HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلامی قانون میں حرکت و ارتقا

اسلامی قانون کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اس میں کسی حرکت یا تغیر کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس غلط فہمی میں صرف غیر مسلم ہی گرفتار نہیں ہیں، بلکہ وہ مسلمان بھی گرفتار ہیں جو اس کے مزاج اور اس کی خصوصیات سے ناواقف ہیں۔ اس کی خاص وجہ وہ تصور ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی قانون اور انسانی قانون کے متعلق پایا جاتا ہے۔ انسانی قانون کے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ اس کی ترتیب و تدوین میں اصلی دخل سوسائٹی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کو رہا ہے، اس وجہ سے سوسائٹی کے حالات میں جس رفتار سے تغیر ہوتا گیا ہے اسی رفتار سے اس میں بھی تغیر ہوتا گیا ہے، اسی طرح آئندہ بھی سوسائٹی میں جس رفتار سے تغیر ہوتا جائے گا یہ قانون بھی بدلتا جائے گا۔ اس کے برعکس اسلامی قانون سوسائٹی کی تبدیلیوں اور اس کے تغیرات کا تابع نہیں مانا جاتا ہے، بلکہ اس کی بنیاد خدا کی وحی، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت اور عقل و فطرت کے اٹل حقائق پر ہے۔ اس کے بنانے میں انسانی خواہشوں اور وقتی حالات کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے، اس کے رسول نے اس کی تشریح و توضیح کی ہے اور خدا اور رسول کے سوا کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس میں سرمو کوئی تبدیلی کر سکے۔

جہاں تک اس تصور کا تعلق ہے یہ بجائے خود صحیح ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی قانون سوسائٹی کے تغیرات کے تابع نہیں ہے، بلکہ سوسائٹی خود اسلامی قانون کے تابع ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں کہ اسلامی قانون ایک بالکل جامد شے ہے۔ اس میں کوئی لچک نہیں ہے اور یہ سوسائٹی کے بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دینے کی صلاحیت اپنے اندر نہیں رکھتا۔

چونکہ اس مسئلہ میں ہمارے ہاں بہت کچھ افراط و تفریط پائی جاتی ہے، ایک طبقہ فی الواقع اسلامی قانون کو بالکل بے لچک چیز سمجھتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ اس کو ترقی پذیر ثابت کرنے کے شوق میں اس کو انسانی قانون سے بھی کچھ زیادہ بے ثبات و متلون بناے دے رہا ہے اس وجہ سے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اسلامی قانون میں جو پہلو ثبات و استحکام کے ہیں وہ بھی نمایاں کیے جائیں اور اس میں جس حد تک تغیر و تبدیلی اور حالات کے ساتھ ساز گاری کی صلاحیتیں ہیں وہ بھی نمایاں کی جائیں تاکہ اس کا اصل مزاج سامنے آ سکے۔

 

اسلامی قانون کی تاریخ

اس مسئلے پر غور کرتے وقت سب سے پہلی بات یہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اسلامی قانون کا آغاز، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوابلکہ اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر میں جو امتیاز حاصل ہے وہ یہ نہیں ہے کہ اس قانون کا آغاز آپ سے ہوا ہے۔ بلکہ اس کی تکمیل آپ پر ہوئی ہے۔ آپ سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک جتنے انبیا علیہم السلام آئے سب اسی قانون کے داعی اور مبلغ تھے۔ انسانی معاشرہ جس رفتار سے ترقی کرتا گیا ہے اور اس کی ضرورتیں جس تدریج و ترتیب کے ساتھ وسیع ہوتی گئی ہیں اسی رفتار سے اس قانون میں بھی وسعت ہوتی گئی ہے۔ اس توسیع و ترقی کے تقاضوں کے تحت اس کے ظاہر ڈھانچے میں بعض ترمیمیں بھی ہوئی ہیں۔ اس ترمیم کے لیے اسلامی اصطلاح نسخ کی ہے۔ جہاں تک بنیادی اصولوں اور اساسی اقدار کا تعلق ہے وہ تو ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں لیکن سوسائٹی کی وسعت اگر اس کے ظاہری احکام و قوانین میں ترمیم کی متقاضی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان احکام و قوانین میں ترمیم بھی فرما دی ہے۔ اس ترمیم کی مختلف صورتیں ہوئی ہیں۔ بعض حالات میں ایک قانون اس سے زیادہ جامع اور وسیع قانون سے بدل گیا ہے اور بعض حالات میں کوئی قانون سوسائٹی کی وسعت و ترقی کے سبب سے غیر ضروری ہو جانے کی وجہ سے نظر انداز بھی کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم و اصلاح اور تراش خراش کے مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد اسلامی قانون ۔۔۔ یا بالفاظِ دیگر اسلامی شریعت ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بالکل جامع اور مکمل شکل میں ملا۔ اس میں وہ پچھلے قوانین بھی شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے باقی رکھنا چاہا اور وہ قوانین بھی ہیں جو خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور جو صرف ایک دین کامل ہی کے لیے موزوں ہو سکتے تھے۔

یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قانون دیا گیا وہ بھی تورات کے احکام عشرہ کی طرح ایک ہی مرتبہ نازل نہیں کر دیا گیا، بلکہ یہ بھی ۲۳ سال کی وسیع مدت میں ایک خاص ترتیب و تدریج کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ بعض معالات میں ابتداً نرم احکام دیے گئے پھر اسلامی معاشرہ کے مستحکم ہو جانے کے بعد وہ سخت کر دیے گئے، مثلاً شراب کی حرمت کا حکم یا بدکاری کی روک تھام کا قانون۔ بعض امور کو اول اول رواج پر چھوڑا گیا۔ لیکن بعد میں ان کے بارے میں متعین احکام آ گئے۔ مثلاً والدین اور دوسرے وارثوں کے لیے وصیت کی ابتدائی اجازت۔ اسی طرح وہ احکام جن کا تحمل صرف ایک مکمل اسلامی معاشرہ ہی کر سکتا تھا اس وقت تک سرے سے نازل ہی نہیں ہوئے جب تک ایک مکمل اسلامی معاشرہ ایک اسلامی ریاست کے ساتھ وجود میں نہیں آ گیا۔ یہ تدریج و ترتیب اس قانون میں بھی بعض ترمیمات کی متقاضی ہوئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا۔ چنانچہ اسی ضرورت کے تحت قرآن اور حدیث میں بھی بعض چیزیں منسوخ ہوئیں۔ ان ترمیمات کے بعد یہ قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اس شکل میں مرتب ہو گیا جس شکل میں اس کو اب رہتی دنیا تک باقی رہنا ہے۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب

اس موقع پر ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ جب اسلامی قانون حضرت آدم علیہ السلام کے عہد سے لے کر خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک برابر ترقی کرتا رہا ہے اور اس کی یہ ترقی برابر انسانی معاشرہ کی حرکت اور ترقی کے متوازی رہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر اس کی یہ ترقی رک کیوں گئی۔ معاشرہ کی فطرت کا تقاضا تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ برابر ترقی کرتا رہے پھر اسلامی قانون نے ایک خاص حد سے آگے اپنی حرکت روک کیوں دی؟

اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قانون کی تکمیل ہوئی، اس کی حرکت معطل نہیں ہوئی۔ تکمیل کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اب یہ اپنی جگہ پر ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا، آگے نہیں بڑھے گا۔ بلکہ صرف یہ ہے کہ اب یہ اپنے مبادی اور اپنے اصولوں میں کسی اضافہ کا محتاج نہیں رہا۔ اب یہ ان تمام صلاحیتوں سے بھرپور ہے جو ایک دینِ کامل میں ہونی چاہئیں اور اپنی ان صلاحیتوں کی بدولت یہ اس قابل ہے کہ زندگی کے تمام تغیر پذیر حالات میں یہ ہماری راہ نمائی کر سکے۔

اس اجمالی حقیقت کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی قانون کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بغیر اس کے مزاج کو سمجھے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی تکمیل ہو جانے کے باوجود یہ تمام تغیر پذیر حالات کے اندر کس طرح ہماری راہ نمائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسلامی قانون کے فلسفہ پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کا مزاج بیک وقت اپنے اندر دو متضاد خصوصیات جمع کیے ہوئے ہے۔ ایک پہلو سے تو یہ ایک ثابت اور غیر تغیر پذیر قانون ہے۔ انسانی معاشرہ کی کوئی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ لیکن دوسرے پہلو سے نگاہ ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کی تنظیم کے لیے یہ اپنے اندر کافی لچک اور کافی وسعت بھی رکھتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ لچک مجرد منفعلانہ قسم کی ہے کہ زندگی کا ہر تغیر خود اسلامی قانون کو متغیر کر دے بلکہ اس کے اندر فاعلانہ رجحان بھی پایا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ ہر جگہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق بنانے کے بجائے یہ کوشش بھی کرتا ہے کہ جہاں کہیں ضرورت پیش آئے حالات کو اپنے مطابق بنا لے۔

اسلام کی اس وسعت اور اس لچک کا اندازہ کرنے کے لیے مختصر طور پر یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اسلامی قانون ہماری زندگی کے معاملات میں دخل کس نوعیت سے دیتا ہے۔ اس کی یہ مداخلت صرف اصولی اور کلیاتی ہے یا ساری تفصیلات و جزئیات بھی طے کر کے وہ ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔

جس شخص کی نظر قرآن و حدیث پر ہو گی وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن و حدیث جو اسلامی قانون کے اصلی ماخذ ہیں۔ وہ زندگی کی ساری تفصیلات سے نہیں بحث کرتے بلکہ وہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اس کے چاروں گوشوں کو متعین کر دیتے ہیں۔ ان کو متعین کر دینے کے بعد ہمیں اس بات کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ ان چاروں گوشوں کے اندر اسلامی قانون کے مزاج اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم زندگی گزاریں۔ یہ آزادی اگر چہ ایک بے قید آزادی نہیں ہے، لیکن آگے چل کر ہم یہ بتائیں گے کہ یہ آزادی اسلامی قانون کے لیے حرکت اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سازگاری کا ایک وسیع میدان کھول دیتی ہے۔

 

زندگی کے معاملات میں اسلامی قانون کی مداخلت کی نوعیت

اس بات کو چند مثالوں سے سمجھیے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اسلامی قانون کس پہلو سے زندگی کی حد بندی کرتا ہے اور کس نوعیت سے وہ زندگی کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کو اسلامی قانون سے ہم آہنگ کرنے کا کام ہماری اپنی فہم و فراست اور ہماری اپنی صواب دید پر چھوڑتا ہے تاکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ ہم ان میں مناسب اور معقول تبدیلیاں پیدا کر سکیں۔ ہم مثال کے لیے صرف اُنھی چیزوں کو منتخب کریں گے جن کا ہماری زندگی سے نہایت قریبی تعلق ہے۔

ہماری زندگی سے ایک بڑا قریبی تعلق رکھنے والا مسئلہ کھانے پینے کا مسئلہ ہے۔ اس میں اسلام نے دخل تو دیا ہے لیکن اس دخل کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ پہلے ساری کھانے پینے کی چیزوں کی تفصیل سنائی ہو، پھر یہ بتایا ہو کہ ان میں سے کیا کیا چیزیں جائز ہیں اور کیا کیا چیزیں ناجائز۔ پھر پیدا کرنے، ان کے سنبھالنے، ان کے تیار کرنے اور ان کے استعمال کرنے کے سارے قاعدے ضابطے بتائے ہوں۔ اسلام کو ان ساری تفصیلات سے کوئی بحث نہیں ہے۔ اس نے صرف یہ کیا ہے کہ چند متعین چیزوں کو جو ’حرام‘ ہیں بتا دیا کہ یہ حرام ہیں، ان کا کھانا پینا ناجائز ہے۔ اب جو چیزیں ان کے حکم میں آتی ہیں ان کے بارے میں شریعت کا رجحان معلوم ہونا اسلام نے ہمارے اجتہاد پر چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلے کی ساری چیزوں کو انسان کی طلب، اس کے ذوق اور اس کی قوتِ اکتساب و ایجاد پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی طبعی ضرورتوں اور اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرے اور ان کے لیے جو مناسب سمجھے ضابطے اور قوانین بنائے۔

اسی طرح کا مسئلہ ہمارے لباس کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں اسلام نے صرف یہ کیا ہے کہ چند اخلاقی نوعیت کی حدیں مقرر کر دیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ لباس ساتر ہو، مرد مسرفانہ لباس مثلاً ریشم استعمال نہ کریں، لباس سے شہدپن اور غنڈہ پن کا اظہار نہ ہو، عورتیں مردوں کا سا اور مرد عورتوں کا لباس نہ پہنیں۔ بس اس طرح کی چند شرطیں عائد کر کے ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ ہم جس طرح کے کپڑے چاہیں ایجاد کریں، جس طرح کے چاہیں سلوائیں اور جس ڈھب سے چاہیں انھیں پہنیں۔ ان ساری باتوں کا انحصار ہمارے ملک کی آب و ہوا، ہماری روایات، ہمارے فطری ذوقِ آرائش اور ہماری قابلیتِ اختراع و ایجاد پر ہے۔ اسلام ان چیزوں کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی ضابطہ بندی نہیں کرتا۔

اسی طرح ہماری ازدواجی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس میں بھی اسلام نے چند اصول دے دیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کی بنیاد جائز رشتہ مناکحت پر ہو، اس میں مرد کی قوامیت کے ساتھ میاں بیوی، دونوں کے حقوق اور دونوں پر ذمہ داریاں ہوں، اولاد کی پرورش اور تربیت دونوں کی مشترک ذمہ داری ہو، اگر اس رشتہ کو توڑنے کی نوبت آ جائے تو وہ یونہی ٹوٹ نہ جائے۔ بلکہ طلاق، عدت، مہر اور رضاعت کے چند متعین ضوابط کے تحت ٹوٹے۔ عورتوں اور مردوں کو، جو ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہوں، آزادانہ میل جول کی اجازت نہ ہو بلکہ گھروں کے باہر اور گھروں کے اندر بھی چند معلوم حدود کی پابندی کی جائے۔ ان چند اصولی ہدایات کے تحت ازدواجی زندگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنا اور اس اجمال میں تفصیل کا رنگ بھرنا میاں اور بیوی کا اپنا کام ہے۔ اسلام اندرون خانہ کی روزمرہ کی زندگی میں کوئی مداخلت پسند نہیں کرتا۔

اسی سے ملتا جلتا ہماری سیاسی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس کے متعلق بھی اسلام نے چند بنیادی باتیں طے کر دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ نظام حکومت خدا کی حاکمیت کے نظریہ پر مبنی ہو۔ قانون کا ماخذ خدا کی شریعت ہو۔ اس کے چلانے والے تقوی اور دیانت کے اوصاف سے متصف ہوں، جہاں شریعت الٰہی کی کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو وہاں سارے معاملات شوریٰ کے ذریعہ سے طے کیے جائیں۔ یہ اور اسی طرح کے چند بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک سیاسی نظام کو بنانا اور چلانا اور زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اس کو ڈھالنا اور ترقی دینا ہمارا اپنا کام ہے۔ اسلام ان تفصیلات میں نہیں پڑتا جو بالکل انتظامی نوعیت کی ہے اور جن کا شعور ہر معاشرے کی فطرت کے اندر ودیعت ہے۔

یہ چند چیزیں بطور مثال ذکر کی گئی ہیں۔ میرا مقصود یہاں نہ تو تمام شعبہ ہائے زندگی کو بیان کرنا ہے اور نہ ان اصولوں کی تفصیل پیش کرنا ہے جو ان شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اسلام نے دیے ہیں۔ مَیں صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اسلامی قانون نے اگرچہ ہماری زندگی کے معاملات میں اثباتی حیثیت سے دخیل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہر شعبہ زندگی کی حد بندی کرتا ہے، لیکن اس حد بندی کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ میں وہ ایک نہایت وسیع دائرہ ایسا بھی چھوڑتا ہے جس میں ہمیں وہ متعین آسمانی قوانین کا پابند بنانے کے بجائے آزادی دیتا ہے کہ ہم شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اپنی راہ خود متعین کریں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے لیے خود قواعد و ضوابط بنائیں۔

ایک طرف وہ پابندی اور دوسری طرف یہ آزادی ان دونوں چیزوں نے مل کر اسلامی قانون میں ایک طرف تو استحکام اور پائداری کی صفت پیدا کر دی ہے اور دوسری طرف اس میں حرکت، ترقی اور حالات کے ساتھ سازگاری کی خوبیاں بھی نہایت اعتدال کے ساتھ سمودی ہیں۔

اسلامی قانون کی اس حرکت اور ترقی کو آگے بڑھانے میں جن عوامل نے کام کیا ہے۔ مختصراً ان کا تعارف بھی یہاں ضروری ہے۔

 

اجتہاد

ان میں سب سے پہلا درجہ اجتہاد کا ہے۔ اجتہاد اسلامی قانون کی توسیع و ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں جو حالات و معاملات ایسے پیش آئیں جن کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی واضح قانون نہیں بیان ہوا ہے، ان حالات و معاملات کو نظر انداز نہ کر دیا جائے، بلکہ ان کو بھی اسلامی شریعت کے تحت لانے کی کوشش کی جائے اور ان کے بارے میں واضح احکام نہیں ملتے تو شریعت کے عام احکام کے اشارات و کنایات سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس رہنمائی کے حاصل کرنے کا ایک مخصوص ضابطہ ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ اشارات و کنایات کے انطباق میں آدمی غلطی بھی کر سکتا ہے اور صحیح نتیجہ تک بھی پہنچ سکتا ہے اس وجہ سے کسی اجتہاد کو کتاب و سنت کے نصوص کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اجتہاد کی تمام قدروقیمت درحقیقت اس چیز میں ہے کہ کتاب و سنت سے اس کا لگاؤ کس درجہ کا ہے۔ اگر قوی ہے تو اجتہاد قوی ہے اور اگر ضعیف ہے تو اجتہاد ضعیف ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم کے لیے کسی اجتہاد کو بے چون و چرا مان لینا صحیح نہیں ہے، بلکہ ہر صاحب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کے ساتھ اس کے تعلق کی جانچ کرے اور اس تعلق ہی کو کسی چیز کے رد یا قبول کی کسوٹی بنائے۔

اس اجتہاد نے اسلامی قانون کی توسیع و ترقی میں جو حصہ لیا ہے اس کی سب سے بڑی شہادت فقہ اسلامی کے اس وسیع ذخیرے سے ملتی ہے جو آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتوں کو جن نئے نئے معاملات و مسائل سے سابقہ پڑا ہمارے فقہا اور مجتہدین نے اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے حل معلوم کرنے کی کوشش کی اور ان کی اس کوشش کے نتیجہ میں اسلامی قانون نے یہ وسعت حاصل کر لی۔ اگر اسلامی قانون میں حرکت اور ترقی کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ عہدِ نبوت کے بعد، جب کہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا، بالکل ٹھٹھر کے رہ جاتا۔ لیکن ہم صاف دیکھ رہے ہیں کہ عہد نبوت میں اس کی صرف بنیادیں استوار ہوئی تھیں، ان بنیادوں پر ایک شاندار قصر کی تعمیر صحابہ اور فقہائے مجتہدین کے دور میں ہوئی ہے۔

 

مباحات کا دائرہ

دوسری چیز جو اسلامی قانون کے اندر حرکت و ترقی کی صلاحیتوں کی شہادت دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی قانون نے ہماری زندگی کا ایک وسیع دائرہ یہ کہہ کر کہ ’انتم اعلم بامر دنیاکم۱؂‘ (تم اپنے دنیوی معاملات سے بہتر طور پر واقف ہو)۔ بالکل ہماری صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جس دائرہ میں اس نے شروع ہی سے کسی قسم کی مداخلت کو پسند نہیں کیا ہے۔ اس دائرہ میں جو کچھ ہماری مصلحت ہو وہی اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے اور اس دائرہ میں اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کو سامنے رکھ کر ہم جو قانون بنائیں گے وہ اسلامی قانون ہی کا حصہ ہو گا۔ بشرطیکہ اس میں کوئی چیز شریعت کے کسی امر یا نہی کے خلاف نہ ہو۔

 

اسلامی قانون اور وضعی قوانین کی حرکت میں فرق

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ جہاں تک اسلامی قانون کے متحرک ہونے کا تعلق ہے وہ پورے معنوں میں متحرک ہے۔ صرف وہی شخص اس امر واقعی کا انکار کر سکتا ہے جو اسلامی قانون کے خلاف کسی تعصب میں مبتلا ہو۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی قانون کی حرکت اور وضعی قوانین کی حرکت میں فرق ہے۔ وضعی قوانین کی حرکت کسی ضابطے اور اصول کی پابند نہیں ہے۔ ان کی حرکت کسی متعین شاہراہ پر نہیں ہے، بلکہ اس کی نوعیت کچھ آوارہ گردی کی سی ہے۔ وہ سوسائٹی کے اقدار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ برابر اپنا چولا بدلتے رہتے ہیں۔ اس کے سبب سے بسا اوقات وہ اس قدر تبدیل ہو جاتے ہیں کہ ان کے ماضی اور حاضر میں سرے سے کوئی ربط باقی رہ ہی نہیں جاتا۔ کل تک جو باتیں ان کے اندر نہایت مکروہ اور گھناؤنے جرائم میں شمار ہوتی تھیں اور انھی قوانین کے بموجب ان جرائم کے مرتکبین کو سزائیں دی جاتی تھیں آج وہ جرائم انھی قوانین کی رو سے بالکل جائز اور مباح بن گئے ہیں۔ چنانچہ یورپ، امریکہ اور روس میں زنا، لواطت، اسقاط حمل اور حرامی اولاد سے متعلق سوسائٹی کے نظریات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قانون بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے۔ قانون کے متعلق نظریہ تو یہ ہے کہ وہ سوسائٹی اور اس کے اقدار کا محافظ ہوتا ہے، لیکن جہاں تک وضعی قوانین کا تعلق ہے ان کی نسبت بے تکلف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی مادر پدر آزاد حرکت کی وجہ سے سوسائٹی کی باندی بن کر رہ گئے ہیں۔

اس کے برعکس اسلامی قانون کی حرکت ایک خاص نظام اور ایک خاص اصول کی پابند ہے۔ یہ حرکت تو کرتا ہے لیکن اپنے بنیادی اصولوں اور بنیادی اقدار کے ساتھ بندھا ہوا حرکت کرتا ہے۔ اس کی حرکت کی شاہراہ متعین اور اس کے چاروں گوشے معلوم ہیں۔ اس کے لیے ہرزہ گردی اور اپنے ماضی سے بالکل کٹ جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ زندگی کے تغیرات اور اس کی حرکت کے تقاضے اگر اس کو آگے بڑھنے کے لیے اکساتے اور ابھارتے ہیں اور وہ ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ساتھ ہی اس قانون کے اندر ثبات و استحکام کے بھی کچھ تقاضے موجود ہیں جو اس کو ایک خاص حد سے آگے نکل جانے سے روکے رکھتے ہیں۔ اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ایک ہی وقت میں جامد بھی ہے اور متحرک بھی۔ یادوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ وہ ثابت اور سیارہ دونوں ہے۔ وہ سوسائٹی کو بھی آگے بڑھنے کا موقع دیتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنے فطری اور جائز حدود سے آگے نہ نکل جائے۔

انسانی قانون چونکہ سوسائٹی کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اس وجہ سے وہ بگڑتے بگڑتے، ایک وقت آتا ہے کہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ اس کے اندر شرغالب اور خیر بالکل ہی مغلوب ہو جاتا ہے۔ یہ کسی سوسائٹی کے فساد اور بگاڑ کی آخری حد ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں صرف سوسائٹی کے رگ و پے ہی میں فساد کا زہر نہیں سرایت کر جاتا ہے بلکہ قانون اس کو اس بگاڑ سے روکنے میں مددگار ہو سکتا تھا خود بھی بالکل زہریلا ہو جاتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا قانون عذاب حرکت میں آتا ہے۔ کیونکہ جو قوم خود بھی بگڑ چکی ہو اور اپنے بگاڑ کے ساتھ ساتھ وہ اس سانچہ کو بھی بگاڑ چکی ہو جو اس کی کجیوں کو درست کر سکتا تھا، اس کو قدرت جینے کی مزید مہلت نہیں دیتی۔ ایسی قوم کے اصلاح پذیر ہونے کی کوئی توقع باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر دنیا کی تباہ شدہ قوموں کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ جس وقت وہ تباہ ہوئی ہیں اس وقت ان کے اخلاق و عادات بھی بالکل تباہ ہو چکے تھے اور ان کے اخلاق و عادات ہی کی طرح ان کے زمانے کا قانون اور نظام عدل بھی مسخ ہو چکا تھا۔

________

۱؂ صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب

____________

 

B