HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ارکان کمیشن کے چند نظریات

اس رپورٹ کے شروع میں ایک تمہید اور اس کے آخر میں ایک خاتمہ ہے جن میں ارکان کمیشن نے اپنے کچھ نظریات اور چند اصول اجتہاد بیان کیے ہیں۔ یہ نظریات اور یہ اصول اجتہاد مختلف اعتبارات سے ہمارے نزدیک بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

اول تو کمیشن نے جو سفارشات پیش کی ہیں وہ تمام تر انہی نظریات اوراجتہاد کے انہی اصولوں پر مبنی ہیں۔ اس وجہ سے سفارشات پر غور کرنے سے پہلے ان کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ ثانیاً انہی سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ مذہب پر غور کرنے کے معاملے میں قدیم اور جدید نقطہ ہائے نظر میں کیا فرق ہے؟ ثالثاً انہی سے یہ پتہ چلے گا کہ دراصل معاملہ صرف نکاح و طلاق کے قوانین ہی کی اصلاح کا نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اصلاح کا ہے اور یہ اس راہ میں صرف پہلا قدم ہے۔

ان وجوہ سے میں چاہتا ہوں کہ کمیشن کے ان نظریات اور ان اجتہادی اصولوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ لیکن اصل بحث سے پہلے میں اس رپورٹ کی ایک خاص خصوصیت کو ظاہر کر دینا چاہتا ہوں۔ اس میں ارکان کمیشن نے اپنے اصلی نظریات صاف صاف الفاظ میں پیش کرنے کے بجائے ان کو اسلام اور قرآن کی تعریف و توصیف کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے اسلام کی ابدیت و ازلیت پر اس کے مطابق عقل و فطرت ہونے پر اس کے لچکدار اور ہر ماحول کے ساتھ ساز گار ہونے پر ایک شاندار تمہید ہوتی ہے اس کے بعد وہ نظریہ یا اصول اجتہاد بیان ہوتا ہے جو ارکان کمیشن پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ طریقہ انھوں نے محض پردہ داری کے لیے اختیار کیا ہے تاکہ لوگ پہلی ہی نظر میں بھڑک نہ جائیں یا یہ حضرات ذہنی الجھن کے مریض ہیں کہ بیک وقت متضاد قسم کی باتیں کرتے ہیں اور اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے۔

مذہب کے متعلق کمیشن کا نظریہ

مذہب ان حضرات کے نزدیک چند ایسے بنیادی حقائق اور اصولوں پر ایمان رکھنے کا نام ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ جو امٹ ہیں، جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں، جو لوح محفوظ میں ثبت ہیں۔ جو محکمات ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

’’مذہب، قرآن کی تعریف کی رو سے، نام ہے فطرت کے ان ناقابل تغیر قوانین اور زندگی کے ان بنیادی اصولوں پر ایمان رکھنے کا جو تبدیل نہیں ہوتے ریاست اور معاشرہ جب تبدیل ہوتے ہیں یا کسی اہم تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو وہ صرف اپنے بالائی ڈھانچے ہی میں تبدیلی کرتے ہیں۔ ان ابدی اور مستحکم اصولوں میں کوئی تصرف نہیں کرتے جو قرآن کے ارشاد کے مطابق تمام مذہب کی اساس ہیں۔ اسلام کا مطالبہ بنی نوع انسان سے انہی چند بنیادی اصولوں کو تھامے رکھنے کے لیے ہے جن کو قرآن کی پرکنایہ زبان میں یوں تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ اس لوح محفوظ میں امٹ طور پر ثبت ہیں جو ام الکتاب یا تمام زندگی اور موجودات کا سرچشمہ ہے۔ ان بنیادوں کو نہ کسی کو تبدیل کرنے کا حق ہے نہ اختیار۔ یہ محکمات ہیں (اس کے بعد ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اظلم الناس قرار دیا ہے جو ایسے امور سے متعلق سوالات کرے جن میں لوگوں کو رائے اور عمل کی آزادی بخشی گئی ہے اور اس کے سوال کے سبب سے لوگوں پر کوئی پابندی عائد ہو جائے) پھر ارشاد ہوتا ہے، وسیع دوائر میں قانون کی آزادی سے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل اسلامی اصول فقہ کے اس مسلمہ اصول کی بنیاد ہے کہ جو چیز حتمی طور پر ممنوع نہیں ہے وہ اجتماعی اور شخصی فلاح و بہبود کے لیے اختیار کی جائے تو جائز ہے اور ان معاملات میں قانون سازی کی آزادی کا ایک چارٹر ہے جن کے بارے میں کوئی قطعی حکم موجود نہیں ہے۔‘‘ گزٹ آف پاکستان ص ۱۲۰۵

مذہب کا یہ تصور بظاہر بہت معصومانہ نظر آتا ہے لیکن اس کی تہہ میں اترئیے تو اندازہ ہو گا کہ یہ تصور قرآن کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ باطنیہ کا دیا ہوا ہے جس طرح انھوں نے چند غیر معلوم عنقا صفت ’’حقائق‘‘ کو مذہب کی اساس بنا کر ساری زندگی کو شریعت اور قانون کی پابندیوں سے آزاد کر دیا، اسی طرح یہ حضرات بھی چند لامعلوم الاسم ’’ازلی‘‘ اور ’’ابدی‘‘ اصولوں کو جو لوح محفوظ میں ثبت ہیں، واجب التسلیم مان کر بقیہ ساری زندگی سے مذہب کو خارج کر دینا چاہتے ہیں کوئی ان حضرات سے پوچھے کہ قرآن نے مذہب کی یہ تعریف اپنے کس پارے اور کس سورہ میں کی ہے؟ فطرت کے وہ ’’ناقابل تغیر‘‘ اور زندگی کے وہ ’’بنیادی اصول‘‘ کیا ہیں جن کو مان لینے کا نام مذہب ہے؟ ان کا کوئی نام اورخارج میں ان کا کوئی وجود بھی ہے یا محض کمیشن کے ارکان کے ذہنوں ہی میں ان کا وجود ہے؟ میں نے اس پوری رپورٹ کی سطر سطر پڑھی ہے لیکن مجھے اس میں ان ناقابل تغیر اور امٹ اصولوں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس رپورٹ میں تو خود قرآن کو بھی، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہو گا، زمانے کے ساتھ ساتھ بدل جانے والا اور مٹ جانے والا قرار دیا گیا ہے پھر آخر وہ ابدی اصول کہاں ہیں؟ اگر یہ ازلی اور ابدی اصول صرف لوح محفوظ ہی میں ثبت ہیں تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی کے ساتھ ان اصولوں کا ربط کس چیز کے واسطے سے قائم ہوتا ہے؟ کیونکہ ہمارے سامنے تو صرف قرآن اور سنت ہی ہیں، لوح محفوظ تک رسائی تو صرف ارکان کمیشن ہی کی ہو گی۔ ہم ہیچ میرزوں کی رسائی تو وہاں تک نہیں ہے۔

یہ حضرات مذہب کا ایک گول مول اور ننھا منا سے تصور دے کر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ مذہب کو مولویوں نے خواہ مخواہ کو ایک ہوّا بنا رکھا ہے، وہ تو ایک نہایت مختصر اور سادہ سی چیز ہے، بس لوح محفوظ میں لکھے ہوئے چند ازلی اور ابدی حقائق ہیں ان کو مان لیجیے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ بقیہ ہماری زندگی تو خود ہمارے حوالے کی گئی ہے کہ ہم اس کو جس طرح چاہیں گزاریں اور اس کے لیے جو چاہیں قوانین و احکام ایجاد کریں۔ مذہب کو اس سے کیا سروکار۔ پیغمبر نے تو ان لوگوں کو سختی سے ڈانٹا تھا جو ان ازلی اور ابدی حقائق کے بتا دینے کے بعد سوالات پوچھ پوچھ کر پابندیوں میں اضافہ کرانا چاہتے تھے، پیغمبر تو ہمیں ساری زندگی سے متعلق قانون سازی کا اختیار مطلق سونپ گئے ہیں۔ لوگ خواہ مخواہ کو بات بات پر مذہب کو بیچ میں لاتے ہیں۔

مذہب بالخصوص اسلام کے متعلق یہ تصور میرے نزدیک کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا یہ تصور جیسا کہ میں نے عرض کیا یا تو باطنیہ کا ہے یا اباحیت پسندوں کا جو مذہب کا نام لیتے ہوئے اپنی خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب صرف چند بنیادی اصولوں کے مان لینے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک پورے نظام زندگی کا نام ہے جتنی وسعت زندگی کے اندر ہے اتنی ہی وسعت مذہب کے اندر ہے۔ جتنے پہلو زندگی رکھتی ہے، اتنے ہی پہلو مذہب رکھتا ہے۔ زندگی فکر و نظر اور ادراک و تعقل کی نعمت سے بہرہ ور کی گئی ہے اس سے مذہب عقل کی رہنمائی کے لیے رہنما اصول دیتا ہے۔ زندگی چونکہ عمل کے لیے بنی ہے اس وجہ سے وہ اعمال کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی ایک جامع پروگرام دیتا ہے۔ زندگی کو چونکہ خاندان، سوسائٹی، معاشرہ، سیاست اور حکومت سب سے سابقہ پیش آتا ہے اس وجہ سے ان سارے شعبوں میں بھی وہ چاروں گوشے (four corners) متعین کرتا ہے جن کے اندر رہ کر انسان فلاح حاصل کر سکے۔ پھر زندگی کو چونکہ مرنے کے بعد بھی باقی رہنا ہے اس وجہ سے مذہب آخرت کی کامیابی کے اصول بھی بتاتا ہے۔ الغرض مذہب نے ہماری زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا ہے جس کی حدبندی نہ کر دی ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان چاروں گوشوں کے اندر ہمیں اس نے قانون بنانے کی آزادی بھی بخشی ہے لیکن یہ آزادی شتر بے مہار قسم کی آزادی نہیں ہے کہ ہم چاروں حدیں توڑ کر جدھر چاہیں نکل جائیں۔ بلکہ اس نے یہ ہدایت کی ہے کہ جو معاملات ہمارے سامنے ایسے آئیں جن میں خدا اور رسول کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہ ہو تو وہاں ہمیں خدا اور رسول کی معلوم احکام کے اشارات، ان کے مقتضی اور ان کی روح کو سامنے رکھ کر کوئی ایسی بات متعین کرنی چاہیے جو ہمارے علم و فہم کے حد تک ان معلوم احکام سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسی چیز کو اسلام کی اصطلاح میں اجتہاد سے تعبیر کیا گیا ہے جس پر ہم آگے چل کر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔

یہاں زندگی کے ہر شعبے اور گوشے سے متعلق اسلام کے احکام کا حوالہ دینا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم بطور مثال ازدواجی زندگی سے متعلق جو اس کمیشن کے زیر بحث ہے، اسلام کے ان چند احکام کا حوالہ دیتے ہیں جو ہماری زندی کے اس حصہ کی حد بندی کرتے ہیں۔ وہ احکام یہ ہیں:۔

عورت اور مرد کے درمیان جائز رشتہ صرف نکاح کا رشتہ ہے جو مہر اور احصان کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۱؂ ۔ محرمات سے نکاح ناجائز ہے۔ میاں اور بیوی دونوں پر یکساں حقوق اور یکساں ذمہ داریاں ہیں لیکن خاندان کی شیرازہ بندی کے لیے مرد کو عورت پر قواّمیت حاصل ہے۔ نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ نکاح کی گرہ کو کھولنا اور باندھنا صرف مرد کے اختیار میں ہے عورت کسی ناانصافی کی صورت میں خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مرد نشوز کی صورت میں عورت کو مناسب تادیب کر سکتا ہے۔ مرد کسی اجتماعی یا خاندانی یا شخصی مصلحت کے تحت عدل کی شرط کے ساتھ ایک سے لے کر بیک وقت چار تک نکاح کر سکتا ہے لیکن عورت بیک وقت ایک ہی مرد کے نکاح میں رہ سکتی ہے۔

یہ اور اسی طرح کے چند اصولی احکام خود قرآن نے دیئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت فرمائی ہے۔ ان سب کو ملا دینے سے اس خاندانی نظام کا پورا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔ میں ارکان کمیشن سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ازدواجی زندگی سے متعلق یہ اصول ان بنیادی اصولوں میں شامل ہیں یا نہیں۔ جو ارکان کمیشن کی لوح محفوظ میں ثبت ہیں۔ جو امٹ ہیں اور جن کو ماننا ضروری ہے۔

ارکان کمیشن کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کے معاملات میں سوالات کرنے سے روکا ہے۔ آپ نے لوگوں کے ہزاروں سوالات کے نہ صرف جوابات نہایت خندہ پیشانی سے دئیے ہیں بلکہ سوال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے۔ انہی سوالات کے ذریعے سے قرآن کے بہت سے اجمالات کی وضاحت ہوئی ہے اور بہت سی نئی صورتوں کے لیے شریعت کا حکم معلوم ہوا ہے۔ جن لوگوں نے یہ سوالات کیے انھوں نے پابندیوں میں نہیں اضافہ کیا ہے بلکہ امت کے لیے برکتوں اوررحمتوں کے اضافے کے موجب ہوئے ہیں۔ آپ نے اگر سوالات سے روکا ہے تو اس طرح کے سوالات سے روکا ہے جس طرح کے سوالات بنی اسرائیل کیا کرتے تھے۔ مثلاً ان کو گائے کی قربانی کا حکم دیا گیا تو انھوں نے یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ اس کے سینگ اور اس کی دم کیسی ہو؟ اس کی عمر کتنی ہو؟ اس طرح کے بے فائدہ اور غیر ضروری سوالات کو حضور نے ناپسند فرمایا ہے۔

بہرحال ارکان کمیشن نے دین کا یہ تصور جو پیش کیا ہے کہ وہ صرف چند اصولوں کے مان لینے کا نام ہے۔ وہ اس دین کا تو ہو سکتا ہے جو ان کے اپنے ذہنوں میں ہے۔ لیکن یہ اسلام کا تصور نہیں ہے۔ اسلام تو جیسا کہ عرض کیا گیا ایک پورا نظام زندگی ہے اور اس پورے کو بلا کسی تقسیم و تفریق کے ماننے کا مطالبہ ہے۔ اس کے کسی ایک جزو کا انکار سب کا انکار ہے۔

قرآن حکیم کے متعلق ارکان کمیشن کا تصور

اسی طرح اسلام کی ازلیت و ابدیت پر ایک شاندار خطبہ دینے کے بعد قرآن حکیم کے متعلق یہ ارشاد ہوتا ہے:۔

’’اسلام دوسرا نام ہے زندگی کے ان اصولوں کا جو زمانے کے اس مدو جزر سے متاثر نہیں ہوتے جس سے دنیا کی ساری دوسری قوموں کو متاثر ہونا پڑتاہے۔ یہ اسلام نہیں، بلکہ انسان تعلقات کی وقتی اور زمانی ضابطہ بندیاں ہیں جو برابر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ قرآن کے عین زمانہ نزول میں حالات کی تبدیلی کے سبب سے اس کے بعض احکام تبدیل ہو گئے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انسانی زندگی نے بدلنا اور ترقی کرنا بند کر دیا ہے اور ان بہت سے قدیم قوانین کو منسوخ کر کے نہیں رکھ دیا ہے جو کبھی انسانی زندگی کے لیے نہایت ضروری خیال کیے جاتے تھے۔‘‘ گزٹ آف پاکستان ص۱۲۳۱

پہلے اس عمیق کلام کا مطلب سمجھ لیجیے اس کے بعد اس سے نکلنے والے حقائق پر غور کیجیے گا۔

ان حضرات کا فرمانا یہ ہے کہ اسلام کے ابدی اصول تو بے شک تبدیل نہیں ہوں گے، لیکن اسلام نے انسانی زندگی کے مختلف گوشوں میں جو ضابطہ بندیاں کی ہیں وہ تو برابر تبدیل ہوتی رہی ہیں اور زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ برابر تبدیل ہوتی رہیں گی۔ زندگی کے ایک خاص دور میں انسان کے لیے جو لباس تراشا جاتا ہے زندگی کے دوسرے دور میں وہ بیکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے دور طفولیت میں خاندان کے لیے سوسائٹی کے لیے جو ڈھانچے تجویز کیے گئے تھے وہی ڈھانچے ہمیشہ نہیں قائم رکھے جا سکتے۔ اجیر اور متاجر، زمیندار اور مزارع، محنت اور سرمایہ کے درمیان جو نسبتیں کل تک قائم تھیں اب وہ بدل چکی ہیں اس وجہ سے وہ نظام بھی بدل جانا چاہیے جو پچھلی نسبتوں کو پیش نظر رکھ کر بنا تھا۔ ایک خاص طرح کے معاشرتی اور اقتصادی ماحول میں میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات کی جو شکل تجویز ہوئی تھی معاشرتی اور اقتصادی ماحول تبدیل ہو جانے سے لازماً وہ شکل بھی بدل جائے گی۔ اگر کل خاندان کا نظم اس نظریہ پر قائم کیا گیا تھا کہ مرد قوام ہے تو ضروری نہیں کہ یہی نظریہ آج بھی قائم رہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج یہ نظریہ قائم کر لیا جائے کہ عورت قوام ہے اور پھر خاندان کا پچھلا سارا ڈھانچہ توڑ پھوڑ کر از سر نو بنایا جائے لیکن یہ محض ڈھانچے کی تبدیلی ہو گی اسلام کے ’’ابدی اصولوں‘‘ کی تبدیلی نہیں ہو گی، وہ تو بدستور محفوظ رہیں گے۔ آخر قرآن کے بہت سے احکام حالات کی تبدیلی کے ساتھ عین اس کے زمانۂ نزول میں بدل جاتے رہے ہیں تو اب اس کے احکام کیوں تبدیل نہیں ہو سکتے؟ قرآن نے ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے جو ڈھانچہ دیا ہے وہ تو محض ڈھانچہ ہے۔ وہ کوئی اسلام کے ابدی اصول تھوڑے ہی ہیں وہ اگر روز بدلتے رہیں تو اس سے قرآن اور اسلام کا کیا بگڑتا ہے؟ ابدی اصول تو لوح محفوظ میں محفوظ ہی ہیں۔

یہ ہے ان حضرات کے مذکورہ بالا ارشاد کا مطلب، اگر اس کو پرپیچ الفاظ کے بجائے سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے۔ یہ حضرات بار بار جب اسلام کے ’’ابدی اصولوں‘‘ اور ’’بنیادی اصولوں‘‘ کا ذکر فرماتے ہیں اور یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ یہ ابدی اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے تو آدمی اس خوش گمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کم از کم قرآن تو سراسر ان ابدی اصولوں ہی کا مجموعہ ہے اس وجہ سے اس میں یہ حضرات کسی تبدیلی کی سفارش کی جسارت نہیں فرمائیں گے۔ لیکن آپ نے سن لیا کہ یہ قرآن بھی ان ابدی اصولوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ اس نے بھی ہماری انفرادی، ہماری عائلی، ہماری معاشرتی، ہماری معاشی اور ہماری اجتماعی و سیاسی زندگی کے جو ڈھانچے کھڑے کیے ہیں وہ سب کے سب وقتی اور زمانی ہیں، وہ ہمیشہ قائم نہیں رکھے جا سکتے۔ بلکہ یہ تو اتنے بودے اور پھس پھسے ہیں کہ عین زمانہ نزول قرآن میں جب کہ ابھی ان پر چند برساتیں بھی نہیں گزری تھیں، حالات کی تبدیلی کے تحت ان میں تبدیلیاں ہوئیں اور اب تو اس کے قائم کیے ہوئے کتنے ڈھانچے ہیں جو بالکل ہی فرسودہ اور بے مقصد ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح آئندہ بھی اگر زندگی کو تغیر و ترقی سے نہیں روکا جا سکتا، تو قرآنی احکام کو تغیر و تبدل اور اصلاح و ترمیم کی زد سے بھی نہیں بچایا جا سکتا؟

ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر ان عنقاصفت اصولوں کا منبع کہاں ہے جن کو یہ حضرات ازلیت و ابدیت کا مقام بلند عطا فرماتے ہیں؟ وہ سارے کے سارے لوح محفوظ ہی میں ہیں یا ان کا کوئی حصہ قرآن میں بھی ہے؟ اگر ان کا کوئی حصہ قرآن میں بھی ہے تو ارکان کمیشن سے التجا ہے کہ وہ اس حصہ پر نشان لگا دیں تاکہ مسلمان اطمینان کا سانس لیں کہ کم از کم اتنا حصہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل سہی۔ زمانے کے دستبرد اور ارکان کمیشن کے کلک تنسیخ سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کا وہ سارا حصہ جو انسانی تعلقات کی ضابطہ بندی کرتا ہے وہ تو ہم نے سمجھ لیا کہ وہ سب کا سب معرض خطر میں ہے۔ عبادات میں سے بھی اکثر کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے کیونکہ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور قربانی سبھی کسی نہ کسی نوعیت سے وقت کے معاشی، سماجی اور اقتصادی نظریات سے متصادم ہیں۔ اخلاق اور آداب کی بھی خیر نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یہ تو ہیں ہی سرتاسر انسانی تعلقات کے تابع، بھلا آج عفت، حیا، وفاداری اور صداقت کے وہ معیارات کیا کام دے سکتے ہیں جن کا چلن آج سے سینکڑوں سال پہلے رہا ہے؟ رہے عقائد تو ان میں سے ممکن ہے کوئی اتنا سخت جان نکلے کہ اس طوفان حوادث کا مقابلہ کر سکے لیکن اس کا تعین بھی جب ہی ہو سکتا ہے جب ارکان کمیشن اپنے کیمیاوی تجزیہ کے بعد یہ اطمینان دلا دیں کہ فلاں عقیدے کا انسانی زندگی سے دور قریب کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے کیونکہ جہاں تک ہمارے ناقص علم کا تعلق ہے ہم تو یہی جانتے ہیں کہ جتنے بھی عقائد ہیں سب ایک طرف انسان کا تعلق خدا کے ساتھ جوڑتے ہیں، دوسری طرف انسان کا تعلق انسان سے جوڑتے ہیں۔ اس وجہ سے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو انسانی زندگی اور انسانی روابط (human relations) سے بے تعلق ہو۔ اب تک یہ قائم رہے تو شاید اس وجہ سے قائم رہے کہ اصلی عامل یہ عقائد تھے نہ کہ انسانی تعلقات لیکن اب اگر اصلی عامل کی حیثیت تعلقات انسانی کو حاصل ہو گئی ہے تو لازماً ان کو بھی اپنی جگہ چھوڑنی پڑے گی۔

بہرحال ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ قرآن کے متعلق اس نظریہ کے بعد اس کی کوئی چیز بھی منسوخ ہونے سے بچ سکے گی۔ لیکن اگر بچ سکے گی تو ارکان کمیشن کا اس امت پر بڑا احسان ہو گا اگر تعین کے ساتھ اس کا نام بتا دیں تاکہ ہمیں اطمینان ہو کہ قرآن کے تیس پاروں میں سے کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جو باقی رکھی جائیں گی۔

سنت کے متعلق ارکان کمیشن کا نظریہ

اس رپورٹ میں سنت کا لفظ اگرچہ بار بار دہرایا گیا ہے لیکن جب ان حضرات کے نزدیک قرآن کی بھی ہر چیز منسوخ ہو سکتی ہے تو پھر غریب حدیث اور سنت کسی گنتی میں ہیں؟ اس لفظ کو رپورٹ میں بار بار دہرانے کی مجبوری غالباً یہ پیش آئی ہے کہ ان کی بدقسمتی سے یہ لفظ دستور میں استعمال ہو گیا ہے۔ جب دستور میں استعمال ہو گیا تو مشہور مثل کے مطابق گلے پڑا ہواڈھول بجانا ہی پڑتا ہے۔ ورنہ جن حضرات نے قرآن کو نہیں بخشا ہے وہ سنت کو کب بخشنے والے ہیں۔ چنانچہ ایک بھرپور وار سنت پر بھی اس رپورٹ کے آخر میں کیا گیا ہے۔ اس کے آخر میں ان حضرات نے حکومت پاکستان کو یہ نصیحت کی ہے کہ اگر وہ محض قانون اسلامی کی پرانی تعبیرات ہی پر قانع ہو کر رہ گئی تو وہ اس ملک میں کوئی بھی موثر اصلاح نہیں کر سکے گی۔ اگر وہ فی الواقع کوئی اصلاح کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اس کو انقلابی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اس دلپذیر نصیحت کا اختتام علامہ اقبال مرحوم کے ان الفاظ پر ہوتا ہے:

’’مستقبل قریب میں جو سوال تمام مسلم ممالک کے سامنے آنے والا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی قانون، ارتقا کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال بڑی ذہنی کاوش کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کا جواب قطعاً اثبات میں ہو سکتا ہے بشرطیکہ عالم اسلامی اس سوال کو اس اسپرٹ کے ساتھ حل کرنے کے لیے آمادہ ہو جو حضرت عمر کے اندر تھی جو اسلام میں پہلے نقاد اور آزاد خیال فرد ہیں، جنھوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں یہ شاندار الفاظ کہنے کی جرأت دکھائی کہ حسبنا کتاب اللہ (ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے)۔‘‘

میں یہاں علامہ اقبال مرحوم کے ان الفاظ پر جو خود ان کے الفاظ کی حیثیت سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اس وجہ سے یہ معلوم کرنا کہ اس مبہم ارشاد سے ان کا مدعا کیا تھا، ممکن نہیں رہا۔ لیکن پیش کرنے والوں نے اس کو جس سیاق و سباق میں پیش کیا ہے وہ صاف یہی ہے کہ حدیث و سنت کی معروف پابندیوں کے ساتھ اس ملک میں تجدید و اصلاح کا کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اگرکوئی انقلابی قدم اٹھانا ہے تو یہ حسبنا کتاب اللہ کے انقلابی نعرے ہی کے ساتھ اٹھایا جا سکتا ہے۔

حسبنا کتاب اللہ کا نعرہ لگانے والے یہ حضرات قرآن کے متعلق جو تصور رکھتے ہیں اس کا بیان تو تفصیل کے ساتھ اوپر ہو چکا ہے۔ اب حدیث اور سنت سے متعلق ان کے نقطہ نظر کا اندازہ مذکورہ بالا اقتباس سے کر لیجیے۔ آخر علامہ اقبال کے اس قول کا حوالہ دینے کا منشا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر خلیفہ راشد اور ڈاکٹر اقبال جیسے شاعر اور فلسفی دونوں کو بیک وقت حدیث اورسنت کے خلاف کھڑا کر دیا جائے۔ ایک عام آدمی جب یہ دیکھے گا کہ علامہ اقبال نے یہ بات لکھی ہے تو ان کی شہرت کے پیش نظر اس کے دل میں اس بات پر اعتماد پیدا ہو گا کہ یہ سرسری اور سطحی نہیں ہو سکتی۔ پھر جب وہ یہ پڑھے گا کہ حضرت عمر نے عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت یہ بات کہی کہ ہمیں رسول اللہ کی کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں، ہمارے لیے تو کتاب اللہ ہی کافی ہے تو دو ہی اثر اس کے اوپر پڑنے متوقع ہیں۔ اگر وہ خدا ترس اور محتاط آدمی ہو گا تو حیران وسراسیمہ ہو کر رہ جائے گا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ اور اگر بالکل سطحی اور سرسری ذہن کا آدمی ہو گا تو عجب نہیں کہ منکرین حدیث کا ہمنوا بن جائے کہ جب اگلوں میں سے حضرت عمرؓ اور پچھلوں میں سے ڈاکٹر اقبال جیسے لوگ قرآن کے ہوتے حدیث اور سنت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو پھر آخر مولوی لوگ اس کو بلا وجہ کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں جس واقعہ کے تعلق سے حضرت عمرؓ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے وہ ایک اختلافی اور نزاعی واقعہ ہے۔ مولانا شبلی تو سرے سے اس واقعے ہی کے منکر ہیں۔ اس کے منکر تو بعض اور دوسرے محققین بھی ہیں لیکن میں نے مولانا شبلی کاحوالہ دو وجہوں سے دیا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ حضرت عمرؓ پر جیسی محققانہ کتاب انھوں نے لکھی ہے کسی اور نے نہیں لکھی ہے۔ دوسری یہ کہ ہمارے اس کمیشن نے جن تین چار آدمیوں کو ’’نقاد‘‘ اور ’’آزاد خیال‘‘مانا ہے ان میں ایک مولانا شبلی بھی ہیں۔ میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جس روایت کی بنا پر یہ حضرات، حضرت عمرؓ کو ’’اسلام میں پہلا نقاد اور آزاد خیال‘‘ مانتے ہیں۔ کمیشن کے ممدوح مولانا شبلی اس روایت کی سرے سے کوئی بنیاد ہی تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن فرض کیجیے کہ حضرت عمرؓ نے یہ بات فرمائی ہے تو یہ ان کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے کہ ان کے اس قول کو وہ معنی پہنچائے جائیں جو خوارج یا روافض یا منکرین حدیث و سنت نے اس کو پہنچائے ہیں اگر ایک شخص کہتا ہے کہ ’’حسبنا اللہ‘‘ ہمارے لیے اللہ کافی ہے تو اس سے یہ کہاں سے نکل آیا کہ وہ کتاب کی ضرورت کا قائل نہیں ہے یا رسول کی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتا ہے، اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ حسبنا کتاب اللہ تو اس سے حدیث یا دوسرے مآخذ دین کی نفی کیسے ہو گئی؟ جس طرح لفظ اللہ کے اندر کتاب اور رسول سب شامل ہیں اسی طرح کتاب اللہ کے اندر سنت رسول اللہ شامل ہے۔ حضرت عمر کی پوری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انھوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ سنت تو درحقیقت کتاب اللہ ہی کی شرح و تفسیر ہے۔ پھر اس کو کتاب اللہ سے الگ کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ جس انسان نے بلا اختلاف اس امت کی سب سے زیادہ خدمت کی، جو رسول اللہ کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے ایک ایک نقش قدم کا متلاشی رہا۔ جس نے اپنے شاندار دور حکومت میں ان ساری باتوں کا عملاً مظاہرہ کرا دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے آخر اس کی خدمت میں ان حضرات کی طرف سے یہ کونسا خراج تحسین ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہونے لگی تو اس نے سنت رسول کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا؟ میرے نزدیک تو فاروق اعظم کی نسبت اس طرح کی بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کے دل کے اندر ان کے خلاف نہایت گہرا عناد پوشیدہ ہو۔

ان حضرات نے حضرت عمرؓ کو اسلام میں پہلا نقاد اورآزاد خیال جوقرار دیا ہے اس کی وجہ ہمیں تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کے حالات سے یہ لوگ بالکل ہی بے خبر ہیں۔ ان کے متعلق سنی سنائی کوئی بات کانوں میں اگر پڑی ہوئی ہے تو بس یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘ کا انقلابی نعرہ بلند کیا تھا، اس کے سوا اورکسی بات کا ان لوگوں کو پتہ نہیں ہے اگر اور باتوں کا بھی پتہ ہوتا تو یہ لوگ ان کو اسلام میں پہلا نقاد اور پہلا آزاد خیال قرار دینے کے بجائے غالباً ان کو پہلا ’’رجعت پسند‘‘ قرار دیتے کیونکہ جن باتوں کو ان حضرات نے اس رپورٹ میں اسلام کی آزادانہ روح کے منافی قرار دیا ہے یا جن کو بدعت ٹھہرایا ہے یا جن کو فکری جمود کی نشانی بتایا ہے تقریباً یہ ساری ہی باتیں ایسی ہیں جن کے حضرت عمر قائل اور ان پر عامل رہے ہیں بلکہ بعض تو ان کی اوّلیات میں شمار ہوتی ہیں اورایسی تو بلا استثنا سب ہی ہیں جو ان کی وسیع سلطنت میں جو عرب، عراق، ایران، شام اور مصر سب پر پھیلی ہوئی تھی، برابر ہوتی رہی ہیں لیکن اصلاحات کے انتہائی دلدادہ ہونے کے باوجود اپنے آٹھ نو سال کے دور حکومت میں کبھی ان کو ان چیزوں کی اصلاح کا کوئی خیال نہیں آیا۔

ایک ہی وقت میں دی ہوئی تین طلاقوں کو یہ حضرات بدعت قرار دیتے ہیں اور ان کو انھوں نے کالعدم قرار دینے کی سفارش کی ہے، لیکن اگر یہ بدعت ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس ’’بدعت‘‘ کے بانی حضرت عمر ہی ہیں۔ سولہ اور اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادیاں کمیشن کی رپورٹ میں جرم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ اگر یہ جرم ہے تو اپنی زندگی کے آخری دور میں حضرت ام کلثوم کے ساتھ نکاح کر کے اس جرم کا بھی ارتکاب حضرت عمرؓ کر چکے ہیں بلکہ حضرت ام کلثوم کے والد ماجد حضرت علی بھی جو تمام امت میں سب سے بڑے فقیہ مانے جاتے ہیں اس جرم میں شریک ہوئے کیونکہ یہ رشتہ انہی کی اجازت سے ہوا۔ پردہ بھی بہرحال ارکان کمیشن کے نزدیک ایک شدید قسم کا جرم ہی ہو گا۔ اس جرم میں بھی اولیت کا شرف حضرت عمر ہی کو حاصل ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات جب پردہ نہیں کرتی تھیں تو حضرت عمر اس تمنا کا اظہار بار بار کرتے تھے کہ کاش یہ پردہ کریں۔ چنانچہ انہی کی آرزو کے مطابق حجاب کا حکم نازل ہوا۔ طلاقیں بھی انھوں نے دیں اور ان کے مطلقہ بیویوں میں ایک مسلمہ بھی تھیں لیکن ان کو طلاق دینے کا کوئی معقول سبب آج تک کسی کو نہیں معلوم ہو سکا۔ عجب نہیں کہ بیک وقت ان کے نکاح میں ایک سے زیادہ بیویاں بھی رہی ہوں اور اگر خود ان کے نکاح میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رہی ہیں تو ان کی وسیع سلطنت میں تو بہرحال تعدد ازدواج پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔ یہ ساری باتیں اگر جرم ہیں اورمحض فقہی تصلب و تشدد کے سبب سے دین میں داخل ہو گئی ہیں تو حضرت عمر اسلام میں پہلے نقاد اور پہلے آزاد خیال کیا ہوئے جب کہ انھوں نے حکومت اور اقتدار رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی اصلاح نہیں کی بلکہ الٹے اپنے طرز عمل سے ان کو اور زیادہ اجاگر کر دیا؟ کیا محض اس کارنامے پر ان کو آزاد خیال اور نقاد قرار دیا جا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر وقت میں انھوں نے حسبنا کتاب اللہ کا اعلان کرنے کی جرأت کی؟ اگر یہی وجہ ہے تو اول تو جیسا کہ عرض کیا گیا ہے اس بات کی نسبت ہی ان کی طرف صحیح نہیں ہے اور اگر صحیح ہے تو اس کا مدعا وہ ہرگز نہیں ہو سکتا جو یہ حضرات سمجھے ہیں۔ وہ آزاد اور نقاد تو ضرور تھے لیکن اتنے نقاد نہیں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تنقید کر ڈالیں اور نہ اتنے آزاد خیال تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھیں بند کرتے ہی ساری حدیث و سنت کی بساط لپیٹ کر رکھ دیں۔

فقہ اسلامی کے متعلق کمیشن کا نظریہ

اب آئیے فقہ اسلامی کے متعلق کمیشن کا نظریہ سنیے، اسلام کی سادگی اور اس کے ہر قسم کے رسمیات اور ہر قسم کے اصرو اغلال سے پاک و صاف ہونے پر ایک پرشوکت تمہید کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

’’زندگی ایک تخلیقی اورحالات کے ساتھ سازگاری پسند عمل ہے اور یہ بے لچک قوانین کے مقابل میں بصیرت کی زیادہ طالب ہے۔ اسلام کی ابتدائی سادہ اور آزاد روح کی تجدید ہونی چاہیے اور اس کام میں رہنمائی کے لیے ہمیں اسلام کے آغاز کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جب کہ بعد کے اضافوں سے وہ بالکل پاک تھا بعد کے قوانین اور ضوابط کے مجموعوں کا مطالعہ محض تاریخی اہمیت کے واقعات کی حیثیت سے تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کو اسلام کی مجموعیت کے ساتھ ملایا نہیں جا سکتا۔‘‘ گزٹ آف پاکستان ص ۱۲۳۱

اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ ارکان کمیشن کے نزدیک فقہ اسلامی کی کوئی دینی اور شرعی اہمیت نہیں ہے۔ اس کی ان کے نزدیک اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ محض تاریخی پہلو سے ہے۔ جس طرح آپ طبری، کامل ابن اثیر اور تاریخ الخلفا وغیرہ کی مدد سے ایک خاص دور کے حالات و واقعات معلوم کر لیتے ہیں۔ اسی طرح آپ مبسوط مدوّنہ اور کتاب الام سے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کسی خاص دور میں ہمارے یہاں کیا کیا قانونی رجحانات رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ان فقہی امہات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔

کمیشن نے ایک مقام پر شریعت اور فقہ کی بحث بھی چھیڑی ہے (ملاحظہ ہو ص ۱۲۰۵) اور وہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اگر تبدیلی کر رہے ہیں تو فقہ میں تبدیلی کر رہے ہیں جس کی بنیاد تجربات پر ہے۔ جس چیز کی بنیاد تجربات پر ہو۔ وہ صرف علما ہی کا اجارہ نہیں ہو سکتی۔ اس میں ہر شخص رائے زنی کر سکتا ہے۔

جہاں تک فقہ اور شریعت کے درمیان فرق کا تعلق ہے اور یہ کہ یہ حضرات جو کچھ تصرفات فرما رہے ہیں وہ صرف فقہ ہی تک محدود ہیں۔ شریعت ان کے حملوں اور ان کی ترکتازیوں سے محفوظ ہے، دونوں قابل بحث ہیں۔

شریعت اور فقہ میں جو فرق ہے وہ فرق ہرگز یہ نہیں ہے کہ شریعت میں اشخاص کو کوئی مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے اور فقہ کی بنیاد چونکہ تجربات پر ہے اور اس کی جو کچھ اہمیت ہے محض تاریخ کے پہلو سے ہے۔ اس وجہ سے اس میں ہر شخص اپنا اَقُولُ لگا سکتا ہے شریعت اور فقہ میں جو لوگ یہ فرق بیان فرماتے ہیں۔ وہ یا تو شریعت سے بالکل ناواقف ہیں یا فقہ سے یا دونوں ہی سے بالکل بے خبر ہیں۔ شریعت اور فقہ میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ شریعت ماخذ ہے اور فقہ اس ماخذ سے ماخوذ ہے اور ان دونوں میں وہی نسبت ہے جو ماخذ اور ماخوذ میں ہوتی ہے۔ جس حد تک اس کا اخذ صحیح ہے۔ اس حد تک یہ شریعت کا جزو ہے اس کو شریعت سے الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس کے کسی حصے کے متعلق تنقید سے یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے اخذ کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو بلاشبہ وہ شریعت کا کوئی جزو نہیں ہے۔

اب یہ ایک بالکل قدرتی امر ہے کہ فقہ کے کسی حصے کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ اس کا اخذ صحیح ہے یا نہیں ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ کام وہی کر سکتے ہیں جو ماخوذ اور اصل ماخذ دونوں پر محققانہ نظر رکھتے ہوں، عام اس سے کہ وہ علما میں سے ہوں یا غیر علما میں سے تجربات کو فقہ میں دخل ضرور ہے لیکن وہ دخل اس نوعیت کا نہیں ہے کہ یہ تجربات ہی فقہ اسلامی کی اساس ہوں۔ جن لوگوں نے یہ گمان کیا ہے وہ فقہ اسلامی کی تاریخ اور اس کے مواد سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔ زندگی کے تجربات فقہ اسلامی کی تعمیر میں صرف اس نوعیت سے شریک ہیں کہ ان کی تحریک نے ماہرین شریعت کو آمادہ کیا کہ وہ زندگی کے ان مسائل کا حل شریعت کے اشارات میں تلاش کریں جن کا حل شریعت کے واضح نصوص میں موجود نہیں ہے۔ نہ اس نوعیت سے کہ انہی تجربات کے اینٹ اور روڑے سے فقہ اسلامی کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہو۔ ایک مسجد جب تعمیر ہوتی ہے تو اس کی تعمیر میں موسمی تغیرات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ لحاظ اسی حد تک رکھا جاتا ہے جس حد تک یہ مسجد کی مسجدیت پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اگر موسمی تجربات مسجد کے قبلہ رخ بنانے کے خلاف ہیں تو قبلہ ہی بدل دیا جائے اور مسجد کی جگہ کوئی مندر یا کلیسا ہی تعمیر کر لیا جائے۔

اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ فقہ کی اصلی اہمیت تو شریعت کے نقطہ نظر سے ہے لیکن اس کا ایک پہلو تاریخی بھی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اس کی جو کچھ اہمیت ہے بس تاریخی ہی ہے اور سیوطی کی تاریخ الخلفا اور سرخسی کی مبسوط میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ فقہ کا تدریجی ارتقا ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ کس کس طرح کے محرکات اور عوامل نے ذہنوں کو شریعت پر تدبر کرنے کے لیے اکسایا ہے اور ماہرین شریعت نے ہر دور میں اٹھنے والے مسائل کا کس خوبی کے ساتھ حل تلاش کیا ہے۔ یہ بات بالکل مختلف ہے اس بات سے جو ارکان کمیشن نے فرمائی ہے کہ فقہی ذخیرہ کی جو کچھ اہمیت ہے بس تاریخ کے نقطہ نظر سے ہے۔ تاریخ کی کوئی کتاب ہمارے لیے حجت نہیں ہے لیکن فقہ کی ایک کتاب ہر اس شخص کے لیے حجت ہے جو اپنے اجتہاد میں اس کو صحیح سمجھتا ہے اور ایک عامی کے لیے تو دین کے ساتھ وابستہ رہنے کی اس کے سوا کوئی شکل ہی نہیں ہے کہ وہ ان کتابوں پر اعتماد کرے اور زندگی کے مسائل میں ان پر کار بند ہو۔ اگر وہ ان کو محض تاریخ کی حیثیت دے کر اپنے تجربات کی روشنی میں فقہ تیار کرنے کی کوشش کرے گا تو خدا ہی جانے یہ تجربہ اس کو کس کھڈ میں گرائے۔ آج کے تجربات تو یہ ہیں کہ مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بغیر قوموں کی ترقی ناممکن ہے زنابالرضا میں کوئی قباحت نہیں ہے، یہ محض ایک معصومانہ تفریح ہے۔ شراب، جوا، سود، اور سینما سب زندی کی ناگیزیر ضرورتیں ہیں۔ اب ان چیزوں کو زندگی سے خارج کرنے کی کوشش کرنا سوسائٹی کو رجعت کے غار میں دھکیلنا ہے۔ ان تجربات کے پیچھے پیچھے کون کہہ سکتا ہے کہ کہاں تک جانا پڑے۔

ممکن ہے کسی صاحب کو یہ خوش گمانی ہو کہ یہ سب باتیں تو اس شریعت میں شامل ہیں جس کی نسبت ان حضرات کا یہ اقرار ہے کہ اس میں یہ کوئی تغیر و تبدل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ عرض کرتا ہوں کہ کاش ایسا ہوتا اور یہ حضرات متعین طور پر یہ مان لیتے کہ فلاں فلاں چیزیں ان کے نزدیک شریعت ہیں لیکن میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ یہ اپنی خواہشات کے سوا کسی چیز کو بھی شریعت نہیں مانتے۔ مذہب، قرآن، حدیث اور فقہ کے متعلق ان حضرات کے جو نظریات و تصورات ہیں وہ آپ نے پچھلے صفحات میں معلوم کر لیے ہیں۔ اب ان کے بعد وہ کونسی چیز باقی رہ گئی ہے جس کو یہ شریعت مانیں گے اگر کسی کو ان کی نسبت اب بھی حسن ظن ہے تو آگے کے مباحث یہ اچھی طرح واضح کر دیں گے کہ اپنی خواہشات کے سوا یہ کسی چیز کو بھی شریعت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

________

۱۔ ملک یمین کاذکر ہم نے اس لیے نہیں کیا کہ اب یہ چیز خارج از بحث ہے۔

____________

 

B