کمیشن کی سفارش یہ ہے کہ یہ بات ازروئے قانون جائز کر دی جائے کہ اگر عورت کو مرد کی طرف سے معاہدہ نکاح میں حق طلاق تفویض کر دیا گیا ہو تو وہ بھی مرد کی طرح طلاق دے سکتی ہے۔
اس بات کو جائز ثابت کرنے کے لیے پہلے کمیشن نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ معاہدہ نکاح میں ایسی شرطیں شامل کی جا سکتی ہیں یا نہیں جو اسلام اور اخلاق کے منافی نہ ہوں اور ان شرطوں کو عدالتوں کے ذریعے سے نافذ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ پھر اسی کے ساتھ ایک دوسرا سوال یہ جوڑ دیا گیا ہے کہ یہ بات جائز ہے یا نہیں کہ ازروئے قانون یہ صحیح تسلیم کیا جائے کہ معاہدہ نکاح میں یہ شرط درج ہو سکتی ہے کہ عورت کو بھی اعلان طلاق کا وہی حق حاصل ہو گا جو مرد کو حاصل ہے؟
کمیشن کے نزدیک ان دونوں سوالوں کا جواب قطعی اثبات میں ہے۔ اس وجہ سے اس کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کے تجویز کردہ معیاری نکاح نامہ میں یہ شرط شامل کر دی جائے کہ عورت کو بھی طلاق دینے کا اسی طرح حق حاصل ہو گا جس طرح شوہر کو حاصل ہو گا۔ معاہدہ نکاح میں اس شرط کے درج ہو جانے کے بعد عدالت کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ شوہر کو اس شرط کے ایفا پر مجبور کرے۔
اس کے جواز کی تائید میں کمیشن نے شرح وقایہ سے فقہ کا ایک جزئیہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یہ کہہ بیٹھے کہ ’’تو جب چاہیو اپنے اوپر طلاق وارد کر لیجیو‘‘ تو عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جب چاہیے اپنے اوپر طلاق وارد کر سکتی ہے۔
نکاح کی شرائط کے متعلق چند باتیں اصولی طور پر پیش نظر رکھنی چاہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جو چیزیں رشتہ ازدواج کے فطری اور اخلاقی تقاضوں میں ازخود شامل ہیں۔ ان کے سوا دوسری نئی نئی شرطیں ایجاد کرنا اور ان کو شرائط نکاح کی حیثیت سے میاں بیوی کا ایک دوسرے پر عائد کرنا اور ان کو ایک معاہدہ نکاح میں درج کر کے عدالتوں کے ذریعے سے نافذ کرانے کی کوشش کرنا منشائے اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ مرد بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرے۔ اس کے نان نفقہ کا بار اٹھائے، جو پہنے وہ پہنائے، جو کھائے وہ کھلائے، اس کے آرام و راحت کا خیال رکھے۔ اگر اس کے کوئی اور بیوی بھی ہو تو دونوں کے درمیان عدل کرے، یہ سب نکاح کے فطری تقاضے ہیں اور ان کا پورا کرنا اس معاہدہ کے رو سے ضروری ہے جو بندہ خدا سے کر چکا ہے، خواہ یہ باتیں کسی ’’معیاری نکاح نامہ‘‘ میں درج ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ شوہر کے جذبات اور اس کی خواہشوں کو ملحوظ رکھے۔ اس کے گھر اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال اپنے فرائض میں سمجھے۔ اس کے بستر کو کسی غیر سے پامال نہ کرائے۔ اس کے رنج و راحت کی شریک بنے اس کے رازوں کی حفاظت کرے۔ ان ساری باتوں کی پابندی اس معاہدے کی رو سے عورت پر واجب ہے جو اپنے آپ کو کسی مرد کے حبالہ عقد میں دے کر اس نے اپنے رب سے کیا ہے، خواہ یہ باتیں کسی معاہدہ نکاح میں درج ہوں یا نہ ہوں۔ ان فطری شرائط کے سوا دوسری نئی نئی شرطیں ایجاد کرنا اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ان شرطوں سے باندھنے کی کوشش کرنا جیسا کہ عرض کیا گیا ہے، اسلام کے منشا کے بالکل خلاف ہے۔ اس سے باہمی اعتماد و محبت کے بجائے شروع ہی سے میاں اور بیوی کے درمیان بدگمانی اور بے اعتمادی کی ایک بنیاد پڑ جاتی ہے اور جب بنیاد ہی غلط پڑ جائے تو آگے چل کر عمارت کا ٹھیک بننا کس طرح ممکن ہے؟ بخاری شریف میں یہ جو حدیث ہے کہ احق الشروط ان تو فوابہ ما استحللتم بہ الفروج (سب سے زیادہ پوری کیے جانے کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے سے تم نے ایک عورت کو اپنے لیے جائز کیا ہے) اس سے مراد خود ایجاد کردہ نئی نئی شرطیں نہیں ہیں بلکہ وہی شرطیں ہیں جو رشتہ ازدواج کے مقتضیات میں شامل ہیں اور جن کا ذکر خود قرآن و حدیث میں پوری وضاحت کے ساتھ آ گیا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب یہ ہے کہ جو شرطیں کتاب اللہ میں نہیں ہیں وہ سب باطل ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر ایسی شرط جو رشتہ ازدواج کے مطالبات کے منافی ہو یا سرے سے اس اسکیم ہی کو تلپٹ کر دینے والی ہو جو اللہ تعالی نے ہمارے عائلی نظام کے لیے پسند فرمائی ہے، وہ باطل ہے اس بات میں تو ہمارے فقہا کے درمیان اختلاف ہوا ہے کہ صرف یہ شرطیں ہی باطل ہوں گی، نکاح باقی رہے گا، یا ساتھ ہی نکاح بھی باطل ہو جائے گا لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ اس طرح کی تمام شرطیں باطل ہیں۔ اگر کوئی خاص ضرورت داعی ہے تو مرد معاہدہ نکاح میں یہ شرط تو کر سکتا ہے کہ وہ مہر فوراً ادا کر دے گا یا ایک خاص مدت کے اندر اندر ادا کر دے گا یا رہن کے طور پر وہ کوئی چیز بیوی کے قبضے میں دے دے گا یا کوئی دوسری ضمانت دے گا یا اس کے نان نفقہ یا اس کی رہائش سے متعلق وہ کوئی انتظام اس کی خواہش کے مطابق کر دے گا لیکن کوئی شرط میاں یا بیوی کی طرف سے معاہدہ نکاح میں اس قسم کی شامل نہیں کی جا سکتی کہ مرد بیوی سے ملاقات نہیں کرے گا۔ یا اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا، یا پہلی بیوی کو نان نفقہ نہیں دے گا، یا اس کے لیے باری مقرر نہیں کرے گا۔ اس طرح کی تمام شرطیں مقاصد نکاح کے بالکل منافی ہیں، علی ہذا القیاس مرد معاہدہ نکاح میں اپنے ان حقوق اور ان ذمہ داریوں سے بھی استعفا نہیں دے سکتا جو اس پر بحیثیت قوام کے عائد ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنے گھر کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دے گا، بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی شادی بیاہ کے معاملات سے بے تعلق رہے گا۔ نشوز پر بیوی کو کبھی تادیب نہیں کرے گا بیوی کی آمد و رفت پر کوئی اعتراض نہ کرے گا۔ اخلاقی اور مذہبی کمزوریوں پر گرفت نہیں کرے گا کبھی اس کو بستر میں تنہا نہیں چھوڑے گا، یا کسی حالت میں اس کو طلاق نہیں دے گا۔
یہ سارے حقوق و فرائض اللہ تعالی نے درحقیقت مرد اور عورت دونوں کی فطرت کی بنیاد پر قائم کیے ہیں اور بما فضل اللہ بعضھم علی بعض (بوجہ اس کے کہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے) الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے۔ اب اگر یہ ایک امر واقعہ ہے کہ نہ عورت مرد کی فطرت اختیار کر سکتی ہے اور نہ مرد عورت کی فطرت اختیار کر سکتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ یہ حقوق و فرائض بھی قابل انتقال نہ ہوں اگر دھاندلی کر کے ان کو تلپٹ کرنے کی کوشش کی گئی جن حقوق کو مرد ہی کے لیے استعمال کرنا موزوں تھا وہ عورت کے سپرد کر دئیے گئے یا جن ذمہ داریوں کے لیے عورت ہی موزوں ہو سکتی تھی وہ اٹھا کر مرد پر ڈال دی گئیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ ہمارا سارا عائلی نظام درہم برہم ہو کے رہ جائے۔
ان دو اصولی باتوں کے بعد اب طلاق کی تفویض کے مسئلے کو لیجیے اور اس پر مختلف پہلوؤں سے غور کیجیے۔
۱۔ میں تھوڑی دیر کے لیے اس بات کو صحیح تسلیم کیے لیتا ہوں کہ ایک مرد اگر اپنی بیوی سے یہ کہہ بیٹھے کہ طلقی نفسک متی شئت (نیک بخت، جا تو جب چاہیو اپنے اوپر تین طلاقیں وارد کر لیجیو) تو عورت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ زندگی میں جب چاہے اپنے اوپر تین طلاقیں وارد کر کے میاں کے گھر سے رخصت ہو جائے لیکن کیا کتاب و سنت کا وظیفہ پڑھنے والے ارکان کمیشن اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کے نفاذکو بدعت سئیہ قرار دینے والے یہ فقہائے گرامی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے طلاق کا مسنون طریقہ امت کو یہی سکھایا ہے؟ کیا قرآن و حدیث میں نکاح کا یہی طریقہ بتایا گیا ہے کہ ہر مرد نکاح کے وقت ایک ’’معیار نکاح نامہ‘‘ میں طلقی نفسک متی شئت‘‘ لکھ کر اس پر اپنا انگوٹھا ثبت کر دیا کرے؟ ہرشخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ بات اگر کہہ سکتا ہے تو ایک عورت بیزار شخص ہی کہہ سکتا ہے جس کو بیوی کے چھوڑنے یا رکھنے کی کوئی پروا نہ ہو۔ بلکہ وہ چاہتا ہو کہ جب بھی اس کا جی چاہے وہ دفع ہو جائے۔ اس کے اس قول پر اس پہلو سے تو غور ہو سکتا ہے کہ اس طرح عورت کو اپنے اوپر طلاق وارد کر لینے کا اختیار حاصل ہو گیا یا نہیں۔ لیکن یہ تو کسی عاقل آدمی کے ذہن میں خیال بھی نہیں گزر سکتا کہ اس طرح کے بیزارانہ قول کو ایک اصول دین قرار دے کر اس کو ایک معیاری نکاح نامہ میں ثبت کر دیا جائے اور پھر پوری مسلمان قوم کے ہر نکاح کرنے والے مرد سے اس پر انگوٹھے لگوا لیے جائیں۔ کیا جو نکاح مودت اور سکنیت کی سب سے بڑی بنیاد تسلیم کیا گیا ہے اورجس کے توڑنے کو اسلام نے انتہائی کراہت کے ساتھ گوارا کیا ہے اس کو ارکان کمیشن یہ شکل دینا چاہتے ہیں کہ اس کا آغاز ہی میاں اور بیوی کی طرف بیزاری سے ہو؟ اور جو طریقہ طلاق کے لیے بھی ایک نہایت غلط اور بھونڈا طریقہ ہے وہ نہ صرف طلاق کے لیے بلکہ نکاح کے لیے بھی ہمارے ملک میں اختیار کر لیا جائے؟ اور ہر نکاح کا آغاز ہی طلاق کے منحوس انتظام سے ہو؟
۲۔ دوسری بات یہ کہ اگر شرح وقایہ کے اس جزئیہ کو ایک اساس دین کا درجہ دے بھی دیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کس حیثیت سے اس اختیار کو استعمال کرے گی؟ اگر اس حیثیت سے استعمال کرے گی کہ مرد نے اپنا حق طلاق عورت کو تفویض کر دیا ہے تو پھر مرد کے پاس حق طلاق کہاں باقی رہا۔ اس نے تو اپنا حق عورت کے حوالہ کر دیا۔ اب اگر مرد طلاق دینے کی ضرورت محسوس کرے (اور بعض حالتیں ایسی بھی ہیں جن میں مرد پر بیوی کو طلاق دینا واجب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں یہ حضرت کیا کریں گے؟ کیا شادی بیاہ کی عدالت میں خلع کی درخواست لے کر جائیں گے کہ خدا کے لیے میری بیوی سے مجھے چھڑاؤ میں اس کے مہر سے باز آیا؟ یا اسی بیوی کے ساتھ مجبورانہ بندھے رہیں گے اگرچہ وہ کھلم کھلا دوسروں سے آشنائی کرتی پھرے۔ اور اگر میاں اس پر معترض ہوں تو تھوڑی سی ان کی مرمت بھی کر دیا کرے؟ اگر کوئی صاحب یہ فرمائیں کہ یہ حق طلاق شوہر کو بھی حاصل رہے گا تو میرے نزدیک یہ تفویض نہیں ہوئی بلکہ ایک مستقل تشریع ہوئی، جس کا حق اللہ اوررسول کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں۔ طلاق کا حق قرآن نے تو صرف مرد کو دیا ہے اور یہ حق جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں عورت کی طرف سے منتقل کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب یہ فرمائیں کہ جس طرح ایک شخص نکاح کے معاملے میں کسی شخص کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے۔ اسی طرح طلاق کے معاملے میں بھی وہ کسی کو اپنا وکیل بنانے کا مجاز ہے اس وجہ سے اگر اس نے بیوی ہی کو اپنا وکیل بنا دیا تو یہ توکیل کی صورت ہو گی اور یہ جائز ہے۔ اس توکیل پر مجھے کئی اعتراض ہیں۔
اول تو یہ کہ احناف کے نزدیک کسی شخص کے لیے کسی شخص کو وکیل بنانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ وہ بیماری یا غیر حاضری یا کسی دوسرے مانع کے سبب سے اپنے معاملے کی ذمہ داریوں سے خود عہدہ برا ہونے کے پوزیشن میں نہ ہو۔ اگر ایک شخص خود برسر موقع موجود ہے تندرست ہے اور اپنی ذمہ داری کو خود بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے تو اس کے کسی دوسرے کو وکیل بنانے کے کیا معنی؟ آخر اس نے کس وجہ سے عورت کو طلاق دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہے؟ کیا اس معاملے کو انجام دینے کے لیے مرد برسر موقع موجود نہیں ہے؟ یا اس کی زبان گنگ ہے؟ یا طلاق دینا کوئی ایسا مشکل فن ہے جس کے لیے مرد کے پاس کافی قابلیت نہیں ہے اور عورت اس میں مہارت رکھتی ہے؟
دوسرا یہ کہ نکاح کے معاملے میں عورت کو وکیل بنانا مالکیہ اور شوافع کے نزدیک ناجائز ہے۔ اگر نکاح کے معاملے میں ناجائز ہے۔ تو میرے نزدیک طلاق کے معاملے میں اس کی وکالت بدرجہ اولی ناجائز ہونی چاہیے۔ بالخصوص جب کہ وہ طلاق اسے اپنے ہی اوپر وارد کرتی ہے۔ اس شخص سے بڑھ کر کون ’’احمق‘‘ ہو سکتا ہے جو اپنے مدعا علیہ ہی کو اپنے مقدمہ میں اپنا وکیل بنا لے۔
تیسرا یہ کہ عورت کو اپنا وکیل بنا دینے کے بعد مرد حق طلاق کو اس وقت تک استعمال نہیں کر سکتا، جب تک وہ وکیل کو معزول نہ کرے یا وکیل اس کو اس کا حق واپس نہ کر دے۔ جو صورت کمیشن نے تجویز کی ہے اس میں وکیل کی معزولی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر عورت یہ حق مرد کو واپس کردے تو پھر اس کے پاس حق طلاق باقی نہیں رہتا اور اگر نہ واپس کرے تو مرد اس حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھر طلاق کے معاملے میں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کہاں ہوئی؟
تیسری بات یہ کہ معاہدہ نکاح میں یہ شرط کس نوعیت سے داخل کی جائے گی؟ کیا ہر مرد کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کرے؟ یا یہ شرط اختیاری ہو گی جس کا جی چاہے تفویض کرے، جس کا جی نہ چاہے وہ تفویض نہ کرے؟ اگر دوسری صورت ہے تو ہمارے معاشرے میں ایسے احمق مرد بہت کم نکلیں گے جو خود اپنے پاؤں میں یہ کلہاڑی خود اپنے ہی ہاتھوں مارنے پر راضی ہوں گے؟ اور اگر یہ شرط جبری ہو گی ہر مرد کے لیے ضروری ہو گا کہ یہ شرط معاہدہ نکاح میں تسلیم کرے، تو یہ طلاق تفویض نہیں ہوئی بلکہ یہ طلاق مکروہ ہو گئی کیونکہ مرد کو اس بات پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ طلاق کا اختیار جو ازروئے شرع صرف اسی کو حاصل ہے، اپنی بیوی کے حوالے کر دے۔
یہ طلاق مکرہ وہی شے ہے جس کے خلاف حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جابر عباسی خلیفہ کے مقابل میں صدائے احتجاج بلند کی اور اس جرم میں ان کی مشکیں کس کے تشہیر و تذلیل کے ارادے سے ان کو اونٹ پر سوار کرایا گیا لیکن یہ امام جلیل بجائے اس کے کہ اس ابتلا سے پست ہمت اور مرعوب ہوتے اعلان حق کے لیے اونٹ پر تن کر کھڑے ہو گئے اور تاریخ میں یاد رہ جانے والا یہ فقرہ فرمایا کہ: ’’جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہنچانتا ہے جو نہ پہچانتا ہو وہ اب پہنچا لے میں مالک بن انس ہوں اوریہ اعلان کرتا ہوں کہ طلاق مکرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد ان کی مشکیں اس زور کے ساتھ کسی گئیں کہ ان کے بازو چڑ چڑا اٹھے۔
ممکن ہے کسی صاحب کو یہ خیال ہو کہ آخر طلاق مکرہ بھی تو بعض فقہا کے نزدیک جائز ہے، پھر کیا مضائقہ ہے، اگر ہم اپنے عائلی نظام کی بنیاد اسی پر قائم کر لیں۔ ان کے اطمینان کے لیے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو اس کو جائز سمجھتے ہیں وہ بھی ہر شکل میں اس کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ صرف اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب قانون اور عدالت سے اس اکراہ کا مداوا ممکن نہ ہو، مثلاً یہ کہ کوئی مستبد حکمران کسی کو مجبور کر کے اس کی بیوی کو طلاق دلوا دے ایسی صورت میں اس کو جائز قرار دینے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر اس کو جائز نہ قرار دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس عورت کا کسی بھی دوسرے شخص سے نکاح زنا کے حکم میں ہے اور اس سے جو اولادیں پیدا ہوں وہ سب حرامی ٹھہریں۔ عورت کو اس مفسدہ سے بچانے کے لیے بعضوں نے اس کو جائز قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ یہ نقطہ نظر صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ جو مرد یا عورت مکرہ کے حکم میں ہے اس کے اوپر جہاں تک آخرت کا تعلق ہے، وہاں تو کوئی مواخذہ ہے نہیں۔ رہے دنیا کے معاملات تو ان میں اگر اس کے سبب سے کوئی مفسدہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوا کرے۔ چند افراد کو ایک فرضی مفسدہ سے بچانے کے لیے پوری قوم کے لیے مفسدہ کا دروازہ کھول دیا گیا۔
تاہم اگر طلاق مکرہ کسی مذہب فقہی میں مطلقاً بھی جائز ہو تو اس کا جائز ہونا اور چیز ہے اور اسے ایک مطلوب شے قرار دے کر دنیا کے ہر مرد پر ازروئے ضابطہ مسلط کر دینا اور شے۔ کیا کسی مذہب فقہی میں یہ بھی جائز ہے؟
۴۔ اگر طلاق تفویض کا یہ طریقہ چل پڑے تو ہماری گھریلو زندگی کا جو نقشہ بنے گا آج اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ مرد اگر طلاق دیتا ہے تو اس کو اس معاملے کے ہزار پہلو سوچنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے سامنے اپنی عزت و شہرت (جیسی کچھ بھی وہ ہے) کا سوال آتا ہے، اگر بچے ہیں تو بچوں کی پرورش و تربیت کا مسئلہ آتا ہے اور یہ مسائل اس کے لیے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ جب تک وہ انتہائی حد تک مجبور نہ ہو جائے بیوی کو طلاق دینے کی جرات نہیں کرتا۔ لیکن اگر یہ حق اس نے بیگم صاحبہ کی طرف منتقل کر رکھا ہے تو کوئی ذرا سی بات بھی بیگم صاحبہ کو اس قدر برہم کر دے سکتی ہے کہ وہ اپنے اوپر تین طلاقیں وارد کر کے چل کھڑی ہوں۔ کیونکہ نہ تو ان کو مہر ادا کرنا ہے، نہ زمانہ عدت کا خرچ برداشت کرنا ہے۔ نہ چھوٹے بچوں کے زمانے حضانت و رضاعت کی کفالت کا کوئی بار ان کے اوپر ہے۔ وہ تو کچھ کھوئیں گی نہیں بلکہ طلاق کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ مرد سے وصول ہی کریں گی۔ مرد غریب پر تو کمیشن نے یہ پابندی بھی عائد کرنی چاہی ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو کسی عدالت میں حاضر ہو کر اس کا کوئی معقول سبب بتائے اگر نہ بتا سکے تو عورت کے نکاح ثانی یا اس کے حین حیات تک کے لیے اس کی کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے۔ عورت پر کمیشن نے اس قسم کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے اور ڈالے بھی کیوں؟ مردوں کو تو عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کا پابند اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ طلاق کے معاملے میں ان کی بے احتیاطیوں کا پورا پورا تجربہ کمیشن کو ہو چکا ہے۔ عورتوں کے بارے میں یہ پورا اطمینان ہے کہ نہ انھوں نے کوئی کام بھی بے احتیاطی سے کیا ہے نہ آئندہ کوئی اندیشہ ہے کہ اگر طلاق کی تلوار ان کے ہاتھ میں پکڑا دی گئی تو وہ کبھی اس کے استعمال میں بے احتیاطی برتیں گی۔
کمیشن کی سفارش یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں جو دے دی جاتی ہیں وہ بائن نہ قرار دے دی جائیں۔ بلکہ ان کو ایک ہی شمار کیا جائے اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ ازروئے قانون وہی طلاق جائز شمار کی جائے گی جو تین طہروں میں الگ الگ دی گئی ہو۔
کمیشن نے اپنی اس سفارش کی تائید میں حضرت ابن عباسؓ کی وہ مشہور روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عن کے دور امارت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگ طلاق کے معاملے میں جلد بازی اور بے احتیاطی برتنے لگے تو انھوں نے بطور تعزیر اس طرح دی ہوئی طلاقوں کو بائن قرار دے دیا۔
کمیشن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواہ کسی مصلحت سے یہ بات کی ہو، یہ دین میں ایک بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے۔ کمیشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اس فعل پر نادم بھی ہوئے تھے اور انھوں نے خود اس بات کا اقرار کیا کہ ان کو دین میں اس طرح کی کسی ایجاد کا حق نہیں تھا اور یہ کہ اس سے لوگوں کو طلاق کے معاملے میں بڑی ڈھیل حاصل ہو گئی۔
اس مسئلے کے بابت میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بائن ہونے پر نہ صرف چاروں آئمہ متفق ہیں بلکہ اکثر صحابہ جمہور تابعین اور جمہور فقہا سب متفق ہیں۔ یہی مذہب خلفائے راشدین میں سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ یہی مذہب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ یہی مذہب خود ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جن کی روایت کی بنا پر کمیشن نے اس مذہب کو بدعت ضلالت قرار دیا ہے۔ قابل ذکر لوگوں میں سے ایک ابن حزم اس کے مخالف ہیں اور متاخرین میں سے امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ انہی دونوں جلیل القدر بزرگوں کی مخالفت نے اس مخالف مذہب میں ایک جان ڈالی ورنہ اس کے خلاف کوئی ایسی آواز سلف یا خلف میں موجود نہیں تھی جس کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہو۔ میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے گہری عقیدت رکھتا ہوں تاہم اس عنوان پر استاد اور شاگرد دونوں کی تحریریں تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد میں نہایت ادب کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں جمہور کا مذہب اپنے اندر زیادہ قوت رکھتا ہے۔
اس باب میں جو احادیث وارد ہیں ان کے مطالعے سے یہ دعویٰ تو بالبداہت غلط معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حدیثیں دونوں طرح کی ملتی ہیں۔ زیادہ ایسی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین یا تین سے زائد طلاقوں کو بائن قرار دیا گیا اور بعض ایسی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس باب کی حدیثوں میں یہ اختلاف کیوں ہے۔ کیا ایک ہی معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے العیاذ باللہ مختلف اوقات میں مختلف فیصلے فرما دیئے۔ یا اس اختلاف فیصلہ کی کوئی ایسی وجہ موجود ہے جس کے واضح ہو جانے کے بعد دونوں طرح کی حدیثوں کے الگ الگ محمل متعین ہو جاتے ہیں؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں طرح کی حدیثیں دو مختلف نوعیت کی طلاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ کوئی شخص اٹھتا ہے اور عدد کی تصریح کے ساتھ اپنی بیوی کو مخاطب کر کے یہ کہہ دیتا ہے کہ تجھ پر تین طلاقیں یا تین ہزار طلاقیں یا اتنی طلاقیں جتنے آسمان میں ستارے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص عدد کی تصریح تو نہیں کرتا لیکن تین مرتبہ ’’تجھے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے۔ یا اس طرح طلاق دے دیتا ہے جس کو ہمارے فقہا طلاق البتہ سے تعبیر کرتے ہیں ان میں سے پہلی صورت کے جتنے معاملات حضور کے سامنے آئے ان میں آپ نے طلاق کو بائن قرار دیا بلکہ جن میں اعداد طلاق کا اسراف موجود تھا ان کے بارے میں آپ نے طلاق دینے والے کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمایا کہ تیری بیوی کے جدا ہونے کے لیے تو ان بہت سی طلاقوں میں سے صرف تین ہی کافی ہیں۔ بقیہ تیرے حساب میں لکھی جائیں گی اور یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ انھیں معاف کرے یا ان کے سبب تجھے سزا ملے۔ رہی دوسری صورت تو اس طرح کے جو معاملات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے ان میں حضور نے طلاق دینے والی کی نیت دریافت کی کہ فی الحقیقت اس طرح کہنے سے اس کا منشا کیا تھا، پیش نظر صرف ایک طلاق دینا تھا، لفظ کا اعادہ محض اظہار تاکید کے لیے تھا، یا وہ فی الواقع تین طلاقیں دینا چاہتا تھا۔ قائل نے اگر قسم کے ساتھ جواب دیا کہ وہ صرف ایک ہی طلاق دینا چاہتا تھا تو اس کی نیت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاق کو رجعی قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اگر طلاق دینے والے کے قول میں ادنیٰ گنجائش بھی اس بات کی موجود ہے کہ اس کی طلاق کو طلاق رجعی پر محمول کیا جا سکے تو اس کا فائدہ اسے حاصل ہونا چاہیے لیکن اگر نیت کی بحث کی کوئی گنجائش ہی اس نے نہیں چھوڑی ہے بلکہ صاف الفاظ میں عدد کی تصریح کے ساتھ طلاق دی ہے تو شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ طلاق اور نکاح کے الفاظ مذاق بنا کر رکھ دیئے جائیں۔
مسئلے کی یہ نوعیت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھی۔ اب آئیے اس سوال پر غور کیجیے کہ اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کیا تبدیلی کی جس کا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں فرمایا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ ہے کہ جب ان کے سامنے بکثرت معاملات طلاق کے ایسے آئے جن میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کی بد احتیاطی کی گئی تھی تو انھوں نے مذکورہ دونوں قسم کی طلاقیں خواہ عدد کی تصریح کے ساتھ دی گئی ہوں یا محض تکرار الفاظ کے ساتھ نیت اور ارادے کا سوال چھیڑے بغیر نافذ کر دیں۔ سیاست دین کی رو سے اس چیز کا ان کو پورا پورا اختیار حاصل تھا کیونکہ یہ نیت کا سوال محض ایک رعایت ہے جس سے وہ لوگ تو فائدہ اٹھانے کا حق رکھتے تھے جو کم علمی اور بے خبر کے سبب سے ایسا اتفاقیہ کر گزرتے تھے، لیکن جب بار بار کی تاکید و تنبیہہ کے بعد بھی لوگ باز نہیں آ رہے تھے بلکہ اس چیز نے ایک فتنہ کی صورت اختیار کر لی تھی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سابق طریقے کو بدل دینا ضروری سمجھا۔ اس فتنے کو بڑھانے میں اس امر کو بڑا دخل تھا کہ ایک مجلس میں دی ہوئی طلاقوں کی بعض صورتیں ایسی بھی تھی جن میں معاملے کا سارا انحصار طلاق دینے والے کی نیت پر رہ گیا تھا۔ ایک شخص جن الفاظ اور جس نیت سے بھی طلاق دے وہ اگر نیک نیت اور صادق القول نہ ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ اس پردہ میں اپنے آپ کو چھپا سکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس طریقہ طلاق میں بہت بے باک ہو گئے۔ طلاق کا لفظ ایک مذاق بن کے رہ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس فتنے کی شدت پوری طرح محسوس کر لی تو اس کا دروازہ بند کر دیا اور ہر طرح کی طلاقوں کو نافذ کر دیا۔ چونکہ اس کی مصلحت بالکل واضح تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا دروازہ بند کیا تھا جس کو بند ہی ہونا چاہیے تھا اس وجہ سے تمام صحابہ نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور اس پر ایک خلیفہ راشد کی رہنمائی میں تمام اہل علم کا اجماع ہو گیا۔
آخر بار بار کی تفہیم اور تاکیدی ممانعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے باوجود کہ ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم (کتاب اللہ کے ساتھ یہ مذاق، میری موجود گی میں؟) لوگ اس طریقہ طلاق میں جو اتنے دلیر ہوتے جا رہے تھے اس کی وجہ یہی تو تھی کہ بہتوں نے بیوی پر غصہ نکالنے کا اس کو ایک ذریعہ بنا لیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس وقت تو ہم نے طلاق مغلط کی دھونس جما دی ہے بعد میں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کہہ دیں گے کہ ہم نے تو صرف تاکید کے لیے طلاق کا لفظ دہرایا تھا۔ مقصود تین طلاقیں دینا نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو کسی مسلمان کے لیے اپنے ارادے کے متعلق غلط بیانی آسان نہ تھی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد میں ہر شخص کے بارے میں یہ حسن ظن کیسے کر سکتے تھے کہ وہ ضرور سچ ہی کہتا ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے دونوں قسم کی طلاقوں کو، اس کو بھی جو عدد کی تصریح کے ساتھ دی گئی ہو اور اس کو بھی جو محض لفظ طلاق کی تکرار کے ساتھ دی گئی ہو ایک ہی درجہ میں رکھا اور دونوں کو نافذ کر کے ہر شخص پر یہ واضح کر دیا کہ اب ایک مجلس میں تین طلاقیں جس شکل میں بھی دی جائیں گی وہ نافذ ہو جائیں گی، کسی کے لیے یہ کہنے کا اب موقع باقی نہیں رہا کہ میں نے صرف طلاق طلاق کا لفظ دہرایا تھا، نیت طلاق بائن کی نہ تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بدعت ہے اور بدعت بھی بدعت ضلالت؟ اگر یہ بدعت ہے تو تمام صحابہ و تابعین اور تمام آئمہ و فقہا اس پر کس طرح متفق ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنھا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کس طرح موقع دے دیا کہ انھوں نے اتنی بڑی بدعت کر ڈالی اور کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی مستبد بادشاہ نہ تھے، کمیشن کو خود اقرار ہے کہ ایک عورت بھی برسر منبران کو ٹوک دیتی تھی اور وہ بڑی فیاضی اور خوش دلی کے ساتھ اس کی بات سنتے اور اس کو قبول کر لیتے تھے۔ ایک ایسے مثالی عہد میں یہ کس طرح ممکن ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک اتنی بھاری بدعت کر گزریں اورلوگ چپ چاپ دیکھتے رہیں، کوئی زبان اس کے خلاف نہ کھلے۔ پھر لطف یہ کہ صرف ایک ہی خلیفہ راشد نہیں بلکہ بعد کے دونوں خلفا بھی اس پر متفق اور ان کے زمانوں کے تمام علما و فقہا بھی اس پر مطمئن رہے۔ اگر یہ بدعت ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہ پوری امت العیاذ باللہ ایک بدعت ضلالت پر متفق ہو گئی۔ درآنحالیکہ حدیث میں آیا ہے کہ امت ضلالت پر کبھی متفق نہ ہو گی۔
پھر یہ بیان بھی عجیب و غریب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر نادم ہوئے تھے۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو آخر انھوں نے ندامت محسوس کرتے ہی اس فیصلے کو بدل کیوں نہ دیا؟ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ضدی اور ہٹ دھرم تھے کہ دین کے معاملے میں اپنی ایک غلطی محسوس کر کے بھی اس پر جمے رہے؟ اور اگر کسی وجہ سے انھوں نے اس غلطی کی تلافی نہ کی تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ اس کی اصلاح کی؟
جن لوگوں نے اس کو طلاق بدعی کہا ہے انھوں نے ہرگز اس سے وہ بدعت مراد نہیں لی ہے جس کو کمیشن نے بدعت ضلالت (Undesir able innovation) غیر اسلامی (un-islamic) قرار دیا ہے بلکہ اس سے ان کی مراد طلاق کا وہ طریقہ ہے جو اگرچہ جائز تو ہے لیکن معیاری نسبت سے ہٹا ہوا ہے۔
دین کے اکثر احکام کے بجا لانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو وہ طریقہ ہے جس طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کو انجام دیا ہے۔ یا انجام دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ معیار اور مثالی طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ وہ ہے جس طریقے پر اگر وہ انجام دے دیا جائے تو اگرچہ وہ دین میں حد جواز کے اندر تو آ جائے گا لیکن معیار طریقے پر انجام نہ پانے کے سبب سے وہ صحیح طریقہ سنت سے ہٹا ہوا سمجھا جائے گا۔ چونکہ دین میں مطلوب معیاری سنت ہے اس وجہ سے اہل علم و تقویٰ اپنے اپنے دائرے کے اندر اس کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وضو کو لیجیے، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آدمی نیت اور بسم اللہ کے ساتھ وضو کا ارادہ کرے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے پھر کلی کرے اور ناک میں پائی ڈالے پھر تین تین مرتبہ اہتمام کے ساتھ ترتیب اور تسلسل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعضائے وضو دھوئے۔ پھر پورے سر کا مسح کرے، پھر پاؤں دھوئے اور اس بات کا خیال رکھے کہ ایڑیوں کا کوئی حصہ خشک نہ رہنے پائے، پھر وضو کی دعا پڑھ کر وضو کو تمام کرے۔ یہ وضو کا معیار طریقہ ہوا۔ اس کی ایک دوسری شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی مذکورہ باتوں میں سے بعض مستحبات کو ترک کر دے یا ترتیب میں کچھ گڑ بڑ کر دے یا سر کے مسح کے معاملے میں پورا اہتمام نہ کرے۔ صرف سر کے ایک قلیل حصے ہی کا مسح کر کے چھوڑ دے۔ وضو ہونے کو تو اس طرح بھی ہو جائے گیا لیکن معیاری سنت کے خلاف ہو گا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کی تفصیلات پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک تو حج کا وہ طریقہ تھا جس طریقہ پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صاحب علم صحابہ رضی اللہ عنھا نے حج کیا اور ایک طریقہ وہ تھا جس طریقے پر ان لوگوں نے حج کیا جن کو مناسک حج کی پوری تفصیلات کا اچھی طرح علم نہیں تھا۔ اس طرح کے کتنے لوگ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے مناسک کی ادائیگی کے معاملے میں اپنی مختلف کوتاہیوں یا ترتیب کی غلطیوں کا ذکر کیا۔ آپ نے ان کی غلطیوں کی تو اصلاح فرمائی لیکن کسی کو یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا حج ہی نہیں ہوا۔
اسی طرح طلاق دینے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھایا ہے۔ یہ طریقہ معیاری طریقہ ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر اسی طریقہ پر طلاق دی جائے گی تب تو طلاق واقع ہو گی اور اگر اس طریقہ پر نہیں دی جائے گی تو سرے سے واقع ہی نہیں ہو گی۔ واقع تو اس طرح بھی ہو جائے گی، البتہ چونکہ معیاری طریقہ پر نہیں ہو گی اس وجہ سے ان برکتوں سے خالی ہو گی جو معیاری طریقے میں موجود ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طلاق کے ایسے مقدمات آئے جن میں جلد بازی اور بے احتیاطی کی گئی تھی تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ فرمایا کہ طلاق تو واقع ہو گئی لیکن سنت کی خلاف ورزی ہوئی اور بعض مرتبہ اس طرح کے واقعات پر تنبیہہ بھی فرمائی کہ ’’یہ اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے درآنحالیکہ میں ابھی تمہارے اندر موجود ہوں۔‘‘
اب گویا طلاق کے دو طریقے ہوئے۔ ایک معیاری طریقہ سنت کے ٹھیک ٹھیک مطابق، اور دوسرا صحیح سنت سے تو ہٹا ہوا لیکن حد جواز کے اندر۔ تعبیر کرنے والوں نے جب ان دونوں کو الگ الگ تعبیر کرنا چاہا تو ایک کے لیے تو بنی بنائی اصطلاح طلاقِ سنت کی مل گئی اس وجہ سے اس کو طلاقِ سنت سے تعبیر کر دیا۔ اب رہ گیا دوسرا تو طلاقِ سنت کی اصطلاح کے مقابل میں دوسری اصطلاح طلاق بدعی ہی کی ہو سکتی تھی چنانچہ اس کے لیے طلاق بدعی کی اصطلاح چل پڑی۔ لیکن اس کے طلاق بدعی ہونے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ یہ بدعت ضلالت ہے بلکہ اس سے مراد طلاق وہ طریقہ ہے جو معیاری سنت سے ہٹا ہوا ہے۔ اگر بدعت سے مراد یہاں بدعت ضلالت ہوتی تو آخر وہ لوگ اس اصطلاح کو کیوں اختیار کرلیتے جو اس طریقہ طلاق کو بدعت نہیں سمجھتے بلکہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ان کے اس تعبیر کو قبول کر لینے کی وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اس کو صرف ایک اصطلاحی بدعت سمجھا۔ اگر وہ اس کو حقیقی بدعت سمجھتے تو اس کے جواز کے قائل کس طرح ہوتے؟
یہ مسئلے کی اصل صورت ہے جو اس باب کی احادیث کے تدبر سے واضح ہوتی ہے جو شخص بھی غور کے ساتھ ان احادیث کا مطالعہ کرے گا ان شاء اللہ اسی نتیجے تک پہنچے گا جس نتیجے تک میں پہنچا ہوں۔
____________