HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

کمیشن کی سفارشات (حصہ اول)

کمیشن کی سفارشات جن عقائد و نظریات اوراجتہاد کے جن اصولوں پر مبنی ہیں، پچھلی دو فصلوں میں ان پر تفصیل کے ساتھ بحث کر چکا ہوں۔ اب میں اصل سفارشات پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔

سفارشات پر تبصرہ کرنے میں عموماً دو باتیں میں پیش نظر رکھوں گا۔ ایک یہ کہ کمیشن نے ہر سفارش کی تائید میں جو دلائل دیئے ہیں ان پر تنقید کر کے ان کی حقیقت واضح کروں کہ یہ کچھ وزن رکھتے ہیں یا نہیں؟ دوسری یہ کہ ہمارے معاشرے کو عموماً اور طبقہ نسواں کو خصوصاً ان سفارشات سے جو نقصانات پہنچیں گے ان کو واضح کر دوں تاکہ جو حضرات اس رپورٹ کو آسمانی برکت سمجھ رہے ہیں اور جو بیگمات اس کو جلدی سے جلدی قانون کی شکل دے دینے کے لیے مطالبہ کر رہی ہیں وہ اس کے نتائج پر اچھی طرح غور کر لیں۔

نکاح کی رجسٹری

کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ازروئے قانون ہر نکاح کی رجسٹری لازمی قرار دے دی جائے۔ رجسٹری کا طریقہ کمیشن نے اپنے نزدیک آسان سمجھ کر یہ تجویز کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک معیاری نکاح نامہ مرتب کرا کے شائع کر دیا جائے۔ یہ نکاح نامہ ہر ڈاک خانے سے معمولی قیمت (آٹھ آنے) پر مل سکے۔ یہ سہ ورقی ہو۔ نکاح کے وقت نکاح خواں اور گواہوں کی موجودگی میں اس کی خانہ پری کر کے اس کی ایک کاپی دولہا کے حوالے کر دی جائے۔ دوسری کاپی دولہن یا اس کے ولی کو دے دی جائے اور تیسری کاپی نکاح خواں جوابی رجسٹری کے ذریعے سے حلقے کے تحصیل دار کے پاس بھیج دے۔ تحصیل دار کے پاس ایک مخصوص رجسٹر ہو گا جس میں ان تمام نکاح ناموں کی نقلیں محفوظ رہیں گی۔ نکاح نامہ کی ایک نقل تحصیل دار کو بھیجنا نکاح خواں کا کام ہو گا اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کو پانچ سو روپے جرمانے تک کی سزا دی جا سکے گی۔

کمیشن نے نکاح کی رجسٹری لازمی کرنے کے حق میں جو دلیلیں دی ہیں اب ان کا جائزہ لیجیے۔

پہلی دلیل۔۔۔جو ایک شرعی دلیل کی حیثیت سے لائی گئی ہے یہ ہے قرآن مجید میں مالی لین دین کے سلسلے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اذا تدا ینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبو (اگر تم کوئی لین دین ایک مدت متعینہ تک کے لیے کرو تو اس کو لکھ لیا کرو) کمیشن نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ جب مالی لین دین کے معاملے میں تحریر کا حکم دیا گیا ہے تو نکاح کا معاملہ تو مالی لین دین کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ نیز اس میں ’’دین مہر‘‘ کی شمولیت بھی ہے جس کے بعد تو اس کے ایک واقعی مالی معاملہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہ جاتا، پھر اس میں تحریر کیوں نہ ضروری قرار دے دی جائے۔

اگرچہ کمیشن کے اس استدلال پر یہ سوال پہلی نظر ہی میں سامنے آجاتا ہے کہ جب مالی لین دین کے معاملات میں اللہ تعالی نے تحریر کا حکم دیا ہے تو کمیشن کے بقول جو معاملہ اس سے زیادہ اہمیت رکھنے والا ہے آخر اس میں بھی خود اللہ تعالی ہی نے تحریر کا حکم کیوں نہ دے دیا؟ کیا کمیشن کی رائے میں اللہ میاں سے یہ چوک ہو گئی؟ لیکن میں اس سوال کو نہیں چھیڑنا چاہتا۔ اگر کمیشن کا استدلال اس آیت سے صرف اسی حد تک ہوتا ہے کہ مالی لین دین کی طرح نکاح سے متعلق ضروری کارروائیوں کا بھی قید تحریر میں آ جانا ایک مستحسن فعل ہے تو خواہ یہ استدلال صحیح ہوتا یا غلط مجھے تحریر کو مستحسن مان لینے میں تامل نہ ہوتا لیکن وہ اس آیت پر بنا رکھتے ہوئے نکاح کی رجسٹری کو لازم قرار دیتا ہے۔ رجسٹری نہ کرنے کو جرم مستلزم سزا ٹھہراتا ہے اور اس کا منشا یہ بھی ہے کہ جس نکاح کی رجسٹری نہ ہو اس کے وقوع کی دوسری شہادتیں موجود ہونے کے باوجود عدالتیں اس کو جائز تسلیم نہ کریں، حالانکہ اس آیت میں خود مالی لین دین کے لیے بھی جس سے یہ براہ راست متعلق ہے تحریر کو لازم نہیں کیا گیا ہے نہ عدم تحریر کو مستلزم سزا ٹھہرایا گیا ہے اور نہ یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس قرض کی لکھا پڑھی نہ ہو وہ سرے سے قرض تسلیم ہی نہ کیا جائے گا۔ آیت کا اصل حکم تو زیادہ سے زیادہ بس اسی حد تک جاتا ہے کہ مالی معاملات کا تحریر میں آ جانا اچھا ہے تاکہ شہادت قائم ہونے میں آسانی ہو اور شک کی گنجائش نہ رہے۔ اس پر قیاس کر کے کمیشن بس اتنی ہی سفارش نکاح کے معاملے میں بھی کر سکتا تھا اور اگر وہ ایسا کرتا تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا، بلکہ میں خود اس کو مختلف پہلوؤں سے مفید چیز سمجھتا ہوں۔ اعتراض اگر ہے تو نکاح کی رجسٹری لازمی قرار دینے پر ہے۔ اس چیز کا ثبوت مذکورہ بالا آیت سے مہیا نہیں ہوتا۔ کیونکہ مذکورہ آیت میں جس تحریر کا حکم ہے وہ خود ہی لازمی نہیں ہے تو اس پر قیاس کر کے آپ نے جو حکم نکالا ہے وہ کیسے لازمی ہو جائے گا؟

’’دین مہر‘‘ کے لفظ سے جو نکتہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ نکتہ بھی محض ایک نکتہ بارد ہے۔ مہر کے لیے ’’دین مہر‘‘ کی اصطلاح تو ہماری اور آپ کی ہے۔ قرآن یا حدیث میں تو یہ اصطلاح کہیں استعمال نہیں ہوئی ہے ان میں یا تو مہر کا لفظ استعمال ہوا ہے یا اسی کے ہم معنی کوئی اور لفظ۔ بلکہ سچ پوچھیے تو قرآن و حدیث میں مہر کے متعلق دین ہونے کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں تو مہر کے متعلق عام قاعدہ یہ تھا کہ جو مہر معین ہوتا تھا عموماً نکاح کے وقت ہی یا اس کے معاً بعد ادا کر دیا جاتا تھا۔ اگر اسی طریقے کو آج رواج دیا جائے تو اس سے ہزاروں بکھیڑوں سے چھٹی مل سکتی ہے لیکن ہماری ذہنیت اس معاملے میں جوکچھ بن چکی ہے اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم نے ہر مہر کو نہ صرف قرض بنا کر رکھ دیا ہے بلکہ ’’دین مہر‘‘ کو ایک مستقل اصطلاح شرعی بنا کر لفظ ’’دین‘‘ سے اب اجتہادی نکتے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کمیشن کی دوسری دلیل۔۔۔جو ایک عقلی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، یہ ہے کہ جو نکاحوں کی رجسٹری نہ ہونے کے سبب سے آئے دن دیوانی اور فوجداری عدالتوں میں مقدمے دائر ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی عورت کے دو مرد شوہر ہونے کے مدعی بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات جائداد سے محروم کرنے کے لیے ایک شخص دوسرے وارث کو ناجائز اولاد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح کفالت کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے بسا اوقات ایک منکوحہ کو داشتہ ثابت کرنے کے لیے مقدمات دائرہ ہوتے ہیں۔ کمیشن کی رائے یہ ہے کہ اگر ہر نکاح کی رجسٹری لازمی قرار دے دی جائے تو مستند تحریری ریکارڈ اس طرح کے مقدمات کو بہت بڑی حد تک کم کر دے گا۔

جہاں تک اس طرح کے واقعات کے پائے جانے کا تعلق ہے اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن کمیشن نے نکاحوں کی رجسٹری کے لیے جو طریقہ تجویز کیا ہے اس سے یہ مقدمات کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ کمیشن کا تجویز کردہ طریقہ رجسٹری فرضی اور جھوٹی رجسٹریوں کی پوری پوری حوصلہ افزائی کرے گا۔ ہر فتنہ پسند آدمی کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ فرضی گواہ اور ایک فرضی نکاح خواں تیار کر کے اور ڈاک خانہ سے آٹھ آنے کا فارم خرید کر جس کا نکاح جس کے ساتھ چاہے اس پر درج کر دے اور اس کی ایک کاپی بصیغہ رجسٹری حلقہ تحصیل دار کے پاس بھیج دے۔ اس طرح ہر لڑکی اور اس کے اولیاء کو کسی مقدمہ کے چکر میں ڈالا جا سکتا ہے اور تحصیل دار صاحب کا رجسٹر ان کے خلاف ایک قطعی ثبوت نہیں تو کم از کم ایک شرمناک نزاع اور نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ کے لیے ایک بنیاد تو فراہم کر ہی دے گا۔ اس سے غنڈوں اور شریروں کی خوب بن آئے گی اور تحصیل داروں کے لیے رشوتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ بااثر بدمعاشوں اور بڑے زمینداروں کے علاقوں میں تو اس طریقہ رجسٹری کے جاری ہونے کے بعد یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے گا کہ تحصیلوں میں بیٹھے جس کی بہن یا بیٹی کا نکاح وہ جس کے ساتھ چاہیں رجسٹرڈ کرا دیں۔ راہ چلتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈاک خانوں سے فارم خریدیں گے اور فرضی اندراجات کر کے تحصیل دار کو بھیج دیں گے۔ ان کے اولیا کو کانوں کام خبر نہ ہو گی۔ اس چیز کو کمیشن کی تجویز کردہ شادی بیاہ کی بے خرچ عدالتیں اور بھی شہ دیں گی اور فرضی نکاحوں، جھوٹی رجسٹریوں اور پھر بے بنیاد مقدمات کی وہ بھر مار ہو گی کہ پبلک چیخ اٹھے گی اور شاید کچھ دنوں کے بعد شادی بیاہ کی مجوزہ عدالتیں بھی چیخ اٹھیں۔

ممکن ہے کوئی صاحب یہ فرمائیں کہ یہ سارے خطرات بالکل فرضی ہیں۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی پیش نہیں آئے گی۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات بھی پیش نہیں آئے گی تو ہماری گزارش یہ ہے کہ پھر رجسٹری کا یہی سیدھا سادا طریقہ بیعناموں، ہبہ ناموں، مختارناموں اور انتقال مال و جائداد کی دوسری رجسٹریوں کے لیے بھی اختیار کر لیا جائے۔ اتنے آسان طریقے کے ہوتے ہوئے مذکورہ صورتوں میں یہ کھکھیڑ کیوں رکھی گئی ہے کہ ہر رجسٹری کے وقت شخصاً تمام فریقین معاملہ اور گواہوں کو کسی تحصیل دار یا رجسٹرار کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے ایک ایک دستخط اور ایک ایک نشان انگوٹھے کی تصدیق کرنی پڑتی ہے اور اگر کسی فریق معاملہ کے لیے عدالت میں حاضر ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے تو فیس داخل کر کے تحصیل دار یا رجسٹرار کو اپنے گھر پر بلانا پڑتا ہے اور وہ کاغذات کے ہر اندراج کی تصدیق کرتا ہے؟

اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ املاک و جائداد کے معاملات ہیں، اگر ان میں سہل انگاری برتی جائے اور گھر بیٹھے بٹھائے دستاویزوں کی رجسٹری ہو جایا کرے تو بے شمار جھوٹے انتقال ہو جائیں گے اور اس کے سبب سے بے شمار مقدمات اٹھ کھڑے ہوں گے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کے ناموس کا معاملہ کیا املاک و جائداد سے کم اہمیت رکھتا ہے؟ کمیشن تو خود اپنے استدلال میں نکاح کے معاملے کو جائداد کے معاملے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ پھر اس اعتراف کے باوجود لوگوں کے ناموس کے ساتھ شریروں اور بدمعاشوں کو بازی کھیلنے کی یہ کھلی چٹھی کیوں دی جا رہی ہے؟

تحصیل دار صاحب کا رجسٹر جس کو ایک مستند ریکارڈ کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ غور کیجیے کہ کمیشن کی تجویز کردہ صورت میں وہ بے شمار جھوٹی سچی رپورٹوں کی ایک کھتونی ہو گا یا کوئی مستند ریکارڈ؟ اس ریکارڈ کی ہر چیز کو بڑی آسانی سے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور بجائے اس کے کہ اس سے تصفیہ معاملات میں کوئی آسانی پیدا ہو ہزار ہا مشکلیں اور ہزارہا نزاعات خود اس ریکارڈ کے سبب سے ظہور میں آئیں گی۔

کمیشن کی تیسری دلیل۔۔۔جس کی حیثیت نظائر کی ہے۔ یہ ہے کہ پارسی میرج ایکٹ میں یہ چیز موجود ہے۔ الجیریا میں بھی ہر نکاح کی رجسٹری ضروری قرار دی گئی ہے اور ہارون الرشید کو بھی نکاح کی رجسٹری پر اصرار تھا۔

جہاں تک پہلی مثال کا تعلق ہے اس کی بابت تو میں صرف یہی عرض کروں گا کہ بڑے ہی پست ذہن کے ہیں وہ لوگ جو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پارسی قوم کی کوئی بات بطور اسوۂ حسنہ کے پیش کرتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ایشیا کی قوموں میں مغربی تہذیب کا جتنا گہرا رنگ پارسی قوم نے اختیار کیا ہے اتنا گہرا رنگ کسی بھی دوسری قوم نے اختیار نہیں کیا۔ ان کی تہذیب و معاشرت اور ہماری تہذیب و معاشرت میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ شادی کے موقع پر اگر دلہا دلہن اور ان کے تمام مرد اور عورت عزیزوں کو پوری بارات سمیت کسی عدالت میں نکاح کی رجسٹری کے لیے حاضر ہونا پڑے تو وہ شاید اس میں بھی کوئی زحمت اور تکلیف محسوس نہ کریں۔ لیکن کیا آپ کا معاشرہ بھی اس چیز کا متحمل ہو سکتا ہے۔

الجیریا اور مراکو وغیرہ ممالک کی نظیر بھی ایک بالکل غلط نظیر ہے۔ ان علاقوں کے مسلمان اپنے مغربی مستعمروں کے پنجۂ استبداد میں گرفتار ہیں۔ ان علاقوں میں سے بعض کا حال تو یہ ہے کہ وہاں مسجدیں بھی غیر مسلموں کی تولیت میں ہیں۔ کیا ان کی مثال کی پیروی میں آپ بھی اپنی مسجدوں کی تولیت غیر مسلموں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں؟

ہارون الرشید کو اگر اس چیز پر محض اصرار ہی تھا، عملاً اس نے اس کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا تو یہ اس کی دانش مندی کی ایک دلیل ہے معلوم ہوتا ہے اس کی رائے کی غلطی اس پر خود واضح ہو گئی ورنہ جو زور و اقتدار اس کو حاصل تھا اس کے ہوتے ہوئے اگر وہ یہ کام کرنا چاہتا تو اس کے ہاتھ کون پکڑ سکتا تھا۔ اب یہ آپ کی عقلمندی نہیں ہو گی کہ جو کام ارادہ کر کے وہ کرنے سے رک گیا آپ اس کو کر گزریں۔

اپنی سفارش کے حق میں کمیشن کے یہ نقلی اور عقلی دلائل ہیں۔ جو میں نے واضح طور پر آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں اور ان میں جو کمزوریاں ہیں وہ بھی بیان کر دی ہیں۔ اب آپ خود موازنہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ ان دلائل میں کس قدر وزن ہے۔

اس تجویز کے اندر معاشرے کے لیے جو نقصانات پوشیدہ ہیں اب میں بالا جمال ان کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

۱۔ سب سے پہلا نقصان تو یہ ہے کہ ہر نکاح کی رجسٹری لازمی قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ جس نکاح کی رجسٹری نہیں ہوئی ہے۔ وہ قانوناً ناجائز قرار پائے اور اس سے جو بچے پیدا ہوں وہ حرامی اور پدری جائداد سے محروم ٹھہریں۔ ظاہر ہے کہ یہ قانون صریحاً شریعت کے قانون کے خلاف ہو گا۔ کیونکہ شریعت میں تو ہر وہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے جو دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قانون اور شریعت میں کھلا ہوا تصادم پیدا ہو جائے گا۔ شریعت جس چیز کو جائز قرار دے گی، عدالت اس کو ناجائز ٹھہرائے گی اور اسلام جن کو جائز وارث قرار دے گا آپ کی عدالتیں ان کو محروم قرار دیں گی۔ اس طرح ارکان کمیشن اس ملک میں جو اپنے دستور کی رو سے اسلام کے قوانین کی نفاذ کی ذمہ داری اٹھا چکا ہے شرع اور ملکی قانون میں ایک خوفناک جنگ برپا کرانا چاہتے ہیں اور اسلام نے جن چیزوں کو جائز ٹھہرایا ہے ان کو اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

۲۔ اس طریقہ رجسٹری کے قانونی شکل اختیار کر لینے کے بعد شریروں کے لیے شریف بہنوں اور بیٹیوں کے ناموس کے خطرے میں ڈال دینے کی نہایت وسیع راہیں کھل جائیں گی۔ وہ بڑی آسانی کے ساتھ جس کا نکاح جس کے ساتھ چاہیں گے تحصیل دار کے رجسٹر میں درج کرا دیں گے۔ درآنحالیکہ اس کے یا اس کے اولیا کے فرشتوں کو بھی اس چیز کی خبر نہ ہو گی اور پھر اس چیز کو اس کے خلاف ایک مقدمے کی بنیاد بنا لیں گے۔

۳۔ اس سے جھوٹے مقدمات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا اور بااثر غنڈوں کے لیے اغوا اور جبری نکاحوں کے کاروبار میں بڑی سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ وہ آج ایک لڑکی کا فرضی نکاح رجسٹری کرائیں گے اور دوسرے روز اس کو اس کے باپ اور بھائی کے گھر سے غائب کر دیں گے۔

۴۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے غالباً اگلا قدم جو اٹھایا جائے گا وہ یہ ہو گا کہ نکاح کی رجسٹری کے لیے بھی وہی طریقے اختیار کر لیے جائیں جو بیعناموں اور ہبہ ناموں وغیرہ کی رجسٹری کے لیے اس وقت رائج ہیں۔ اس صورت میں ہر نکاح کی رجسٹری کے لیے یا تو دولہا دلہن کو گواہوں اور اولیا سمیت کسی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ یا پھر کافی خرچ کر کے عدالت کو اپنے دروازہ پر بلانا پڑے گا۔ یہ رجسٹری کو لازم قرار دینے کا قدرتی نتیجہ ہے جو کچھ عرصہ کے بعد لازماً ظاہر ہو کر رہے گا۔ کمیشن نے پہلے اس رسم و راہ سے ہمیں آگاہ کرنا چاہا ہے۔ اگر ہم نے اس کو قبول کر لیا تو اس کو توقع ہے کہ آگے چل کر آپ عدالتوں میں حاضر ہو نکاح بندھوانا بھی منظور کر لیں گے۔

۵۔ ہماری دیہی آبادی، جس میں مروجہ سادہ طریقے کا نکاح پڑھانے والے بھی مشکل ہی سے ملتے ہیں اس طریق نکاح کے نافذ ہو جانے کے بعد ایک ناقابل برداشت مصیبت میں مبتلا ہو جائے گی۔ کوئی شخص آسانی کے ساتھ نکاح پڑھانے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اول تو ارکان کمیشن کا ’’معیاری نکاح نامہ اور المعاہدہ نکاح غالباً اتنا پیچیدہ ہو گا کہ اس کی خانہ پری کے لیے کسی وکیل کی خدمات مطلوب ہوں گی۔‘‘ ثانیاً نکاح خواں کو ہر وقت یہ اندیشہ ہو گا کہ معلوم نہیں کس نکاح میں وہ پانچ سو روپے جرمانے کی زد میں آ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو شخص اپنے لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرنا چاہے گا اسے شہروں سے پیشہ ور نکاح خوانوں کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی اور اس کے لیے وہ سارے پاپڑ بیلنے پڑیں گے جو آج ایک وکیل حاصل کرنے کے لیے بیلنے پڑتے ہیں۔

شادی کی عمر

کمیشن کی سفارش ہے کہ کمسنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکے اور سولہ سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی قانوناً ناجائز قرار دے دی جائے۔

کمیشن نے اپنی اس سفارش کی تائید میں پہلی دلیل یہ دی ہے کہ قرآن میں یتیموں کو ان کا مال سپرد کرنے کے متعلق یہ ہدایت آئی ہے کہ حتی اذا بلغوالنکاح فان اٰنستم منھم رشدا فارفعوا الیھم اموالھم (یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم ان میں سوجھ بوجھ پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو) کمیشن نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ جب مال سپرد کرنے کے لیے صرف بلوغ کی نہیں بلکہ مزید صلاحیت پیدا ہونے کی قرآن نے قید لگائی ہے تو نکاح کا معاملہ تو مال کے مقابل میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ہم شادی کے لیے بلوغ سے کچھ زیادہ عمر کی قید لگا دیں تو یہ ایک بالکل معقول بات ہو گی۔

لیکن مجھے ان لوگوں کی قرآن فہمی پر حیرت ہوتی ہے کہ جب قرآن نے خود بلوغ کو لفظ ’’نکاح‘‘ یعنی یعنی کی عمر سے تعبیر کیا ہے تو اب اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کس دلیل کی ضرورت باقی رہ گئی کہ شادی کی عمر بلوغ ہے۔ یہ تو بلوغ کے عمر نکاح ہونے پر ایک ایسی نص صریح ہے کہ اس کے بعد کسی بحث و اختلاف کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی۔

رشد کے معنی یہاں معاملات کی سوجھ بوجھ اور انتظامی صلاحیت کے ہیں۔ اسلوب کلام دلیل ہے کہ یہاں اس کا ذکر بلوغ کے بعد ایک مزید شرط کے طور پر آیا ہے۔ اس کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ معاملہ کاروبار کی دیکھ بھال کا تھا۔ کسی یتیم کو اس کا کاروبار حوالے کرتے وقت صرف یہی دیکھنا کافی نہیں ہے کہ وہ بالغ ہو گیا ہے بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو سنبھال بھی سکے گا یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ بالغ ہو چکنے کے باوجود ابھی ایسا الھڑ اور بے پروا ہو کہ کاروبار کے انتظام و انصرام کی طرف اس کا ذہن متوجہ ہی نہ ہوتا ہو۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اس کی شادی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ شادی نہ کرنے کی صورت میں اس کا بڑا اندیشہ ہے کہ وہ کسی غلط راستے پر پڑ جائے اور پھر اس کی اصلاح ناممکن ہو جائے برخلاف اس کے اگر اس کی شادی کر دی جائے تو بہت ممکن ہے کہ یہ چیز اس کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کر دے اور وہ نہ صرف اپنی بیوی کے لیے ایک اچھا شوہر ثابت ہو بلکہ اپنی جائداد اور اپنے کاروبار کا عمدہ منتظم بھی بن جائے اس وجہ سے کمیشن نے یہ کوئی اچھا اجتہاد نہیں فرمایا کہ ہر شخص کی شادی انتظامی صلاحیت کے ساتھ باندھ دی جائے۔

پھر کمیشن نے یہ کیسے اندازہ کیا کہ ہر لڑکے کے اندر ۱۸ سال کی عمر میں ہی رشد پیدا ہوا کرتا ہے۔ کتنے ہیں جو اس سے کم عمر میں صاحب رشد ہو جاتے ہیں اور کتنے ہی ہیں جو بیس بائیس بلکہ پچیس سال تک بھی الھڑ کے الھڑ ہی رہتے ہیں۔ اگر رشد بھی شادی کے لیے ایک ضروری شرط ہے تو اٹھارہ سال کی عمر اس کے لیے ہرگز کوئی موزوں عمر نہیں ہے۔ پھر تو تیس سال کی عمر سب سے زیادہ موزوں رہے گی۔

کمیشن کی دوسری دلیل یہ ہے کہ شادی کی عمر مقرر کر دینا قرآن یا حدیث میں کہیں ممنوع نہیں ہے اس لیے ہم کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس کی تعیین کر دیں۔

کمیشن نے یہاں اپنے اس اصول اجتہاد کو استعمال کیا ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ یہ اصول خود کمیشن کے الفاظ میں یوں ہے کہ ’’جو چیز قطعی اور غیر مشروط طور پر کسی واضح حکم کے ذریعے سے ممنوع نہیں ہے، وہ جائز ہے‘‘ چونکہ قرآن اور حدیث میں کہیں واضح اور قطعی طور پر اس بات کی ممانعت نہیں ہے کہ شادی کی عمر کی تعیین نہ کی جائے۔ اس لیے کمیشن نے تعیین کر دی ہے۔ کمیشن کے اس اصول کی غلطیاں وضاحت کے ساتھ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں یہاں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ایک سوال میں یہاں ارکان کمیشن سے پوچھتا ہوں کہ کیا سولہ یا اٹھارہ سال کی عمر سے کم عمر میں شادی کرنے کی قرآن یا حدیث میں کہیں ممانعت ہے؟ اگر نہیں ہے اور یقیناًنہیں ہے تو آپ کے اپنے بیان کردہ اصول کے مطابق یہ جائز ہے۔ اس جائز کو آپ حرام کیسے کر سکتے ہیں؟ غیر مقید کو مقید کرنے، غیر مشروط کو مشروط بنانے اور مباح کو ممنوع کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟

غالباً کمیشن نے اپنے اس اصول اجتہاد کی لغویت بھی خود ہی محسوس کی ہے اس وجہ سے اس کو سہارا دینے کے لیے خود اپنے ہی ایجاد کردہ ایک دوسرے اصول سے کام لیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام کو کمسنی کی شادیوں کی ممانعت تو نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں کرنی تھی لیکن چونکہ سوسائٹی اس وقت اپنے دور طفولیت میں تھی اور سوسائٹی کے اس دور میں کمسنی کی شادیاں زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے اسلام نے اس وقت اس کی ممانعت نہیں کی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’کمسنی کی شادیوں کی ممانعت کسی خاص واضح حکم کے ذریعے سے اس سبب سے نہیں کی گئی کہ معاشرتی ارتقا کے ایک خاص دور میں یہ چیز کچھ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔‘‘

میں تھوڑی دیر کے لیے کمیشن کا یہ نقطہ نظر تسلیم کیے لیتا ہوں کہ اسلام کے ظہور کے وقت انسانی معاشرہ اپنے دور طفولیت میں تھا۔ لیکن یہ بات میں سمجھنی چاہتا ہوں کہ اس کا کیا سبب تھا کہ اس وقت کے معاشرے میں سولہ اور اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادیاں مضر نہیں ہوتی تھیں لیکن اب وہ مضر ہو گئی ہیں۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ سوسائٹی کے اس دور طفولیت میں لڑکے اور لڑکیاں سولہ اور اٹھارہ سال سے پہلے بالغ ہی نہیں ہوتے تھے؟ یا اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت کے لڑکوں اور لڑکیوں میں عفت اور پاکدامنی کا احساس مفقود تھا اور اب یہ احساس اتنا طاقت ور ہو گیا ہے کہ مجال نہیں کہ سولہ یا اٹھارہ سال سے پہلے کسی لڑکے اور لڑکی کو جنسی جذبہ کسی بے راہ روی میں مبتلا کرے؟ یا اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرے کے ابتدائی دور میں حیا، عفت اور پاکدامنی کے کچھ ’’احمقانہ‘‘ تصورات پائے جاتے تھے جس کے سبب سے اس دور کے لوگ بہت جلدی لڑکوں اور لڑکیوں کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیتے تھے اور اب چونکہ تعلیم و تہذیب کی ترقی سے ان اوہام کا پوری طرح ازالہ ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے کم از کم سولہ اور اٹھارہ سال سے پہلے ان کی آزادی پر کسی قدغن کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے؟

کمیشن نے چونکہ ان سوالات کو صاف نہیں کیا ہے اس وجہ سے میرے لیے یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ وہ کس سبب سے کمسنی کی شادیوں کو اسلام کے ابتدائی معاشرے میں تو جائز مانتا ہے لیکن اب اس معاشرے میں اس کو حرام ٹھہرانا چاہتا ہے۔ اگر کمیشن اپنے عہد کے معاشرے کے متعلق کسی حسن ظن میں مبتلا ہے تو اس کے اطمینان کے لیے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے اٹارنی جنرل ٹام کلارک نے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن اسٹیٹکس کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ قتل، فریب اور زنا کے جرائم میں سب سے زیادہ اوسط سترہ سال کے نوجوانوں کا ہے خصوصاً زنا کے جرائم میں ان کا تیس فیصد حصہ ہے۔ یہ صرف ان نوجوانوں کا اوسط ہے جو زنا کے جرم میں گرفتار ہوئے ہیں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کا اوسط انہی کارناموں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے اس کا تگنا بیان کیا ہے اور اگر صرف جنسی جذبہ کے ہیجانات کا اندازہ کرنا ہو تو میں کمیشن کو (kinsay reports) کے پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ اس سے کمیشن کو معلوم ہو گا کہ موجودہ مغربی سوسائٹی میں یہ جذبہ پانچ سال کی عمر ہی سے اپنا فعل شروع کر دیتا ہے اور سولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تو وہ طوفان بپا ہوتا ہے اور اس کے وہ کارنامے مغربی سوسائٹی میں نمایاں ہو رہے ہیں کہ ہم اور آپ یہاں بیٹھے ہوئے ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کمیشن کس اعتبار سے کمسنی کی شادیوں کو موجودہ معاشرے کے شایان شان نہیں خیال کرتا۔

ممکن ہے کسی کو یہ گمان ہو کہ موجودہ معاشرے میں آدمی کو تعلیمی مراحل سے گزرنے میں کافی زمانہ لگتا ہے اور جب تک آدمی ان تمام مراحل سے گزر نہ لے اس کو قید نکاح میں جکڑ دینا معاشرے کی ترقی کو روک دینے کے ہم معنی ہے۔ میرے نزدیک یہ خیال بھی کسی طرح صحیح نہیں ہے ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کمسنی کی شادیوں کارواج بہت کم ہے۔ بلکہ تعلیم یافتہ اور شہری طبقات میں تو ایک عرصے سے یہ شکایت بڑھ چلی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ بہت سی لڑکیاں شادی کے خیال ہی سے مستعفی ہو جاتی ہیں۔ ایسے معاشرے میں اس طرح کا قانون بنانا ظاہر ہے کہ بالکل تحصیل حاصل ہے۔ اس سے اگر رکاوٹ عائد ہو گی تو ان طبقات پر عائد ہو گی جو دیہاتوں میں غریبانہ زندگی بسر کرتے ہیں اور لڑکے یا لڑکی کے بلوغ کے بعد اس کی شادی کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ آخر آپ ان کے ایک معقول کام میں کس مقصد کے لیے رکاوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہماری دیہاتی آبادی میں بھی کم سنی کی شادیوں کا رواج ان معنوں میں نہیں ہے جن معنوں میں اس کا رواج پہلے ہندوؤں میں تھا بلکہ وہ بھی بلوغ کے بعد ہی شادیاں کرتے ہیں اور اگر ہمارے ملک کے کسی حصے میں کسی دررجہ میں بھی اس کا رواج ہے تو اس کو تعلیم کی ترقی کے ذریعے سے بہت آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ ہر کام کے لیے قانون کا لٹھ ہی گھمایا جائے۔

اب وہ نقصانات ملاحظہ فرمائیے جو نکاح کے لیے ایک خاص عمر ازروئے قانون مقرر کر دینے کے بعد افراد اور سوسائٹی کو پہنچیں گے۔

۱۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ جو چیز اسلام میں جائز ہے وہ ہمارے ملکی قانون میں حرام ہو جائے گی۔ ہماری عدالتیں ایسے نکاحوں کو جو قانون کی مقرر کردہ عمر سے پہلے ہو جائیں، جائز تسلیم نہ کریں گی۔ ایسے نکاحوں سے جو اولادیں پیدا ہوں گی ان کو وہ حرامی ٹھہرائیں گی اور پدری میراث میں ان کو حصہ نہ دیں گی۔ یہ ساری باتیں صریحاً اسلام کے خلاف ہیں اور اسلام کے ساتھ ہمارے ملکی قانون کا یہ تصادم ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لیے مہلک ہو گا۔

۲۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ اگر نکاح کے لیے ایک خاص عمر مقرر کی گئی تو یہ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ پیدائش کی رجسٹری (Birth Registration) بھی ازروئے قانون لازمی قرار دی جائے۔ یہ چیز لوگوں پر عموماً اور ہماری دیہاتی آبادی پر خصوصاً ایک ایسا بوجھ بنے گی جس کو ہر شخص محسوس کرے گا اور ان لوگوں پر لعنت بھیجے گا جو یہ اصرار اور یہ قیدیں اور پابندیاں بڑھانے کا باعث بنیں گے۔

۳۔ اس سے ہمارے معاشرے میں عموماً اور دیہاتی آبادی میں خصوصاً زنا اور اغوا کی وارداتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ غربا اور مزارعین کا طبقہ اپنے مالکوں، ان کے کارندوں اور بااثر شریروں کی طرف سے اپنے ناموس کے معاملے میں ہمیشہ خطرے میں رہا ہے۔ یہ ایک بڑا سبب تھا اس بات کا کہ وہ لڑکیوں کے نکاح سے جلدی سے جلدی فارغ ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ اس قانون کے بن جانے کے بعد وہ اپنے ناموس کی حفاظت کے معاملے میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پائے گا۔

موجودہ حالات میں تو وہ اپنے ناموس کی حفاظت کی واحد تدبیر اسی چیز کو سمجھتے تھے کہ بالغ ہوتے ہی لڑکی کا نکاح کردیں۔ اب سولہ برس کی عمر تک لڑکیوں کا نکاح تو نہ ہو سکے گا البتہ وہ زور آور لوگوں کے ناجائز تصرفات کی تختہ مشق بنتی رہیں گی۔

۴۔ ہمارے اندر لاکھوں آدمیوں کو جو مشکلیں پیش آئیں گی ان کا ایک ہلکا سا تصور اپنے ذہن کے اندر پیدا کرنے کے لیے چند مثالوں پر غور فرمائیے۔ فرض کیجیے ایک غریب آدمی ہے اس کے پاس وسائل کی کمی ہے اس کے متعدد بالغ لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جن کے نکاح کی ذمہ داریوں سے وہ عہد برا ہونا چاہتا ہے۔ آج اسے کوئی موزوں رشتہ مل رہا ہے لیکن وہ اپنے کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح محض اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ ان کی عمریں اٹھارہ یا سولہ سال سے کم ہیں۔ بعد میں نہ تو ملا ہوا وہ موزوں رشتہ ہی باقی رہے گا نہ اس کے موجودہ وسائل ہی اس کے ساتھ دے سکیں گے۔ ایک شخص کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے اسے اپنی زیست کی توقع نہیں ہے، اس کی بالغ لڑکی ہے اسے اندیشہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثہ لڑکی کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں گے۔ وہ چاہتا ہے کہ لڑکی کے نکاح سے فارغ ہو جائے تاکہ دنیا سے اطمینان اور سکون سے رخصت ہو لیکن وہ محض اس وجہ سے اپنے یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا کہ لڑکی از روئے قانون ابھی سولہ سال کی عمر کی نہیں پہنچی ہے۔ ایک بیوہ ہے اس کی ایک بالغ لڑکی ہے اس کا کوئی اور ولی و وارث نہیں ہے جس کے اعتماد پر وہ لڑکی کو گھر میں روک سکے۔ اسے اندیشہ ہے کہ اگر وہ جلدی ہی کسی بھلے مانس کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ پکڑا نہ دے تو ممکن ہے لڑکی غنڈوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ لیکن وہ محض اس وجہ سے یہ قدم نہیں اٹھا سکتی کہ آپ کا قانون سولہ سال کی عمر سے پہلے اس کو لڑکی کا نکاح کرنے سے روکتا ہے۔ ایک خدا ترس اور بااخلاق مسلمان ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کا لڑکا بری صحبت میں پڑ کر خراب ہو رہا ہے۔ اسے توقع ہے کہ اگر وہ اس کا کہیں نکاح کر دے تو شاید وہ سنبھل جائے لیکن وہ یہ جرأت محض اس وجہ سے نہیں کر سکتا کہ لڑکے کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے۔ اس طرح کی بیسیوں شکلیں آپ فرض کر سکتے ہیں اور یہ محض مفروضات نہیں ہیں بلکہ یہ مفردضات کل واقعات بنیں گے اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ان تلخ تجربات سے سابقہ پیش آئے گا اور ان کے نتیجے میں جو فتنے ابھریں گے وہ پوری قوم میں پھیلیں گے۔

۵۔ اس سے ہماری قوم کے اخلاقی زوال کی رفتار (جواب بھی خاصی تیز ہے) تیز سے تیز تر ہو جائے گی۔ اسکولوں، کالجوں اور ہوسٹلوں کی فضا خراب سے خراب تر ہو جائے گی۔ سینماؤں اور قحبہ خانوں کی رونق آج کی نسبت کہیں زیادہ ہو گی۔ جنسی تسکین کے خلاف فطرت اور مضر صحت طریقے نوجوانوں میں عام ہو جائیں گے۔ بے پردگی اور بے حیائی، عریانی اور فحاشی کے رجحانات میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو گی۔ زنا اور اغوا کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ کمیشن کی سفارشات مقررہ عمر سے پہلے نکاح پر تو قدغن لگاتی ہیں مگر زنا پر کسی قدغن کا تخیل ان میں نہیں پایا جاتا۔

۶۔ اس کے سبب سے وہ سارے لوگ مبتلائے گناہ ہوں گے جن کی بالغ اولادیں اس قانون کے باعث کسی فتنہ میں پڑیں گی۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ وادبہ فاذا بلغ فلیزوجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثما فانما اثمہ علی ابیہ۔ (مشکوۃ)
جس کو خدا اولاد دے اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے اگر وہ بالغ ہو جائے اور اس کی شادی نہ کی جائے اور اس کے سبب سے وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس گناہ کا بوجھ اس کے باپ پر ہو گا۔

اس سفارش کے قانون کی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہر وہ شخص جو کسی لڑکے یا لڑکی کا باپ ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اگر وہ اس قانون کے بننے پر راضی ہے تو اس کے نتیجے میں اس کی اولاد جن فتنوں میں مبتلا ہو گی اس کے گناہوں سے جس طرح ان سفارشات کے مرتب کرنے والوں اور ان کو قانونی شکل دینے والوں کے اعمالنامے سیاہ ہوں گے اسی طرح ان باپوں کے اعمالنامے بھی سیاہ ہوں گے جو ان سفارشات پر راضی یا خاموش رہیں گے۔

۷۔ اس طرح کا قانون نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام جلیل القدر صحابہ کے خلاف ہماری طرف سے بے اعتمادی بلکہ ملامت کا ایک اعلان ہے کیونکہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا اور اس وقت ان کی عمر سولہ سال سے کم تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی حضرت ام کلثوم سے نکاح کیا اور ان کی عمر بھی ہرگز سولہ سال کو نہیں پہنچی تھی۔ جب ہماری آیندہ نسلیں ایک طرف یہ قانون پڑھیں گی اور دوسری طرف اسلام کی یہ تاریخ پڑھیں گی تو کیا ان کے ذہنوں میں یہ خیال نہیں پیدا ہو گا کہ ہمارے بہترین اسلاف یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر بھی العیاذ باللہ آج اس ملک میں ہوتے تو ہمارے قانون کے رو سے مجرم ہوتے۔

____________

 

B