HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اجتہاد کی نئی تعریف

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اجتہاد کی ضرورت پر پہلے ایک لمبی بحث کی ہے، پھر اجتہاد کی نئی تعریف کر کے اپنے کچھ نئے اصول اجتہاد قائم کیے ہیں۔ اجتہاد کی اس نئی تعریف اور ان نئے اصولوں کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اپنی سفارشات میں کمیشن نے جو انقلابی قدم اٹھایا ہے اس کو اس وقت تک جائز اور معقول ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا جب تک اجتہاد کی نئی تعریف کر کے اس کی روشنی میں اجتہاد کے کچھ نئے اصول اختراع نہ کیے جاتے۔ ہمارا اب تک کا جتنا بھی فقہی ذخیرہ ہے وہ تمام تر اجتہاد کے ان پرانے اصولوں پر تیار ہوا ہے جو ہماری اصول فقہ کی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اب اگر کوئی نئی فقہ بنانی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ پرانے اصول کام نہیں دے سکیں گے اس لیے لازماً نئے اصول فقہ ایجاد کرنے پڑیں گے۔

میں کمیشن کی سفارشات پر بحث کرنے سے پہلے اس جدید اصول فقہ کا بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں، کیونکہ اس کا جائزہ لیے بغیر سفارشات کی اصلی قدرو قیمت واضح نہ ہو سکے گی۔

کمیشن نے جہاں تک اجتہاد کی ضرورت پر بحث کی ہے مجھے اس ضرورت سے انکار نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں اس پر کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ اس سلسلے میں مجھے اگر ارکان کمیشن سے شکایت ہے تو صرف اس بات کی ہے کہ یہ حضرات تخلیقی ذہن رکھنے کے مدعی ہونے کے باوجود اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کوئی تخلیقی نوعیت کا استدلال نہ پیش کر سکے۔ ایک آیت نقل کی ہے تو وہ بالکل بے محل۔ دوحدیثیں نقل کی ہیں تو وہ ضعیف۔ ایک صحیح حدیث نقل بھی کی ہے تو وہ بالکل بے موقع۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کا تمام تر اعتماد صبحی محمصانی کی کتاب ’’فلسفہ التشریح فی الاسلام‘‘ کے اردو ترجمے ہی پر رہا ہے حالانکہ اس باب میں نہ آیات کی کمی تھی نہ احادیث کی اور نہ نقلی اور عقلی دلائل کی۔ تاہم میں اس بحث کو زیادہ کریدنا نہیں چاہتا۔ میں خود اپنے دلائل کی بنا پر اس بات کا قائل ہوں کہ اجتہاد کی ضرورت ہے یہ ہمیشہ رہی ہے اور رہتی دنیا تک رہے گی۔ البتہ ان حضرات نے اجتہاد کی جو نئی تعریف کی ہے اور اس کے جو نئے اصول قائم کیے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے اس وجہ سے ان پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔

اجتہاد کی تعریف اور اس کے شرائط

اجتہاد کی تعریف علامہ اقبال مرحوم کے حوالے سے کمیشن نے یہ فرمائی ہے:

’’لفظ اجتہاد کے لغوی معنی کوشش کرنے کے ہیں اور اسلامی قانون کی اصطلاح میں اس کا مفہوم کسی قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنا ہے۔‘‘گزٹ آف پاکستان ص۱۱۹۹

اس اجتہاد کے لیے ان حضرات کے نزدیک علم دین میں کسی خاص مہارت یا عربی زبان کی کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو جو کسی قسم کا بھی علم رکھتا ہے حق حاصل ہے کہ وہ اجتہاد کرے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلام میں پاپائیت نہیں ہے، اس نے پادریوں اور عوام کو الگ الگ تقسیم کر کے پادریوں کو کچھ خاص امتیازی حقوق نہیں دیئے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’حضرت عمر نے دیکھا کہ ایک عام عورت بھی بسا اوقات خود ان سے بہتر فیصلے دیتی ہے اگر وہ علم کے ساتھ بات کرتی ہے تو وہ اپنا ایک ایسا حق استعمال کرتی ہے جو اسلام کی رو سے اسے حاصل ہے۔‘‘ گزٹ آف پاکستان ص ۱۲۰۱

کمیشن کے نزدیک تمام آئمہ و مجتہدین کے متفق علیہ اجتہادات کے خلاف بھی اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ عملاً کمیشن نے ایسا کیا بھی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ان ائمہ میں سے کوئی صاحب بھی معصوم نہیں تھے اور یہ کہ جس طرح سائنس میں کسی دور کے تمام سائنسدانوں کا کسی بات پر اتفاق بھی اس بات کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اسی طرح قانون کی تاریخ میں بھی کسی خاص دور کے تمام مجتہدین کا کسی امر پر اجماع اس کی صحت و صداقت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

’’اور بعض معاملات میں کمیشن نے قرآن اور سنت کے اصل احکام کو بعد کے فقہا کے اجتہادات پر ترجیح دی ہے، قطع نظر اس سے کہ ان کے اتفاق یا اختلاف کا درجہ کیا ہے، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کیا ہے جس طرح سائنس میں ہے اسی طرح قانون کی تاریخ میں بھی یہ بات ہے کہ بعض اوقات کسی خاص دور کے تمام مجتہدین کا کسی بات پر اجماع بھی اس کی صحت و صداقت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‘‘ ص ۱۲۳۱

اجتہاد کی بحث میں کمیشن نے اس طرح کے جواہر ریزے بکھیرے تو بہت ہیں لیکن میں طوالت سے بچنے کے لیے صرف مذکورہ بالا چند نکات ہی پر اپنی بحث کو مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔

اسلامی اصطلاح میں اگر اجتہاد کے معنی کسی قانونی مسئلے پر آزادانہ اظہار خیال یا آزادانہ رائے قائم کرنے ہی کے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ عام قانون سازی اور اسلامی اصول فقہ اجتہاد میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ بس الفاظ کا فرق ہے۔ مسلمانوں نے اپنی قانون سازی کا نام اجتہاد رکھ چھوڑا ہے۔ دوسرے اسی مفہوم کو اپنی اپنی زبانوں اور اپنی بولیوں میں کسی اور طرح تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو امریکہ کی پارلیمنٹ جب قانون سازی کرتی ہے تو وہ بھی درحقیقت اجتہاد ہی کرتی ہے، برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان جب کسی قانونی مسئلہ پر آزادانہ رائے قائم کرتے ہیں تو وہ بھی اجتہاد ہی فرماتے ہیں اور بھارت کی پارلیمنٹ کے ارکان جب کسی قانونی مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے ہیں تو وہ بھی اجتہاد ہی ہوتا ہے اور یہ سارے ہی اجتہاد گویا اسلامی اجتہاد ہیں کیونکہ یہ سب آزادانہ رائے قائم کرتے ہیں۔

اگر یہ حضرات یہ فرماتے کہ خود ان کے اپنے نزدیک اجتہاد کی تعریف یہ ہے تو ہم کو اس پر زیادہ اعتراض نہ ہوتا لیکن جب وہ اس کو ایک اسلامی اصطلاح مانتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجتہاد کا یہ مطلب کسی آیت یا کسی حدیث سے اخذ کیا گیا ہو یا کسی مجتہد اور کسی فقیہ نے یہ بیان کیا ہے؟ علامہ اقبال نے اگر کہیں یہ بات لکھی ہے تو یہ کوئی دلیل نہیں ہوئی کیونکہ یہ اصطلاح علامہ اقبال کی نہیں ہے بلکہ فقہا اور اصولیوں کی ہے، انہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس اصطلاح کا مطلب بیان کریں اور جو مطلب وہ بیان کریں گے وہی مطلب اس کا ہر ایک کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اگر کسی کو اجتہاد کی اس تعریف سے اختلاف ہو جو فقہا اس کی کرتے ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ دلائل کے ساتھ پہلے اس کی تردید کرے اور پھر کتاب و سنت کی روشنی میں خود اپنی تعریف پیش کرے لیکن جو اصطلاح دوسروں کی ہے اس کا مطلب خود وضع کرنا اور اس کو ان کے سر چپیک دینا کوئی انصاف نہیں ہے۔

میں ہر دور کے ماہرین فقہ و اصول فقہ کی کتابوں کی مراجعت کے بعد یہ عرض کرتا ہوں کہ اجتہاد کے یہ معنی اب تک کسی نے بھی نہیں لیے ہیں۔ افسوس ہے کہ بہت کتابوں کے حوالے نقل کرنے میں خواہ مخواہ کی طوالت ہو گی ورنہ میں ہر دور کی کتابوں کے حوالے یہاں پیش کر دیتا ہوں۔ تاہم عام ناظرین کے اطمینان کے لیے چند حوالے پیش کرتا ہوں۔

علامہ آمدی اپنی مشہور کتاب ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں اجتہاد کی لغوی تعریف کرنے کے بعد اس کی فنی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:۔

’’اصولوں کی اصطلاح میں لفظ اجتہاد مخصوص ہے اس انتہائی کوشش کے لیے جو کسی امر شرعی کے بارے میں یہ گمان حاصل کرنے کے لیے صرف کی جائے کہ یہ شرع کے موافق ہے۔‘‘ (ص ۲۱۸ ج ۴)

امام شاطبی کی ’’الموافقات‘‘ میں اجتہاد کی یہ تعریف ہے:۔

’’اجتہاد نام ہے شرعی احکام معلوم کرنے اور ان کو حالات پر تطبیق دینے کے لیے انتہائی کوشش کا۔ (ص ۸۹ ج ۴)

صبحی محمصانی کی کتاب ’’فلسفہ التشریح فی الاسلام‘‘ کمیشن کے نزدیک غالباً مستند ترین ماخذوں میں سے ہے اس وجہ سے اجتہاد کی جو تعریف اس نے کی ہے وہ بھی سن لیجیے:۔

’’لغت میں اجتہاد کے معنی پوری پوری کوشش صرف کرنے کے ہیں لیکن اصطلاح میں اس سے مراد وہ کوشش صرف کرنا ہے جو احکام کا علم شرعی دلائل سے حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔ یعنی دین کے ان سرچشموں سے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، احکام استنباط کرنے کی سعی کرنا۔ (ص۱۵۳)

دیکھیے اصل حقیقت کیا ہے اور یہ حضرات کیا بیان کرتے ہیں کجا دین کے اصلی سرچشموں سے احکام مستنبط کرنا اور کجا کسی قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنا؟ کیا ان دونوں میں آسمان و زمین کا فرق نہیں ہے؟ لیکن ارکان کمیشن اگر اجتہاد کی یہ تعریف نہ کریں تو اپنی ان سفارشات کو دین کے اندر کس طرح شامل کر سکتے ہیں جو دین کے ماخذ سے اسی قدر بے نیاز ہیں جس قدر امریکی یا بھارتی مجلس قانون ساز کا آزادانہ اجتہاد دین سے دور ہے۔

ارکان کمیشن نے امام مالک کا ایک قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں ایک انسان ہوں کبھی صحیح بات کہتا ہوں اور کبھی غلطی کر جاتا ہوں میری رایوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول پر جانچ لیا کرو۔ اگر ان کے موافق نہ پاؤ تو ان کو پھینک دو۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ نہ میری پیروی کرو نہ مالک کی نہ شافعی کی اور نہ ثوری کی بلکہ انہی سرچشموں سے احکام مستنبط کرنے کی کوشش کرو جن سے انھوں نے مستنبط کیے۔ کمیشن نے یہ اقوال یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے ہیں کہ یہ ائمہ اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھتے تھے۔ بلا شبہ ان اقوال سے یہ بات ثابت ہو گئی لیکن کیا انہی اقوال سے یہ حقیقت بھی واضح نہیں ہوئی کہ اجتہاد آزادانہ رائے قائم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ دین کے اصلی سرچشموں سے احکام مستنبط کرنے کا نام ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو امام مالک اپنے اجتہادات کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کا کیوں مشورہ دیتے اور امام احمد بن حنبل یہ کیوں فرماتے کہ براہ راست دین کے سرچشموں کی طرف توجہ کرو۔ جو رائے آزادانہ قائم کی گئی ہو۔ اس کو کتاب و سنت پر پرکھنے سے کیا حاصل؟

اب اس سلسلے کی دوسری بات لیجیے۔ اس اجتہاد کے لیے ان حضرات کے نزدیک کسی خاص علم و قابلیت کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ڈیموکریسی کی صحیح روح کے بروئے کار لانے کے لیے یہ حضرات ضروری سمجھتے ہیں کہ ہر شخص اجتہاد کرے۔ اپنے اس نظریے کے ثبوت میں یہ حضرت عمر کے زمانے کی ایک خاتون کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک معاملے میں عین منبر پر حضرت عمر کو ٹوک دیا اور حضرت عمر نے ان کے اجتہاد کی تعریف فرمائی۔

اور اگر بدرجہ ادنیٰ اس کے لیے یہ کسی علم کی ضرورت سمجھتے بھی ہیں تو وہ علم بہرحال قرآن و حدیث، یا عربی زبان کا علم نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس علم کو بالکل کافی سمجھتے ہیں جس کے یہ خود حامل ہیں۔ اپنے اس استحقاق کو ثابت کرنے کے لیے ایک بات تو انھوں نے یہ پیش کی ہے کہ اسلام میں پاپائیت نہیں ہے۔ بلکہ یہاں علما اور عوام ایک ہی سطح پر ہیں اور دوسرا کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ جہاں جہاں کوئی ایسی حدیث نقل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے جس میں عالم یا علما کا لفظ آیا ہے تو اس کا ترجمہ مسلم سکالر (MUSLIM SCHOLAR) اور تعلیم یافتہ لوگ (PEOPLE WITH KNOWLEDGE) سے کیا گیا ہے تاکہ حدیث سے یہ بات جو واضح ہوتی ہے کہ اجتہاد علما ہی کا منصب ہے ترجمے کے تصرف سے اس پر پردہ ڈالا جا سکے اور عربی بے خبر لوگوں پر یہ دھونس جمائی جا سکے کہ خود حدیث میں بھی اجتہاد کا منصب عام تعیم یافتہ لوگوں ہی کا بتایا گیا ہے، نہ کہ کتاب وسنت کے عالموں کا۔

اگر اجتہاد کی یہ تعریف صحیح ہے جو ان حضرات نے پیش کی ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ اس کے لیے نہ کسی خاص علم کی ضرورت ہے نہ کسی خاص طرح کے سیرت و کردار کی۔ جو شخص بھی کچھ عقل گدے لگا سکتا ہے اس کا جمہوری حق ہے کہ وہ بے تکان اجتہاد کرے۔ لیکن اگر اجتہاد کی تعریف وہ ہے جو اس اصطلاح کے وضع کرنے والوں نے اس کی بیان کی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتہاد کرنے والا دین میں گہری بصیرت رکھتا ہو۔ دین کی بنیادی چیزیں جس زبان میں ہیں اس زبان سے اس کو عالمانہ واقفیت ہو، نیز سیرت و کردار کے اعتبار سے وہ اس لائق ہو کہ لوگ اپنے دین کے معاملے میں اس پر اعتماد کر سکیں۔ انھی صفات کے اشخاص کے لیے قرآن و حدیث میں علما کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ حقیقت ایک صفاتی لقب ہے، کوئی خاندانی یا طبقاتی لقب نہیں ہے۔ بدقسمتی سے آج اس لقب سے ایسے بہت سارے لوگ بھی ملقب ہو گئے ہیں جو فی الحقیقت اس لقب کے اہل نہیں ہیں۔ لیکن اس التباس اور گھپلے کے باوجود حقیقت اپنی جگہ پر ہے۔ علم و فضل اور سیرت و کردار ایسی چیزں نہیں ہیں جو چھپی رہیں۔ ایک صفاتی گروہ کو ایک مستقل طبقہ کی حیثیت میں رکھ کر اس کے خلاف تعصب میں مبتلا ہو جانا اور دوسروں کو بھی اس کے خلاف تعصب کے لیے اکسانا ایک سخت قسم کی تنگ نظری اور تنگ دلی ہے بلکہ اس سے ایک گہرے قسم کا احساس کہتری بھی نمایاں ہوتا ہے۔ ایک منصب جو صفات کی بنا پر حاصل ہوتا ہے اور اکتساب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اسے خود حاصل کر لیجیے کسی کی طاقت نہیں ہے کہ آپ کواس منصب تک پہنچنے سے روک سکے۔ لیکن یہ عجیب درد ناک صورت حال ہے کہ آپ کو آتا جاتا تو دین و شریعت کا ایک حرف نہیں لیکن اس میں اجتہاد ضرور فرمائیں گے، کیونکہ دین کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ اگر یہ منطق صحیح مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہائی کورٹوں میں بیٹھ کر مقدمات کے فیصلے کرنا بھی صرف ماہرین قانون ہی کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ہر شخص کو حق ہونا چاہیے کہ وہ مقدمات کے فیصلے لکھے اور قانونی معاملات میں اپنی رائیں منوائے۔ علاج کرنے کا حق بھی طرف طبیبوں اور ڈاکٹروں ہی کو نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر شخص کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ لوگوں کی جانوں کے ساتھ بازی کھیل سکے۔ نہروں اورپلوں کی تعمیر میں صرف انجیینروں ہی کا اجارہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو شخص صحیح طور پر دو اینٹیں بھی جوڑ نہ سکتا ہو اسے بھی حق ہونا چاہیے کہ وہ نہروں اور پلوں کی تعمیر میں اپنی رائیں دے سکے۔ اگر ڈیموکریسی اسی چیز کا نام ہے تو یہ ڈیمو کریسی دنیا کے لیے لعنت اور اسلام اس ڈیمو کریسی کا روادار نہیں ہے۔ اگر ایک چیز میں دخل دینے کے لیے کسی علمی و فنی قابلیت کی ضرورت ہے تو اس میں ہر شخص رائے دینے کا اہل کس طرح ہو سکتا ہے؟ اگر یہ بات صحیح ہے کہ اجتہاد کے لیے دین میں بصیرت ضروری ہے تو اس شخص کے مجتہدین کے بیٹھ جانے کے کیا معنی جسے دین سے سرے سے کوئی مس ہی نہیں؟ اسلام میں پاپائیت تو بے شک نہیں ہے لیکن آخر اسلام خدا کا دین ہے کوئی بازیچۂ اطفال تو نہیں ہے؟

ارکان کمیشن نے عہد فاروقی کی جن خاتون کا حوالہ دیا ہے کہ انھوں نے خود حضرت عمر کو ان کے لیے اجتہاد پر ٹوک دیا اور حضرت عمر نے نہ صرف ان کی رائے قبول فرمائی بلکہ اس کی تحسین بھی کی انھوں نے اس نظریہ کے تحت اپنی رائے نہیں پیش کی تھی کہ دین میں جمہوریت ہے، اور یہاں علما اور عوام میں اجتہاد کے معاملے میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے جو رائے مہر کم باندھنے کے بارے میں ظاہر کی تھی وہ ان خاتون کو قرآن کے لفظ قنطار کے واضح مفہوم کے خلاف نظر آئی، اس کو انھوں نے ظاہر کیا اور حضرت عمر نے ان کی رائے معقول اور مبنی برقرآن ہونے کی وجہ سے فوراً قبول کر لی۔

انھی خاتون کی طرح اسلام میں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی کسی رائے پر قرآن و حدیث سے استدلال کرے اور اس کی معقولیت کی بنا پر اس رائے کو تسلیم کرا لے۔ ضرورت جس چیز کی ہے وہ قرآن و حدیث کا علم اور دین کا فہم و شعور ہے۔ یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ دین کے معاملات میں کلام کرنے کے لیے کسی خاص درس گاہ کا فاضل ہونا یا کسی مخصوص گروہ سے متعلق ہوناشرط ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی شرط نہیں ہے لیکن قرآن کا علم اتنا تو ہونا چاہیے جتنا ان خاتون کو تھا۔ میں نے اس رپورٹ میں ارکان کمیشن کے جو اجتہادات دیکھے ہیں اور جن کو آگے چل کر میں ناظرین کو بھی دکھاؤں گا ان کا موازنہ جب میں ان خاتون کے اجتہاد سے کرتا ہوں تو میں واضح طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ان خاتون کا تنہا علم قرآن اس پورے کمیشن کے مجموعی علم دین سے بھی بدرجہا زیادہ تھا۔

اگرچہ اجتہاد کی صحیح تعریف سامنے آ جانے کے بعد یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ ایک مجتہد میں کیا صفتیں ہونی ضروری ہیں۔ لیکن مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں اسلامی اصول قانون کے چند مستند ماخذوں کے حوالے بھی پیش کیے دیتے ہیں۔

علامہ آمدی اپنی کتاب میں مجتہد کے لیے دوشرطیں ضروری قرار دیتے ہیں۔

’’ایک یہ کہ وہ خدا کے وجود اس کی صفات اس کے کمالات کو جانتا اور مانتا ہو۔ اور رسول اور اس کی لائی ہوئی شریعت اور اس کے معجزات کو تسلیم کرتا ہو۔‘‘
’’دوسری یہ کہ اسلامی شریعت کے احکام اور ان کے سرچشموں اور ان کے اقسام کا عالم ہو۔ جانتا ہو کہ ان کے اثبات کے کیا طریقے ہیں، یہ اپنے مولولات پر کن کن طریقوں سے دلالت کرتے ہیں ان کے درجات میں کیا اختلاف ہیں ان میں کن شرائط کا لحاظ ضروری ہے اگر ان میں اختلاف ہو تو ترجیح کے کیا کیا طریقے ہیں، ان سے احکام کس طرح مستنبط کیے جاتے ہیں۔ نیز ان کو لکھنے اور بیان کرنے پر قادر ہو، ان پر جو اعتراضات وارد ہوں ان سے بچ سکتا ہو۔ اس کی مزید تکمیل اس بات سے ہو گی کہ راویوں اور جرح تعدیل کے طریقوں سے باخبر ہو۔۔۔اسباب نزول اور ناسخ و منسوخ سے واقف ہو۔۔۔اور عربی زبان اور نحو کا عالم ہو۔‘‘ (الاحکام فی اصول الاحکام ج ۴ ص ۲۱۹)

امام شاطبی فرماتے ہیں:

’’درجہ اجتہاد اس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جس میں دو صفتیں موجود ہوں۔‘‘
ایک یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کا پوری طرح فہم رکھتا ہو۔ دوسری یہ کہ وہ اس فہم کی رہنمائی میں شریعت سے مسائل استنباط کرنے پر قادر ہو۔‘‘ (الموافقات ج۴ ص۱۰۶)

کمیشن کا سب سے زیادہ مستند ماخذ صبحی محمصانی اپنی کتاب فلسفہ التشریع میں مجتہد کے لیے حسب ذیل صفات ضروری سمجھتا ہے:۔

اجتہاد کرنا ہر شخص کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایک خاص قابلیت کی ضرورت ہے جس سے مجتہد استدلال و استنباط کے پیش نظر مقصد کا اہل ہو سکے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ وہ پختہ فکر اور دانشمند ہو، اخلاق حسنہ سے متصف اور دین کے سرچشموں کا عالم ہو یعنی شرعی دلائل اور ان کے تلاش کے طریقوں اور ان کے متعلقات، عربی زبان، تفسیر، اسباب نزول، احوال روات، جرح و تعدیل اورناسخ منسوخ سے پوری طرح باخبر ہو۔‘‘(فلسفہ التشریع ص ۱۵۵)

کیا کمیشن کے ارکان یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اجتہاد کے ان شرائط پر پورے اترتے ہیں؟

اب اس سوال کو لیجیے کہ تمام ائمہ کے متفق علیہ مسلک کے خلاف بھی اجتہاد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

اس سوال کا ایک پہلو تو عقلی ہے، دوسرا واقعاتی۔ جہاں تک اس کے عقلی پہلو کا تعلق ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس پہلو سے اس چیز پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آئمہ غلطی سے مبرا نہیں تھے اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ یہ کسی امر اجتہادی پر متفق ہوں لیکن وہ بات صحیح نہ ہو، مگر اس کے ساتھ ملحوظ رکھنے کی چیز یہ ہے کہ جو بات عقلاً محال نہ ہو ضروری نہیں کہ وہ واقعے کی حیثیت سے موجود بھی ہو۔ علامہ اقبال سے بڑا شاعر ہونا محال نہیں ہے، میاں عبدالرشید صاحب یا ان کی شریک کار بیگمات میں سے کوئی صاحبہ یہ دعویٰ کر بیٹھیں کہ ہم ان سے بڑے شاعر ہیں تو یہ سب حضرات مجھے معاف کریں، میں ان کے دعوے کو تسلیم نہیں کروں گا کیونکہ ہمارے سامنے ان کا کوئی بھی ایسا شعری یا ادبی کارنامہ نہیں ہے جس کی بنا پر ہم ان کو شعر و ادب پر گفتگو کرنے کا بھی اہل سمجھیں۔ چہ جائیکہ ان کو آئمہ شعر و سخن کا ہمسر مان لیں یا کچھ ان سے بھی اونچا درجہ ان کا تسلیم کر لیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک مسئلہ جس پر امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے عالی مقام لوگ متفق ہیں۔ اس کے خلاف دین کے معاملے میں کوئی شخص میاں عبدالرشید بیگم شاہ نواز اور بیگم شمس النہار کے فتوے پر کس طرح اعتماد کر سکتا ہے؟ ایک محتاط مسلمان کے لیے تو ان حضرات پر یہ اعتماد کرنا بھی مشکل ہے کہ ان میں سے کسی صاحب کو صحیح طور پر طہارت کے اسلامی آداب بھی معلوم ہیں یا نہیں کجا کہ وہ ان کی فقاہت اور ان کے اجتہاد کے پیچھے دین کے مسلمہ آئمہ کے متفقہ اجتہاد یا ان کے اجماع کو نظر انداز کر دے۔

یہ نہ خیال کیجیے کہ ان آئمہ پر مسلمانوں کا یہ غیر معمولی اعتماد محض کسی اتفاق کا نتیجہ ہے یا محض تقلید اور قدامت پرستی کا ایک مظہر ہے۔ اگر کسی شخص کا یہ خیال ہے تو یہ محض ایک واہمہ ہے۔ تقلید اور قدامت پرستی سے عوام کے ایک خاص طبقے کے اندر تو اشخاص یا نظریات سے متعلق کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن ساری دنیا اندھی نہیں ہو جاتی اور اگر بالفرض ساری دنیا اندھی ہو جاتی ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ اس طرح کے عالمگیر اندھے پن کو دور کرنے کے لیے وہ روشنی بالکل ناکافی ہے جو اس کمیشن نے دکھائی ہے۔ اس سے بجائے اس کے کہ تاریکی دور ہو اندھیرے میں اور اضافہ ہو گا۔ جو لوگ اس اعتماد کو مسلمانوں کا جمود سمجھتے ہیں، ان کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس جمود کو امام ابن تیمیہ جیسا زلزلہ ڈال دینے والا انسان بھی ہلا نہیں سکا اور شاہ ولی اللہ جیسے صاحب فکر اور نقاد کو بھی اس کے ساتھ سازگاری کرنی پڑی، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو بے تکلف اور بالکل بجا طور پر علم اولین کا حامل اور وارث قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر بتائیے کہ اس کوچہ میں میاں عبدالرشید اور خلیفہ صاحب کو کون پوچھتا ہے کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ درحقیقت ان آئمہ نے اپنے علم، اپنی بصیرت، اپنے تقویٰ، اپنی نکتہ رسی، اپنے تبحر اور دین کے لیے اپنی جانبازیوں اور قربانیوں سے اس امت پر ایک ایسی حجت قائم کر دی ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کبھی یہ وسوسہ بھی نہیں گزرتا کہ ان میں سے کسی نے بھی کبھی ان کے دین کے معاملے میں کسی سہل انگاری، کسی مداہنت یا کسی کمزوری یا دین بازی کا ارتکاب کیا ہو گا۔ آخر ان آئمہ ہدایت کے مقابلے میں مسلمان ان لوگوں پر کس طرح اعتماد کرسکتے ہیں جن کی زندگیاں یا تو دین کے ساتھ استہزا اور تلعبمیں گزری ہیں۔ یا کھلم کھلا دین بازی اور فتویٰ فروشی میں۔

ارکان کمیشن کا یہ نظریہ بھی نہایت عجیب ہے کہ جس طرح سائنس میں کسی ایک دور کے تمام سائنس دانوں کا کسی ایک نظریے پر اتفاق اس کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اسی طرح مذہب میں بھی کسی ایک بات پر سارے آئمہ کا اتفاق اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔ اول تو مذہب کا سائنس پر قیاس ایک قیام مع الفارق ہے۔ سائنس کی بنیاد، قیاسات و تجربات پر ہے اور مذہب کی اساس وحی کی یقینیات پر۔ اس وجہ سے سائنس میں تو ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ آج آپ ایک چیز کو ثابت مانیں اور کل وہ سیارہ نکلے اور کل جس چیز کو آپ مرکز مانتے رہے ہیں آج وہ کسی دوسرے مرکز کے تابع ہو جائے۔ لیکن مذہب میں یہ غلطی اگر ہو سکتی ہے تو وحی کی یقینیات میں نہیں بلکہ حالات پر اس کے انطباق میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی اس دائرہ میں نہیں جس دائرے میں انطباق کا یہ کام خود صاحب وحی یعنی پیغمبر نے انجام دے دیا ہے بلکہ صرف اس دائرہ میں ہو سکتی ہے جہاں یہ کام غیر معصوم انسانوں نے انجام دیا ہے۔

پھر ان غیر معصوم انسانوں کے بھی مختلف درجات ہیں اور انھوں نے دین کو زندگی کے حالات پر منطبق کرنے کی جو کوششیں کی ہیں ان کے بھی مختلف درجے ہیں اور ان درجات کے اختلاف کے لحاظ سے مسلمانوں کا اعتماد بھی ان پر مختلف درجے کا ہے۔ مثلاً ایک انطباق تو وہ ہے جس پر خلفائے راشدین اپنے دورکے اہل علم و تقویٰ کے مشورے کے بعد متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اسلام میں اجماع کی بہترین قسم ہے اور یہ بجائے خود ایک شرعی حجت ہے۔ اسی طرح ایک انطباق وہ ہے جس پر آئمہ اربعہ متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اگرچہ درجہ میں پہلی قسم کے اجماع کے برابر نہیں ہے تاہم چونکہ یہ امت من حیث الامت ان آئمہ پر متفق ہو گئی ہے اور ہر دور کے اہل علم و تقویٰ ان کی دینی بصیرت، ان کے تجر، ان کے مرتبہ اجتہاد اور ان کے تمسک بالکتاب و السنہ کو تسلیم کرتے آئے ہیں اور ان کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش مشکل ہی سے کسی نے کی ہے اس وجہ سے ان آئمہ کے کسی اجماع کو محض اس دلیل کی بنا پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ معصوم نہیں تھے۔ یہ معصوم تو بے شک نہیں تھے لیکن ان کے معصوم نہ ہونے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ کسی امر پر ان کا اتفاق بھی دین میں کوئی حجت نہ بن سکے۔

میں حیران ہوں کہ میاں عبدالرشید صاحب جیسے قانون دان نے بھی سائنس اور قانون کے فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ سائنس میں نظائر کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے لیکن قانون میں بالخصوص اس قانون میں جس کی سند میاں عبدالرشید صاحب نے حاصل کی ہے۔ ساری بنیاد ہی نظائر پر ہے۔ اگر اس کے اندر سے نظائر کو نکال دیجیے یا ان کو ناقابل اعتماد قرار دے دیجیے تو پھر کچھ باقی ہی نہیں رہتا۔ کیا میاں عبدالرشید صاحب فرما سکتے ہیں کہ انگریزی قانون میں بھی اعلی عدالتوں کے نظائر کی وہی حیثیت ہے جو حیثیت وہ اسلامی قانون کے نظائر کو دینا چاہتے ہیں؟

اس سلسلے میں کمیشن نے ایک بات قابل لحاظ لکھی ہے۔ مسلمانوں کی تقلید اور جمود پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی گئی ہے کہ عباسیوں کے دورکے خاتمے پر جب تاتاریوں نے تمام علمی مراکز تباہ کر دیے۔ کتب خانے جلا دئیے اور لوگوں کے اندر آزادانہ فکرو اجتہاد کے حوصلے سرد پڑ گئے تو اسلامی قانون کو دوسرے درجے کے مخترعین (INNOVATORS) اور نااہلوں کی دستبرد سے بچانے کے لیے مصلحت اسی میں سمجھی گئی کہ غلط اجتہاد کے بجائے پچھلے آئمہ ہی کی تقلید کی جائے کیونکہ غلط اور ناقص اجتہاد سے وہ ذہنی انتشار جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھا اور زیادہ بڑھ جاتا۔

یہ تاریخی تجزیہ اگرچہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے لیکن اگر کمیشن کے فاضل ارکان اس تجزیہ کو اور تقلید کے جواز کی اس دلیل کو کچھ وزن دیتے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں وہ کونسا مبارک انقلاب آ گیا کہ ارکان کمیشن اجتہاد کا دروازہ چوپٹ کھول دینے کے لیے بے تاب ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ بیگمات نے بھی باب اجتہاد پر یلغار کر دی ہے۔ عباسیوں کے دور کے خاتمے پر تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر جو تباہی آئی۔ میرے نزدیک وہ تباہی اتنی وسیع الاثر نہیں تھی۔ جتنی وہ تباہی وسیع الاثر تھی جو سلطنت مغلیہ کے خاتمے پر انگریزوں کے ہاتھوں نازل ہوئی۔ تاتاریوں کی لائی ہوئی تباہی سے مدرسے اور کتب خانے جتنے بھی برباد ہوئے ہوں اس سے انکار نہیں لیکن اذہان و قلوب پر انھوں نے وہ اثر نہیں ڈالا جو انگریزوں نے ڈالا۔ انگریز نے ہمارے کتب خانے جلائے تو نہیں لیکن اس نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح مسموم کر دیا کہ ہم خود اپنے کتب خانوں کو ردی کے ڈھیر خیال کرنے لگے۔ اس نے ہمارے مدرسے ڈھائے تو نہیں لیکن دین اور دینی تعلیم سے اس نے ہمیں اس طرح متنفر اور بیزار کر دیا کہ ہم دینی مدرسوں میں داخل ہونے کو عار سمجھنے لگے۔ اس نے ہماری فکر و نظر کی آزادی کو بالکل سلب تو نہیں کیا لیکن ہمیں مرعوب اس طرح کر دیا کہ ہمارے لیے فکر و عمل کے ہر میدان میں وہی معیار حق بن گیا۔ پھر ایسے حالات میں کیا یہ مصلحت نہیں ہے کہ اسلامی قانون کو دوسرے نہیں بلکہ تیسرے درجے کے مخترعین کے اجتہادات سے محفوظ رکھا جائے اور جو انتشار ذہنوں میں پہلے سے پیدا ہو چکا ہے اس کو بڑھانے کے مزید اسباب فراہم نہ کیے جائیں؟

میں ایک مرتبہ پھر اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک اجتہاد کی ضرورت کا تعلق ہے میں اس چیز کا اس سے زیادہ شدت سے قائل ہوں جتنی شدت سے اس کے قائل ارکان کمیشن ہیں۔ لیکن آخر اہلیت و صلاحیت تو اس کے لیے ایک شرط ضروری ہے۔ ہر مدعی منصب اجتہاد کا حقدار تو نہیں بن سکتا؟

____________

 

B