرف ہو۔ جب بدقسمتی سے اس ملک میں خود اسلام ہی کو ایک مابہ النزاع چیز بنا دینے کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں تو یہ کس قدر ناعاقبت اندیشی کی بات ہے کہ علما ایسے مسائل پر مناظرے کی مجلسیں گرم کریں جن کی دین میں یا تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اگر اہمیت ہے بھی تو بہرحال اتنی اہمیت نہیں ہے کہ ان کے لیے باہمی جنگ و جدال تک نوبت آ جائے اور معاملات تھانوں اور عدالتوں تک پہنچیں۔ اگر اس طرح کے مسائل کچھ لوگوں کے نزدیک اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ لازماً ان کو زیر بحث لانا ہی چاہتے ہیں تو وہ اس کے لیے علمی اور تنقیدی بحث و استدلال کی راہ اختیار کریں۔ زمانے کا طریق بحث و نظر الگ الگ ہوتا ہے یہ زمانہ علمی بحث و استدلال کا زمانہ ہے اور اسی طریقے سے لوگوں کو کسی خیال یا نظریے کا قائل اور معتقد بنایا جا سکتا ہے۔ مناظرہ و مجادلے کا طریقہ اس زمانے میں ہرگز کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا۔ نئے ذہن کو تو یہ چیز بالکل ہی اپیل نہیں کرتی۔ بلکہ الٹے اس کے اندر اس طرح کی چیزوں کے خلاف ایک بیزاری پیدا ہو چکی ہے، اور اگر ذہین طبقے کے اندر کسی چیز کے خلاف بیزاری پھیل جائے تو پھر وہ انہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ بہت جلدی عوام کے اندر بھی اتر جاتی ہے۔

ہمارے علما کو اس امر واقعی سے بھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ مخالف اسلام طاقتیں ان کی اس طرح کی غلطیوں کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنے مقصد کو تقویت دینے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ پریس کے ذریعے یہ چیزیں خوب اچھالی جاتیں ہیں اورذہین طبقے پر یہ اثر ڈالا جاتا ہے کہ اگر اس ملک میں مذہب کو زیادہ اہمیت دی گئی تو اس کے نتیجے یہی کچھ نکلیں گے۔ تاریخ نے اس سلسلے میں ہمیں جو مفید درس دئیے ہیں ہم بڑے ہی نادان ہوں گے اگر ان کو فراموش کر دیں۔ اگر ہم اس طرح کی غلطیوں پر مصر رہے تو اس ملک میں مذہب کو ختم کر دینے کی ذمہ داری یہاں کے مخالفین اسلام پر نہیں بلکہ یہاں کے علما پر عائد ہو گی۔ مخالفین تو اب تک ہر قسم کا زور و اثر رکھنے کے باوجود خدا کے فضل سے ہر محاذ پر شکست ہی کھاتے رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ علما اور ملک کے عوام نے اب تک یک جہتی کا ثبوت دیا ہے لیکن مخالفین کی یہ شکست خدانخواستہ فتح سے بھی بدل سکتی ہے اگر وہ اہل دین کو فروعی مسائل کی جنگ میں الجھا دینے میں کامیاب ہو جائیں۔

ہمارے علما اس وقت بڑے ہی سخت امتحان میں ہیں۔ اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کے لیے ان کی تمام کوششیں بالکل بے اثر ہو کر رہ جائیں گی اگر انھوں نے ہر قسم کے گروہی تعصبات اور تنگ نظریوں سے بالاتر ہو کر اصل دین پر نگاہ نہیں جمائی۔ آپ اپنے انفرادی دائرے کے اندر جس مسلک کے چاہیں پیرو رہیں لیکن ملک کو ایک اعلیٰ معیاری قانون دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ پوری فقہ اسلامی پر بغیر کسی تعصب کے نگاہ ڈالیں اور اس کو بحثیت مجموعی اپنا مشترک سرمایہ سمجھیں۔ فقہ حنفی ہو یا فقہ مالکی، فقہ شافعی ہو یا فقہ حنبلی یہ سب ہماری اپنی ہی فقہیں ہیں اور جن بزرگ ہستیوں کی کوششوں اور کاوشوں سے یہ وجود میں آئی ہے وہ سب ہمارے مشترک ائمہ و علما ہیں۔ ہم ان سب کا یکساں احترام کرتے ہیں اور ان کے اوپر یکساں اعتماد رکھتے ہیں۔ تبحر اور تقوی کے لحاظ سے ائمہ ہماری تاریخ کے گل سرسید ہیں اورہم بلا کسی تفریق و تعصب کے ان سب پر فخر اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنے فضل خاص سے اس امت میں ایسے ایسے مجتہدین اٹھائے جن کے اجتہادی کارنامے رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔

ہم ان میں سے کسی کو بھی معصوم اور تنقید سے بالاتر نہیں مانتے۔ خود انہی بزرگ ائمہ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمارے لیے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اپنے آپ کو باندھ دینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اصل شے کتاب و سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا ہے جس کا دین میں مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہمیں انھوں نے تنقید سے روکا نہیں بلکہ تنقید کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے ہم سے خود یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم ان کے اجتہادات و اقوال کو اصل کسوٹی پر جانچیں، پرکھیں اور جس کے اجتہاد کو کتاب و سنت سے قریب تر پائیں اس کو اختیار کریں۔ کتاب و سنت سے قریب تر کی تلاش میں اہل علم کا غلطی کر جانا اس صواب سے بہتر ہے جو محض تقلید جامد کا نتیجہ ہو۔

ہمیں اس ملک میں ایسے لوگوں سے سابقہ ہے جن کے ذہنوں کو نئی تعلیم نے مسموم کر رکھا ہے، یہ لوگ دین کی ہر بات میں مین میخ نکالنے کے عادی ہیں اور ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ وہ وضعی قوانین کے مقابلے میں اسلامی قوانین کو فروتر ثابت کریں اور نئی نسلوں کو اس سے بدگمان کریں۔ ان سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک دو باتیں پورے اہتمام کے ساتھ پیش نظر نہ رکھی جائیں۔ ایک یہ کہ اختیار کرنے کی چیز اسلام اور اسلامی فقہ بحیثیت مجموعی ہے نہ کہ کوئی ایک متعین فقہ۔ اسلامی فقہ بحیثیت مجموعی تو بلاشبہ ایک ایسی گراں مایہ چیز ہے جس کی برتری دنیا کے تمام وضعی قوانین کے مقابلے میں ثابت کی جا سکتی ہے اور ہٹ دھرموں کے سوا کوئی اس کی مخالفت کی جرأت نہیں کر سکتا لیکن اگر کسی ایک ہی متعین فقہ پر اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کو منحصر کر دیا گیا اور اس پر ضد کی گئی تو اس کے خلاف مخالفوں کو کہنے کا بہت کچھ مواد ملے گا اور یہ چیز اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کرے گی۔ دوسری یہ کہ موجودہ زمانے کے ذہن کو مجرد یہ چیز اپیل نہیں کر سکتی کہ فلاں چیز فقہ کی فلاں کتاب میں لکھی ہوئی ہے بلکہ لوگوں کو قائل اور مطمئن کرنے کے لیے ایک طرف تو ہر بات کے وہ دلائل دینے ہوں گے جو اصل کتاب و سنت سے نکلتے ہیں اور دوسری طرف وضعی قوانین کے مقابلے میں اسلامی قانون کی عقلی اور اجتماعی حکمتیں اور مصلحتیں بھی واضح کرنی ہوں گی۔ ان دونوں باتوں کے بغیر اسلامی قانون کی برتری کا لوگوں کو قائل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہاں قائلوں کو قائل کرنا نہیں ہے بلکہ بدقسمتی سے صورت حال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ شکیوں اور منکروں کو از سر نو اسلامی قانون کی خوبیوں کا قائل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ حامیان دین کو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے اور مختلف مکاتیب فکر کے علم برداروں کی حیثیت سے میدان میں نہیں آنا ہے بلکہ اس طرح آنا ہے جس طرح ایک ٹیم ایک مشترک مقصد لیکن مختلف ذمہ داریوں کو سنبھالے ہوئے میدان میں اترتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے الگ الگ تشخصات و امتیازات یک قلم بھول جائیں۔ اگر آپ ان کو باقی رکھنا ہی چاہتے ہیں تو باقی رکھیے لیکن ان کو اپنے اپنے دائروں ہی تک محدود رکھیے۔ جس نشان سے ملکی اور اجتماعی قوانین کی حد شروع ہوتی ہے وہاں سے آپ اسلام کے تحت ہر بات کو ماننے اور ہر بات کو چھوڑنے کے لیے تیار رہیے اور اپنے اپنے مخصوص فقہی نقطہ ہائے نظر پر اصرار کرنے کے بجائے ہر اس نقطہ نظر کا خیر مقدم کیجیے جو کتاب و سنت سے موافقت اور مصالح و حالات سے مطابقت رکھنے والا نظر آئے۔

پچھلی چند صدیوں میں ہماری بعض مسلمان حکومتوں میں اسلامی قانون کو مدون کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں ان کو وہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جو حاصل ہونی چاہیے تھی۔ اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ عموماً قانون کے مدون کرنے والوں نے پوری اسلامی فقہ کو اپنا ماخذ بنانے کے بجائے کسی ایک ہی فقہ کو اپنا ماخذ بنایا۔ اس پابندی کی وجہ سے وہ کوئی معیاری چیز سامنے نہ لا سکے اور بہت جلد اس کی خامیاں محسوس کی جانے لگیں۔چنانچہ انہی تجربات کی وجہ سے ادھر ماضی قریب میں کسی ایک ہی متعین فقہ کو اساس بنانے کے بجائے یہ رجحان غالب رہا ہے کہ پوری فقہ اسلامی کو اساس کار بنایا جائے۔ میں نے ان تمام رجحانات کی تفصیل اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست میں فقہی اختلاف کا حل‘‘ میں پیش کی ہے۔ یہاں میں صرف اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ابتدا ہی سے ایک وسیع زاویہ نگاہ کے تحت اس کام کا آغاز کرنا چاہیے نہ قدیم تعصبات کو اس راہ میں رکاوٹ بننے دینا چاہیے اور نہ جدید تعصبات کو ابھر نے کا موقعہ دینا چاہیے۔

ارباب اقتدار کی خدمت میں

ارباب اقتدار کی خدمت میں مجھے کئی باتیں عرض کرنی ہیں۔

۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہی سے اس ملک میں نظریات کی جو کشمکش برپا ہے، دستور کے بن جانے کے بعد اسے ختم ہوجانا چاہیے۔ اس کے ختم ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارے ارباب کار کے ذہن اب اسلام کے حق میں یکسو ہو جائیں۔ اب تک کچھ صورت حال ایسی رہی ہے کہ جہاں تک عوام اور اس ملک کے دین دار طبقے کا تعلق ہے وہ تو اس دستور کے بن جانے پر مطمئن اور دل سے اس بات کا خواہشمند ہے کہ اس ملک کا سیاسی اور اجتماعی ارتقا انہی خطوط پر ہو جو دستور میں طے کر دیے گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک ملک کے کارفرماؤں کا تعلق ہے ان کے رویے سے کچھ ایسا مترشح ہو رہا ہے کہ وہ اس دستور کو ایک ناشدنی واقعہ سمجھتے ہیں اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں ان کو وہ ایک بوجھ محسوس کر رہے ہیں۔ شاید اسی چیز کا یہ اثر ہے کہ اب تک انھوں نے دستور کے تقاضوں کی سمت میں ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا ہے جس سے پبلک یہ اندازہ کر سکے کہ یہ دستور اس ملک میں فی الواقع نافذ ہو چکا ہے۔ اسلام اور جاہلیت کے درمیان کشمکش کی جو حالت دستور کے نفاذ سے پہلے موجود تھی وہی حالت اب بھی قائم ہے۔ قول اور عمل میں جو تضاد پہلے نظر آتا تھا وہ اب بھی ہر جگہ نظر آ رہا ہے۔ فکر و نظر میں جو الجھنیں پہلے نمایاں تھیں وہ اب بھی نمایاں ہیں کتاب و سنت کا نام لے لے کر جاہلیت کو فروغ دینے کی جو سرگرمیاں پہلے جاری تھیں وہ اب بھی بدستور جاری ہیں، مخالف اسلام عناصر جس طرح دستور کے نفاذ سے پہلے ایک طمع خام میں بند تھے اسی طرح اب بھی وہ اپنی غلط توقعات کے بروئے کار آنے سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کی اصلی وجہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ ہمارے کارفرما حضرات ابھی اس بارے میں یک سو نہیں ہیں کہ انہیں کس سمت میں جانا ہے اور اس ملک کو کس راہ پر آگے بڑھانا ہے۔ ان کے اس تذبذب نے ان کو اور ان کے ساتھ ساتھ اس پورے ملک کو اس دستور کے حقیقی فائدے سے اب تک بالکل محروم رکھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک دستور کی حقیقی قدرو قیمت کیا ہے؟ یہ نہ تو کوئی کھانے کی چیز ہے نہ پہننے کی۔ اس کا اگر کوئی فائدہ ہے تو یہی ہے کہ اس سے کسی قوم یا ملک کی راہ معین ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے اس دستور سے یہ فائدہ بھی حاصل نہ کیا تو جس چیز کے لیے لوگ آٹھ نو سال تک چیختے رہے اس سے حاصل کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ یہ تو کم از کم ہونا تھا کہ اسلام اور جاہلیت میں سے کسی ایک چیز کو ہم کھلے دل سے انتخاب کر لیتے اور کسی ایک سمت میں یکسو ہو کر چل کھڑے ہوتے۔ لیکن یہاں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ دورنگی اور شتر گربگی کی جو پالیسی پہلے کام کر رہی تھی وہی اب بھی کام کر رہی ہے۔ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے قدم قدم پر جس جاہلیت کی سرپرستی پہلے ہو رہی تھی کتاب و سنت کا وظیفہ پڑھتے ہوئے اسی جاہلیت کی سرپرستی اب بھی ہو رہی ہے۔ اور بدقستمی یہ ہے کہ ہمارے ان کارفرماؤں کو بالکل اندازہ نہیں ہے کہ عام مسلمانوں کے ذہن پر اس روش کا کیا اثر پڑ رہا ہے۔ اس سے تو کہیں بہتر یہ تھا کہ یہ حضرات جو کچھ کرتے صاف صاف جاہلیت کے نام سے کرتے۔ لیکن کتاب و سنت کے نام سے اس طرح کی رپورٹیں مرتب کر ڈالنا، جیسی رپورٹ خلیفہ عبدالحکیم صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مرتب کی ہے، کتاب و سنت کے ساتھ ایک ایسا سنگ دلانہ مذاق ہے جس کو کوئی بھی حساس مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔

۲۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ اس ملک میں اسلامی قانون کی ترتیب و تدوین اور اس کے نفاذ و اجرا کا اصلی واسطہ ازروئے دستور وہ کمیشن ہے جو صدر ریاست مقرر کرے گا۔ اب اس ملک کی ساری توقعات اسی کمیشن سے وابستہ ہیں۔ اگر یہ کمیشن صحیح قسم کے اشخاص پر مشتمل ہوا تو لوگوں کو ان ضمانتوں پر اعتماد ہو گا جو دستور میں اسلامی قوانین کے نفاذ سے متعلق دی گئی ہیں اور اگر وہ کمیشن بھی میاں عبدالرشید صاحب اور خلیفہ عبدالحکیم صاحب ہی جیسے افراد سے مرکب ہوا تو لوگ اس دستور سے بالکل ہی مایوس ہو جائیں گے۔ اگر عائلی کمیشن نے فی الواقع ایک فیلر (Feeler) چھوڑا تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو مجھے توقع ہے کہ اس فیلر سے حکومت کو یہ اندازہ اچھی طرح ہوا ہو گا کہ اس ملک میں اس طرح کے اسلام کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے جس قسم کا اسلام یہ حضرات لانا چاہتے ہیں۔ اس اندازے سے حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور آئندہ کمیشن میں اس قسم کے افراد کے لیے گنجائش نہ ہونی چاہیے جو نہ اسلام کو جانتے ہی ہوں اور نہ اس کو مانتے ہی ہوں۔ اس کمیشن میں علما کے طبقے میں سے جو لوگ لیے جائیں وہ بھی ایسے ہونے چاہئیں جن کی فکر و بصیرت پر لوگوں کو اعتماد ہو اور وضعی قوانین کے ماہرین میں سے بھی وہ لوگ منتخب کیے جائیں جو اسلام پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کی ساری زندگی اسلام کی تحریف و تضحیک میں گزری ہے ان کو اس کے اندر گھسا دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ لوگوں کے اندر اس کمیشن کے کام کے خلاف ایک شدید قسم کی نفرت و بے زاری پیدا ہو اور ساتھ ہی لوگ حکومت اور دستور کی طرف سے بھی بدگمان ہوں۔ ہماری دلی آرزو ہے کہ صدر ریاست اس اہم فرض کو صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق پائیں اور عائلی کمیشن کی رپورٹ نے لوگوں کے اندر جو نفرت و بیزاری پیدا کر دی ہے وہ دور ہو۔

۳۔ تیسری گزارش یہ ہے کہ جو مقاصد تعلیمی اور دعوتی ذرائع سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ان کے لیے خواہ مخواہ قانون کا لٹھ نہ گھمایا جائے۔ قانون سے پابندیوں میں تو اضافے ہو جاتے ہیں لیکن اس کے بل پر لوگوں کو کسی چیز کا قائل اور معتقد نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی قوم کی تہذیب و تمدن میں اصلی رنگ انہی چیزوں کا ابھرتا ہے جو تعلیم و دعوت کی راہ سے اس کے دل و دماغ میں سرایت کرتی ہیں۔ ہمارے پاس نشرو اشاعت کے جو وسیع ذرائع ہیں وہ رات دن مزخرفات کی اشاعت کر رہے ہیں اگر ہم ان کو ان چیزوں کی نشرو اشاعت کا ذریعہ بنائیں جن سے ہمارے ملک کے عوام بے خبر ہیں، تو بہت سی بے ضرورت قانون سازی سے ہم مستغنی ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نکاح و طلاق وغیرہ کے واقعات سے متعلق ضروری تفصیلات کے ریکارڈ لوگ محفوظ رکھیں یا کم سنی کی شادیاں روکی جائیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے لیے لازماً قوانین ہی بنا کر لوگوں کو باندھنے اور پابند کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ پروپیگنڈے اور تعلیم کے ذریعے سے ان چیزوں کے فوائد مختلف طریقوں سے ذہن نشین کرانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ ان چیزوں کا اہتمام سوسائٹی کے مزاج میں داخل ہو جائے۔ قانون کی ضرورت تو اس وقت پیش آتی ہے جب ایک برائی کا استیصال تعلیم و دعوت سے ناممکن ہو اور اس سے لوگوں کے حقوق تلف ہورہے ہوں۔ اگر معیاری نکاح نامے چھپے ہوئے، لوگوں کو بآسانی دستیاب ہونے لگیں اور لوگوں میں ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ہمارے معاشرے میں اس کا عام رواج نہ ہو جائے۔

۴۔ کمیشن نے جن امور کے بارے میں سفارشات پیش کی ہیں ان میں تین مسئلے ایسے ہیں جن کے بعض پہلو واقعی قابل توجہ ہیں۔ ایک طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہے دوسرا مروجہ تعدد ازدواج کے سبب سے بعض ناانصافیوں کے ازالے کا مسئلہ اور تیسرا یتامیٰ کے حقوق کا مسئلہ۔ ان تینوں سے متعلق ایک صحیح قسم کی اسلامی حکومت کی جو ذمہ داریاں ہیں میں وہ یہاں بیان کیے دیتا ہوں۔ اگر حکومت پاکستان اس روشنی میں ان مسائل پر غور کرے گی تو وہ ان تینوں مسائل کو نہایت خوبی سے حل کر سکتی ہے۔

طلاق ثلاثہ

ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں اس امر میں تو اختلاف ہوا ہے کہ یہ بائن ہوتی ہیں یا بائن نہیں ہوتیں۔ جمہور کے نزدیک یہ بائن ہو جاتی ہیں اور ایک گروہ کے نزدیک صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ طلاق دینے کا یہ طریقہ مسنون طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عاجلانہ اور بھونڈا طریقہ ہے جس سے آدمی ان بہت سے فوائد سے محروم ہو جاتا ہے جو مسنون طریقہ طلاق میں موجود ہیں۔ اس چیز پر نہ صرف تمام اہل سنت متفق ہیں بلکہ جہاں تک مجھے علم ہے شیعہ حضرات بھی اس امر پر متفق ہیں لیکن یہ ایک نہایت افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے عوام و خواص کی اکثریت اس امر واقعی سے بالکل بے خبر ہے کہ یہ طریقہ کتاب اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کا اظہار فرمایا ہے، اس پر حضرت عمرؓ نے بعض لوگوں کو سزا بھی دی ہے اور اس کے سدباب ہی کے لیے انہوں نے ایک مجلس میں دی ہوئی طلاقوں کو نافذ کر دیا خواہ وہ کسی شکل میں دی گئی ہوں۔

اب مسئلہ کا یہ پہلو لوگوں کی نگاہوں سے تقریباً اوجھل ہو چکا ہے اب اگر لوگوں کو معلوم ہے تو بس یہ معلوم ہے کہ طلاق دینے کا عام طریقہ بالخصوص حنفی طریقہ یہی ہے۔ یہ غلطی عام ذہنوں میں اس طرح بیٹھ چکی ہے کہ اگر کسی کو بتائیں کہ طلاق دینے کا یہ طریقہ خود احناف کے نزدیک بھی کتاب اللہ کے ساتھ استہزا کے حکم میں داخل ہے اور ایک صحیح اسلامی حکومت میں اس طرح طلاق دینے والا سزا کا بھی مستوجب ہو سکتا ہے تو وہ شخص حیرت سے منہ تکنے لگتا ہے۔

لوگوں کی اس عام بے خبری کا سب سے بڑا سبب تو یہ ہے کہ مسلمان ایک مدت سے کسی ایسے نظام کی برکتوں سے محروم ہیں جو ان کو منکر سے روکنے والا اور معروف کا حکم دینے والا ہو اور اس کی دوسری وجہ ہمارے حنفی علما کی اس معاملے میں عام سہل انگاری اور بے پروائی ہے۔ یہ حضرات (بے ادبی معاف فرمائیں) اس امر میں اپنی ذمہ داری صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اگر طلاق کا اس طرح کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے آ جائے تو ’’طلاق واقع ہو گئی‘‘ کا فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبک دوش ہو جائیں۔ اس میں کتاب اللہ کے ساتھ استہزا اور سنت رسول اللہ کی خلاف ورزی کا جو پہلو ہے اس کی روک تھام یا اس کی اصلاح کی کوئی ذمہ داری یہ اپنے اوپر نہیں سمجھتے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسلک کی جس کے اوپر احناف کا فتویٰ ہے اصلی روح یہی تھی کہ لوگوں کو کتاب اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ طلاق کا پابند بنایا جائے نہ کہ صرف طلاق واقع کر دی جائے۔ اگر ہمارے حنفی علما نے اپنی اصلی ذمہ داری محسوس کی ہوتی اور وہ اپنی کتابوں، اپنی تقریروں، اور اپنے فتوؤں میں برابر اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے واضح کرتے رہتے کہ اس طرح اگرچہ طلاق واقع تو ہو جاتی ہے لیکن یہ طریقہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے، اس سے آدمی خدا کی بخشی ہوئی سہولتوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور گنہگار بھی ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ طلاق کے مسنون طریقے کے بجائے ایک عاجلانہ طریقہ لوگوں میں اس طرح رواج پکڑ جاتا کہ لوگ اسی طریقے کو مسنون طریقہ سمجھنے لگ جاتے۔

اب اگر حکومت اس غلط طریقہ طلاق کی اصلاح کرنی چاہتی ہے تو اس کا راستہ یہ نہیں ہے کہ وہ جمہور کے متفقہ مسلک کے خلاف ایک قانون بنا کے رکھ دے بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو مسئلہ کی صحیح صورت سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے۔ اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ملک کے تمام مستند بالخصوص حنفی علما سے ریڈیو پر صحیح طریقہ طلاق پر تقریریں کرائی جائیں، جن میں عاجلانہ طریقہ طلاق کی خرابیاں واضح کی جائیں اور مسنون طریقے کی حکمتیں بیان کی جائیں نیز اس امر کو اچھی طرح واضح کیا جائے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دینے سے آدمی گنہگار ہوتا ہے۔ اس موضوع پر کتابیں اور پمفلٹ بھی شائع کیے جائیں اور عام پبلک اجتماعات اور جمعہ کی تقریروں میں بھی لوگوں کو اس سے باخبر کرنے کی کوشش کی جائے۔ چونکہ یہ ایک متفق علیہ بات ہے اس وجہ سے توقع ہے کہ بہت جلد لوگوں کے ذہن نشین ہو جائے گی۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی یہ رجحان کم نہ ہو تو پھر قانون میں اس طرح طلاق دینے والے کے لیے کوئی سزا بھی رکھی جا سکتی ہے۔

تعدد ازدواج

تعدد ازدواج کے سلسلے میں جو چیز قابل اصلاح ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی تو رچا لیتے ہیں کہ اسلام نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس اجازت کے ساتھ عدل کی جو شرط لگی ہوئی ہے وہ ان کو یاد نہیں رہتی اور پہلی بیوی کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بالکل معلقہ بنا کے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس افسوس ناک صورت حال کے پائے جانے کے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، دو بڑے سبب ہیں۔ ایک یہ کہ عورتوں کے اندر اپنے حقوق کا صحیح احساس موجود نہیں ہے، وہ زندگی بھر ایک معلقہ کی حیثیت سے زندگی گزار دیتی ہیں لیکن اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ان کے اندر کوئی ہمت نہیں پیدا ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے اندر اپنے حقوق کا کوئی احساس پیدا ہو بھی اور وہ ان کو حاصل کرنا بھی چاہیں تو ان کے حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ایسا موجود نہیں ہے جس سے وہ استمداد کر سکیں۔ ہمارا موجودہ عدالتی نظام اتنا مہنگا اور اتنا پیچیدہ ہے کہ اس سے انصاف حاصل کرنا کمزوروں اور غریبوں کے لیے تو ناممکن ہے۔

ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تین طریقے آسانی کے ساتھ اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

ایک یہ کہ ملک کے عام اصلاحی ادارے خصوصاً خواتین کی انجمنیں عورتوں کے اندر ان کے حقوق کا احساس پیدا کریں۔ تقریروں، تحریروں نیز انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کے ذریعے سے دیہاتوں تک کی خواتین کو یہ اچھی طرح بتایا جائے کہ اسلام نے ان کو کیا حقوق بخشے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے کیا تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اس معاملے میں حکومت کے محکمہ نشرو اشاعت کو بھی ان پبلک اداروں اور خواتین کی انجمنوں کی مدد کرنی چاہیے۔

دوسرا یہ کہ ہمارے یہاں بھی وسیع پیمانے پر پنچایتی نظام قائم کیا جائے اور اس کو دیہاتی علاقوں میں خصوصیت کے ساتھ پوری وسعت دی جائے۔ اس پنچایتی نظام کو جہاں دوسرے اصلاحی کاموں کا ذریعہ بنایا جائے وہاں اس کو اس طرح کی گھریلوناانصافیوں کو دور کرنے کا بھی واسطہ بنایا جائے اور اس کے لیے ایک خاص حد تک ان پنچایتوں کو اختیارات بھی دیے جائیں۔

تیسرا یہ کہ اس طرح کی تمام نزاعات کا فیصلہ کرنے کے لیے شادی بیاہ کی اس قسم کی عدالتیں قائم کی جائیں جس طرح کی عدالتیں کمیشن نے تجویز کی ہیں۔

اگر یہ تینوں طریقے اختیار کر لیے جائیں تو ہمیں امید ہے کہ نہ صرف وہ ناانصافیاں دور ہو جائیں گی جو تعدد ازدواج کی اجازت کے سوء استعمال سے ہمارے معاشرے کے اندر پائی جاتی ہیں بلکہ اگر ہمارے معاشرے کے کسی طبقے میں غلط اور غیر ضروری قسم کا تعدد ازدواج پایا جاتا ہے تو وہ بھی بالتدریج ختم ہو جائے گا۔

یتیموں کا مسئلہ

یتیموں کا مسئلہ صرف اسی ایک پہلو سے غور کرنے کا نہیں ہے کہ بعض یتیم اپنے دادا کی جائداد میں سے حصہ نہیں پاتے۔ یہ مشکل تو کہیں ہزاروں یتیموں میں سے دو چار کو پیش آتی ہے اور عموماً اچھے گھرانوں میں آپ سے آپ اس کا حل بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اتنی عمر میں اب تک میرے سامنے پوتے کی محرومی کے جتنے واقعات پیش آئے ہیں میں نے یہ دیکھا ہے کہ دادا اور چچا کی محبت و شفقت سے یہ مسئلہ نہایت خوبی سے خود حل ہو گیا ہے۔ اگر بالفرض نہیں بھی حل ہوا ہے تو دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لاکھوں یتیموں میں سے کتنے یتیموں کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ نے اسلام کے سارے ضابطہ وراثت کو توڑ تاڑ کر اس کو اپنے خیال کے مطابق حل بھی کر دیا تو اس سے کتنے فی صد یتیموں کی مشکل حل ہو گی۔ ملک کے یتیموں میں ہزاروں لاکھوں یتیم تو ایسے ہیں جن کا واحد سہارا ان کے باپ کا سایہ ہی تھا۔ اس کے اٹھ جانے کے بعد خدا کے سوا ان کا کوئی سہارا باقی نہیں رہا۔ نہ بالشت بھر زمین ہے نہ زندگی بسر کرنے کا کوئی اور ذریعہ۔ اسی وجہ سے اسلام نے یتیموں کے مسئلے پر انفرادی حیثیت سے نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت سے نگاہ ڈالی ہے اور اس کو اس طرح حل کیا ہے جس سے ہر یتیم کا مسئلہ حل ہو نہ کہ صرف ان چند یتیموں کا جو اپنے دادا کی جائداد میں حصہ پانے سے محروم ہو گئے ہوں۔

اسلام نے افراد، معاشرہ اور ریاست تینوں پر یتیموں سے متعلق نہایت اہم ذمہ داریاں ڈالی ہیں اسلام کے نقطہ نظر سے کوئی فرد ایک سچا مسلمان نہیں کوئی معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نہیں اور کوئی ریاست ایک صحیح اسلامی ریاست نہیں جب تک یہ درجہ بدرجہ یتیموں سے متعلق اپنے فرائض ادا نہ کر دیں۔

اسلام نے الگ الگ افراد سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے کنبے اور خاندان کے یتیموں کے ذمہ دار ہیں۔ ہر شخص پر اس کے قریبی رشتہ داروں کے بعد دوسرے ہی نمبر پر اس خاندان کے یتیموں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر یتیم کی کوئی جائداد ہے تو اس کی دیکھ بھال اس کے ولی کے ذمے ہے اوریہ ذمہ داری ولی کو حتی الامکان بغیر کسی اجرت اور معاوضے کے اٹھانی چاہیے اور ہرگز اس جائداد میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کو کسی قسم کا نقصان پہنچے اور اگر یتیم کی کوئی جائداد نہیں ہے تو اولیا و اقربا کے تمام احسانات و تبرعات کا سب سے اول حق دار یہ یتیم ہے نہ کہ کوئی دوسرا۔

معاشرے پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے تمام مال دار افراد کے مال میں اسلام نے ایک حصہ مقرر کر دیا ہے جو سب کا سب غریبوں اور یتیموں ہی کا حق ہے اور یہ اہل نصاب کی آمدنیوں میں سے وصول بھی ایک حق ہی کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ اگر دینے والے نہ دیں تو حکومت قانون کے زور سے ان سے وصول کر سکتی ہے۔ حد یہ ہے کہ اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو ان کے خلاف اعلان جنگ بھی کر سکتی ہے۔

ریاست پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی جو خاص آمدنیاں ہیں ان میں بھی یتیموں کو شریک کر دیا گیا ہے تاکہ ریاست اپنی ترقیاتی اسکیموں میں سے کسی اسکیم میں بھی یتیموں کی فلاح و بہبود کے نصب العین سے بے پروانہ ہو سکے۔ یتیموں کے اسی حق غالب کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پورے بیت المال کو یتیموں کا مال کہتے تھے اور اس میں سے اپنے کفاف سے زائد لینے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ہماری اس اسلامی ریاست میں جو عہد رسالت میں قائم ہوئی یتیموں کے حق کا یہ اعزاز تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اقربا کے حق کے بعد دوسرے ہی نمبر پر یتامیٰ کا حق بیان ہوا اور صدقات و زکوٰۃ میں نہیں بلکہ مفتوحات اور اموال غنیمت میں۔ ملاحظہ ہو انفال آیت ۴۱۔

بہرحال جہاں تک ایک صحیح اسلامی ریاست کا تعلق ہے اس میں یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ ایک یتیم نے اپنے دادا کی جائداد میں سے حصہ پایا یا نہیں۔ حکومت اس کا بوجھ دادا پر ڈالنے کے بجائے خود اٹھاتی ہے اور اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ آئندہ اپنی ذمہ داریاں خود اٹھا سکے۔ جو لوگ محض اس چیز کے سبب سے اسلام کے قانون وراثت پر حرف گیری کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کو جاہلیت کی یادگار اور ایک ظلم عظیم قرار دیتے ہیں وہ اسلام کے نظام کی اس حقیقت سے بالکل ہی بے خبر ہیں کہ اس میں سب سے بڑا حق یتیم ہی کا ہے۔ اس ملک میں بھی اگر یتیموں کا مسئلہ صحیح طور پر حل کرنا ہے تو اسی طریقے پر حل کیجیے جس طریقے پر اسلام نے حل کیا ہے۔ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ یتیم کے سارے حقوق تو آپ کے غلط نظام کے پیٹ میں ہوں اور آپ اسلام کو گالیاں دیں کہ اس نے دادا کی جائداد میں سے پوتے کو وراثت کیوں نہ دلوائی۔

خواتین کی خدمت میں

اب میں آخر میں دو ضروری باتیں ان مسلمان بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں جو اس ملک کی مسلمان خواتین کی رہنمائی کرنا چاہتی ہیں۔

ان کی خدمت میں پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ بھی اس امر میں یک سو ہو جائیں کہ انہیں مغربی عورتوں کی نقالی کرنی ہے یا وہ حقوق لینے ہیں جو اسلام نے ان کو بخشے ہیں۔ اگر مغربی عورتوں کی نقالی کرنی ہے تو وہ للہ اپنے اس شوق کے پیچھے اسلام کو کانٹوں میں نہ گھسیٹیں۔ اسلام ان کا کوئی خانہ زاد غلام نہیں ہے کہ وہ جو کچھ چاہیں وہ اس کی تائید کے لیے اٹھ کھڑا ہو اور ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے پھرتا رہے۔ اس مقصد کے لیے انھیں اسلام کا نام استعمال کرنے کے بجائے انہی نعروں کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے جن نعروں کے ساتھ ان کی مغربی بہنیں اس میدان میں آئیں اور صاف صاف کہنا چاہیے کہ ہمیں اسلام نہیں بلکہ انھی معنوں میں آزادی اور مساوات چاہیے جن معنوں میں ہماری مغربی بہنوں کو آزادی اور مساوات حاصل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس ملک میں یہ لڑائی ان کو سستی پڑے گی یا مہنگی لیکن اس پہلو سے یہ اچھی رہے گی کہ دورنگی کا برقعہ اتار دینے کے سبب سے وہ اس کو آزادی اور جرات کے ساتھ لڑ سکیں گی۔ ایک جنگ کی کامیابی کی غالب توقع اسی شکل میں ہوتی ہے جب وہ آزادی اور جرات کے ساتھ لڑی جائے نہ کہ دو دلی کے ساتھ۔

اور اگر وہ ان حقوق کی طالب ہیں جو اسلام نے ان کو بخشے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ سر آنکھوں پر۔ اس ملک کا ہر مسلمان اس مطالبے میں ان کے ساتھ ہے۔ وہ شوق سے اپنا ایک ایک حق وصول کریں اور قانون کے زور سے حاصل کریں۔ یہ حکومت اگر ان کے یہ سارے حقوق ان کو نہ دلوا سکی تو یہ ایک اسلامی حکومت کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی اگر اس ملک کا سماجی ارتقاء اسلام کے خطوط پر ہوا تو یہ چیز ان کو یہاں آپ سے آپ حاصل ہو گی۔ اس چیز کے لیے ان شاء اللہ ان کو یہاں کوئی لڑائی نہیں لڑنی پڑے گی۔ بلکہ یہ ان کو آپ سے آپ حاصل ہو گی۔ بشرطیکہ اس ملک کا معاشرتی و سماجی ارتقا انھی خطوط پر ہو جو دستور میں طے کر دیے گئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں کوئی الگ محاذ گرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کوششوں کو تقویت پہنچانی چاہیے جو اس ملک میں صحیح اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے جاری ہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ ان اسلامی حقوق کے مقابل میں جو ذمہ داریاں اسلام نے ان پر ڈالی ہیں وہ بھی خوشی سے وہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ وہ اگر اسلام کے نام پر حقوق مانگیں اور اسلام کی عائد کردہ ذمہ داریوں سے فرار اختیار کریں بلکہ کھلم کھلا ان کا مذاق اڑائیں تو کسی شخص کو بھی ان کے اسلام کا نام لینے سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ آپ کے جذبات سب سے زیادہ برانگیختہ تعدد ازدواج کے خلاف ہیں۔ لیکن آپ صرف اسی تعدد ازدواج کے خلاف کیوں ہیں جس کی مثال کہیں اکا دکا آپ کے معاشرے میں ملتی ہے؟ اس تعدد ازدواج کے خلاف آپ کی غیرت نسوانی جوش میں کیوں نہیں آتی جس کی مثالیں نئی تہذیب کی بدولت آپ کو ہر محفل، ہر دعوت، ہر ڈنر، ہر پکنک، ہر مخلوط کالج اور ہر دفتر میں مل سکتی ہیں اور اگر سینماؤں، نائٹ کلبوں اور عیاشی کے دوسرے اڈوں کا بھی اس فہرست میں اضافہ کر لیجیے تب تو پھر کوئی حد ہی اس کی باقی نہیں رہ جاتی۔ آخر جو بہنیں ایک سوکن کے تصور سے بھی چیں بجیں ہوتی ہیں وہ اس پہلو پر کیوں نہیں غور کرتیں کہ مغربی تہذیب نے عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کی جو راہ کھولی ہے اس کی بدولت آج مغرب زدہ سوسائٹی کی شاید ہی کوئی ایسی خوش قسمت عورت ہے جس کے شوہر کے دل اور مال دونوں میں ان گنت سوکنیں شریک نہ ہوں۔ اگر اس کا جوب یہ دیا جائے کہ مغربی تہذیب نے اگر یہ آزادی مردوں کو دی ہے تو یہی آزادی عورتوں کو بھی بخشی ہے اور جب دونوں فریق کو مساوات حاصل ہے تو اس امر میں کسی کو کسی سے شکایت کا حق نہیں ہے۔ لیکن میرے لیے یہ جواب اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ اگر فی الواقع سوکن کوئی خلاف فطرت اور خلاف عقل شے ہے تو پھر بہر شکل اس کو رد کیجیے ورنہ یہ تو کوئی معقول بات نہ ہوئی کہ ایک چیز اس وقت تک تو برائی ہے جب تک اس کا مرتکب صرف ایک فریق ہے جب دونوں فریق اس کو دھڑلے سے کرنے لگیں تو وہ نیکی بن جائے۔

____________

B