اس کمیشن کے قیام کا مقصد، جیساکہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے ہمارے موجودہ عائلی قوانین کا جائزہ لے کر یہ بتانا تھا کہ کیا عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے نقطہ نظر سے ان قوانین میں کسی ترمیم و اصلاح کی ضرورت ہے؟ اور اگر ضرورت ہے تو کس قسم کی اصلاح کی ضرورت ہے؟
ہر شخص جانتا ہے کہ یہ عائلی قوانین کم و بیش وہی ہیں جو انگریزوں نے محمڈن لا کے نام سے اپنے زمانہ حکومت میں (غالباً ۱۷۷۲ میں) جاری کیے تھے۔ اس ملک میں چونکہ حنفی المذہب مسلمانوں کی اکثریت تھی اس وجہ سے قدرتی طور پر یہ محمڈن لا فقہ حنفی ہی پر مبنی ہوا اور اس کے لیے وہی کتابیں ماخذ بنیں جو حنفیوں کے نزدیک معتبر خیال کی جاتی تھیں۔ مثلاً ہدایہ، فتادائے عالمگیری اور سراجی ۱ وغیرہ جو انگریزوں ہی نے اپنے اہتمام میں ان کتابوں کے انگریزی ترجمے کرائے پھر عدالتوں میں یہی کتابیں بحث و ثبوت اور حوالوں کے لیے مستندو معتبر تسلیم کی گئیں۔
کمیشن کے فاضل ارکان کے نزدیک یہ انگریزوں کی ایک چال تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو محمڈن لا کے ساتھ باندھ کر رکھ دیا جس کے سبب سے ان کی سوسائٹی بالکل جامد ہو کر رہ گئی اور بدلتے ہوئے حالات کے قدم بقدم اس کو تبدیل ہونے اور ترقی کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
رومیوں کی طرح انگریزوں نے بھی مختلف مذہبی گروہوں کے پرسنل لاء میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کی۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت مسلمانوں میں ان قوانین کو جاری کیا گیا جو انیگلو محمڈن لا کے نام سے موسوم ہیں۔ اسلامی قانون جس کا اجرا اس شکل میں شروع ہوا وہ ترقی پذیر حالات اور زمانے کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ دینے والا ذی روح وجود نہ رہا تھا۔ مسلمانوں کے لیے پرسنل لاء کے نام سے جو چیز اختیار کی گئی تھی وہ بالکل دقیانوسی جامد اور مختلف اعتبارات سے غیر واضح تھی۔ لیکن سیاسی غلامی کے سبب سے اس کی اصلاح یا تجدید ناممکن تھی۔ گزٹ آف پاکستان ۱۲۰۳
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کمیشن کے فاضل ارکان کو انگریزوں پر کس بات کا غصہ ہے؟ کیا اس بات کا کہ جب انھوں نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے ترقی پسندانہ قوانین ہی کے تحت کر دیا تھا تو یہ ذرا سا تسمہ پرسنل لا کا کیوں لگا چھوڑ دیا۔ اس کی جگہ پر بھی اپنے ترقی پسندانہ قوانین کیوں نہ جاری کر دیے کہ اس دقیانوسی اور جامد قانون کا ہمیشہ کے لیے قصہ ہی پاک ہو جاتا؟ یا اس بات کا کہ انھوں نے ہدایہ اور عالمگیری اور سراجی جیسی دقیانوسی کتابیں کیوں عدالتوں کے ہاتھوں میں پکڑوا دیں کیوں نہ چند ترقی پسند بیگمات پر مشتمل ایک کمیشن بٹھا کر ان کتابوں میں اصلاحات اور ترمیمات کرائیں؟ یا اس بات پر ان فاضل ارکان کو غصہ ہے کہ انگریزوں نے رومیوں کی اندھا دھند تقلید میں مختلف گروہوں کے پرسنل لاء کی حفاظت کی دقیانوسی پالیسی پر کیوں عمل کیا، کیوں نہ اس فرسودہ پالیسی ہی کا خاتمہ کر دیا کہ سب کے سب ایک ہی ساتھ ڈوبتے اور ایک ہی ساتھ ترتے۔
میرے نزدیک ارکان کمیشن کا یہ غصہ جس سبب سے بھی ہو بالکل بے جا ہے۔ انگریزوں سے زیادہ اس بات کا کوئی شائق نہیں تھا کہ وہ ہماری زندگی کے ہر گوشے اور ہر شعبے کو بالکل مغربی رنگ میں رنگ دیں (اور اگر وہ رنگ دیتے تو اس میں شک نہیں کہ آج ہمارے اس کمیشن کا کام بڑا آسان ہو جاتا بلکہ شاید اس قسم کے کسی مقصد کے لیے کسی کمیشن کے بٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی جس منزل پر پہنچنے کے آج ہم ارمان رکھتے ہیں اس پر آج سے بہت پہلے ہم پہنچ چکے ہوتے) لیکن انگریز اس ملک پر حکومت کرنا چاہتے تھے اس وجہ سے وہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے وہ پرسنل لا کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہم نے جن لوگوں کا ملک چھینا ہے وہ اس صدمہ کو تو شاید کچھ عرصے کے بعد بھول جائیں لیکن اگر ہم نے ان کے پرسنل لا کو بھی قانون کے زور سے بدلنا چاہا تو پھر یہ ہم کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
پرسنل لا کسی قوم کی آخری متاع ہوتی ہے جس کے لٹ جانے کے بعد وہ قوم بالکل ہی بے مایہ ہو جاتی ہے۔ سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی اگر کسی قوم کا پرسنل لا باقی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس قوم کا تشخص ابھی باقی ہے اور جب تک تشخیص کسی نہ کسی حد تک باقی ہے تو گویا اس کی ہستی بھی قائم ہے لیکن اگر یہ بھی باقی نہ رہا تو گویا اس کی ہستی ہی سرے سے ختم ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اپنے پرسنل لا کی حفاظت کے لیے اپنا آخری زورلگا دیتی ہے اور بسا اوقات اس کے لیے سب کچھ قربان کر دیتی ہے۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھ کر مغرور سے مغرور فاتحوں اور مستبد سے مستبد حکمرانوں نے بھی اپنی رعایا کے پرسنل لا کا احترام کیا ہے۔ رومیوں نے اگر احترام کیا تو اس کی وجہ، جیسا کہ فاضل ارکان نے سمجھی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے محکوموں کے معاشرے کو جامد دیکھنا پسند کرتے تھے اور اگر انگریزوں نے ہمارے پرسنل لا کا احترام کیا تو اس کی وجہ بھی یہ نہیں تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ہم ہدایہ اور عالمگیری ہی کے چکر میں رہیں، ان سے باہر نہ نکل سکیں بلکہ اس کی وجہ وہی ہے جو عرض کی گئی ہے۔ انگریز اس رمز سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ اپنے پرسنل لا کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی مذہبی بھی ہے اور جذباتی بھی۔ وہ اس کو چھیڑ کر کوئی فائدہ تو اٹھا نہ سکیں گے البتہ اپنے اقتدار کے لیے، جس کی جڑیں ابھی مستحکم نہیں ہوئی تھیں ایک بہت بڑا خطرہ مول لیں گے۔
بھارت میں جہاں مسلمانوں کو جان و مال کا تحفظ بھی حاصل نہیں ہے دستور کی حد تک ہی سہی ان کا پرسنل لا محفوظ ہے۔ خود ہم نے اپنے دستور میں پاکستان کے اندر بسنے والی اقلیتوں کے پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے کیا یہ ضمانت ہم نے اس خیال سے دی ہے کہ ان کا معاشرہ جامد رہے اور وہ تجدد کی منزلیں طے نہ کر سکیں یا اس لیے دی ہے کہ آج ہر نظام میں خواہ دینی ہو یا لادینی پرسنل لا کے احترام کو اس وجہ سے ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ لوگوں کے احساسات اس کے بارے میں نہایت نازک ہوتے ہیں اور اس میں کسی مداخلت کو لوگ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتے۔
ارکان کمیشن کا یہ خیال بھی بالکل غلط ہے کہ انگریزوں نے پرسنل لا کے نام سے جو چیز اختیار کی وہ دقیانوسی فرسودہ اور جامد تھی۔ اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ محمڈن لا کی بنیاد ہدایہ، عالمگیری اور معاملات میراث میں سراجی پر ہے۔ یہ اسلامی قانون کی وہ کتابیں جو اس حکومت میں قضا اور فتوی کی بنیاد رہ چکی تھیں جس کی جگہ انگریزوں نے لی تھی اس وجہ سے قدرتی طور پر جب انگریزوں نے پرسنل لا کی حد تک اسلامی قوانین کو باقی رکھنا چاہا تو وہ انہی کتابوں پر اعتماد کرنے پر مجبور ہوئے جن پر مسلمانوں کو پہلے سے اعتماد تھا۔
ان کتابوں کو آج آپ جو چاہیں گالیاں دے لیں، کوئی آپ کی زبان نہیں پکڑ سکتا۔ لیکن جس زمانے میں انگریزوں نے ان کتابوں کو محمڈن لا کی اساس کی حیثیت سے اختیار کیا تھا اس زمانے میں کوئی شخص ان کی نسبت وہ الفاظ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ جو آج کہے جا رہے ہیں۔
ہدایہ فقہ حنفی کی امہات میں شمار ہوتی ہے اور اسلامی قانون کا کوئی طالب علم اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ کمیشن کے ارکان کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس سے واقف ہیں یا نہیں لیکن کمیشن کے فاضل صدر کی نسبت میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ وہ کم از کم ہملٹن کے ترجمہ کے واسطہ ہی سے اس سے واقف ہوں گے اور اس کے بارے میں ہملٹن کی رائے سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے۔ ہماری قوم میں جسٹس محمود جس پایہ کے قانون دان گزرے ہیں اس پایہ کا کوئی دوسرا قانون دان نہ گزرا اور نہ آج بدقسمتی سے کوئی موجود ہے۔ انھوں نے اس کتاب کی نسبت جو خیالات ظاہر کیے ہیں وہ بھی پاکستان کے سابق چیف جسٹس سے مخفی نہیں ہو سکتے۔
فتاوائے عالمگیری کا حال یہ ہے کہ وہ کسی ایک شخص کی تصنیف نہیں ہے بلکہ گیارھویں صدی ہجری میں اس کو مرتب کرنے کے لیے سلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے پورے ملک کے مشہور و مستند علما کا ایک بورڈ قائم کیا تھا اور اس بورڈ نے یہ مقصد پیش نظر رکھ کر اس کو مرتب کیا تھا کہ یہ مغلیہ سلطنت کی عدالتوں کے لیے ایک مدون ضابطہ کی حیثیت سے کام دے۔ اگرچہ پیش نظر مقصد کے لحاظ سے یہ کتاب نئے اسلوب پر تو مدون نہ ہو سکی تاہم یہ برابر فقہ حنفی کے ایک معتبر ترین مجموعے کی حیثیت سے حکام اور مفتیوں دونوں کا مرجع رہی ہے۔
یہی حال سراجی کا ہے۔ کم از کم میراث کے مسائل میں اس سے زیادہ مرتب مختصر اورمستند کتاب آج بھی کوئی موجود نہیں ہے۔ بہرحال انگریزوں نے جو محمڈن لا جاری کیا اس کی بنیاد انہی کتابوں پر تھی اور یہ کتابیں فقہ حنفی کی نہایت معتبر و مستند کتابیں ہیں۔
مجھے اس امر سے انکار نہیں ہے کہ انگریزوں نے جو محمڈن لا جاری کیا وہ بعض اعتبارات سے ناقص تھا اور جن کتابوں سے اخذ کردہ مواد پر یہ مبنی تھا وہ کتابیں بھی جانچنے پرکھنے کی محتاج تھیں۔ بہت ہی اچھا ہوتا اگر پہلے ہی کتاب اور سنت کی کسوٹی پر محمڈن لا کو پرکھنے اور اس کے صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی اور اگر پہلے یہ کوشش نہیں کی گئی تو اب تو نہایت ضروری ہے کہ اس سارے محمڈن لا کو از سر نو جانچ کر اس کو براہ راست کتاب و سنت کی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ اس میں تغیر اور اصلاح کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اعتراض اگر ہے تو اس بات پر ہے کہ اس کام کے لیے جو کمیشن بٹھایا گیا وہ اس اہم اور نازک کام کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا۔ یہاں پیش نظر کام یہ نہیں تھا کہ انگریزوں نے محمڈن لا کے نام سے ہمارے عائلی نظام کے لیے کچھ ضابطے جاری کر رکھے تھے جو فرسودہ اور کہنہ ہو چکے تھے جن سے ہماری سوسائٹی کی ترقی رکی ہوئی تھی ان کو موجودہ زمانے کے ترقی یافتہ قوانین سے بدلنا ہے۔ اگر پیش نظر مقصد یہ ہوتا تو اس مقصد کے لیے یہ کمیشن برا نہیں تھا۔ ہم اس کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہ کرتے لیکن یہاں تو جیسا کہ عرض کیا گیا۔ درحقیقت فقہ حنفی پر نقدو نظر اور اس میں اصلاحات تجویز کرنے کا کام کمیشن کے سپرد کیا گیا تھا۔ ہدایہ، عالم گیری اور سراجی کی غلطیوں کی اس کو اصلاح کرنی تھی بلکہ صحیح معنوں میں پوری فقہ اسلامی کے بہت سے مسلمات اصلاح و ترمیم کے لیے اس کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ یہ کام ہر شخص محسوس کر سکتا ہے، کہ ہرکس و ناکس کے کرنے کا نہیں ہے۔ اس کو اگر کر سکتے ہیں تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کتاب و سنت سے براہ راست گہری واقفیت رکھتے ہوں۔ جو احکام اسلامی کی حکمتوں اور مصلحتوں سے باخبر ہوں جو اجتہاد اور قیاس کے اصولوں کا علم رکھتے اور ان کا استعمال جانتے ہوں۔ جو فہم شریعت میں اتنا درک رکھتے ہوں کہ کسی اجتہاد یا قیاس کو، بالخصوص جب کہ وہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر ائمہ کا ہو، براہ راست کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر اس کا سقم واضح کرسکتے ہوں اور ساتھ ہی خود اپنے اجتہاد کے وزن کو دلائل سے واضح کر سکتے ہوں۔ کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس پورے کمیشن میں ایک شخص بھی ایسا ہے جو ان کاموں کا اہل ہے؟ ان کاموں کا اہل ہونا تو دور کی بات ہے، کیا ان میں سے کسی صاحب نے ہدایہ، عالمگیری اور سراجی کا مطالعہ بھی کیا ہے؟ براہ راست مطالعہ نہ سہی کیا ان کتابوں کے وہ انگریزی ترجمے ہی کسی نے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے جو ہملٹن، سرولیم جونز اور بایلی نے کیے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی صاحب یا صاحبہ نے قرآن پر حدیث پر فقہ اسلامی پرچھوٹا یا بڑاکام کیا ہے؟ کوئی ریسرچ کی ہے؟ کوئی تصنیف فرمائی ہے؟ کوئی قابل ذکر مقالہ لکھا ہے؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے اورایمان دارانہ جواب ان کا نفی ہی میں ہو سکتا ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ آج اسلامی شریعت اور اسلامی فقہ سے بھی زیادہ دنیا میں کوئی سائنس مظلوم ہو سکتی ہے جس میں اصلاح و ترمیم کے لیے وہ حضرات قلم اٹھاتے ہیں جو اس کی ابجد سے بھی ناآشنا ہیں۔
________
۱ شیعوں کے لیے غالباً کتاب شرائع الاسلام
____________