اب میں نیل الاوطار سے دونوں طرح کی حدیثیں یہاں پیش کیے دیتا ہوں۔ ان حدیثوں پر اگرچہ مخالفین اور موافقین کی طرف سے بہت کچھ کہا بھی گیا ہے اور ان میں سے بعض کے اندر فی الواقع ضعف کے اسباب بھی موجود ہیں لیکن ان فنی اور اصطلاحی خامیوں کے سبب سے اس قدر مشترک پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو ان حدیثوں کے مطالعے سے مجموعی طور پر سامنے آتی ہے۔
پہلے وہ حدیثیں لیجیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک مجلس کی تین یا تین سے زائد طلاقوں کو بائن قرار دیا ہے۔
’’حسن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق حالت حیض میں دے دی۔ پھر ارادہ کیا کہ آئندہ دو طہروں میں دو طلاقیں اور دے دیں گے۔ اس واقعہ کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اے ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالی نے اس طرح طلاق دینے کا حکم نہیں دیا ہے، تم نے سنت کے طریقے کے خلاف کیا ہے، سنت یہ ہے کہ طلاق کے لیے طہر کا انتظار کرو پھر ہر طہر میں ایک ایک طلاق دو۔ عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنی بیوی سے مراجعت کر لی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب وہ پاک ہو جائے تو چاہے طلاق دو چاہے رکھو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں نے اس کو تین طلاقیں دے چھوڑی ہوتیں تو کیا میرے لیے اس سے مراجعت جائز ہوتی؟ حضور نے فرمایا نہیں، تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی اور اس طرح طلاق دینا ایک معصیت ہوتا۔‘‘ (دار قطنی)
’’سہل بن سعد سے روایت ہے کہ جب بنی عجلان کے بھائی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ، میں بڑا ہی ظالم ہوں گا اگر اس کے بعد بھی اس کو بیوی بنائے رکھوں۔ سو اب میری طرف سے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔‘‘ (رداہ احمد)
’’عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ میرے دادا نے اپنی ایک بیوی کو بیک وقت ہزار طلاقیں دے دیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے دادا نے خدا کا خوف نہیں کیا۔ ان میں سے تین کا انھیں حق تھا، بقیہ ۹۹۷ سب ظلم و زیادتی ہیں، اگراللہ چاہے گا تو معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو سزا دے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں یہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے ’’تمہارے باپ نے خدا کا خوف نہیں کیا کہ وہ اس کے لیے راہ پیدا کرتا۔ اس کی بیوی تین طلاقوں سے اس سے جدا ہو گئی اور یہ بات سنت کے خلاف ہوئی ۹۹۷ طلاقیں اس کی گردن میں ہوں گی۔‘‘ (بحوالہ مصنف عبدالرزاق)
جو لوگ اس مذہب کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح طلاق دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ ان کا اعتماد دو حدیثوں پر ہے۔ ان میں سے ایک رکانہ بن عبداللہ والی حدیث ہے جس کا حوالہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھی دیا ہے اس حدیث کا مضمون دو طریقوں سے بیان ہوا ہے۔
ایک سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تین طلاقیں دی تھیں۔ لیکن ان کی نیت معلوم کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیا۔ اسی واقعے کی روایت ابوداؤد اور دارقطنی میں اس طرح ہے کہ یہ طلاق البتہ کی صورت میں تھی جس میں فیصلے کا انحصار طلاق دینے والے کے قصد و نیت پر ہوتا ہے۔ چونکہ رکانہ نے قسم کھا کر حضور کے سامنے یہ کہا کہ وہ ایک ہی طلاق کا ارادہ رکھتے تھے اس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طلاق کو رجعی قرار دیا۔ ابوداؤد میں یہ روایت مندرجہ ذیل طریقے پر ہے اور اس کو انھوں نے حسن صحیح کا درجہ دیا ہے:
رکانہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دے دی اور جا کر اس واقعے کی اطلاع آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم میری مراد ایک طلاق سے زیادہ نہ تھی۔ حضور نے فرمایا، قسم کھاتے ہو کہ تم نے ایک سے زیادہ کا ارادہ نہیں کیا تھا؟ رکانہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں نے ایک سے زیادہ کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی ان کو واپس کرا دی۔
دوسری روایت حضرت ابن عباس کی وہ مشہور روایت ہے جس کا حوالہ ہم بحث کے آغاز میں دے چکے ہیں۔ اس کا مضمون یہ ہے:
’’طاؤس حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملے میں بڑی جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں جس میں ان کو صبر اور انتظار کی ہدایت کی گئی تھی تو ہم ان کی طلاقیں نافذ کیوں نہ کر دیں۔‘‘ (مسلم)
اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ تین طلاقیں خواہ کسی صورت میں دی گئی ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانے تک ایک ہی سمجھی جاتی تھیں تب تو یہ روایت بلاشبہ اوپر والی ان حدیثوں کے خلاف پڑتی ہے جن سے تین طلاقوں کا بائن ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ابوداؤد میں یہ جن الفاظ میں وارد ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیر مدخولہ بیوی سے متعلق ہے اور بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ اس صورت سے متعلق ہے جب طلاق دینے والا عدد کی تصریح کے بغیر محض لفظ طلاق کی تین مرتبہ تکرار کر دے۔ اگر ان دونوں میں سے کسی صورت پر بھی اس کو محمول کر دیا جائے تویہ اوپر کی حدیثوں کے ساتھ جمع ہو جاتی ہے۔
یہ امر بھی خاص طور پر نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں خود ایک مجلس کی تین طلاقوں کو بائن مانتے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں راوی کی روایت دیکھنی چاہیے نہ کہ اس کا مذہب۔ لیکن یہ بات انصاف کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ صحابی اگر ایک طرف یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تین طلاقیں ایک سمجھی جاتی تھیں اور پھر فتویٰ اس کے خلاف دیتے ہیں تو یہ صاف دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو تین طلاقیں ایک سمجھی جاتی تھیں یا تو لفظ طلاق کی تکرار والی ہوتی تھیں یا غیر مدخولہ بیوی سے متعلق۔ تین طلاقوں کی جو عام صورت ہے اس سے متعلق ان کا یہ بیان نہیں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مذہب کے بارے میں مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ ہوں۔
مجاہد سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا کہ ایک شخص نے ان سے آ کر بیان کیا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں یہ سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے ان کی خاموشی سے میں نے گمان کیا کہ شاید وہ اس طلاق کو رجعی قرار دیں گے لیکن انھوں نے فرمایا کہ لوگ پہلے حماقت کر گزرتے ہیں اس کے بعد یہاں آکر اے ابن عباس! اے ابن عباس! پکارتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے جو اس سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے راہ پیدا کرتا ہے۔ تم چونکہ اس سے نہیں ڈرتے اس وجہ سے میں تمہارے لیے کوئی راہ بھی نہیں پا رہا ہوں۔ تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو گئی۔ (ابوداؤد)
’’مجاہد سے روایت ہے کہ ابن عباس سے ایک ایسے شخص کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی سو طلاقیں دے چھوڑی تھیں۔ انھوں نے طلاق دینے والے سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی (یعنی قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف طلاق دی اور اپنی بیوی سے محروم ہوا۔ تو خدا سے ڈرتے نہیں ورنہ وہ تیرے لیے راہ پیدا کرتا۔‘‘
’’سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دیں۔ حضرت ابن عباس سے فتویٰ پوچھا گیا تو انھوں نے طلاق دینے والے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تیری بیوی کے جدا ہونے کے لیے تو ان میں سے صرف تین کافی ہیں ۹۹۷ تیرے پاس بچ رہیں گی۔‘‘
انہی سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو آسمان کے تاروں کی تعداد میں طلاق دے دی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ اس نے سنت کے طریقے کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی۔ (دار قطنی)
ان تمام روایات پر اگر ایک شخص تطبیق کے ارادے سے غور کرے گا تب تو یہ حقیقت اس پر اچھی طرح واضح ہو جائے گی جو ہم نے پیش کی ہے اور اگر صرف ایک ہی قسم کی روایات کو لے کر بقیہ کو نظر انداز کر دینا چاہے گا تو اس کے لیے اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ان کے ساتھ ساتھ ساری امت کو مبتدع قرار دے۔
اب غور کیجیے کہ کمیشن کی سفارش اگر قانون کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ طلاق کا لفظ گھر گھر میں ایک سخن تکیہ بن کر رہ جائے گا۔ جو لفظ زبان سے نکالتے ہوئے آج ہر شخص ڈرتا ہے اور بہت دور تک اس کے نتائج پر غور کرتا ہے۔ وہ لفظ بات بات پر زبان سے نکلے گا اور بہت ممکن ہے کہ زیادہ عرصہ نہ گزرے کہ یہ شوہروں کی طرف سے بیویوں کے لیے ایک پیار کا کلمہ بن کے رہ جائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ یہ لفظ اگر مذاق سے بھی نکل جائے تو یہ حقیقت ہے لیکن ہمارے ہاں اس کی کوئی حقیقت نہیں رہ جائے گی۔ جو شخص اٹھے گا معمولی برہمی پر بھی ایک ہی سانس میں دس ہزار طلاقیں دے ڈالے گا اور جب غصہ اتر جائے گا تو مسکرا کر کہہ دے گا کہ بیگم میں نے تو رجوع کر لیا ہے۔ ایک آدھ ماہ کے ناغہ کے بعد وہ پھر اسی طرح طلاق دے گا اور پھر رجوچ کر لے گا الغرض ایک شخص اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے ہزار مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا اور کتنے ہزار مرتبہ رجوع کرے گا، یہاں تک کہ کثرت استعمال سے یہ لفظ اتنا بے معنی اور بے اثر ہو کر رہ جائے گا کہ معاشرے میں مطلقہ اور غیر مطلقہ میں کوئی امتیاز ہی سرے سے باقی نہیں رہ جائے گا۔ ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی فتنے کا دروازہ بند کیا تھا۔ اب اگر اس دروازے کو چوپٹ کھول دینا ہے تو کھول دیجیے۔ لیکن اس بات کو خوب یاد رکھیے کہ اس سے طلاق کی تعدادوں میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ گمان کیا جا رہا ہے۔ طلاقیں تو بے شمار ہوں گی اور بات بات پر ہوں گی لیکن لوگ طلاق اورنکاح کے فرق کے احساس سے عاری ہو جائیں گے۔
ہمارے نزدیک اس معاملے میں صحیح راہ یہی ہے کہ مسلک جمہور کے خلاف کوئی قانون بنانے کی حماقت نہ کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس طرح طلاق دینے والے کے لیے قانون میں کوئی سزا بھی مقرر کی جائے تاکہ کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء کا دروازہ بند ہو جس کو طلاق دینا ہو وہ صحیح طریقہ پر طلاق دے تاکہ کتاب اللہ کی توہین سے بھی محفوظ رہے اور جلد بازی کے نتائج سے بھی۔ مصنف عبدالرزاق میں ایک روایت ہے کہ:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک شخص پیش کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو سچ مچ طلاق دی ہے؟ اس نے کہا نہیں، میں نے تو مذاق کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی کوڑے سے خبر لی اور فرمایا کہ طلاق کے لیے تو ان میں سے صرف تین ہی کافی ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کے ہر فرقے کو اپنے اپنے مسلک پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ بات دستور کے بالکل مطابق ہو گی۔ دستور میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ پرسنل لا کے معاملات میں ہر فرقے کے لیے کتاب و سنت کی وہی تعبیریں معتبر ہوں گی جو اس فرقے کے لوگ پیش کریں گے۔ جہاں میاں بیوی دونوں ایک ہی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں گے وہاں تو کسی زحمت کا سوال نہیں ہے۔ البتہ جہاں اختلاف ہو وہاں شوہر کا مسلک اصل قرار پائے۔
کمیشن نے نکاح کی طرح طلاق کے لیے بھی رجسٹری کی سفارش کی ہے اور اس کے دو طریقے تجویز کیے ہیں۔ ایک تو وہی ہے جو نکاح کی رجسٹری کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ معیاری نکاح نکامہ کی طرح ایک معیاری طلاق نامہ ہو۔ اس کے فارم ہر ڈاکخانے سے آٹھ آنے میں مل سکیں۔ اس میں طلاق کی نوعیت کی پوری تفصیل درج ہو کہ کس شکل میں دی گئی ہے۔ ایک مجلس میں یا تین الگ الگ طہروں میں، اس کی ایک کاپی مطلقہ کے پاس رہے، دوسری طلاق دینے والے کے پاس اور تیسری کاپی کو طلاق دینے والا تحصیل دار کے پاس رجسٹری کر کے بھیج دے۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کو پانچ سو روپے تک جرمانے کی سزا ہو۔
لیکن کمیشن کو اس شکل پر پورا اطمینان نہیں ہے کہ یہ عورت کے حقوق کے تحفظ کے لیے کافی ہے اس کا تاثر یہ ہے کہ مرد بسا اوقات ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے کر بیوی اور اس کے بچوں کو گھر سے باہر نکال پھینکتا ہے اور دوسری بیوی گھر میں لا بساتا ہے۔ ان مظلوموں کے پاس نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی ذریعہ ہوتا ہے نہ آسمان کی چھت کے سوا ان کے سروں پر کوئی چھت ہوتی۔ اس وجہ سے کمیشن نے دوسری قابل اطمینان تجویز یہ پیش کی ہے کہ طلاق کا ہر معاملہ شادی بیاہ کی مجوزہ عدالتوں میں پیش ہو اور عدالت اس وقت تک کسی شخص کو طلاق کی اجازت نہ دے جب تک یہ اطمینان نہ کر لے کہ مطلقہ کا پورا مہر ادا کر دیا گیا ہے اور اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کا قابل اطمینان انتظام کر دیا گیا ہے۔ اگر مہر کی ادائیگی بالاقساط ہونی ہے تو اس کی اقساط بھی عدالت کی طرف سے معین ہو جانی چاہئیں۔
اس کی پہلی شکل پر مجھے وہی اعتراض ہے جو میں نکاح کی رجسٹری کے سلسلے میں پیش کر چکا ہوں۔ اگر رجسٹری کی یہ سادہ شکل اختیار کی گئی تو تحصیل دار کا رجسٹر جھوٹی سچی اور فرضی رپورٹوں کی ایک کھتونی سے زیادہ وقعت نہیں رکھے گا اور جن جھگڑوں سے بچنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جارہی ہے ان میں کمی ہونے کے بجائے اس کے سبب سے اور بھی زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے اثرات کی صحیح تصویر ذہن کے سامنے لانے کے لیے میری مذکورہ بحث پھر پڑھ لیجیے۔
رہی دوسری صورت تو اس پر مجھے مختلف پہلوؤں سے اعتراضات ہیں اور یہاں میں ان کی طرف بعض اشارات کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کمیشن نے طلاق کے معاملات میں مرد کو بہر صورت ایک مجرم مان لیا ہے کہ بس یونہی طلاق دے ڈالتا ہے، بیوی بچوں کو سڑک پر بے سہارا چھوڑ دیتا ہے، نئی بیوی گھر میں لا بساتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ صورت حال کا بالکل یک طرف جائزہ ہے۔ طلاق کے سو واقعات میں سے دو چار واقعات اس نوعیت کے بھی ہوتے ہیں لیکن اگر کہا جائے کہ سارے واقعات یا اکثر واقعات اسی نوعیت کے ہوتے ہیں تو یہ ایک نہایت غلط اندازہ ہے جو محض صوفوں پر بیٹھ کر لگا لیا گیا ہے۔ مرد عموماً طلاق کے معاملے میں اتنا بے احتیاط اور ظالم نہیں ہوتا جتنا ارکان کمیشن نے اس کو فرض کر لیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات وہ بیوی کی بدزبانی، اس کی بداخلاقی اور اس کی جھگڑالو طبیعت سے تنگ آ کر اور بالکل بے بس و مجبور ہو کر طلاق دیتا ہے۔ کم از کم غربا اور عوام کے طبقے میں زیادہ تر طلاقیں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کو نئی بیوی لانے کا شوق اتنا نہیں ہوتا جتنا فرض کر لیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں مہر کا معاملہ تو خیر ایک شرعی ذمہ داری ہے اور بچوں کی کفالت بھی قابل لحاظ چیز ہے، لیکن عدالت کو یہ کس شرع کی رو سے حق ہے کہ وہ مرد سے مطلقہ کی کفالت کی ضمانت طلب کرے؟ مطلقہ کی کفالت تو مرد کے ذمہ زمانہ عدت میں ہے، اور اگر وہ حاملہ ہے تو وضع حمل تک اور اگر وہ اس کے بچے کو دودھ پلائے تو زمانہ رضاعت میں ان زمانوں کے سوا مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری نہ شریعت نے ڈالی ہے اور نہ عقل اس کو جائز رکھتی ہے۔
یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ طلاقیں بالعموم غربا کے طبقے میں ہوتی ہیں اور عام طور پر ان کے اسباب معاشی ہوتے ہیں۔ بیوی کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں جس کے سبب سے میاں بیوی میں تو تو میں میں ہوتی رہتی ہے اور پھر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ اب اگر ایک شخص معاشی اعتبار سے مجبور ہے اور اس مجبوری ہی نے طلاق تک نوبت پہنچائی ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس سے مہر اور بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ مطلقہ کی کفالت کی بھی ضمانت مانگی جائے۔ اگر وہ یہ ضمانت دے سکتا ہے تو بیوی کو طلاق ہی کیوں دیتا؟ اب فرض کیجیے کہ یہ ضمانت نہ دے سکنے کی وجہ سے عدالت اس کو طلاق دینے کی اجازت ہی نہیں دیتی تو اس سے زیادہ نامعقول حرکت اور کیا ہو گی؟ کیا عدالت کی اس مداخلت کی وجہ سے ان کی معاشی مشکل حل ہو جائے گی۔ اور وہ لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیں گے اور ان کے تعلقات خوشگوار ہو جائیں گے؟ ہر شخص ان سوالوں کا یہی جواب دے گا کہ نہیں۔ بلکہ ہو گا یہ کہ مرد پہلے سے بھی زیادہ اپنی اس بیوی کو اپنے لیے عذاب جان سمجھے گا اور عورت بھی اپنی قسمت پر ماتم کرے گی کہ نہ رہائی ملتی ہے نہ روٹی۔ پھر عدالت کی اس مداخلت سے کیا فائدہ حاصل کرنا پیش نظر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔ آپ کس قاعدے سے یہ حق مرد سے چھین کرعدالت کے حوالے کر رہے ہیں۔ کیا اس پر کوئی شرعی یا عقلی دلیل ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ حق مرد سے چھین کر عدالت کے حوالے اس لیے کیا جا رہا ہے کہ عدالت اس حق کو مرد کی نسبت زیادہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرے گی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو بیوی بنا کر رکھنا عدالت کو ہے یا مرد کو؟ اگر مرد ہی کو ہے اور وہ بیوی سے بیزار ہے اس کو بسانے کے لیے تیار نہیں، تو عدالت اس معاملے میں مداخلت کر کے کیا بنائے گی؟ وہ زیادہ سے زیادہ یہی تو کر سکتی ہے کہ مرد کو طلاق دینے کی اجازت نہ دے لیکن اس اجازت نہ دینے سے اس کے سوا اور کیا ہو گا کہ مرد کی بیزاری عورت سے اور زیادہ بڑھ جائے گی اور عورت کی زندگی اس گھر میں اجیرن ہو کے رہے گی۔ عدالت کا کام جھگڑے کا فیصلہ کر دینا ہے خوشگوار گھریلو زندگی پیدا کرنا اور بیوی کو محبت کرنے والا شوہر دلوا دینا عدالت کے امکان میں نہیں ہے۔ رہا مہر وغیرہ کی ادائیگی کا معاملہ تو اس کو جھگڑا بننے سے پہلے ایک جھگڑے کی حیثیت دے دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ طلاق کے واقعات میں سے کچھ ہی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر کا معاملہ نزاعی صورت اختیار کرتا ہے۔ ان کے طے کرنے کے لیے اگر کمیشن کی مجوزہ شادی بیاہ کی عدالتیں موجود ہوں تو عورت کے ساتھ کسی ناانصافی کا اندیشہ نہیں ہے۔ پھر بغیر کسی نزاع کے پیدا ہوئے آخر ہر واقعہ طلاق کو ایک مقدمہ کیوں بنا لیا جائے اور اس کو عدالتوں میں کیوں زیر بحث لایا جائے؟
تیسری بات یہ ہے کہ شوہر کی طرف سے طلاق کی خواہش بہت سے ایسے اسباب کی بنا پر ہوتی ہے جن کو وہ خود ہی محسوس کرتا ہے۔ دوسروں کو محسوس نہیں کرا سکتا۔ وہ جب محسوس کرتا ہے کہ بیوی سے کس طرح نباہ نہیں ہوسکتا تو بالآخر طلاق دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عدالت یہ فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھ جائے کہ ارادہ طلاق کے وجوہ معقول ہیں یا نہیں تو شوہروں کو مجبوراً اپنی بیزاری کے اصل اسباب چھپا کر بیویوں پر ایسے الزامات لگانے پڑیں گے جنھیں کوئی عدالت معقول وجہ طلاق مان سکے اور یہ الزامات بیشتر اخلااقی نوعیت کے ہوں گے جیسا کہ آج کل یورپ میں مشاہدہ ہو رہا ہے۔ یورپ میں تو ممکن ہے کہ ایک عورت ایسے الزامات لگنے کے باوجود باعزت رہ سکے لیکن ہمارے ملک میں جس عورت کو ان الزامات کی بنا پر عدالت سے طلاق ملے گی اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گی اور ان مقدمات کے چرچے جب عدالتوں سے باہر ملک میں پھیلیں گے تو معاشرے کی رہی سہی اخلاقی حالت بھی برباد ہو کر رہے گی۔
مولانا احتشام الحق صاحب کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ اگر معاہدہ نکاح میں مرد یہ شرط تسلیم کر لے کہ میں اگر منکوحہ کو طلاق دوں گا تو شادی بیاہ کی عدالت ہی کے ذریعے سے دوں گا تو مرد کا یہ حق عدالت کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ چونکہ مولانا احتشام الحق صاحب کی اپنی بات ہمارے سامنے نہیں ہے اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے کیا کہا ہو گا اور کمیشن نے اپنے مطلب کے لیے اس کو کس طرح استعمال کیا۔ نکاح کے شرائط اور تفویض و توکیل وغیرہ پر میں پچھلے صفحات پر عورت کے حق طلاق کی بحث کے ضمن میں گفتگو کر چکا ہوں۔ ان تمام مباحث کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معاہدہ نکاح میں اس شرط کو ہر مرد کے لیے ازروئے قانون تسلیم کرنا ضروری ہو گا یا اختیاری؟ اگر اختیاری ہو گا تو ہمارے اندر کتنے مرد ایسے نکلیں گے جو یہ شرط تسلیم کرنے پر راضی ہوں گے؟ اور اگر لازمی ہو گا تو یہ صریح اکراہ ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نہ شرائط نکاح میں کوئی چیز بالجبر ٹھونسی جا سکتی ہے اور نہ وہ تفویض یا تملیک یا توکیل ازروئے شرع جائز ہے جس میں جبر و اکراہ کا شائبہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ نکاح اور طلاق کے معاملات میں عدالتوں کی مداخلت ان کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔ ان کی بنیاد میاں بیوی کے تعلقات کی خوشگواری اور ناخوشگواری پر ہے۔ عدالتیں فصل مقدمات کا ایک ذریعہ تو بن سکتی ہیں لیکن میاں بیوی میں باہمی اعتماد اور سنجوگ پیدا کرنا ان کا کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے میاں اور بیوی کے معاملات میں عدالتوں کی مداخلت زیادہ پسند نہیں کی ہے۔ اگر حقوق کا کوئی جھگڑا پیدا ہو گیا ہے تو عدالت اس کا فیصلہ کر دے اگر مرد کی طرف سے کوئی تعدی ہو رہی ہو تو عدالت اس کو روک دے۔ اگر عورت مرد سے چھٹکارا چاہتی ہے اور عدالت مطمئن ہو کہ اس مرد سے اس کا نباہ نہیں ہو سکتا تو وہ اس کے نکاح کو فسخ کر دے۔ یہ کام عدالت کے کرنے کے ہیں۔ لیکن اگر میاں بیوی کے سارے ہی معاملات عدالتوں کے ذریعے سے طے پانے لگے تو پھر میاں بیوی کا تعلق بس ضابطہ کا ایک سرکاری تعلق بن کے رہ جائے گا اورجب ذہنیتیں تبدیل ہو جائیں گی تو جہاں سے کسی نزاع کے بھی پیدا ہونے کا امکان نہ ہو گا وہاں سے بھی کوئی نہ کوئی نزاع اٹھ کھڑی ہو گی۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ شادی بیاہ کی عدالتوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ جن عورتوں کو بلا کسی ’’سبب معقول‘‘ کے ادھیڑ پن میں طلاق دے دی جاتی ہے ان کی کفالت کا بارتاعقد ثانی یا مدت العمر کے لیے شوہر پر ڈال دیں۔
اس سفارش کی تائید میں کوئی اس طرح کی لنگڑی لولی دلیل بھی دینے کی کوشش نہیں کی گئی ہے جس طرح کی دلیلیں دینے کا کمیشن عادی ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس نے مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری یا تو زمانہ عدت میں ڈالی ہے یا زمانہ حمل میں یا زمانہ رضاعت میں۔ ان صورتوں کے سوا کسی اور صورت میں مطلقہ کی کفالت کی کوئی ذمہ داری مرد پر نہیں ہے اور یہی عقل اور انصاف کا بھی تقاضا معلوم ہوتا ہے غالباً یہ سفارش ہمدردی نسواں کے جذبے کے تحت کی گئی ہے۔ اگر یہ بات ہے تو اپنی جگہ پر یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس ہمدردی کا بوجھ حکومت کو اٹھانا چاہیے نہ کہ غریب طلاق دینے والے کو جس نے نہ معلوم کن مجبوریوں کے تحت طلاق دی ہے۔
یہ سفارش اگر قانون کی شکل اختیار کر لے تو اس سے عورتوں ہی کو مختلف پہلوؤں سے نقصان پہنچے گا۔ ہر عورت کے وجوہ طلاق عدالتوں میں زیر بحث آئیں گے اور مردوں کو کفالت کے بار سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنے وجوہ طلاق کو نہایت وزنی بنانا پڑے گا۔ یوں تو طلاق کے وجوہ کا زیر بحث آنا مرد یا عورت میں سے کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے لیکن کمزور فریق ہونے کی وجہ سے عورت کے لیے یہ چیز نہایت مضر ہے۔ ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ طلاق بجائے خود ایک ایسی چیز ہے جو عورت کی حیثیت کو خاصی حد تک مجروح کر دیتی ہے اور اگر یہ طلاق عدالت میں زیر بحث آ کر باقاعدہ مستند بھی ہو جائے اور عدالت اس پر اپنی تصدیق بھی ثبت کر دے کہ نہایت معقول وجوہ کی بنا پر طلاق دی گئی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ عورت نہ گھر کی رہی نہیں گھاٹ کی۔ چپ چپاتے طلاق ہوتی تو اس بات کی بڑی گنجائش تھی کہ اگر ایک نے چھوڑا تھا تو کوئی دوسرا مرد اس سے نکاح کر لیتا۔ لیکن عدالت کی ایک سند یافتہ مطلقہ کو آپ کے موجودہ معاشرے میں اپنے حبالہ عقد میں لینے کی جرأت کون مرد کر سکے گا؟ بلکہ وہ کہاں عزت کی زندگی بسر کرنے کے قابل بھی رہ جائے گی؟ اور اس کا خاندان تک بے آبروئی سے کب بچارہ جائے گا؟
معاشرے پر بحیثیت مجموعی اس کا جو اثر پڑے گا وہ بھی کچھ کم مضر نہیں ہے۔ اس سفارش کے قانون کی شکل اختیار کر لینے کے بعد ہمارے ہاں طلاق کا ہر واقعہ اپنے اندر نہ جانے کیا کیا حکایتیں اور افسانے لے کر نمودار ہو گا اور خدا ہی جانے کہ کس کس قسم کے گندے کپڑے ان شادی بیاہ کی عدالتوں کے گھاٹ پر دھلیں گے اور ان عدالتوں کی کارروائیاں جلی عنوانات سے اخبارات میں چھپیں گی اور یہ اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار حضرات مزے لے لے کر ان داستانوں کو پڑھیں گے۔
غور کیجیے کہ یہ عورت کے حقوق کی حفاظت ہوئی یا اس کو برسر بازار رسوا کرنے کی ایک نہایت ہی ظالمانہ تدبیر۔
تعدد ازدواج کے متعلق کمیشن کی سفارش یہ ہے کہ یہ قانون بنا دیا جائے کہ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو شادی بیاہ کی عدالت سے اجازت حاصل کیے بغیر کسی اور عورت سے نکاح کرنے کا حق نہ ہو گا۔
عدالت یہ اجازت کسی شخص کو تین باتوں کا اطمینان کر لینے کے بعد دے گی:
ایک یہ کہ دوسری شادی کے لیے کوئی عقلی جواز موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ بیوی بانجھ ہے، یا فاتر العقل ہے، یا کسی مزمن بیماری میں مبتلا ہے یا اسی قسم کا کوئی اورمعقول سبب موجود ہے۔ مجرد یہ بات کہ دوسری عورت جوان اور خوبصورت ہے یا یہ کہ مرد اپنی پہلی بیوی پرقناعت نہیں کر سکتا کمیشن کے نزدیک کوئی معقول سبب نہیں ہے۔
دوسری یہ کہ مرد کی مالی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ بیک وقت دو کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اس دوسری شادی سے اس کی سابق بیوی اور اس کے بچوں کے اس معیار زندگی میں کوئی فرق پڑنے کا اندیشہ نہیں ہے جس کے وہ عادی ہیں۔
تیسری یہ کہ اگر پہلی بیوی مرد کے دوسری شادی کر لینے کی صورت میں علیحدہ قیام کی طالب ہے تو مرد اس کے لیے کیا ضمانت دیتا ہے اس کے لیے عدالت یہ بھی کر سکتی ہے کہ مرد کی تنخواہ یا اس کی آمدنی کا ایک مناسب حصہ عورت کو براہ راست ملا کرے۔
کمیشن نے اپنی سفارشات کی تائید میں جو دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے تعدد ازدواج کی اجازت صرف ایک جگہ سورہ نسا میں دی ہے اور یہ اجازت ایک ہنگامی ضرورت کے موقع پر یتیموں اور بیواؤں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عدل کی نہایت کڑی شرط کے ساتھ دی تھی۔ اب تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں نے اس اجازت سے نہایت غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ جس کے سبب سے عورتوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے حکومت کا، جو معاشرتی عدل کی ذمہ دار ہے۔ یہ فرض ہے کہ وہ اس اجازت پر ایسی پابندیاں عائد کر دے جن سے موجودہ خرابیوں کی ممکن حد تک اصلاح ہو سکے۔ کمیشن نے اپنے اس نقطہ نظر کی تائید میں یہ بھی کہا ہے کہ بیماری پیدا ہوجانے کے بعد اس کے علاج کی فکر کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ بیماری کے سبب ہی کا خاتمہ کر دیا جائے۔
سورہ نسا کی آیت سے متعلق کمیشن کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ ایک ہنگامی ضرورت کے موقع پر مسلمانوں کو تعدد ازدواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی اجازت تو پہلے ہی سے موجود تھی۔ چنانچہ اسی اجازت کے تحت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں ایک سے زیادہ بیویاں تھیں اور صحابہ میں سے بھی بہت سے لوگوں نے ایک سے زیادہ نکاح کر رکھے تھے۔ اس آیت نے اجازت دی نہیں بلکہ سابق اجازت سے اس ایمرجنسی میں فائدہ اٹھانے کی مسلمانوں کو ہدایت کی جس سے اس وقت مسلمان دو چار تھے اور مزید برآں اس نے سابق اجازت پر چند پابندیاں بھی عائد کر دیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے سبب یہ نہیں ہوا کہ یتیموں اور بیواؤں کی مصلحت کے تحت مسلمانوں نے ایک سے زیادہ نکاح کرنے شروع کیے ہوں بلکہ ہوا یہ کہ جن کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں انھوں نے ان کو طلاق دے دی اور جو لوگ عدل کا اہتمام نہیں کر رہے تھے وہ عدل کا اہتمام کرنے لگے۔
اس وجہ سے یہ کہنا تو بالکل ہی غلط ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کو محض یتیموں اور بیواؤں کی مصلحت کے تحت ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی تھی۔ اگر کہی جا سکتی ہے۔۔۔تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کو تعدد ازدواج کی جو اجازت پہلے سے حاصل تھی، اس آیت نے اس اجازت کو ایک خدمت اور ایثار کے لیے استعمال کرنے کی تلقین کی، وہ یہ کہ وہ ان کو یتیموں کی مصلحت کے لیے استعمال کریں اور حتی الامکان ان کی ماؤں سے نکاح کریں تاکہ یتیموں کا مسئلہ بھی حل ہو اور بیواؤں کی امداد اور پرورش کی بھی ایک صورت پیدا ہو۔
اسلام نے تعدد ازدواج کی اجازت صرف یتیموں ہی کی مصلحت کے تحت نہیں دی ہے بلکہ بہت سی مصلحتوں کے تحت دی ہے جن میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے:
۱۔ بعض اوقات دین کے مصالح کا تقاضا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے اور ان میں سے کسی ایک نکاح میں بھی یتامیٰ کی مصلحت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ البتہ بحیثیت مجموعی دین کی مصلحت آپ کے تعدد ازدواج میں نمایاں نظر آتی ہے۔ سورہ احزاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو جو نصیحتیں اللہ تعالی نے فرمائی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دین کی جو ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی تھی اس میں آپ کی ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔ ان کو یہ ہدایت ملی ہوئی تھی کہ تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں پڑھی جاتی ہیں ان کا چرچا کرو چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ خواتین کے طبقے میں شریعت کی باتیں زیادہ تر امہات المومنین ہی کے ذریعے سے پہنچیں عموماً وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خواتین کے درمیان واسطہ بنتی تھیں اور آپ سے دین کو سیکھ کر امت کی بہنوں، بیٹیوں کو سکھاتی تھیں۔ اس سلسلے میں ازواج مطہرات کا سب سے بڑا ایثار جس کے بار ممنونیت سے کسی شخص کی بھی گردن نہیں اٹھ سکتی یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی حصہ بھی پرائیویٹ نہیں رہ گیا۔ جو باتیں میاں اور بیوی کے درمیان راز ہوا کرتی ہیں اور کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کی ٹوہ لگائے اور نہ کوئی ازخود ان کو ظاہر کرنا پسند کرتا ہے ازدواج مطہرات کی وہ باتیں بھی امت کی تعلیم کے لیے لوگوں کے سامنے آئیں، اور یہ انہی چیزوں کی برکت ہے کہ ہماری پرائیویٹ زندگی کے نہاں خانوں میں بھی تزکیہ کی روشنی داخل ہوئی۔ خصوصیت کے ساتھ اس تعلیم و تزکیہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کا جو حصہ ہے اس کی شکر گزاری کے حق سے نہ تو عورتیں کبھی سبکدوش ہو سکتیں اور نہ مرد۔
۲۔ بعض اوقات قومی اور سماجی مصالح کا تقاضا ہوتا ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کریں۔ اس کی بہترین مثال خود سورہ نسا کی مذکورہ آیت ہی میں ہے۔ جب جنگ کے سبب سے یتیموں اور بیواؤں کا مسئلہ مسلمانوں کے سامنے آیا تو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا کہ ان کو معاشرے میں باعزت جگہ دلانے کے لیے تعدد ازدواج کی موجودہ اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ آج بعینہ یہی مسئلہ انگلستان اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں پچھلی دو جنگوں کے سبب سے پیدا ہو گیا ہے اور اس نے ان کے پورے سماجی نظام کو تہہ و بالا کر دیا ہے، لیکن وہاں کے لال بجھکڑ لوگ ساری ذلتیں جھیل رہے ہیں۔ گلی گلی عورتیں ماری ماری پھر رہی ہیں لیکن یک زوجگی کا قانون ان کے پاؤں میں ایک ایسی زنجیر بن کے رہ گیا ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھانا ان کے لیے ناممکن ہے۔ آج انگلستان وغیرہ میں اس قانون کے سبب سے عورتوں کا جو حال ہے اس کا اندازہ ایک نامہ نگار کے مندرجہ ذیل بیان سے کیجیے:
۱۹۱۴ اور ۱۹۳۹ کی عالمگیر جنگوں نے انگلستان میں عورتوں کا تناسب مردوں سے زیادہ کر دیا ہے۔ چنانچہ یہاں اکثر عورتیں شادی کا ارمان دل ہی میں لیے ہوئے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یوں تو وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن زندگی کا حقیقی سکون انھیں میسر نہیں آتا۔ لندن کے ایک پادری صاحب کہتے ہیں کہ آج کل اگر غلطی سے کسی دوشیزہ کو شادی شدہ سمجھ لیا جائے تو وہ چند لمحوں کے لیے باغ باغ ہوجاتی ہے۔
اکثر کنواری لڑکیوں نے زندگی کا مقصد ہی شادی سمجھ رکھا ہے وہ شادی کے لیے ماری ماری پھرتی ہیں اور انھیں جو لڑکا بھی مل جاتا ہے اسے اپنا ممکن شوہر سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔
پادری صاحب مزید فرماتے ہیں:
جو دوشیزائیں مسز کہلا سکتی ہیں وہ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع سمجھنا شروع کر دیتی ہیں اوراحساس برتری کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سہیلیوں کو ذرا نفرت سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں جن کو شوہر نہیں ملتے۔ عام لڑکیاں جب ایک دوسری سے ملتی ہیں تو سب سے پہلے ان کی نگاہیں دوسری کی انگلی میں ’’شادی کی انگوٹھی‘‘ تلاش کرتی ہیں۔ ان حالات میں لڑکیاں شادی کے خیال ہی سے محبت شروع کر دیتی ہیں۔‘‘
پادری صاحب نے گلہ کیا ہے کہ:
لڑکی جونہی پندرہ کے سن میں پہنچتی ہے اسے شادی کا خیال ستانا شروع کر دیتا ہے۔ دراصل یہ شکایت فضول ہے۔ انگلستان اوریورپ میں مردوں کی کمی ایک مسئلہ بن چکی ہے اورمغربی تہذیب میں بے راہ روی کے جو گھناؤنے مظاہرے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہی مردوں کی کمی ہے۔ عورت کی شادی کی خواہش ایک قدرتی خواہش ہے لیکن مغرب کے داناؤں نے اس کا علاج یہ نکالا ہے کہ مرد شادی تو ایک ہی کرے لیکن عیاشی جتنی عورتوں سے چاہے کرے۔ مغربی تہذیب، مذہب اور قانون یہ تو برداشت کر لیتے ہیں کہ شادی شدہ مرد داشتہ رکھ لے لیکن دوسری شادی ان کے نزدیک معیوب اور خلاف تہذیب ہے۔
لندن میں تمام ملک سے لڑکیوں کی کھنچ کھنچ کر جمع ہونے کے اسباب اور وہاں ان کے۔۔۔مشاغل کی تفصیل نامہ نگاریوں بیان کرتا ہے:
’’گھر میں ماں ’’بوائے فرینڈ‘‘ سے ملنے پر اعتراض کرتی تھی، یہاں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں۔ منگیتر سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ ایکٹرس بننے کا شوق بھی صاحبزادوں کو چراتا ہے اورکچھ دنیا دیکھنے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہیں اور پھر یہاں پر سینکڑوں شاخوں والے ’’لائنز‘‘ اوراے بی سی کے سستے کھانے والے ریستوران ہیں جہاں ہزاروں لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ ’’ول ورتھ‘‘ اور ’’اسپنسر اینڈ مارکس‘‘ کے وسیع و عریض اسٹوروں میں ’’شاپ گرل‘‘ بن سکتی ہیں۔ ہوٹلوں میں ’’ویٹرس‘‘ بن سکتی ہیں۔ سکرٹری بن سکتی ہیں اور فوٹو گرافوں کے ’’ماڈل‘‘ اور ہندوستانی اور پاکستانی ’’شہزادوں‘‘ کے ’’حرم‘‘ کی زینت ان میں سے اکثر چار پانچ پونڈ سے لے کر سات آٹھ پونڈ فی ہفتہ تک کماتی ہیں جس سے بمشکل اپنا ضروری خرچ چلاتی ہیں اور جنھیں کچھ بچا کر اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی بھیجنا ہوتا ہے۔ وہ زندہ رہنے کے لیے پوری غذا بھی نہیں کھا سکتیں۔۔۔اور تقریباً تمام ہی شام کو تفریح کے لیے ’’شکار‘‘ کی تلاش میں رہتی ہیں جو انھیں پکچر دکھا دے، ریستوران میں ایک وقت کا کھانا کھلا دے یا کسی اچھے کافی ہاؤس میں کافی کی ایک پیالی ہی پلا دے اور انھیں اس ’’آزادی‘‘ اور ’’دنیا دیکھنے‘‘ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’یہاں عورت آزاد ہے لیکن اس کی حالت قابل رحم ہے۔ یہاں عام عورت کی کوئی عزت نہیں۔ کوئی مقام نہیں۔ اگر وہ مشرق کی ’’مظلوم عورت‘‘ کی ’’جیل کی زندگی‘‘ کی ایک جھلک دیکھ لے تو آزادی اور مساوات سے فوراً توبہ کر لے۔ یہاں ہزاروں عورتیں ساری عمر گھر اور اولاد کو ترستے ہوئے زندگی بسر کر دیتی ہیں اور انھیں اپنی مظلوم اور کس مپرسی کا پورا احساس ہوتا ہے۔‘‘
یہ ہے انگلستان اور یورپ کے اکثر ملکوں کے معاشرے کا حال۔ قوم کی قوم آبرو باختہ بن کر رہ گئی ہے۔ عفت اور پاکدامنی کا تصور بھی ذہنوں سے غائب ہو چکا ہے۔ مرد عورت کے تعاقب میں چیخ اٹھے ہیں اور عورت نے مرد کی جستجو میں شرم وحیا کے سارے پردے اٹھا دئیے ہیں۔ یہ سب کچھ صاحب لوگوں کو گوارا ہے لیکن اگر نہیں گوارا ہے تو تعدد ازدواج جو اس مشکل کا واحد حل ہے۔
____________