HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

عائلی کمیشن کی رپورٹ

تمہید

اگست ۱۹۵۵ء میں ہماری مرکزی حکومت نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیشن بٹھایا تھا جس کے ذمہ یہ کام سپرد کیا گیا تھا کہ وہ نکاح و طلاق اور کفالت وغیرہ سے متعلق موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر بتائے کہ کیا عورت کو معاشرہ میں اس کی اصلی جگہ دلانے کے لیے ان قوانین میں کسی ترمیم و اصلاح کی ضرورت ہے؟ نیز وہ نکاح و طلاق کی رجسٹری، طلاق بذریعہ عدالت اور ازدواجی امور سے متعلق خاص عدالتوں کے قیام کے متعلق بھی اپنی رایوں کا اظہار کرے۔

اس کمیشن کے صدر خلیفہ شجاع الدین مرحوم بنائے گئے تھے اور ارکان میں مندرجہ ذیل حضرت تھے:

۱۔ خلیفہ عبدالحکیم صاحب۔

۲۔ مولانا احتشام الحق صاحب۔

۳۔ مسٹر عنایت الرحمن۔

۴۔ بیگم شاہنواز۔

۵۔ بیگم انورجی احمد۔

۶۔ بیگم شمس النہار محمود۔

کمیشن کے قیام کے تھوڑے ہی عرصے بعد خلیفہ شجاع الدین صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس وجہ سے صدارت کے لیے ان کی جگہ پر میاں عبدالرشید صاحب سابق چیف جسٹس پاکستان کا انتخاب عمل میں آیا۔

اس کمیشن نے اپنی رپورٹ مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دی ہے اور حکومت کی طرف سے یہ ۲۰ جون ۱۹۵۶ کے سرکاری گزٹ میں شائع ہو گئی ہے۔ کمیشن کے ارکان میں سے مسٹر عنایت الرحمن صاحب نے کمیشن کی کارروائیوں میں اگرچہ عملاً کوئی حصہ نہیں لیا۔ لیکن اس رپورٹ کو ان کی منظوری حاصل ہے۔ مولانا احتشام الحق صاحب نے اس پر ایک اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں ارکان کمیشن کے نظریات اور ان کی سفارشات سے شدت کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ اس طرح یہ رپورٹ عملاً صاحب صدر کے علاوہ خلیفہ عبدالحکیم صاحب اور مذکورہ تینوں بیگمات کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

یہ رپورٹ مختلف اعتبارات سے بڑی اہمیت رکھتی ہے جن میں سے بعض کی طرف میں یہاں اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں وہ اگر منظور ہو جائیں تو ہماری معاشرتی زندگی کا موجودہ ڈھانچہ یک قلم تبدیل ہو جائے گا۔ وہ ساری اساسات بھی اس تبدیلی کے نتیجے میں ختم ہو جائیں گی جن پر اسلام نے ہمارے معاشرتی نظام کو قائم کیا ہے اور وہ ساری روایات بھی (عام اس سے کہ وہ غلط یا صحیح) ختم ہو جائیں گی جن کا عام طور پر احترام کیا جاتا رہا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کی منظوری ہمارے معاشرے کے کسی ایک ہی طبقے کو متاثر نہیں کرے گی بلکہ اس کے تلخ و شیریں نتائج میں سے اس ملک کا ہر شہری حصہ پائے گا، عام اس سے کہ وہ امیر ہو یا غریب شہری ہو یا دیہاتی متمدن ہو یا وحشی عورت ہو یا مرد نیک ہو یا بد بلکہ سچ پوچھیے تو اس کے دور رس نتائج کی زد سے وہ چھوٹے بڑے ادارے بھی نہ بچ سکیں گے جو آپ کے معاشرے کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ یہاں تک کہ آخری نتیجے کے طور پر اس سے ہماری ریاست بھی ایک بالکل ہی مختلف ہیولی اختیار کر لے گی جو ہمارے نئے دستور نے اس کا پیش کیا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مرتبین نے ہمیں کچھ نئے نظریات اور نئے اصول اجتہاد دیے ہیں جن سے ہم بالکل پہلی مرتبہ آشنا ہوئے ہیں۔ سابق ائمہ و مجتہدین سے ہمیں جو کچھ ورثہ میں ملا ہے اس کے پورے ذخیرے میں ہمیں ان نظریات اور ان اصولوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ یہ اصول اگر تسلیم کر لیے جائیں (اور اس رپورٹ کے تسلیم کر لینے کے معنی یہی ہیں کہ ہم نے ان کو بے چون و چرا تسلیم کر لیا) تو نہ صرف ہمارا وہ پورا دینی ذخیرہ ایک دفتر بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے جو بارہ تیرہ سو سال میں مرتب ہوا ہے۔ بلکہ سرے سے قرآن و حدیث بھی ایک لا یعنی شے بن کر رہ جاتے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد یہ بالکل پہلی چیز ہمارے سامنے آئی ہے جس سے اس اسلامی زندگی کا کچھ آئیڈیا ہوتا ہے جو ہمارے ملکی اکابر اور ان کے ہم رنگ و ہم مشرب حضرات کے ذہنوں میں ہے دستور میں یہ ضمانت جو دی گئی ہے کہ اس ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہوں گے۔ غیر اسلامی قوانین اسلامی قوانین سے بدلے جائیں گے ایک کمیشن بیٹھے گا جو ان قوانین کو مرتب کرے گا اور ان کے نفاذ و اجرا کے لیے اقدامات و مراحل تجویز کرے گا۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ ساری چیزیں کس شکل میں واقع ہوں گی اور یہ وعدے کس صورت میں عملی جامہ پہنیں گے۔

یہ سارے پہلو اس بات کے متقاضی ہیں کہ رپورٹ کو محض سرسری نظر سے دیکھ کر اس کو آگے کے مراحل سے گزر جانے کے لیے چھوڑ نہ دیا جائے بلکہ اس کی ایک ایک چیز کو اچھی طرح تجزیہ کر کے سمجھا جائے اوراگر یہ فی الواقع انہی نتائج کی حامل ہے جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے تو اس فتنہ کے سد باب کی تدبیریں کی جائیں۔ کیونکہ یہ نتائج ہمارے ہی سامنے آنے ہیں کسی اور کے سامنے نہیں جانے ہیں۔

ان گوناگوں اہمیتوں کے پیش نظر میں اس رپورٹ پر مفصل تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تبصرہ چار مختلف پہلوؤں سے ہو گا۔

پہلے میں پیش نظر مقصد کے لحاظ سے اس کمیشن کی تشکیل کی نوعیت پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔ اس کے بعد بتاؤں گا کہ ہمارے موجودہ دستور کی رو سے اس کمیشن کی حیثیت کیا ہے؟ پھر ان جدید نظریات اور اجتہاد کے ان نئے اصولوں پر تبصرہ کروں گا جو اس رپورٹ کے ذریعے سے بالکل پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ان سفارشات کو زیربحث لاؤں گا جو کمیشن نے پیش کی ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ سفارشات کتاب و سنت اور حالات و مصالح سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں اور اگر یہ منظور ہو جائیں تو ان سے کن نتائج کے پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

لیکن یہ بحث نامکمل رہے گی اگر اس تبصرے کو تبصرے ہی کی حد تک محدود رکھا جائے۔ اس تبصرے سے یہ تو ممکن ہے کہ رپورٹ کی خامیاں اور غلطیاں سامنے آ جائیں لیکن صرف اتنے سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمارے موجودہ عائلی نظام میں بہت سی خرابیاں گھس آئی ہیں جو اُن پاکیزہ اصولوں اور ان پاکیزہ تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں جن پر اسلام نے اپنے عائلی نظام کو قائم کیا تھا۔ اس وجہ سے اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ سفارشات اسلام کے خلاف ہیں تو ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم وہ صحیح تدابیر بھی بتائیں جن سے موجودہ خرابیوں کی اصلاح ہو سکے۔ چنانچہ میں آخر میں وہ تدابیر بھی بتاؤں گا جو موجودہ خرابیوں کو دور کر سکتی ہیں۔

____________

 

B