اجتہاد کی اس تعریف کے بعد کمیشن نے کچھ نئے اصول اجتہاد ایجاد کیے ہیں۔ اب ہم ان پر بحث کریں گے۔
کمیشن نے اپنے اجتہادات کے سلسلے میں ایک اصول یہ بیان کیا ہے کہ ’’حکومت معاشرتی انصاف کی نگہبان (custodion) ہے۔
اس اصول کا ذکر اگر کسی فلسفہ سیاست کی کتاب یا کسی حکومت کے دستور میں ایک رہنما اصول کی حیثیت سے آتا تو ہم اس سے تعرض نہ کرتے۔ لیکن اس رپورٹ میں اس کا حوالہ جس پہلو سے آیا ہے وہ قابل غور ہے۔ اس رپورٹ میں اس کا ذکر اس حیثیت سے آیا ہے کہ معاشرتی معاملات سے متعلق قانون سازی کرتے وقت حکومت پاکستان کو ازروئے شرع کیا پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ کمیشن کا مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں حکومت کو تمام قیدوں اور پابندیوں سے آزاد ہو کر قانون سازی کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اسی نظریے کے تحت اس رپورٹ میں ایک سے زیادہ مقامات میں حکومت کو اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ وہ کسی چیز کی پروا کیے بغیر کمیشن کی پیش کردہ سفارشات قبول کرلے اور ان کے مطابق قانون بنا ڈالے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:۔
’’بدقسمتی سے اس وقت معاشرہ زندگی کے ایسے اہم معاملات میں (اشارہ ہے نکاح، طلاق، تعدد ازدواج وغیرہ کے ان معاملات کی طرف جن کے بارے میں کمیشن نے سفارشات پیش کی ہیں) بالکل غیر ذمہ دار ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے حکومت کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ایسے قوانین بنانے کے لیے اقدام کرے جو ان پھیلی ہوئی برائیوں کوروک سکیں۔‘‘ (گزٹ آف پاکستان ص۱۲۲۹)
اس اصول سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حکومت سوشل جسٹس کی کسٹوڈین ہوتی ہے اور ہماری حکومت بھی سوشل جسٹس کی کسٹوڈین ہے لیکن اس کے کسٹوڈین ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اس اصول کی آڑ لے کرمن مانے قوانین بنانے شروع کر دیے اورمذہب اور دستور، کسی چیز کی بھی پروا نہ کرے۔ ہمارے ملک کے دستور میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا صرف وہی تصور جائز اورمعقول تسلیم کیا گیا ہے جو اسلام نے دیا ہے۔ چنانچہ دستور کے دیباچہ (Preamble) میں یہ الفاظ ثبت ہیں:۔
’’جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اورمعاشرتی انصاف کے اصولوں کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے (as enunciated by Islam) پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا۔‘‘
علاوہ ازیں سوشل جسٹس کا جس حد تک تعلق پرسنل لا سے ہے اس پر ایک مزید قید ہمارا دستور یہ بھی عائد کرتا ہے کہ کسی فرقے کے پرسنل لا میں حکومت کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔ ایک صحیح قسم کی اسلامی حکومت کااصلی منصب درحقیقت ہے بھی یہی کہ وہ دنیا میں خدا کے قانون کو جاری کرنے والی ہوتی ہے۔ وہ کسی حالت میں بھی اپنی طرف سے کوئی نیا دین ایجاد کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔ اس حقیقت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطبے میں اس طرح ظاہر فرمایا کہ:
’’میں خدا کی شریعت کا نافذ کرنے والا ہوں۔ اپنی جانب سے کوئی نئی چیز ایجاد کرنے والا نہیں ہوں۔‘‘
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ قانون سازی کا یہ فارمولا کمیشن نے کس کی خاطر ایجاد فرمایا ہے؟ جہاں تک پاکستان کی حکومت کا تعلق ہے وہ تو اس اصول سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتی جو ارکان کمیشن کے پیش نظر ہے اس سے اگر فائدہ اٹھا سکتی ہے تو ایک کلیت پسند ریاست (totalitarion state) فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کی ریاست ایک پابند آئین ریاست ہے جس کی قانون سازی کی آزادی پر اس کے دستور نے بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور جب تک وہ ایک مطلق العنان حکومت بن جانے پر آمادہ نہ ہو جائے اس کے لیے ان پابندیوں کو توڑنا ممکن نہیں ہے۔
صرف پاکستان ہی کی حکومت کی کیا تخصیص ہے۔ اس وقت تو دنیا میں کوئی حکومت بھی ایسی نہیں ہے جو سوشل جسٹس کی نگہبانی کے بہانے معاشرتی زندگی کے لیے من مانے قوانین بنانے کی جسارت کا ارتکاب کرے۔ اس قسم کی جسارت ماضی قریب میں اگر کسی حکومت نے کی ہے تووہ روس کی اشتراکی حکومت ہے۔ اس نے عین اسی اصول کی رہنمائی میں اپنے قوانین ازدواج ۱۹۱۸ و ۱۹۲۷ میں اپنے ملک کے سابق معاشرتی و ازدواجی قوانین بیک گردش قلم تلپٹ کر کے رکھ دیئے تھے۔ تمام بچے ریاست کی ملکیت اور مذہب کے تحت بندھے ہوئے تمام نکاح کالعدم قرار دئیے گئے تھے۔ خاندان کے نظام کو سرمایہ داری کی آخری کمین گاہ ٹھہرایا گیا، طلاق دینے کے لیے میاں اور بیوی دونوں کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ جب چاہیں ایک کارڈ کے ذریعے سے اپنے ارادۂ طلاق سے ایک دوسرے کو مطلع کر دیں۔ حرامی اور جائز اولاد کے حقوق قانوناً یکساں کر دئیے گئے۔ ان تمام کارناموں کے لیے دلیل یہ تھی کہ حکومت سوشل جسٹس کی کسڈوڈین ہے۔ لیکن جب اس کے نتائج سامنے آئے اور حرامی بچے فوج در فوج سڑکوں پر باؤلے کتوں کی طرح پھرنے لگے اور عورتوں کی عزت کتیوں کے برابر بھی باقی نہیں رہ گئی تب سوشل جسٹس کے ان نگہبانوں کو ہوش آیا اور پھر پچھلے قوانین بحال کیے گئے۔ کیا ارکان کمیشن یہ اصول قانون سازی پیش کر کے اپنی حکومت کو بھی یہی راہ دکھانے کے خواہشمند ہیں؟
کمیشن کا دوسرا اصول اجتہاد یہ ہے کہ:
’’اسلامی احکام میں اس امر کو مد نظر رکھ کر فرق کیا جانا چاہیے کہ کون سے احکام سب کے لیے اور برابر قائم رہنے والے ہیں اور کون سے احکام ایک خاص طرز کی سوسائٹی ایک مخصوص دور، اور ایک خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔‘‘ (ملاحظہ ہو ص ۱۹۵۶)
مطلب اس ارشاد گرامی کا یہ ہے کہ اسلام کے سارے ہی احکام نہ تو سب کے لیے ہیں اور نہ یہ ہر سوسائٹی، ہر دور اور ہر علاقہ کے لیے علاقے کے لیے عام ہیں۔ اس کے بہت سے احکام عربوں کے لیے خاص ہیں ان کو ساری دنیا پر لاد دینا بالکل غلط ہے۔ بہت سے قوانین ایک خاص طرز کی سوسائٹی کے لیے وضع ہوئے تھے۔ ان کو ہر طرح کی سوسائٹی کے سرمنڈھ دنیا حماقت ہے، بہت سے احکام ایک خاص دور سے تعلق رکھتے تھے ان کو اس دور کے گزر جانے کے بعد گھسیٹتے چلے جانا محض وقیانوسیت اور جہالت ہے۔
اس زریں اصول اجتہاد کے لیے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث یا کسی ایسے ویسے امام ومجتہد کے قول کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ جس پر آپ کوئی حرف گیری کر سکیں، بلکہ فقیہ اعظم ٹینی سن (Tennyson) صاحب کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا دین میں حجت قاطع ہونا ان لوگوں کی رائے میں گویا سب کے نزیک مسلم ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ہر پرانا نظام نئے کے لیے جگہ خالی کر کے تبدیل ہو جاتا ہے اور خدا اپنے آپ کو بے شمار شکلوں میں ظاہر کرتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایک عمدہ سے عمدہ نظام بھی دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے۔‘‘
اول تو اس ذہنیت کو ملاحظہ فرمائیے کہ جن لوگوں کو پیغمبرؐ کے ارشادات صحابہؓ کے اقوال اور آئمہ کے اجتہادات میں مجال کلام نظر آتی ہے وہ لوگ کس اطمینان سے ایک انگریز شاعر کے ایک قول کا ایک اصول اجتہاد کے ماخذ کی حیثیت سے حوالہ دیتے ہیں۔ واقعی انسان کی جب عقل ماری جاتی ہے تو وہ لعل و گہر کو پھینکتا اور مینگینوں سے دامن بھرتا ہے۔
اول تو میں ان حضرات سے یہ پوچھتا ہوں کہ اگر قرآن و حدیث کے احکام اور پیغمبر کے ارشادات ہر سوسائٹی، ہر دور اور ہر علاقے کے لیے سند اور حجت نہیں ہیں تو ٹینی سن صاحب کی بکواس ہر سوسائٹی، ہر دور اور ہر ملک و ملت کے لیے کس طرح حجت بن گئی ہے کہ آپ اس کو دلیل بنا کر سارے دین پر خط نسخ پھیر دینا چاہتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ ٹینی سن کا کہنا تو یہ ہے کہ ہر قدیم خواہ وہ کتنا ہی مقدس و محترم ہو۔ اس دنیا کے لیے لعنت ہے اور ہر جدید خواہ وہ کتنی ہی بڑی لعنت ہے اس دنیا کے لیے نہ صرف رحمت اور برکت ہے بلکہ اسی کے ذریعے سے اس دنیا میں خدا کی مرضی پوری ہوتی ہے، اگر اس کو اختیار نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس عہد کے لیے خدا نے جس نظام کو اپنا دین قرار دیا ہے ہم اس سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اس بات کو اگر اور زیادہ واضح الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں قرآن اور اسلام کا نظام قائم ہوا تھا اس زمانے میں خدا کی مرضیات کا مظہر اسلام رہا ہو تو رہا ہو لیکن اب اس عہد میں خدا کی مرضیات کااگر مظہر ہے تو وہی نظام ہے جو اس وقت تہذیب مغربی کے نام سے موجود ہے۔ آج خدا اسی بھیس میں جلوہ گر ہوا ہے اور اگر اس کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ اسلام کو اس کی جگہ لانے کی کوشش کی گئی تو یہ دنیا تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسرے یہ کہ اگر آپ حضرات کا ایمان ٹینی سن ہی پر ہے تو وہ تو قدیم میں سے کسی انتخاب کا مشورہ نہیں دیتا۔ بلکہ پورے قدیم کو تیاگ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ پھر آپ اسلام میں سے انتخاب کرنے کہاں چلے ہیں کہ اس کے جو احکام ہمہ گیر ہیں وہ تو لے لیے جائیں اور جو احکام وقت، سوسائٹی اور خاص عرب کے ساتھ مخصوص تھے وہ چھوڑ دیئے جائیں۔ اگر آپ حضرات نے ٹینی سن کو سند بنا کر خود اس کے مشورے کے بھی خلاف کیا، تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جس طرح آپ کو اسلام کی کوئی بات تحریف کے بغیر پسند نہیں آتی اسی طرح ٹینی سن پر بھی آپ حضرات کا ایمان ادھورا ہی ہے۔ یکسو ہو کر نہ آپ حضرات امت محمد میں رہنما چاہتے ہیں اور نہ امت ٹینی سن ہیں۔
اچھا، اب اس بحث کو چھوڑیے کہ ٹینی سن کیا کہتا ہے آئیے اس امر پر غور کیجیے کہ ارکان کمیشن جو کچھ فرماتے ہیں اس کی عملی شکل کیا ہو گی اور اگر ان کے زریں مشورے پر عمل کیا جائے تو اس کے نتائج کس شکل میں ظاہر ہوں گے؟ یہ حضرات اسلام کے ان احکام میں جو سب کے لیے ہیں اور ان احکام میں جو علاقائی اور وقتی ہیں امتیاز کر کے اول الذکر کو باقی رکھنے اور موخرالذکر کو منسوخ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہم جی کڑا کر کے تھوڑی دیر کے لیے یہ مشورہ قبول کیے لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟ جہاں تک خدا اور رسول کا تعلق ہے انھوں نے عمومی احکام اور علاقائی اور وقتی احکام میں امتیاز کرنے کے لیے کوئی کسوٹی ہمیں دی نہیں ہے۔ بلکہ سارے دین کو ایک ہی حیثیت میں دیا ہے اور سب کے لیے دیا ہے، اور قیامت تک کے لیے دیا ہے جو احکام وقتی تھے وہ اپنی مدت پوری کر چکنے کے بعد منسوخ ہو گئے اور یہ کام خود اللہ اور رسول نے کر دیا۔ اب ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے کہ ہم شریعت کے احکام میں وقتی اور مستقل کی تفریق کریں اور کچھ کو باقی رکھیں اورکچھ کو منسوخ کر دیں۔ اگر خدا اوررسول کی بتائی ہوئی کوئی کسوٹی جس سے یہ کام انجام پا سکے ارکان کمیشن کے علم میں ہے تو انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے اس مشورے بلکہ اس اجتہاد کے ساتھ اس کو پیش کر دیتے تاکہ کام کرنے والوں کو آسانی ہوتی۔ لیکن اگر کسی وجہ سے وہ اس رپورٹ میں اس کو پیش نہیں کر سکے ہیں تو ہماری التجا ہے کہ وہ اب بھی اس کو پیش فرما دیں تاکہ یہ کارعظیم بسہولت اور بلا کسی نزاع و اختلاف کے انجام پا سکے۔ ورنہ قدم قدم پر جھگڑا ہو گا۔ ایک شخص ایک حکم کو وقتی اور علاقائی قرار دے گا دوسرا اسی کو ابدی اور سب کے لیے عام بتائے گا۔ اس طرح ایک ایک حکم پر علاقائی و غیر علاقائی کی جنگ برپا ہو جائے گی۔
فرض کیجیے ایک شخص حج اورقربانی کے متعلق یہ دعویٰ کر بیٹھتا ہے کہ یہ محض ایک علاقائی نوعیت کا حکم تھا۔ عربوں کو اپنے اب و جد کے طریق عبادت سے دلچسپی تھی اس وجہ سے اسلام نے اس کو اپنا لیا۔ ساری دنیا کے لیے اور وہ بھی ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کے عام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے اس دعوے کا کیا جواب ہو گا؟ اسی طرح ایک دوسرا اٹھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ تحصیل زکوٰۃ کا طریقہ ایک خاص طرز کی سوسائٹی اور ایک مخصوص طرز کے معاشی اور تمدنی ماحول میں تو نبھ سکتا تھا لیکن اب جب کہ تشخیص و تحصیل محاصل کے نہایت اعلی طریقے جاری ہو چکے ہیں اسی فرسودہ طریقے پر جمے رہنا بجلی کے قمقموں کے آگے مٹی کا دیا جلانے کے ہم معنی ہے۔ ایک اور شخص کھڑا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اسلام نے شادی بیاہ اور نکاح و طلاق سے متعلق جو قوانین بنائے تھے وہ صرف ایک مخصوص طرز کی سوسائٹی ہی میں چل سکتے تھے اب تہذیب و تمدن کے اس دور میں انھی قوانین پر اصرار کرتے چلے جانا معاشرے کو جامد بنا دینا ہے۔ کوئی صاحب اسی قسم کا سوال اسلام کے کاروباری احکام یازنا اور چوری کی تعزیرات یا اسلام کے اخلاقی احکام و آداب کے متعلق اٹھا دیتے ہیں کہ یہ ساری باتیں عرب کی غیر ترقی یافتہ سوسائٹی کے لیے خاص تھیں، یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں تو کوئی شخص ان کا کیا بگاڑ لے گا۔ اس طرح تو خدا کا سارا دین ہی ہوا ہو جائے گا۔ کچھ ایک خاص قسم کی سوسائٹی کے ساتھ مخصوص ہونے کے سبب سے منسوخ ہو جائے گا۔ کچھ وقتی قرار دے دیا جائے گا اور کچھ علاقائی۔
ارکان کمیشن نے اپنے اس اصول اجتہاد کی تائید میں ٹینی سن کے مذکورہ بالا قول کے علاوہ غلامی سے متعلق اسلامی احکام کا حوالہ بھی دیا ہے کہ دیکھو ایک زمانے میں یہ احکام کتنے محترم و مقدس تھے لیکن جب زمانے کی ترقی سے سوسائٹی تبدیل ہو گئی تو یہ سارے احکام بے معنی ہو کر رہ گئے۔ اب نہ غلام ہیں نہ غلامی اور نہ غلامی سے متعلق اسلامی احکام کمیشن کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح سوسائٹی تبدیل ہو جانے کے بعد اگر شادی بیاہ، طلاق، نکاح حدود تعزیرات اور سٹہ اور سود سے متعلق اسلام کے احکام بھی منسوخ ہو جائیں تو اس پر تعجب کیوں ہو؟
یہ مثال کمیشن نے پیش کرنے کو تو پیش کر دی لیکن اس کے ایک پہلو پر اس نے غور نہیں فرمایا کہ غلامی سے متعلق احکام جو بیکار ہوئے ہیں تو وہ تو اس وجہ سے ہوئے ہیں کہ غلام جن کے تحفظ کے لیے یہ قوانین ضروری تھے، اب موجود نہیں رہے۔ اسی طرح اگر دنیا میں چوری باقی نہ رہے تو اسلام کو اس بات پر ہرگز اصرار نہیں ہو گا کہ چوری کی سزا قطع یدلازماً جاری کی جائے یا زنا دنیا میں باقی نہ رہے تو بھی اس کی سزا کسی نہ کسی پر ضرور ہی نافذ کی جاتی رہے یا تعدد ازدواج کی کوئی شخصی، عائلی، قومی ضرورت نہ بھی باقی رہے تو بھی ازدواج کی اجازت پر قانوناً عمل کرایا جائے۔ قوانین تو ضرورت کے لیے بنے ہیں۔ اگر ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو اس ضرورت کے لیے اسلام نے جو قانون بنایا ہے اس کے استعمال پر اسلام کو خواہ مخواہ اصرار کیوں ہو گا؟ لیکن اگر ایک ضرورت موجود ہے اور پہلے سے کہیں بڑھ چڑھ کر موجود ہے تو محض اس دلیل کی بنا پر کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں وہ قانون کیوں غیر ضروری ہو جائے گا جو اس ضرورت کے لیے اسلام نے بنایا ہے؟ غلامی اگر دنیا سے ناپیدا ہو چکی ہے تو یہ ایک مبارک بات ہوئی اب کسی کو بھی اصرار نہیں ہے کہ اس سے متعلق قوانین استعمال کرنے کے لیے ضرور کچھ غلام مہیا کیے جائیں۔ لیکن یہ عجیب صورت حال ہے کہ چوری تو موجود ہے لیکن چوری کی اسلامی سزا پر آپ لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ زنا گلی گلی ہو رہا ہے لیکن زنا کی سزا کے تصور سے آپ حضرات کو وحشت ہو رہی ہے۔ سود کا کاروبار گوناگوں شکلوں میں ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے متعلق اسلام نے جو قانون بنایا ہے وہ منسوخ ہو جانا چاہیے۔ تعدد ازدواج کی ضرورت کا ہر پہلو موجود ہے یہاں تک کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زنا کے دروازے چوپٹ کھولے دئیے گئے ہیں، مردوں اور عورتوں نے ذواقین و ذواقات کی ذلیل حیثیت اختیار کر رکھی ہے، مغرب اور مغرب زدہ سوسائٹی میں داشتاؤں کا ایک باقاعدہ نظام قائم ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن معدد ازدواج پر قدغن لگنی چاہیے کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔
آخر زمانہ کس اعتبار سے بدل چکا ہے؟ کیا اس اعتبار سے کہ اسلام نے جن برائیوں کے سدباب کے لیے یہ قوانین بنائے تھے وہ برائیاں اب عرب جاہلیت کے مقابلے میں ہزار گنا بڑھ گئی ہیں یا اس اعتبار سے کہ اب وہ ناپیدا ہو چکی ہیں یا اس اعتبار سے بدل گیا ہے کہ یہ ساری برائیاں اب تہذیب کے سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو اسلام اس تہذیب کی خاطر اپنے قوانین منسوخ کرنے کے بجائے آپ کی اس تہذیب پر لعنت بھیجنا ہے اور اپنے پیروؤں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی تعاون کرنے کے بجائے اس کو جڑپیڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنا پورا زور استعمال کریں۔
کمیشن نے اپنا ایک متفق علیہ اصول اجتہاد یہ بتایا ہے کہ جو چیز قطعی اور غیر مشروط طور پر ایک واضح حکم کے ذریعے سے ممنوع نہیں ہے وہ جائز ہے اگر افراد یا قوم کی بہبود اس کا تقاضا کر رہی ہے‘‘ (ص ۱۲۰۴)
اس اصول کو اسلامی اصول فقہ کا ایک بنیادی اصول بتایا گیا ہے حالانکہ اسلامی اصول فقہ سے اس کو کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ہمارے اصول فقہ میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ ’’اشیا میں اصل شے اباحت نہیں، حرمت ان پر شریعت کے حکم کے تحت وارد ہوتی ہے۔‘‘اب یہ وارد ہونا ایک واضح حکم کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے کسی نص کے اشارہ یا اقتضا کے تحت بھی ہو سکتا ہے اور امثال و نظائر پر قیاس کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے۔ کسی چیز کی حرمت یا کراہت بیان کرنے کا طریق قرآن یا حدیث میں صرف یہی نہیں ہے کہ ’’ہم نے فلاں چیز غیر مشروط اور قطعی طور پر حرام کر دی بلکہ اس کے بہت سے اسلوب ہیں۔ کبھی ایک شے کا مثبت پہلو بیان کر دیا جاتا ہے جس سے یہ بات آپ سے آپ نکل آتی ہے کہ اس کا ضد اسلام میں حرام ہے۔ کبھی ایک حکم خاص بیان ہوتا ہے اور سیاق کلام دلیل ہوتا ہے کہ اس طرح کی ساری ہی چیزیں حرام ہیں۔ کہیں کسی چیز کی تحریم، یا کراہت کے حکم کے ساتھ اس کی حرمت یا کراہت کی علت واضح کر دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جن چیزوں کے اندر یہ علت پائی جائے گی وہ ساری چیزیں حرام یا مکروہ ہیں۔
ارکان کمیشن نے جو من گھڑت اصول اجتہاد اصول فقہ کی طرف منسوب کیا ہے اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو پھر تو اس اجتہاد کی بحث میں پڑنا ہی لاحاصل ہو گیا جس کی ضرورت ثابت کرنے پر ان حضرات نے اتنی قوت صرف فرمائی ہے کہ پھر تو ان چند چیزوں کے سوا جن کو قطعی اورغیر مشروط طور پر کسی واضح حکم کے ذریعے سے حرام ٹھہرا دیا گیا ہے باقی ساری چیزیں جائز اورحلال و طیب ہو گئیں۔ اس کے بعد کسی اجتہاد و قیاس کی کھکھیڑ میں پڑنے کی ضرورت ہی کب باقی رہی؟ اور یہ ’’غیر مشروط‘‘ کی قید لگا دینے کے بعد تو اکثر پچھلی حرمتیں بھی ہوا ہو گئیں۔ کیونکہ بہت سی حرمتیں ایسی ہیں جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی شرط بھی لگی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ زمانے کے جتنے فتنے بھی ہیں انھوں نے ایک نیا سانچہ اختیار کر لیا ہے۔ آپ ان میں سے ہر چیز کی نسبت یہ فرما سکتے ہیں کہ خاص ان کی حرمت اسلام میں ’’واضح اور غیر مشروط طور پر‘‘ کہاں وار ہے؟ بلکہ اس سے بڑھ کر اس اصول کے تحت آپ کے یہ سوال بھی معقول ہو جائیں گے کہ یہ کہاں ’’واضح اور قطعی طور‘‘پر لکھا ہوا ہے کہ عورت قوام نہیں ہو سکتی یا عورت خود طلاق دینے کی مجاز نہیں ہے، یا عورت مہر ادا کرنے اور نفقہ دینے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد بھی مرد پر شوہرانہ اختیارات نہیں حاصل کر سکتی؟ واقعہ یہ ہے کہ ان چیزوں میں سے کسی چیز کا حرام ہونا ’’قطعی طور پر‘‘ تو قرآن یا حدیث میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا ہے یہ ساری چیزیں اگر اسلام میں ممنوع ہیں تو اس وجہ سے ہیں کہ اس نے جو اصول قائم کر دئیے ہیں یہ باتیں ان کے خلاف ہیں اس وجہ سے تو نہیں ہیں کہ ’’قطعی اور غیر مشروط طور پر واضح الفاظ‘‘ میں ان کی ممانعت وارد ہے۔ اپنے اس نادر اصول کے بعد تو یہ حضرات اگر کل کو یہ چیلنج کر دیں کہ قطعی اور غیر مشروط طور پر کہاں واضح الفاظ میں اس بات کی ممانعت وارد ہے کہ ایک عورت بیک وقت چار مردوں سے نکاح نہیں کر سکتی تو مجھے اندیشہ ہے کہ غریب مولوی ان لوگوں کو شاید ہی کوئی مسکت جواب دے سکیں۔
کمیشن کا چوتھا اصول اجتہاد یہ ہے کہ موجود زمانے کے معاشرتی اور اقتصادی سانچے یک قلم تبدیل ہو چکے ہیں اس وجہ سے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جس نقشے کو سامنے رکھ کر معاشرتی اور اقتصادی مسائل حل کیے گئے تھے وہ نقشہ اب کام نہیں دے سکتا۔ اب اس نئے نقشے کی پیروی کرنی چاہیے جو زمانہ ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:
’’موجودہ زمانے کا معاشرتی اور اقتصادی نقشہ (Pattern) اسلام کی ابتدائی صدیوں کے مقابلے میں قابل لحاظ حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ ص ۱۲۲۹
اس حقیقت سے تو انکار نہیں ہو سکتا کہ موجودہ زمانے کے اقتصادی اور معاشرتی سانچے اسلام کی ابتدائی صدیوں کے مقابلے میں تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ تبدیلی ہم سے اس بات کا مطالبہ کر رہی ہے کہ ہمیں نئے پیدا شدہ مسائل کا اسلام کی روشنی میں حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اگر اس تبدیلی کی خبر دینے سے کمیشن کا مقصد وقت کے اس مطالبے کی طرف اشارہ کرنا ہے تو اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر کمیشن کا مطلب یہ ہے کہ ان تبدیلیوں میں سے ہر تبدیلی مستحسن ہے اور اس تبدیلی کے مطابق نہ صرف ہمیں بلکہ اسلام کو بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تو کمیشن کے اس خیال کے ساتھ کوئی معقول آدمی اتفاق نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ ان میں سے بہت سی تبدیلیاں ایسی ہیں جو زمانہ جاہلیت کی طرف رجعت کے حکم میں داخل ہیں اور ان کو نہ صرف یہ کہ ہمیں قبول نہیں کرنا ہے بلکہ اگر ہم اسلام کو جاہلیت پر غالب دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں ان کی اصلاح کرنی ہے۔ کمیشن اگر زمانے کی ہر تبدیلی کو مبارک سمجھتا ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا سب کچھ بدل لینے کا مشورہ دیتا ہے تو ہمارے نزدیک یہ مشورہ نہایت غلط ہے۔
اس اصول اجتہاد کے قائم کر لینے کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر بار بار کمیشن نے یہ دعوی کرنے کی غلطی کیوں کی ہے کہ ہم جو کچھ فرما رہے ہیں وہ عین کتاب و سنت کی روشنی میں فرما رہے ہیں پھر تو نہ اسلام ایک دین کامل رہا اور نہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ دائمی رہا۔ اگر یہ کہا گیا تھا کہ الیوم اکملت لکم دینکم (اب میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا) یا یہ فرمایا گیا تھا کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (تمہارے لیے رسول کے طریقے کے اندر نمونہ ہے) تو یہ ساری باتیں وقتی اور زمانی ہوئیں۔ پیروی کے لیے اصلی اسوہ تو زمانے کا اسوہ ہوا۔ پھر کتاب و سنت کا حوالہ دینے کا تکلف کیوں کیا گیا۔ پھر تو یہی ایک فیصلہ کن بات کہنے کی تھی کہ موجود زمانے کے معاشرتی اور اقتصادی سانچے اور ہیں اس لیے قرآن و حدیث کو اب بالائے طاق رکھو۔ یہ وقیانوسی چیزیں اب چلنے والی نہیں ہیں۔
ارکان کمیشن نے اس اصول کے بیان کرنے میں غایت اجمال سے کام لیا ہے۔ یہ واضح نہیں فرمایا کہ موجودہ زمانے کی وہ کیا اقتصادی و معاشرتی برکتیں اور رحمتیں ہیں جن کے ظہور میں آجانے کے بعد اب اسلام کی بساط لپیٹ دینی چاہیے۔ اس وقت کے سماجی و اقتصادی نظام کی بہترین نمائندگی تو انگریز اور امریکن یا روسی کر رہے ہیں۔ آخر ان کی وہ کونسی چیز ہے جس کے اتباع اور جس کے لیے اسلام کو چھوڑنے کی ارکان کمیشن دعوت دے رہے ہیں۔ ہم تو ان دونوں ہی کے معاشرتی اور اقتصادی نظام پر یکساں لعنت بھیجتے ہیں اور ان کو دنیا کے لیے عذاب سمجھتے ہیں۔ اگر ارکان کمیشن ان کے ماسوا کوئی اورمعاشرتی اور اقتصادی نظام اپنے ذہن میں رکھتے ہیں تو براہ کرم ارشاد ہو کہ وہ کیا ہے۔ کیونکہ اس رپورٹ کے اندر تو مغرب کی اندھی اور احمقانہ تقلید کے سوا ہمیں کوئی چیز بھی نظر نہیں آتی۔
کمیشن کا پانچواں اصول اجتہاد یہ ہے کہ:
’’انسانی روابط کے بنیادی اصول جو قران میں بیان ہوئے ہیں وہ تو ہمیشہ قائم رہیں گے لیکن ان کے نفاذ اور تطبیق کا طریق حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا چاہیے۔(ص ۱۲۲۹)
اول تو ارکان کمیشن کو یہ متعین فرما دینا چاہیے کہ انسانی روابط کے ’’بنیادی اصول‘‘کیا ہیں اس رپورٹ سے تو جو کچھ واضح ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی چیز بھی ایسی بنیادی نہیں ہے جو ان حضرات کے نزدیک تبدیل نہ ہو سکتی ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہے تو اس کو واضح اور متعین ہو جانا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی اصول کو خود قرآن نے یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کے متفقہ عمل نے زندگی کے حالات پر تطبیق دے کر دکھا دیا ہو تو اس کی بابت کیا ارشاد ہے؟ اس کو باقی رہنا چاہیے یا نہیں؟ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن کریم صرف چند اصولوں ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس نے اصولوں کو زندگی پر منطبق بھی کیا ہے اور سنت تو نام ہی ہے زندگی کے معاملات پر قرآنی اصولوں کی تطبیق کا۔ یہی خدمت اپنے اپنے دور میں آئمہ اسلام نے انجام دی ہے۔ کیا ان سب کے بارے میں ارکان کمیشن کا مشورہ یہ ہے کہ ان کو یکسر نظر انداز کر کے قرآن کے اصولوں کو ازسرنو زندگی کے حالات پر تطبیق دی جائے اور نئی سنت اور نئی فقہ مرتب کی جائے؟
ان کا چھٹا اصول اجتہاد یہ ہے کہ:
’’شادی، طلاق، ولایت، تولیت اور وراثت سے متعلق قوانین و ضوابط، خاندانی تعلقات و تحفظ استحکام اور کمزورں کی مدد کے نقطۂ نظر سے از سرنو ترتیب و اصلاح (over hauling) کے محتاج ہیں۔‘‘ (ص۱۲۲۹)
یہ احکام و قوانین ظاہر ہے کہ صرف آئمہ اورفقہا کے اجتہادات ہی سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ ان کا بہت سا حصہ خود قرآن میں بیان ہوا ہے۔ پھر ان کی تفصیلات احادیث میں مذکور ہوئی ہیں۔ اس کے ایک حصے پر خلفائے راشدین کا اجماع ہے اور کچھ حصہ ہے، جو فقہا کے اجتہادات سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر یہ سب نظر ثانی اور جانچ پڑتال کے محتاج ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان میں سے جو بدلے ہوئے حالات کے اندر اختیار کیے جانے کے لائق ہیں وہ تو رکھ لیے جائیں اور جو ان حضرات کے خیال میں فرسودہ اور کہنہ ہو چکے ہیں وہ ترک کر کے ان کی جگہ پر نئے قوانین وضع کر لیے جائیں۔
خاندان کے استحکام و تحفظ اور کمزوروں کی ہمدردی کا جو دوران حضرات کے اندر اٹھا ہے اس کی حقیقت آگے چل کر واضح ہوگی۔ جب آپ کے سامنے وہ تجاویز اور سفارشات آئیں گے جو ان حضرات نے مذکورہ بالا مقصد سامنے رکھ کر مرتب کی ہیں، میں آگے ان پر تبصرہ کر کے دکھاؤں گا کہ اگر یہ سفارشیں اور تجویزیں منظور ہو جائیں تو صبح و شام میں ہمارے معاشرے کے ایک ایک خاندان کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور ہمارے اندر بھی میاں کا بیوی کے ساتھ اور بچوں کا والدین کے ساتھ وہی رسمی اور بے روح تعلق رہ جائے جو آج انگلستان اور امریکہ کے اکثر گھروں میں نظر آتا ہے اور جس پر وہاں کے سنجیدہ لوگ ماتم کر رہے ہیں۔ نیز کمزوروں کی جس ہمدردی کا حوالہ دیا گیا ہے اس کی حقیقت بھی واضح کروں گا کہ ان کی تجویز کردہ اصلاحات سے اگر وہ عمل میں آ جائیں تو طبقہ نسواں کی کیاگت بنے گی۔
ہمارے ان نئے آئمہ کا ساتواں اصول اجتہاد یہ ہے کہ اسلام نے بعض چیزوں کی اجازت شروع شروع میں اس لیے دے دی تھی کہ اس وقت انسانی سوسائٹی اپنے دور طفولیت میں تھی۔ اب اس دور کمال و ترقی میں اگر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ ان اجازتوں سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ضروری ہے کہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کر دی جائیں جن سے اس سوء استعمال کے نقصانات کو زیادہ سے زیادہ حد تک کم کیا جا سکے۔
ارشاد ہوتا ہے:
’’خاص قسم کی معاشرتی بیماریاں خاص قسم کے علاج کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگر اسلام نے ایک چیز کا حکم نہیں، بلکہ صرف اس کی اجازت اس لیے دی تھی کہ انسانی سوسائٹی ہنوز اپنے دور طفولیت میں تھی اور یہ اجازت غلط طور پر استعمال ہو رہی ہے تو اس اجازت پر مزید پابندیاں اور شرطیں عائد کی جا سکتی ہیں تاکہ موجودہ خرابیوں کو ممکن حد تک کم کیا جاسکے۔‘‘ (ص ۱۲۲۹)
ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اسلام کی اجازتیں ہوں یا احکام یہ سب فطرت پر مبنی ہیں، فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا اور انسان کی فطرت ہر دور ہر زمانے اور ہر ملک میں ایک ہی رہنی چاہیے۔ اس وجہ سے اسلام کے احکام ہر ملک اور ہر زمانے کے لیے یکساں طور پر انسان کی فطرت کے مطابق ہیں۔ جو چیزیں زمانے اور آب و ہوا سے متاثر ہوا کرتی ہیں ان کے بارے میں اسلام نے کوئی حکم ہی نہیں دیا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے حالات کے تحت ان میں جو رویہ پسند کریں اختیار کر سکیں۔ لیکن ہمارے یہ نئے آئمہ ہمیں یہ خبر دیتے ہیں کہ اسلام کے احکام میں ایسے احکام بھی ہیں جو محض انسانی سوسائٹی کے دور طفولیت کے تقاضوں کے تحت دئیے گئے تھے۔ اگر یہ بات صحیح ہے اور ان حضرات کا یہ فرمانا بھی صحیح ہے کہ اس طرح کے احکام یا اجازتوں میں اس دور ترقی و کمال میں ترمیم و اصلاح ہو جانی چاہیے تو گزارش یہ ہے کہ صرف ترمیم و اصلاح یا مزید پابندیوں کے اضافہ ہی پر کیوں اکتفا کیجیے۔ اس طرح کے احکام اور اجازتوں کو سرے سے ختم ہی کیوں نہ کر دیجیے آخر بچپنے کے اس بھگوا کو اس جوانی کے زمانے میں پہنے رہنا کہاں کی دانائی ہے؟ اس میں پیوند لگا لگا کر اور کھینچ تان کر کہاں تک اس لنگوٹی کو اپنے جسم پر راست لانے کی کوشش کریں گے؟ فرض کیجیے کچھ دنوں تک آپ اس سے اپنی ستر ڈھانکنے میں کامیاب بھی ہو گئے تو اس سے کیا بنتا ہے آخر ایک نہ ایک دن تو یہ آپ کو اتار کر نیا جامہ زیب تن کرنا ہی پڑے گا؟ پھر جو کام بہت سی ذلتوں اور رسوائیوں کے بعد کل آپ کو کرنا ہی ہے تو آج ہی اس سے کیوں نہ فارغ ہو جائے؟
پھر اس سوال پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر اسلام کا ظہور ایک ایسے عہد میں ہوا جب کہ انسانی سوسائٹی اپنے دور طفولیت میں تھی اور اس سبب سے اس نے بعض ’’طفلانہ‘‘ احکام دے دیے تو آخر بعض ہی احکام کیوں طفلانہ دئیے؟ عقل و حکمت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سارے ہی احکام سوسائٹی کے سن وسال اور اس کے عقلی معیار کے مطابق دئیے گئے ہوں۔ بچوں کو تو کوئی سبق بھی ایسا نہیں پڑھایا جاتا جو بوڑھوں کے لیے موزوں ہو۔ ان کو تو سارے ہی سبق وہی پڑھائے جاتے ہیں جو ان کے ذہن اور ان کی استعداد کے مطابق ہوں۔ اس دلیل کو بنیاد بنا کر اگر ایک شخص یہ کہے کہ پورا اسلام انسانی سوسائٹی کے عہد طفولیت کا دین ہے اور اس تہذیب و ترقی کے زمانے میں اس کی کوئی چیز بھی اختیار کیے جانے کے لائق نہیں ہے تو آپ کا یہ نظریہ تسلیم کر لینے کے بعد اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟ پھر تو روزہ اور نماز سے لے کرحدود تعزیرات اور بیوع و معاملات تک سب اس کی زد میں آ جائیں گے اور ایک ایک چیز کے متعلق بڑی آسانی کے ساتھ یہ کہا جا سکے گا کہ اسلام نے سوسائٹی کے ابتدائی اسٹیج میں یہ حکم دے دیا تھا اب اس میں ترمیم و اصلاح ضروری ہے۔ کیا ارکان کمیشن اپنے اس اصول اجتہاد سے اسی فتنہ کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں؟
اس اصول کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ العیاذ باللہ خدا نے اپنے آخری نبی کو بالکل قبل از وقت بھیج دیا جب کہ وہ اس دنیا کو کسی ایسے دین کی تعلیم نہیں دے سکتے تھے، جو رہتی دنیا تک قائم رہ سکے اس لیے یا تو ایک خاتم الانبیا اب اس دور کمال و ترقی میں آئے یا کم از کم نبوت کا سلسلہ (خواہ وہ ظلی ہو یا بروزی، قائم و دائم رہے) کیا ارکان کمیشن اپنے قیمتی اجتہاد کے اس قیمتی نتیجہ کو تسلیم کرتے ہیں؟
یہ فقاہت بھی قابل داد ہے کہ اگر لوگ کسی حکم یا کسی اجازت کی شرطیں پوری نہیں کر رہے ہیں تو ان پر مزید شرطیں عائد کر دی جائیں۔ ایک طرف تو یہ حضرات پرانے فقہا پر یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ انھوں نے دین کو اصرو اغلال کا ایک مجموعہ بنا دیا ہے۔ دوسری طرف خود اپنا رویہ یہ ہے کہ لوگ چونکہ چار شرطیں پوری نہیں کر رہے تھے۔ اس وجہ سے انھوں نے چار کا اور اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ان مزید چار کے اضافے کے بعد بھی وہی الجھن باقی رہے تو پھر کیا ہو گا، کیا مزید شرطوں کا اضافہ ہو گا، یا سرے سے اجازت ہی منسوخ کر دی جائے گی۔ آخر ان دانشوروں نے اس پہلو پر بھی کیوں غور نہیں فرمایا کہ جب انسانی سوسائٹی اپنے ’’دور طفولیت‘‘ میں تھی تو اسلام حکومت نے کس طرح لوگوں سے یہ شرطیں پوری کرائیں؟ کیا زمانے کی ترقی اور اس کے کمال کی یہی دلیل ہے کہ عہد طفولیت کی حکومت تو لوگوں کو آزادی دے کر بھی حدود کی پابند رکھ سکتی تھی اور کسی کی مجال نہ تھی کہ ان حدود سے آگ پیچھے ہو سکے۔ لیکن دور کمال میں جب تک انسان کے جوڑ جوڑ کو باندھ نہ لیا جائے اس وقت تک اس سے دو بیویوں کے درمیان عدل بھی نہیں کرایا جا سکتا؟ اگر اس دور کمال کی یہی برکتیں ہیں تو خدا ان لوگوں کی عقلوں پر رحم فرمائے جو اسلام کے عہد اول کی سوسائٹی کی تو عہد طفولیت کی سوسائٹی کہتے ہیں اور اپنی سوسائٹی کو دور شباب کی سوسائٹی سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک تو اس شباب سے وہ بچپن ہی اچھا تھا۔ جب انسان میں اتنا ہوش گوش تو تھا کہ آزاد رہ کر بھی وہ حدود کی پابندی کرتا تھا۔
آٹھواں اصول اجتہاد جس پر ان حضرات نے اعتماد فرمایا ہے وہ استحسان ہے اس میں شبہ نہیں کہ استحسان کے اصول کو فقہائے حنفیہ مانتے ہیں لیکن ان کے نزدیک اس کا مفہوم اس سے بالکل مختلف ہے جو ان حضرات نے اس کا سمجھا ہے۔ یہ حضرات تو اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر جو جی میں آئے قانون بنا ڈالے جائیں یہ استحسان ہو گا اور یہی فقہائے حنفیہ کے نزدیک ایک نہایت معتبر اصول اجتہاد ہے جس سے ماضی میں بے شمار قانونی مشکلیں حل کی گئی ہیں‘‘ لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے۔ استحسان کے متعلق یہ امر سب کے نزدیک مسلم ہے کہ جس دائرے میں کتاب و سنت یا اجماع کی کوئی رہنمائی موجود ہے وہاں اس کا کوئی کام نہیں ہے، وہاں جو کچھ کتاب و سنت یا اجماع سے ثابت ہے وہی اصل ہے۔ اگر حنفیہ اس اصول کو کوئی اہمیت دیتے ہیں تو اس دائرے میں دیتے ہیں جس دائرے میں سارا مدار بحث قیاس یا عرف و مصلحت پر ہے۔ اس دائرے میں بعض مرتبہ ایک خاص صورت حال یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک بات قیاس کی رو سے تو قوی معلوم ہوتی ہے لیکن مصلحت اور ضرورت کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں حنفیہ کا ایک گروہ اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ قیاس کو چھوڑ کر مصلحت کو اختیار کر لیا جائے اور اس کو وہ استحسان کہتے ہیں۔
امام شافعی اس استحسان کے بڑے مخالف ہیں۔ وہ اس کو ایک مستقل تشریع قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا حق اللہ اور رسول کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر استحسان کا یہ مفہوم سمجھا جائے کہ محض مصلحت اور مفاد کو سامنے رکھ کر جس کے جو جی میں آئے قانون بنا ڈالے جیسا کہ ارکان کمیشن کہتے ہیں یا ایک صحیح قیاس پر بھی محض مفاد کو ترجیح دے دی جائے تو یہ ایک مستقل تشریع ہوئی جس کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اسلام میں مصلحت یا ضرورت کا ایک خاص دائرہ ہے جس میں اسلام نے سرے سے دخل ہی نہیں دیا ہے۔ اس دائرے میں مصلحت اور ضرورت ہی ہمارے رہنما ہیں۔ اس وجہ سے اس میں ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر مصالح اور حالات کی رعایت کے ساتھ جو کچھ کریں گے اگر وہ دین اور اخلاق کے کسی اصول کے منافی نہیں ہے تو وہی حق ہے اور اسی میں خدا کی رضا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حنفیہ اسی دائرے میں استحسان کے قائل ہیں اور اسی کو مالکیہ مصالح مرسلہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
____________