اب اس کمیشن کی حیثیت پر اپنے موجودہ دستور کی روشنی میں غور کیجیے۔
یہ کمیشن حکومت پاکستان کے ایک اعلان مجریہ ۴؍اگست ۵۵ کی رو سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہمارے ملک میں بہت اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ ۲۳ مارچ ۵۶ سے ہمارا نیا دستور نافذ العمل ہے۔ اس دستور کے نفاذ کے بعد وہ ساری چیزیں آپ سے آپ کالعدم ہو گئیں جو اس دستور کے منافی ہیں۔ دستور کے مطالعے کے بعد میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ۲۳؍مارچ ۵۶کے بعد سے اس کمیشن کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۹۸ میں جو ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی قانون کتاب و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا اور یہ کہ موجودہ قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق کیا جائے گا اس کے متعلق ایک خاص شکل بھی متعین کر دی گئی ہے کہ اس دفعہ کے مقصد کو عملی جامہ صرف اس طریقہ سے پہنایا جائے گا جو دفعہ مذکور کی ذیلی دفعہ ۳ میں تجویز کیا گیا ہے۔ یہ ذیلی دفعہ ۳ یہ ہے:
’’یوم دستور سے ایک سال کے ایک سال کے اندر اندر صدر ریاست ایک کمیشن مقرر کرے گا:۔
الف۔ جو سفارشات پیش کرے گا کہ:۔
۱۔ موجودہ قوانین کو اسلام کے احکام کے مطابق بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں اور
۲۔ ان اقدام کو عملی شکل دینے کے لیے کیا مدارج ہوں اور
ب۔ ان احکام اسلام کو جن کو قانونی شکل دی جا سکتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لیے موزوں شکل میں مرتب کرے گا۔
کمیشن اپنی آخری رپورٹ اپنے تقرر سے پانچ سال کے اندر اندر پیش کر دے گا۔ کوئی عارضی رپورٹ وہ اس سے پہلے بھی پیش کر سکتا ہے۔ یہ رپورٹ خواہ عارضی ہو یا آخری وصول سے چھ ماہ کے اندر اندر نیشنل اسمبلی کے سامنے پیش کر دی جائے گی اور نیشنل اسمبلی اس پر غور کرنے کے بعد قوانین بتائے گی۔‘‘
اس دفعہ کے آخر میں تشریح کے طور پر یہ بات بھی شامل کر دی گئی ہے کہ کسی مسلم فرقہ کے پرسنل لا پر اس دفعہ کو منطبق کرتے وقت کتاب و سنت کے الفاظ سے ان کی وہی تعبیریں مراد ہوں گی جو متعلقہ فرقہ کے لوگ پیش کرتے ہوں۔
اب اس دفعہ کے تمام تضمنات سامنے لایئے تو چندباتیں نہایت واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔
۱۔ یہ کہ اسلامی احکام کو قانون کی شکل دینے اور موجودہ قوانین کو احکام اسلام کے مطابق کرنے کی اس دستور کے نفاذ کے بعد صرف ایک ہی شکل ہے جو اختیار کی جا سکتی ہے اور وہ وہی ہے جو دفعہ ۱۹۸ کی ذیلی دفعہ میں بیان کی گئی ہے۔ دستور کے الفاظ (ONLY IN MANNER PROVIDED IN CLAUSE 3) اس معاملے میں نہایت واضح طور پر حصر کرنے والے ہیں۔
۲۔ صدر ریاست کے مقرر کیے ہوئے کمیشن کے سوا کوئی دوسرا کمیشن مذکورہ کام کے لیے بالکل آئین کے خلاف ہے۔
۳۔ صدر ریاست کے مقرر کیے ہوئے کمیشن کا کام موجودہ قوانین کو احکام اسلام کے مطابق کرنے کے سلسلے میں تدابیر بتانا، مدارج تجویز کرنا اور مجالس قانون ساز کی رہنمائی کے لیے قانون سازی کے لائق احکام کو موزوں شکل میں ترتیب دے دینا ہے۔
۴۔ پرسنل لا کے حد تک ہر مسلم فرقہ سے متعلق کتاب و سنت کی وہی تعبیریں معتبر ہوں گی جو اس فرقہ کے لوگ پیش کرتے ہوں کوئی دوسری تعبیر ان کے سر نہیں منڈھی جائے گی۔
اب اس عائلی کمیشن کی حیثیت پر غور فرمائیے۔
۱۔یہ کمیشن دستور کی دفعہ ۱۹۸ کی ذیلی دفعہ ۳ کے تحت صدر ریاست کا مقرر کردہ نہیں ہے یہ کمیشن دستور کے نفاذ سے پہلے حکومت پاکستان نے مقرر کیا تھا۔
۲۔ اس کمیشن کے حدود کار (TERMS OF REFERENCE) اس کمیشن کے حدود کار (TERMS OF REFERENCE) سے مختلف ہیں جو صدر ریاست کے مقرر کیے ہوئے کمیش کے بتائے گئے ہیں۔
۳۔ اس کمیشن نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے پرسنل لا پر پوری بیدردی سے ہاتھ صاف کیا ہے۔ درآنحالیکہ دستور نے نہایت واضح الفاظ میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ان معاملات میں کتاب و سنت کی وہی تعبیریں معتبر ہوں گی جو کسی فرقہ کے لوگ پیش کریں گے۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے نئے دستور کے بعد اس کمیشن کی کوئی قانونی حیثیت باقی نہیں ہے۔ میں حیران ہوں کہ حکومت نے ایک خلاف آئین کمیشن پر قومی فنڈ کا روپیہ کیوں خرچ کیا؟ اور اگر حکومت اپنی اس غلطی پر متنبہ نہ ہو سکی تھی تو ارکان کمیشن نے آخر ایک بالکل غلط کام پر قوم کا روپیہ کیوں ضائع کرایا؟ کیا کمیشن کے فاضل ارکان اپنے دستور سے بھی اتنی ہی واقفیت رکھتے ہیں جتنی واقفیت وہ قرآن و حدیث سے رکھتے ہیں۔ یا اسلام میں ترمیمات پیش کرنے کا ان حضرات پر اتنا شوق غالب تھا کہ اس واضح حقیقت کی طرف توجہ دینے کی انھوں نے ضرورت ہی نہیں محسوس کی؟
____________