بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر کسی آفت کے سبب سے عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کی صورت میں تم مردوں کو یہ اجازت دیتے ہو کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو یہی اجازت تمہیں عورتوں کو اس صورت میں دینی چاہیے جب کسی آفت ارضی و سمادی کے سبب سے کسی ملک میں عورتوں کی تعداد کم رہ جائے اور مرد زیادہ ہو جائیں۔ یہ اعتراض ہمارے نزدیک بالکل بے حقیقت ہے۔ جہاں تک قدرت کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں کبھی ایسا عدم توازن پیدا نہیں ہونے دیتی جس کا علاج خود اس کسرو انکسار سے نہ ہوتا رہے جو اس کے اپنے نظام میں واقع ہوتا رہتا ہے۔ وہ عورتوں اور مردوں کو پیدا بھی ایک خاص تناسب کے ساتھ کرتی ہے اور اس کی طرف سے جو بیماریاں اورآفتیں آتی ہیں وہ مارتی بھی عورتوں اور مردوں کو ایک خاص تناسب ہی کے ساتھ ہیں۔ وہ نہ تو پیدا کرنے میں کبھی یہ شکل اختیار کرتی ہے کہ کسی قوم میں عورتیں ہی عورتیں پیدا ہو جائیں۔ مرد پیدا ہی نہ ہوں یا اتنی کم تعداد میں پیدا ہوں کہ قوم کے لیے ان کی کمی ایک مسئلہ بن جائے اور نہ اس نے مارنے میں کبھی یہ صورت اختیار کی ہے کہ چن چن کے مردوں کو مار دے اور عورتیں بچی رہ جائیں۔ یہ صورت تو تاریخ میں جب بھی پیدا ہوئی ہے کسی جنگ ہی کے سبب سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کے لیے فطری طور پر مرد ہی موزوں بھی ہے اور اسی کو یہ کام کرنا بھی پڑتا ہے۔ عورت کے لیے یہ کام نہ تو موزوں ہی ہے اور نہ کبھی مردوں کی غیرت نے یہ گوارا ہی کیا ہے کہ وہ جنگ اور دفاع کی ذمہ داریاں عورت پر ڈال دیں۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس وجہ سے اس نے نہ تو یہ پسند کیا ہے کہ عورتیں جنگ کے لیے نکلیں اور نہ یہ اجازت دی ہے کہ دشمن قوم کے بچوں اور ان کی عورتوں کو قتل کیا جائے۔ اسلام کے قانون جنگ میں عورت غیر مصافی آبادی سے تعلق رکھتی ہے اس وجہ سے ایک اسلامی حکومت میں جنگ کے سبب سے عورتوں کی تعداد کے کم ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ البتہ جن قوموں نے آج عورت کو بھی محاذ جنگ پر لا کھڑا کیا ہے ان کے ہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں جب مرد گھروں میں گھس کر بیٹھ رہیں اور جنگ کا کام صرف عورتیں ہی سنبھالنے پر مجبور کر دی جائیں اگر اس چیز کی وجہ سے یہ سوال کسی قوم کے اندر پیدا ہو تو اس کے حل کرنے کی ذمہ داری خود اس پر ہے نہ کہ اسلام پر جو اس صورت حال ہی کو سرے سے خلاف فطرت قرار دیتا ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر انگلستان اور یورپ کے ممالک میں مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی کے سبب سے ایسی صورت پیدا ہو گئی ہے کہ تعدد ازدواج کے بغیر وہاں کا معاشرتی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تو وہاں اس کی اجازت ہونی چاہیے لیکن ہمارے معاشرے میں جہاں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کچھ کم ہی ہے یہ اجازت کیوں دی جائے؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ اگر ہمارے ہاں عورتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے تو یہاں تعدد ازدواج کا رواج کہاں زیادہ ہے؟ خود کمیشن نے جو اس بیماری کا انسداد کرنے کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے ہے۔ اپنی اسی رپورٹ میں صاف الفاظ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعدد ازدواج کا رواج بہت کم ہے۔ اگر کم ہے اور یقیناً کم ہے تو آخر اس شدو مد سے اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اس کا رواج کم سہی لیکن اس کے سبب سے معاشرے میں بعض ناانصافیاں پائی جاتی ہیں تو کوشش ان ناانصافیوں کو دور کرنے کی کیجیے نہ کہ چند بے انصافیوں کو دور کرنے کے لیے ہزاروں فتنوں کے دروازے کھول دیجیے۔ یہ ناانصافیاں تو جیسا کہ ہم آگے چل کر واضح کریں گے اس اجازت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ تمام تر ہمارے موجود نظام اور موجودہ معاشرے کی غفلتوں کا نتیجہ ہیں۔ پھر اپنی حماقتوں کی اصلاح کرنے کے بجائے یہ اسلام کی ’’اصلاح‘‘ کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟
۳۔ بعض اوقات ایک شخص محض اپنے گھر کے نظم کو ٹھیک رکھنے اور اپنے آپ کو یا کسی عفیفہ کو تہمتوں اور بدگمانیوں سے بچانے کے لیے مجبور ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے فرض کیجیے ایک شخص کے گھر میں ایک بیوہ ہے اس کے بچے ہیں جن کا ولی یہی شخص ہے، عورت اپنے بچوں کے خیال سے یا کسی دوسرے سبب سے یہ پسند نہیں کرتی کہ کسی اورخاندان میں نکاح کرے اور یہاں نکاح کے بغیر رہنے میں اندیشہ ہے کہ وہ کہیں کسی فتنے میں نہ پڑ جائے۔ یا بیجا بدگمانیوں کا ہدف بنے۔ ان مختلف اسباب سے یہ شخص اس عورت سے نکاح کر لیتا ہے۔ اسلام میں یہ بات نہایت پسندیدہ اور اخلاق اور مروت دونوں اعتبار سے نہایت اعلیٰ ہے لیکن کمیشن کے نزدیک یہ ایک جرم ہے۔
۴۔ بعض اوقات ایک شخص اپنے اخلاقی تحفظ کے لیے مجبور ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ فرض کیجیے ایک شخص ہے، اس کی بیوی کمزور صحت کی ہے وہ زیادہ اولاد کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ میاں بیوی برتھ کنٹرول کو بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ شوہر آوارگی اوربدچلنی پر بھی راضی نہیں ہے۔ یا فرض کیجیے ایک شخص ہے اس کا دل کسی عورت پر آ گیا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ اس نے نکاح نہ کر لیا تو وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے گا۔ یا وہ اپنے اندر مفرط جنسی جذبہ رکھتا ہے لیکن اسلام کے اخلاقی حدود کا سختی کے ساتھ پابند ہے۔ ایسی صورتوں میں مغربی سوسائٹی تو مرد کو قحبہ خانوں، نائٹ کلبوں اور عیاشی کے دوسرے اڈوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو عورت بھی اس سے اختلاط پر راضی ہو جائے اس سے آزادانہ تمتع کی اجازت دیتی ہے لیکن اسلام اس کو ان ساری حرکتوں پر سخت سے سخت دینوی سزا کی دھمکی اور اخروی عذاب کی وعید سناتا ہے۔ البتہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عدل کی شرط پوری کر سکتا ہو تو ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔
اس پر بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر کسی مرد کے مفرط جنسی جذبے کی رعایت میں اس کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی جا سکتی ہے تو یہی جذبہ اگر عورت کے اندر مفرط حد تک ہو تو اسے بھی ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ اعتراض جن لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے وہ علم الحیات کے مبادی تک سے ناواقف ہیں۔ ایک مرد اگر ہزار عورتوں کے پاس بھی جائے تو وہ ان سب کو حاملہ کرسکتا ہے لیکن ایک عورت خواہ کتنے ہی مردوں کے پاس چلی جائے بہر حال وہ حاملہ ایک ہی مرد سے ہو گی۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایک مرد کی کئی بیویاں ہونا تو فطرت کے مطابق ہے مگر ایک عورت کے کئی شوہر ہونا مطابق فطرت نہیں ہے۔ علاوہ بریں ایک مرد کے کئی عورتوں کے پاس جانے کی صورت میں یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اولاد اسی کی ہے لیکن ایک عورت اگر کئی مردوں کے پاس جائے تو یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ اولاد ان میں سے کس کی ہے۔ اس طرح کثرت ذوجات سے تو خاندانی زندگی کا نظام درہم برہم نہیں ہوتا مگر کثرت ازدواج سے وہ درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اسلام چونکہ کسی ابوالفضول آدمی کے دماغی بحران کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ فاطر کائنات کا مقرر کیا ہوا دین فطرت ہے اس لیے وہ ان فطری حقائق کی بنا پر مرد کے مفرط جنسی جذبے کے لیے تو دو یا دو سے زائد شادیوں کی اجازت دیتا ہے لیکن اگر کسی عورت میں طبعاً یہ خواہش اعتدال سے زیادہ ہو تو اسے صبر کی تلقین کرتا ہے یا حد سے حد یہ کہ وہ ایک سے خلع لے کر دوسرے سے نکاح کر لے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے جو عورت حاملہ ہوتی ہے بچے جنتی ہے دودھ پلاتی ہے گھر گرہستی کی ذمہ داریوں میں مشغول رہتی ہے اور اپنا فاضل وقت کسی اچھے کام میں صرف کرتی ہے اس پر شاید ہی کبھی اتنا اضطراب طاری ہوتا ہے کہ وہ حدود توڑنے پر آمادہ ہو جائے اور ایک اسلامی معاشرے میں ایک پسندیدہ عورت کے یہی اوصاف ہیں۔ رہی وہ عورت جو نہ حاملہ ہوتی ہے نہ بچے جنتی ہے نہ دودھ پلاتی ہے اور نہ اس کے ذمے گھر گرہستی کی کوئی ذمہ داری ہے بلکہ بناؤ سنگار کر کے وہ صرف سیر سپاٹے میں مشغول رہتی ہے مردوں سے آزادانہ اختلاط رکھتی ہے۔ رقص خانوں، کلبوں، سینماؤں اور مخلوط مجالس اور تقریبات میں گلچھرے اڑاتی ہے اور اپنا بہت سا وقت جنسی افسانوں اور ناولوں کے پڑھنے اور ریڈیو کے عشقیہ گانے سننے میں گزارتی ہے اس میں بلا شبہ مفرط جنسی جذبہ بھڑک اٹھتا ہے مگر اس کی تسکین کی ذمہ داری نہ اسلام نے لی ہے اور نہ کوئی اور ہی لے سکتا ہے۔
بعض لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اگر اسلام میں عورت کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت نہ دینے کی وجہ مرد کی غیرت ہے تو یہ غیرت تو عورت میں بھی موجود ہے بلکہ مرد سے کچھ زیادہ ہی ہے، پھر مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں دے دی گئی؟ آخر اس چیز کو عورت کی غیرت کس طرح برداشت کر سکتی ہے؟ یہ اعتراض محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ لوگ عورت کے لیے اس ممانعت کا سبب صرف مرد کی غیرت ہی کو سمجھتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کا سبب مرد کی غیرت بھی ہے اور عورت کی غیرت کے مقابل میں مرد کی غیرت چونکہ سخت جارحانہ مزاج رکھتی ہے اس وجہ سے وہ نسبتاً زیادہ قابل لحاظ بھی ہے لیکن اس ممانعت کے اصل اسباب وہ ہیں جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس سے مقصود اختلاط نسب سے معاشرے کو بچانا ہے۔ اگر اختلاط نسب سے معاشرے کو محفوظ نہ رکھا جائے تو پھر ہمارا معاشرہ انسانی معاشرہ نہیں رہے گا بلکہ حیوانی گلوں سے بھی بدتر ہو جائے گا۔
الغرض تعدد ازدواج کی اجازت کا کوئی ایک ہی سبب نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے اسباب ہیں جن کا صحیح صحیح اندازہ کوئی عدالت نہیں کر سکتی۔ ہر شخص اپنے متعلق زیادہ بہتر طریقے پر خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ چونکہ عام طور پر لوگ ان شرائط کی پابندی نہیں کر رہے ہیں جو تعدد ازدواج پر اسلام نے عائد کی ہیں اس وجہ سے حکومت کو حق ہے کہ وہ اس اجازت پر مزید پابندیاں عائد کر دے یا اس اجازت کو سرے سے منسوخ ہی کر دے تو یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔
اولاً تو ایک چیز پر اسلام نے جو شرطیں عائد کی ہیں ان کے علاوہ اس پر مزید شرطیں عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اہتمام اس کا ہونا چاہیے کہ جو شرطیں اسلام نے عائد کی ہیں وہ پوری کی جائیں نہ کہ ان پر کچھ اور قیدوں اور شرطوں کا اضافہ کیا جائے۔ اگر خیال یہ ہے کہ ان اضافوں کے بغیر اسلام کی عائدہ کردہ شرطیں پوری کرائی نہیں جا سکتیں تو یہ اسلام کا نقص ہوا اور اس بات کو صرف وہی لوگ صحیح مان سکتے ہیں جو اسلام کو ایک دین کامل نہ مانتے ہوں۔ اسی طرح کے اضافوں سے تو یہودیوں نے اپنی شریعت کو اصرو اغلال کا ایک مجموعہ بنا کر رکھ دیا اور حضرت نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے ایک اہم مقصد ان اصر و اغلال سے دنیا کو نجات دینا بھی تھا۔ کمیشن ایک طرف تو یہودیوں کی اس روش پر ماتم کرتا ہے اور دوسری طرف اسی یہودیت کی پیروی خود کر رہا ہے۔
اسلام نے اضطرار کی حالت میں کوئی حرام چیز کھا لینے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اس اجازت کے ساتھ غیر باغ ولا عاد کی قید بھی لگائی ہے۔ یعنی کوئی شخص اگر حرام کھانے پر مجبور ہو جائے تو نہ تو وہ اس حرام چیز کو خواہش اور رغبت کے ساتھ کھائے اور نہ سد رمق سے زیادہ کھائے۔ معلوم ہے کہ بہت سے لوگ اس شرط کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ کسی معمولی سے عذر کو بھی بہانہ بنا کر خدا کی اس قائم کردہ حد سے بالکل بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔ اب کیا یہ بات جائز ہو گی کہ ایک قانون بنا دیا جائے کہ کوئی شخص جب تک سرکاری ڈاکٹر یا کسی مجسٹریٹ سے اضطرار کا سرٹیفکیٹ نہ حاصل کر لے اس وقت تک وہ اس اجازت سے فائدہ نہ اٹھائے، اسلام نے بعض حالتوں میں وضو کی جگہ تیمم کی اجازت دی ہے۔ معلوم ہے کہ بہت سے لوگ اس اجازت سے بھی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا اس کے سد باب کے لیے ایک مزید قید کا اضافہ کر دیا جائے کہ جب تک قاضی شہر کسی شخص کو تیمم کی اجازت نہ دے اس وقت تک کوئی شخص تیمم کی اجازت سے فائدہ نہ اٹھائے۔ اسلام نے میاں بیوی کو اجازت دی ہے کہ ایک مہر مقرر ہو جانے کے بعد اپنی باہمی رضامندی سے اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ معلوم ہے کہ اس باہمی رضامندی پر بسا اوقات کچھ رسم و رواج وغیرہ اور بعض دوسرے عوامل بھی اثر انداز ہو جاتے ہیں جس سے رضامندی حقیقی رضامندی نہیں رہتی۔ کیا اس کی وجہ سے یہ بات جائز ہو گی کہ اس معاملے کو بھی اٹھا کر عدالت کے حوالے کر دیا جائے کہ جب تک وہ اس رضامندی کو رضامندی تسلیم نہ کرے اس وقت تک فریقین کو باہم کوئی تصفیہ کرنے کا حق نہ ہو۔
ثانیاً غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ اگر لوگ اسلام کی اس اجازت سے غلط فائد اٹھا رہے ہیں تو کیوں اٹھا رہے ہیں؟ کیا اسلام کی یہ اجازت ہی غلط ہے؟ یا اس نے جن شرائط سے اس کو مشروط کیا ہے وہ شرطیں ہی ناکافی اور ناقص ہیں؟ یا اس کے اسباب کچھ اور ہیں؟ جہاں تک اجازت اور اس کے شرائط کا تعلق ہے کمیشن نے (بادل ناخواستہ سہی) اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ اجازت مصلحت پر مبنی ہے اور اس کی شرطیں بھی عورت کے حقوق کے لیے ناکافی نہیں ہیں۔ البتہ اس کو یہ شکایت ہے کہ لوگ اس اجازت سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اوراس کی شرطیں پوری نہیں کر رہے ہیں۔ اب آئیے غور کیجیے کہ اگر لوگ یہ شرطیں پوری نہیں کر رہے ہیں تو کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی دو وجہیں ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عام جہالت کے سبب سے نہ عورتوں کو اپنے حقوق کا علم ہی ہے اور نہ ان کے تحفظ کا احساس ہی ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں تو اس علم و احساس کے پیدا ہونے یا پیدا کیے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انھوں نے ملک کے ایک بڑے حصے میں عورتوں کو بالکل برادریوں کے رسم و رواج پر چھوڑ رکھا تھا جس کے سبب سے وہ ہندو عورتوں کی طرح بالکل اپنے خاندانوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ نہ ان کے کوئی حقوق تھے اور نہ ان کے اندر حقوق کا احساس پیدا کرنے کی کسی کو فکر ہی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد خدا خدا کر کے اتنا ہوا کہ ملک کے اکثر حصوں میں میراث سے متعلق اسلامی قانون نافذ ہو گیا لیکن ان کے اندر حقوق کا احساس پیدا کرنے کے لیے حکومت کی سرپرستی میں اگر کوئی کام ہوا ہے تو وہ اپوا کی تنظیم ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ عورتوں میں بے پردگی اور بے حیائی پھیلائی جائے اور ان کو مغربی عورتوں کی ریس کرنے کی تربیت دی جائے اور یہ کام بھی زیادہ تر اونچے درجے کے خاندانوں کی بیگمات کے اندر ہی ہو رہا ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے سے اگر عورتوں کو کوئی سبق ملتا ہے تو یہ ملتا ہے کہ انھیں پریڈ کس طرح کرنی چاہیے اور سلامی کس طرح دینی چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اسلام میں ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں تو اس پر وہ غور کرنا اس وجہ سے غیر ضروری خیال کرتی ہیں کہ اسلام ان کے نزدیک خود ایک بیماری ہے جس کو جلدی سے جلدی دور کرنے کی وہ کوشش کر رہی ہیں۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کسی میں اپنے حقوق کا احساس بھی ہو تو اس ملک میں اس کے حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں انگریزوں نے جو عدالتی نظام قائم کیا تھا (اوروہی اب تک جاری ہے) اس کے متعلق کمیشن نے خود نہایت پر سوز الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ اس سے کسی مظلوم اور غریب کے لیے انصاف حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اگر کبھی اپنا حق محاصل کرنے کے لیے کسی مظلوم عورت اور اس کے اولیا نے ان عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا بھی تو مدتوں کی دریوزہ گری اور ذلت و خواری کے بعد نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ کے سوا کچھ پلے نہ پڑا۔ ورنہ سوچنے کی بات ہے کہ اسلام کے یہی قوانین اس زمانے میں بھی تھے جب دنیا میں اسلام کا نظام قائم تھا۔ آخر اس زمانے میں تعدد ازدواج کی عام اجازت کے باوجود کسی مرد کی یہ جرأت کیوں نہ ہو سکی کہ وہ کسی عورت کا کوئی معمولی سے معمولی حق بھی تلف کر سکے۔ ہر شخص کو پتہ تھا کہ اگر اس نے کوئی زیادتی کی تو اس حکومت میں اس کی یہ زیادتی اس کے لیے مہنگی پڑے گی۔ اس نظام حکومت کا مزاج یہ ہے کہ اس میں ایک بے اثر سے زیادہ بااثر کوئی نہیں ہے اگر وہ مظلوم ہے اور ایک بااثر سے زیادہ بے اثر کوئی نہیں ہے اگر وہ ظالم ہے اس میں ایک کمزور سے کمزور عورت کے لیے بھی نہ صرف قاضی القضاۃ کی عدالت عالیہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں بلکہ خود ریاست کے باب عالی پر بھی وہ جب چاہے دستک دے سکتی ہے اور کسی صاحب و دربان کی مجال نہیں ہے کہ اسے روک سکے۔
پھر ہر شخص کو یہ بھی پتہ تھا کہ ہر عورت یہ جانتی ہے کہ اسلام نے اس کو کیا حقوق دئیے ہیں اور اس پر کیا ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ اس وجہ سے آسانی کے ساتھ اس کے حقوق غصب کرنے کی کوئی شخص جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ عورت کوئی کورٹ فیس داخل کیے بغیر کسی درخواست پر کوئی اسٹامپ لگائے بغیر اور کسی وکیل صاحب کی جیبیں گرم کیے بغیر اپنا مقدمہ خود لڑ سکتی تھی اور اگر عدالت اس کے مقدمے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے کسی مدد کی محتاج ہوتی تھی تو اس کا بوجھ اس پر ڈالے بغیر خود اس کا انتظام کر لیتی تھی۔ اگر عورتوں کے اندر ان کے حقوق کا علم و احساس آج بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور حقوق حاصل کرنے کا انتظام بھی سستا اور سہل مہیا کر دیا جائے تو کس کی مجال ہے کہ وہ اسلام کی ایک اجازت سے فائدہ تو اٹھائے لیکن اسلام نے اس سلسلے میں اس پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں وہ پوری نہ کرے۔
کمیشن نے اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں ایک نکتہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ بیماری کا راستہ کھول دینے کے بعد علاج کا مشورہ دینے سے زیادہ دانش مندانہ طریقہ یہ ہے کہ سرے سے بیماری کے اسباب ہی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ کمیشن کا مطلب یہ ہے کہ تعدد ازدواج کی اجازت دے دینے کے بعد اس کے سبب سے پیدا شدہ ناانصافیوں کے ازالہ کی تدابیر سونچنے کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس اجازت ہی پر ایسی پابندیاں عائد کر دی جائیں کہ کسی تعدی یا ناانصافی کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔ یہ نکتہ ہے تو لطیف لیکن کمیشن نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ خود تعدد ازدواج کی اجازت بھی درحقیقت بہت سی اجتماعی، عائلی اور شخصی بیماریوں کے سد باب کے لیے ہے اگر آپ نے تعدد ازدواج سے پیدا شدہ بیماریوں کے علاج کے لیے سرے سے تعدد ازدواج ہی کو کالعدم قرار دے دیا تو پھر آپ کے معاشرے میں آپ کے خاندانوں میں اور آپ کی قوم میں وہ ساری بیماریاں پھوٹ پڑیں گی جن کو یہ تعدد ازدواج کی اجازت روکے ہوئے ہے لیکن کمیشن کو ان وباؤں کی کوئی فکر اس وجہ سے نہیں ہے کہ جدید تہذیب میں یہ وبائیں رحمتیں اور برکتیں سمجھی جاتی ہیں کمیشن کی دلی آرزو ہے کہ یہ رحمتیں اور برکتیں زیادہ سے زیادہ مقدار میں پاکستان میں برسیں اور لوگ ان سے فیض یاب ہوں۔
یہاں تک ہم نے ان دلائل کا جائزہ لیا ہے جو کمیشن نے اپنی سفارش کی تائید میں پیش کیے ہیں۔ اب ہم وہ نتائج پیش کرنا چاہتے ہیں جو کمیشن کی اس سفارش کے قانون کی صورت اختیار کر لینے کے بعد سامنے آئیں گے۔
۱۔ جب کسی شخص کے لیے اس بات کا امکان باقی نہیں رہے گا کہ وہ جب تک اپنی پہلی بیوی کو بانجھ یا مدقوق یا فاتر العقل نہ ثابت کر دے اس وقت تک دوسری شادی کر سکے تو لازماً دوسری شادی کے خواہشمندوں کا رجحان یہ ہو گا کہ وہ کسی طرح اپنی پہلی بیویوں سے جان چھڑائیں اور اس کا ممکن راستہ جو وہ سوچ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ ان کو طلاق دے دیں۔ اس طلاق کی راہ میں اگرچہ کمیشن نے بہت سی رکاوٹیں ڈال دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی ’’سبب معقول‘‘ کے طلاق دے تو اس پر عورت کے عقد ثانی یا مدت حیات تک کے لیے اس کی کفالت کا بار ڈالا جا سکتا ہے۔ لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود نکاح جدید کے شوقین یا ضرورت مند راہ نکال ہی لیں گے۔ اگرچہ انھیں اس مقصد کے لیے پہلی بیوی کو برسرعدالت رسوا ہی کرنا پڑے۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ بہت سی عورتیں جو آج اپنے گھروں میں رہ بس رہی ہیں وہ مطلقہ ہو کر اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوں گی اور مطلقہ بھی بدنام اور عدالت سے مستند مطلقہ جن سے کوئی دوسرا نکاح کرنے کی جرأت مشکل ہی سے کر سکے گا۔
۲۔ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرنا چاہے گا اور عدالت اس کے بیان کردہ وجوہ کو ناکافی سمجھ کر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے گی تو قانون کی اس مزاحمت سے مجبور ہو کر وہ اپنے ارادہ نکاح سے تو باز آ جائے گا لیکن اپنی بیوی کو اپنے لیے ایک لعنت کا طوق سمجھنے لگے گا۔ یہ عورت اس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکے گی اور جب بھی اس کے چہرے پر اس کی نظر پڑے گی وہ یہ خیال کرے گا کہ یہی بلائے جان ہے جس کے سبب سے وہ اپنے ایک جائز ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ممکن ہے بعض قانونی رکاوٹوں یا کسی ذاتی اور خاندانی مصلحت کی وجہ سے وہ اس کو طلاق نہ دے لیکن بیوی صاحبہ کوتھوڑے ہی عرصے میں یہ تجربہ اچھی طرح ہو جائے کہ شوہر کی محبت عدالت اور قانون کے زور سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ شوہر کے دوسرا نکاح کر لینے کے بعد تو اس کا امکان باقی تھا کہ وہ اس کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے کی کوشش کرتا اور اگر زیادہ خیال نہ کرتا تو کم از کم اس کے ساتھ انصاف ہی کرتا لیکن اس صورت حال کے پیدا ہو جانے کے بعد تو وہ اس کو اپنی راہ کا صرف ایک پتھر ہی سمجھے گا اور ہر وقت اس کی دلی آرزو یہی ہو گی کہ کب یہ پتھر اس کے راستے سے ہٹے۔
۳۔ اور اگر وہ شخص شریعت اور اخلاق کی پابندیوں سے بالکل آزاد ہو گا (اور اس زمانے میں زیادہ اشخاص ایسے ہی ہوں گے) تو وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے دوسرے ناجائز راستے پیدا کر لے گا اور یہ راستے اس زمانے میں ہر طرف کھلے ہوئے ہیں۔ وہ بیوی تو ایک ہی رکھے گا لیکن تعلقات دوسری کسی اور عورت یا کئی عورتوں سے پیدا کرے گا ان کے پیچھے اپنا ایمان و اخلاق برباد کرے گا۔ اپنی عزت و شہرت تباہ کرے گا۔ اپنے بیوی بچوں سے غفلت برتے گا اور اپنا مال دوسری جگہ لٹائے گا۔ بیوی صاحبہ اس پہلو سے تو شائد مطمئن ہوں کہ گھر میں کوئی باضابطہ سوکن وہ نہیں لا سکا لیکن حقیقت یہ ہو گی کہ نہ جانے کتنی ناجائز سوکنیں شوہر کے دل اور اس کے مال میں ان کی شریک بن جائیں گی اور اس وقت کوئی صاحب نہ تو ان سوکنوں سے نجات دلانے کے لیے سامنے آئیں گے اور نہ ان کے مقابلے میں میاں کی تنخواہ کا کوئی حصہ ان بیوی اور ان کے بچوں کے لیے مخصوص کرا سکیں گے۔
۴۔ مردوں کی اس آزادی کا جو اثر عام معاشرے پر پڑے گا وہ تو پڑے گا ہی اس کا سب سے زیادہ خطرناک اثر گھروں پر پڑے گا۔ جن گھروں کے مرد یہ روش اختیار کر لیں گے ان گھروں کی عورتیں آہستہ آہستہ اسی راہ پر چل پڑیں گی۔ جب وہ دیکھیں گی کہ میاں نے اپنی دل بستگی کے سامان اور پیدا کر لیے ہیں تو وہ بھی اپنی دل بستگی کے دوسرے سامان تلاش کرنے نکلیں گی ممکن ہے شروع شروع میں کچھ حجاب سا ہو، لیکن زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ وہ اپنے شوہروں سے بھی زیادہ بے باک ہو جائیں گی اور پھر ان کی اولاد کے لیے تو سب سے زیادہ جانی پہچانی ہوئی راہ یہی ہو گی۔ الغرض زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ مغربی معاشرے کی تمام لعنیں ہمارے معاشرے پر بھی اس طرح مسلط ہو جائیں گی کہ پھر ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
۵۔ یہ قانون، تعدد ازدواج کی برائی کو ( اگر وہ برائی ہے) تو روکنے میں ذرا بھی کامیاب نہیں ہو گا البتہ بہت سی عورتوں کو عدالتوں سے پاگل اور مدقوق ہونے کا سرٹیفکیٹ دلوا دے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے غریب طبقوں میں تو تعدد ازدواج کا رواج بہت کم بلکہ مفقود ہے۔ یہ رواج زیادہ تر بلکہ تمام تر خوشحال طبقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ قانون اس طبقے کو اس اجازت سے فائدہ اٹھانے میں مانع نہیں ہو سکتا کیونکہ کمیشن نے اس کے لیے دو شرطیں رکھی ہیں اور ان دونوں شرطوں کو پورا کرنا غربا اور عوام کے لیے بے شک ناممکن ہے لیکن خوشحال لوگ بڑی آسانی کے ساتھ یہ دونوں شرطیں پوری کر سکتے ہیں۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ دوسری شادی کا خواہشمند عدالت کے سامنے یہ ثابت کر سکے کہ وہ دونوں کنبوں کی کفالت کا بندوبست ان کے معیار زندگی کے مطابق کر سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی موجود بیوی کو بانجھ یا مدقوق یا پاگل ثابت کر دے جہاں تک پہلی چیز کا تعلق ہے اس کی ضمانت دے دینا تو کسی خوشحال آدمی کے لیے کوئی مشکل ہے ہی نہیں۔ رہی دوسری چیز تو کسی دماغی امراض کے ہسپتال یا کسی ڈاکٹر سے بیوی کے لیے مدقوق یا پاگل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلینا اس زمانے میں کسی صاحب مال کے لیے کیا مشکل ہے۔
یہ نہ خیال کیجیے کہ میں محض صورت حال کو خوفناک دکھانے کے لیے یہ قیاس کے گھوڑے دوڑا رہا ہوں بلکہ اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں ہوتے رہتے ہیں۔ آج اگر کم ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ضرورت کم پیش آتی ہے۔ لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہے جب اس کی ضرورت پیش آئے گی تو آپ یقین کریں کہ اس کی بہت سی راہیں کھل جائیں گی۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ ایک صاحب اپنی بیوی کو جو بیچاری اچھی خاصی تندرست تھی کار میں لاد کر لاہور میں مینٹل ہاسپیٹل میں اس کے پاگل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے لے جا رہے تھے اور وہ غریب چیخ چیخ کر فریاد کر رہی تھی کہ یہ ظالم مجھے دیوانی ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ میں بالکل تندرست اور ہوش و حواس سے ہوں۔ لیکن شوہر صاحب اور ان کے مددگار اعزا اس کی چیخ و پکار کو اس کے پاگل ہونے کے ثبوت میں بطور دلیل پیش کر رہے تھے لاہور کے ایک معاصر نے اس واقعے کا حوالہ دے کر مجھ سے یہ سوال کیا ہے کہ اگر میں کمیشن کی ان سفارشات کا مذہب کے خلاف ہونے کے سبب سے مخالف ہوں تو مردوں کے اس طرح کے مظالم کے سد باب کی میرے نزدیک کیا تدبیر ہے؟ حالانکہ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کا نہیں ہے، بلکہ کمیشن کے ارکان سے پوچھنے کا ہے، جنھوں نے بڑی کاوش سے اپنی مزید بہت سی بہنوں کو پاگل بنوانے کی یہ راہ کھولی ہے۔ یا پھر اپوا کی ان بیگمات سے پوچھنے کا ہے جو کمیشن کی اس رپورٹ پر سر دھن رہی ہیں اور بے قرار ہیں کہ ان کی آزادی کا یہ چار ٹر کب سفارش کے درجے سے ترقی کر کے قانون کا مرتبہ حاصل کرے گا۔
مہر کے متعلق کمیشن کی سفارش یہ ہے کہ معاہدہ ازدواج میں جو مہر بھی درج ہو خواہ اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ ہو۔ ازروئے قانون واجب الادا قرار دی جائے۔
اس سفارش کی دلیل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ بعض اوقات مہر کے مقدمات میں مرد کی طرف سے یہ جواب دہی کی جاتی ہے کہ نکاح نامہ میں مندرج مہر محض فرضی ہے فریقین میں یہ بات طے تھی کہ اس کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ کمیشن مرد کی اس قسم کی جواب دہی کے سد باب کے لیے چاہتا ہے کہ نکاح نامہ کے مقرر کردہ مہر کو واجب الادا قرار دیا جائے تاکہ اس نوعیت کی کسی مقدمہ بازی کے لیے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہ جائے۔
جہاں تک قانون کا تعلق ہے اس کا تقاضا بلا شبہ یہی ہے کہ جو مہر طے پایا ہے وہ شوہر پر واجب الادا ہو۔ لیکن کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں بار بار عقل اور انصاف کا بھی حوالہ دیا ہے اورمعاشرے میں جو غلط چیزیں رواج پا گئی ہیں ان کی اصلاح کے عزم کا بھی اظہار فرمایا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عقل و انصاف کے تقاضے اور اصلاح کے سارے عزائم ارکان کمیشن کو صرف اسی وقت تک یاد رہتے ہیں جب تک بات عورت کے حق میں جا رہی ہو اگر عورت کے حق میں نہ جا رہی ہو تو پھر بڑی سے بڑی غلطی بھی کمیشن کی نظر میں عقل و انصاف کے مطابق بن جاتی ہے اور معاشرے کی اصلاح کے نقطہ نظر سے بھی وہی چیز ضروری ہو جاتی ہے۔
ہرشخص جانتا ہے کہ مہر کے معاملے میں اسلام کا اصلی رجحان یہ ہے کہ مہر فریقین کی حیثیت کے مطابق ہو اوراس کو بلا وجہ مشیخت اور تفاخر کے اظہار کا ذریعہ نہ بنایا جائے لیکن ہمارا معاشرہ اس بارے میں ایک بالکل غلط راہ پر چل پڑا ہے اور یہ غلطی کسی ایک ہی فریق کی طرف سے نہیں ہوتی ہے بلکہ لڑکی والوں اور لڑکے والوں دونوں ہی کی طرف سے ہوتی ہے کبھی تو لڑکی والے اپنی امارت کی دھونس جمانے کے لیے یا کسی مقابلے کے جذبے کے تحت زیادہ مہر باندھنے کی خود پیش کش کرتے ہیں اور کبھی لڑکے کو باندھنے کی نیت سے لڑکی والے بھاری مہر باندھنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس پر اس قدر بضد ہوتے ہیں کہ چارو ناچار اس کو ان کا یہ مطالبہ ماننا پڑتا ہے۔ اگر وہ نکاح سے انکار کر کے واپس لوٹ آتا تو شدید مالی نقصان کے علاوہ برادری میں اس کی ناک کٹتی ہے اور اگر مطلوبہ مہر پر راضی ہوتا ہے تو اپنے پاؤں میں از خود ایک بھاری زنجیر پہنتا ہے۔ ایسی صورتوں میں عموماً لڑکے والوں کا رجحان یہی ہوتا ہے کہ بارات کو نکاح کے بغیر لوٹنا نہ پڑے اگرچہ مہر کتنا ہی بھاری ہو۔ وہ اس شکل پر بروقت اس امید پر راضی ہو جاتے ہیں کہ آئندہ شاید مہر دینے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے۔
اب عقل و انصاف اور اصلاح معاشرہ کے نصب العین کا تقاضا تو یہ ہے کہ کوئی ایسی شکل نکالی جائے جس سے عورت کی حق تلفی بھی نہ ہو اور اس معاملے میں جو غلطیاں ہو رہی ہوں ان کی بھی اصلاح ہو سکے۔ میاں بیوی کے تعلقات کی خوشگواری کی صورت میں تو وہ خود ہی ان ناہمواریوں کو ہموار کر سکتے ہیں لیکن جب معاملہ بگڑ کر عدالت میں جا پہنچے تو پھر تو واحد صورت اصلاح کی یہی باقی رہ جاتی ہے کہ اگر مہر اتنا باندھا یا بندھوایا گیا ہے جس کی ادائیگی مرد کے امکان سے باہر ہے یا اس کی ادائیگی کے بعد وہ مالی اعتبار سے بالکل تباہ ہو کر رہ جاتا ہے تو عدالت اس میں مداخلت کر کے کوئی منصفانہ شکل پیدا کرے۔ لیکن کمیشن نے یہاں عدالت کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں اور ازروئے قانون اس کو پابند کر دیا ہے کہ جو مہر نکاح نامہ میں درج ہے وہ اس کی ڈگری دے اگرچہ شوہر کی سات پشتیں بھی اس کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو سکیں۔ یہ ہمارے نزدیک عورت کے حقوق کی حفاظت نہیں بلکہ ’’عورت خولیا‘‘ کی بیماری ہے جس نے دماغوں کو اس قدر ماؤف کر دیا ہے کہ ان لوگوں کو عورت کے سوا دنیا میں اور کسی کا حق نظر ہی نہیں آتا۔
مہر کے متعلق ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ چونکہ یہ مرد کو ادا کرنا ہوتا ہے اس وجہ سے اس کی خواہش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ یہ زیادہ نہ ہو۔ ایسا ہی کوئی شیخی باز مرد ہو گا جو اس کی زیادتی پر راضی ہو۔ اس کی زیادتی کے لیے اصرار اکثر عورت کے خاندان والوں کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا سبب بیشتر مرد کو اچھی طرح باندھنا ہوتا ہے۔ ضرورت تھی کہ اس غلط رجحان کی روک تھام کی جاتی۔ لیکن کمیشن کی کوشش یہ ہے کہ یہی غلط رجحان اس ملک کا معروف بن جائے اور ہر لڑکی والے کی کوشش یہی ہونے لگے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مہر بندھوا کر داماد کو اپنا زرخرید غلام بنا لے۔ ہمارے ملک میں بہت سے غلط رواجوں کی جڑ پکڑ جانے سے نکاح کا معاملہ یوں بھی خاصا مشکل بن چکا ہے لیکن کمیشن کی یہ سفارش تو اس کو اتنا مشکل بنا دے گی کہ عام آدمی کچھ عرصے کے بعد شاید نکاح کی ہمت ہی نہ کر سکے گا۔
موجودہ قانون کی رو سے چھوٹے بچوں کی حضانت کا حق خاص عمروں تک ماں کو حاصل ہے۔ لڑکا ہو تو سات سال اور لڑکی ہو تو بلوغ تک۔ اس بارے میں کمیشن کا رجحان یہ ہے کہ چونکہ عمروں کا یہ تعین نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں بلکہ یہ محض فقہا کے اجتہاد و استنباط پر مبنی ہے اس وجہ سے اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس معاملے پر بھی غور کرتے وقت کمیشن نے نہ تو شریعت کو پیش نظر رکھا ہے اور نہ عقل و انصاف کو بلکہ وہ اسی ’’عورت خولیا‘‘ کے مرض کا شکار ہو گیا ہے جو دوسرے مسائل پر غور کرتے وقت اس پر طاری رہا ہے۔
اس میں تو شبہ نہیں کہ عمروں کا یہ تعین کسی آیت یا کسی حدیث میں صاف الفاظ میں مذکور نہیں ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فقہا نے بس یونہی ہوا میں تیر چلائے ہیں اور ان کے استنباط کے لیے سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اس مسئلے پر جو رائیں قائم کی ہیں وہ ان مقدمات پر مبنی ہیں جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے ہیں اور جن کے آپ نے فیصلے فرمائے ہیں۔
ان تمام فیصلوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد جہاں عمروں کے تعین کے لیے مواد ملتا ہے وہیں یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں ایک نہایت اہم قابل لحاظ چیز بچوں کی بہبود اور ان کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر ان کی دیکھ بھال اور تربیت بہتر طریقے پر ماں کی نگرانی میں ہونے کی توقع ہے تو بچوں کو ماں کی نگرانی ہی میں رہنا چاہیے۔ یہ بات جذبات کے پہلو سے بھی بہتر ہے اور شریعت کے نقطہ نظر سے بھی لیکن اگر ماں بدسلیقہ ہے، یا بد چلن ہے یا مخالف اسلام ہے یا کتابیہ ہے یا کافرہ ہے تو ان صورتوں میں بچوں کو اس کے حوالے کردینا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقل و انصاف کے بھی خلاف۔ ان صورتوں میں اگر مطالبہ کیا جا سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اس بات کا کیا جا سکتا ہے کہ اس کے بچوں سے ملنے پر کوئی رکاوٹ نہ عائد کی جائے لیکن بچے اگر اس کی تحویل میں دے دینے پر مرد مجبور کر دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اپنے بچوں کو خود اپنے خرچ پر بداخلاق دبے دین بنائے۔ صاحب نیل الاوطار اس باب کی تمام احادیث پر بحث کرنے اور فقہا کے مختلف مذاہب بیان کرنے کے بعد آخر میں نہایت عمدہ بات لکھتے ہیں وہ ملاحظہ ہو:
’’بچوں کو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دینے یا قرعہ سے فیصلہ کرنے سے پہلے ان کے مفاد پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اگر ماں اور باپ میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ بات معلوم ہو جائے کہ تربیت و اصلاح کے نقطہ نظر سے اس کی نگرانی بچوں کے لیے زیادہ نافع ہے تو پھر قرعہ یا بچے کے انتخاب پر معاملے کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ یہ پہلو مقدم رکھا جائے گا۔ یہی رائے علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ انھوں نے اپنے اس مسلک کی تائید میں یایھا الذین امنوا قو انفسکم و اھلیکم نارا (اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ) اور اس مضمون کی دوسری آیات اور احادیث سے استدلال کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرعہ یا بچہ کے میلان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی رائے دی ہے ان کی یہ رائے مذکورہ شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہؒ کی زبانی انھوں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بچے کے والدین نے اسی طرح کا ایک مقدمہ عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے بچے کواختیار دیا ہے کہ وہ ماں یا باپ میں سے جس کو منتخب کرے اس کے ساتھ چلا جائے۔ بچے نے باپ کو ترجیح دی۔ اس پر ماں نے عدالت کو توجہ دلائی کہ وہ بچے سے معلوم کرے کہ وہ باپ کو کیوں ترجیح دے رہا ہے۔ عدالت نے بچے سے پوچھا کہ تم اپنے باپ کے ساتھ کیوں رہنا پسند کرتے ہو! بچے نے جواب دیا کہ ماں مجھے ہر روز مکتب جانے پر مجبور کرتی ہے اورمکتب کا ملاّ مجھے ہر روز سزا دیتا ہے، برعکس اس کے ابا جان مجھے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ عدالت نے یہ سن کر بچہ ماں کے حوالے کر دیا۔‘‘ (نیل الاوطار ج۶ ص ۴۵۱)
کمیشن نے آخر اس نہایت معقول بات کو کیوں نظر انداز کر دیا؟
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ یہ بات ازروئے قانون جائز کر دی جائے کہ کوئی بے اولاد شخص اپنی جائداد بیوی کے نام اس شرط کے ساتھ ہبہ کر سکتا ہے یا مرتے وقت اس کی وصیت کر سکتا ہے کہ اگر بیوی کا انتقال اس سے پہلے ہو جائے تو وہ جائداد اس کو واپس ہو جائے گی اور اگر بیوی کا انتقال اس کے بعد ہو تو جائداد واہب کے ورثہ کو منتقل ہو جائے گی۔
اگرچہ مالکیہ کے نزدیک مدۃ العمر کا ہبہ جائز ہے اور بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کیونکہ ایک شخص اپنی جائداد کے اندر بیع ہبہ اور رہن کے سارے حقوق و اختیارات رکھتا ہے۔ لیکن جہاں تک ایک شخص کے شرعی وارثوں کا تعلق ہے ان کے درمیان شریعت الٰہی کے خلاف کسی تفریق و ترجیح کو میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں سمجھتا۔
۱۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم نے تقسیم جائیداد کے لیے جو ضابطہ بنایا ہے اس میں ایک اصول یہ رکھا ہے کہ شرعی وارثوں میں کسی کو محض اپنے ذاتی رجحات کی بنا پر کسی دوسرے پر ترجیح نہ دی جائے۔ یہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ کون فی الحقیقت ا س کے لیے زیادہ نافع ہے اور کون کم نافع ہے اس چیز کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کو اپنے ذاتی میلانات کی بنا پر کسی پر ترجیح دے دیں لیکن وہ بالآخر ہمارے لیے زیادہ برا ثابت ہو۔ وہ جائداد پالینے کے بعد ہمارا دشمن بن جائے یا اس جائداد کو پا کر اس کو ایسے کاموں میں استعمال کرے جو ہمارے لیے آخرت میں رسوائی کا سبب ہوں۔ اگر ایک شخص خدا کی تقسیم کی رو سے ایک چیز پاتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہمارے اوپر نہیں ہے لیکن اگر وہی چیز ہم خود اس کو پکڑاتے ہیں اور خدا کی ہدایت کے خلاف وہ اس کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یہ جرم خود ہمارے ہی حوالے کیے ہوئے ہتھیار کے ذریعے سے کرتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں سمجھایا ہے:
لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا
’’تم اس بات کو نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ثابت ہو گا۔‘‘
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تقسیم وراثت کے متعلق ایک اصول قرآن نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس تقسیم کے سلسلے میں کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے کسی شرعی وارت کو نقصان پہنچے۔ فرمایا ہے:
من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین غیر مضار
بعد اس وصیت کے جو کی گئی ہو اور بعد ادائے قرض کے بغیر نقصان پہنچائے ہوئے۔۱۲۔النسا
مذکورہ ہبہ یا وصیت میں صریحاً دوسرے جائز وارثوں کے لیے نقصان متصور ہے اس وجہ سے ازروئے قرآن اس کو جائز نہ ہونا چاہیے۔
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے ترجیحی سلوک سے ان حقداروں کے دلوں میں نفرت اور انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے جن کا حق تلف ہوتا ہے۔ اس کے سبب سے خاندانوں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور بسا اوقات مقدمہ بازی سے لے کر زہر خورانی اور قتل تک نوبتیں پہنچتی ہیں۔ پھر اسلام کسی ایسے اقدام کو کس طرح روا رکھ سکتا ہے جو بالآخر ان نتائج پر منتہی ہو؟
۴۔ معاشی اعتبار سے بھی یہ چیز غلط اور مضر ہے۔ کسی چیز پر اگر ایک شخص کا قبضہ محض عارضی ہو تو اس کے ساتھ اس کی دلچسپیاں بھی محض سرسری ہوتی ہیں۔ اس غفلت اور عدم اہتمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جتنے دن وہ شے اس عارضی قبضے کے نیچے رہتی ہے۔ خراب ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ بسا اوقات وہ اپنے مستقل وارثوں کو اس وقت ملتی ہے جب کہ وہ بالکل تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔ اسلام نے مال کو قیاماً للناس قرار دیا ہے اور اس کو اس قسم کے تصرفات سے بچانے کی تاکید کی ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔
چونکہ مذکورہ ہبہ یا وصیت میں یہ تمام مفاسد موجود ہیں اس وجہ سے میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا۔
یتیم پوتے کی وراثت کے معاملے میں کمیشن نے فقہا کے متفقہ مسلک کو دور جاہلیت کی یادگار اور ظلم عظیم قرار دیا ہے اور سفارش کی ہے کہ جلد سے جلد قانون کے ذریعے سے اس ظلم کا خاتمہ کیا جائے مگر جس نظریے کے تحت کمیشن نے یتیم پوتے کو وراثت میں حصہ دلانے کی سفارش کی ہے اس سے وہ سارے اصول ہی مہندم ہو جاتے ہیں جو اسلام نے تقسیم ورثے کے لیے قرار دیئے ہیں۔ یتیم پوتوں کے ساتھ کمیشن کو جو ہمدردی ہے وہ بجائے خود نہایت اچھی چیز ہے لیکن اس ہمدردی کی یہی ایک شکل نہیں ہے کہ ان کے لیے اسلام کے سارے قانون وراثت کو درہم برہم کر دیا جائے۔ ایک عمدہ نظام میں یتیموں کی امداد اور بہبود کی صدہا دوسری باعزت شکلیں ممکن ہیں بشرطیکہ حکومت کرنا چاہے۔ لیکن کمیشن کے بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یتیموں کی ساری مشکل کا واحد حل اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ ان کو دادا کی جائداد میں سے حصہ دلوایا جائے چونکہ اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس وجہ سے میں یہاں اس پر کچھ لکھنا غیر ضروری سمجھتا ہوں۔
____________