حاکمیت اللہ کے لیے ہے
اوپر خلافت کے تضمنات بیان کرتے ہوئے ہم یہ بتا چکے ہیں کہ زمین میں اصلی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ یہی بنیادی حقیقت ہے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔ یہ بات کہ خدا کی تکوینی حاکمیت بحیثیت ایک حقیقت کے ہر جگہ موجود ہے، خواہ اس کا اقرار کیا جائے یا نہ کیا جائے، اگرچہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن اسلام میں حاکمیت کے اقرار کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ اس کی تکوینی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریعی حکومت کا بھی اقرار کیا جائے۔ ایک طرف اس بات کا اقرار کیا جائے کہ وہی تنہا اس کائنات کا خالق و مالک اورحاکم ہے اور دوسری طرف اس بات کا بھی اقرار کیا جائے کہ تنہا اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کے لیے نظام زندگی تجویز کرے اور ان کے لیے قانون بنائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے خدا کی توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار ضروری ٹھہرا۔ اگر کوئی شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار نہ کرے تو اس کا حاکمیت الہٰی کا اقرار بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ وہ اس اقرار کے باوجود خدا کی توحید اور اس کی حاکمیت کا منکر قرار پائے گا کیونکہ اس نے خدا کی تشریعی حاکمیت کا اقرار نہیں کیا ہے، جو حاکمیت الہٰی کے اقرار کی ایک لازمی شرط ہے۔ جس پاک کلمہ پر ہمارے دین کی بنیاد ہے اس کے دو جزو ہیں، ایک لاالہ الا اللہ جو خدا کی تکوینی حاکمیت کا اقرار ہے، اور دوسرا محمد رسول اللہ جو خدا کی تشریعی حاکمیت کا اقرار ہے اور یہ دونوں جزو لازم و ملزوم ہیں۔ توحید کے ساتھ رسالت پر ایمان درحقیقت توحید ہی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ خدا کے اس کائنات کے خالق و مالک ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں اگر اس کی دنیا اور اس کی رعایا پر قانون کسی اور کا چلے۔ لیکن اس کی تکوینی حاکمیت کی طرح اس کی تشریعی حاکمیت جبر پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے انسانوں کے اختیار پر چھوڑا ہے اور اسی کو اس نے ان کی عزت و ذلت کا معیار بنایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس کو اختیار کر کے خدا کے بندے اور اس کی رعیت بن سکتے ہیں اور اپنے لیے اس کے ہاں بڑا اجر حاصل کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس سے منحرف ہو کر اس کے باغی اور شیطان کی رعیت بن سکتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا میں خدا کی لعنت اور آخرت میں اس کے عذاب کا مستحق بنا سکتے ہیں۔
خدا کی تشریعی حاکمیت کے مظہر اس کے انبیاء ہوتے ہیں۔ وہی اس کے نمائندے اور سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنی رعایا کو کن باتوں کا حکم دیتا اور کن باتوں سے روکتا ہے اور ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے وہ کس ضابطہ حیات کو پسند کرتا ہے۔ یہ انبیاء خدا کے احکام اور اس کی مرضیات کے بتانے کا بالکل محفوظ و معصوم ذریعہ ہوتے ہیں۔ خدا کے احکام پہنچانے کے معاملے میں ان سے کسی غلطی کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ براہ راست ان کی نگرانی فرماتا ہے کہ وہ دنیا کو اس کے احکام و ہدایات سے صحیح صحیح مطلع کر سکیں۔ یہ انبیا خدا کی طرف سے واجب الاطاعت ہادی کی حیثیت سے آتے ہیں۔ ان کی اطاعت کیے بغیر کوئی شخص خدا کی وفادار رعیت نہیں قرار پا سکتا۔ خدا کی وفاداری کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور ان کا وفادار رہا جائے۔
خدا کی اطاعت کی عملی شکل درحقیقت رسول کی اطاعت ہی ہے اس لیے کہ رسول ہی ہے جو خدا کے نائب کی حیثیت سے خدا کے احکام و قوانین سے باخبر کرتا اور ان کی تنفیذ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی اطیعواللہ وارد ہے ساتھ ہی اطیعوالرسول کا بھی حکم ہے اس وجہ سے خدا اور رسول کے درمیان فرق کرنے کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن رسول کی اطاعت تسلیم نہیں کرتے ان کی مثال ایسی ہے کہ وہ بادشاہ کی اطاعت تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے مقرر کیے ہوئے نائب کی اطاعت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی خود مختاری نہ تو دنیا کے قوانین میں کہیں تسلیم کی گئی ہے اور نہ خدا ہی نے اپنے قانون میں اس کے جواز کی کوئی گنجائش رکھی ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بععد یہ ذمہ داری امت کے اولوالامر یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی۔ وہ اس بات کے لیے مسؤل قرار پائے کہ وہ خدا کی زمین میں خدا کے احکام و قوانین نافذ کریں۔ خود بھی ان کی اطاعت کریں اور دوسروں سے بھی ان کی اطاعت کرائیں۔ یہ اولوالامر درحقیقت رسول کے خلفا کی حیثیت رکھتے ہیں اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے۔ سورہ النساء کی آیت ۵۹
یاایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم۔
اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اور اپنے اولوالامر کی
میں ایسے ہی اولوالامر مراد ہیں۔ ایسے اولوالامر کی اطاعت سے اگر کوئی شخص انحراف کرے تو وہ گویا خدا اور رسول کی اطاعت سے انحراف اختیار کرتا ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن اطاع الامام فقد اطاعنی ومن عصانی فقد عصی اللہ ومن عصی الامام فقد عصانی۔
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے صاحب امر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے صاحب امر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں اولوالامر کو یہ بلند منصب جو دیا ہے تو اس وجہ سے دیا ہے کہ یہ خدا کی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بد یہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو جاری و نافذ کریں۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات دل و جان سے زیادہ عزیز و محبوب تھی کہ لوگ خدا کے قانون کی اطاعت کریں اسی طرح انہیں بھی یہ بات محبوب ہو کہ لوگ خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت کریں۔ اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ چیز مبغوض تھی کہ لوگ اللہ کی اطاعت سے انحراف اختیار کریں اسی طرح ان کے نزدیک بھی یہ چیز مبغوض ہو کہ لوگ خدا اور رسول کی اطاعت سے انحراف اختیار کریں۔
اسی طرح ان کے منصب کا بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود خدا کے قانون کی نافرمانی کریں اور نہ دوسروں کو کسی ایسی بات کا حکم دیں جو خدا کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں سے اطاعت کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر ہے کہ اس کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے۔ بندوں کا حقیقی منصب صرف اطاعت کا ہے اور اگر وہ کوئی تصرف کا حق رکھتے ہیں تو صرف اس کے نائب کی حیثیت سے۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ بات کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اصل حکمران کے حکم کے خلاف حکم دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو وہ اپنا وہ درجہ از خود ختم کر دیتے ہیں جو اسلام نے ان کے لیے تسلیم کیا ہے۔
پس اولوالامر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ خصوصیات کے حامل ہوں۔ مثلاً وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوں، خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو آخری دینی و قانونی سند مانتے ہوں۔ اسلام کے احکام و شرایع کے پابند ہوں۔ تہذیب و معاشرت میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں اور حلال و حرام کے بارے میں اسلام کے مقرر کیے ہوئے حدود کے پابند ہوں۔ اسی لیے ایک خلیفۃ المسلمین ازروئے قانون اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے خدا کے رسول کے ذریعے سے ملا ہے اس کو بے کم و کاست جاری کرے۔ اس میں سرموکوئی کمی بیشی نہ کرے ورنہ خدا کی حاکمیت میں وہ رخنہ ڈالنے کا مجرم قرار پائے گا۔ زندگی کے جن معاملات سے متعلق اس کو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ہے ان کے بارے میں بھی اس کو یہ حق نہیں دیا گیا ہے جس کا اصلی مفہوم اسلام میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات کی پیروی کرنے کے بجائے خدا اور اس کے رسول کی دی ہوئی ہدایات کے اشارات و مقتضیات پر غور کر کے ان حالات کے لیے خدا اور رسول کے احکام سے لگتی ہوئی بات متعین کرے اور اس کاحکم دے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعلان خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ:
میں تمہارے اندر صرف خدا کی شریعت کو جاری کرنے والا ہوں، اپنی طرف سے کوئی نئی بات نکالنے والا نہیں ہوں۔
نیز اس کا بھی اظہار کر دیا تھا کہ:
اگر میں کوئی نئی بات نکالوں یا اللہ کے حدود سے انحراف اختیار کروں تو تم میری راہ سیدھی کر دینا۔
حکمران اور امیر کے معاملے میں تدبر، سیاست اور صلاحیت کارکو بھی دینی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ امام احمد بن حنبل جیسے امام الاتقیاء کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر امیر کے انتخاب کا سوال درپیش ہو، ایک طرف ایک دیندار شخص ہو لیکن اسے انتظام کا تجربہ نہ ہو، دوسری طرف ایک ایسا مسلمان ہو جو زیادہ دیندار نہ ہو لیکن اسے انتظام ملک کا تجربہ ہو تو ترجیح اس کم دیندار اور زیادہ تجربہ کار کو دی جائے گی۔ یہی رائے اس معاملے میں امام ابن تیمیہ کی ہے۔
اسی طرح جب مسلمانوں کے سامنے امامت و امارت کے لیے انتخاب کا سوال آئے تو وہ مجبوری میں ایک فاسق مسلمان کا انتخاب تو کر سکتے ہیں لیکن ایک عورت کا انتخاب نہیں کر سکتے اگرچہ وہ زاہدہ و عابدہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جو اپنی باگ ایک عورت کے ہاتھ پکڑا دے گی۔ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ حکومت کا مزاج فاعلانہ ہونا چاہیے نہ کہ منفعلانہ۔ اس کی اصلی سرشت مردانہ ہے نہ کہ زنانہ۔ عورت کا مزاج منفعلانہ ہوتا ہے اور اس کے اصل فطری فرائض کے لحاظ سے اس کا یہی مزاج اس کے لیے موزوں ہے۔ اپنے اس مزاج کے لحاظ سے عورت حکومت کے لیے فطرتاً ناموزوں ہے۔ اگرحکومت عورت کے سپرد کر دی جائے تو حکومت کا مزاج بھی اس کے اثر سے بگڑ کر زنانہ ہو جاتا ہے جس سے اس کی صلاحیت کار بالکل برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ علم السیاست کے مشہور ماہر بلنچلی نے تاریخ اور فلسفیانہ دونوں ہی پہلوؤں سے ثابت کیا ہے کہ حکومت کے معاملات میں عورت کی مداخلت حکومت کے مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہی رمز ہے کہ امریکہ کے لوگوں نے جمہوریت اور مساوات مرد و زن پر ایمان رکھنے کے باوجود آج تک اپنے ہاں کسی عورت کو صدر نہیں بنایا۔ انگریز وراثت اور ولی عہدی کے نظام کی مجبوریوں کی وجہ سے کبھی کبھی کسی عورت کو بادشاہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن ان کے ہاں بادشاہ محض ایک مقدس نشان ہے۔ حکومت ان کے ہاں چرچل، ایٹلی، میک ملن اور ولسن جیسے لوگوں کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اس وجہ سے اس نے قومیت اور سربراہی کا منصب مرد کے سپرد کیا ہے۔ عورت کو نہ گھر کا قوام بنایا ہے نہ باہر کا۔
ایک لادینی جمہوری ریاست میں حاکمیت واختیار کے مالک جمہور ہوتے ہیں مگر اسلام ریاست میں، جیسا کہ واضح ہوا، حاکمیت اللہ کی ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کوئی قومی جمہوری ریاست نہیں ہے جس میں ملک کا ہر باشندہ حاکمیت میں حصہ دار سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک اصولی ریاست ہے جس میں ریاست کی تشکیل اور اس کے چلانے کی تمام ذمہ داریاں ان لوگوں پر عائد ہوتی ہیں جو اسلام پرایمان رکھتے ہیں اور جو اسلامی ضابطہ حیات کے پابند ہوتے ہیں۔ ان جمہور مسلمین کو بھی حاکمیت حاصل نہیں ہے بلکہ ان کو خدا کی شریعت کی تنفیذ کرنے اور اس مقصد کے لیے خدا کے مقررکیے ہوئے حدود اور اس کے ٹھہرائے ہوئے ضابطوں کے اندر ایک سیاسی نظام کی تشکیل کا حق حاصل ہے۔ اس سے زیادہ انہیں کسی بات کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ نہ اپنے جی سے وہ خدا کے قانون سے بے نیاز ہو کر کوئی قانون بنا سکتے اور نہ ان چاروں گوشوں سے الگ ہو کر جو خدا اوراس کے رسول نے مقرر کردئیے ہیں کوئی نظام سیاسی بنا سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ خدا سے بغاوت کے ہم معنی ہے۔ جمہور مسلمین کی اصل حیثیت شرعی وقانونی یہ ہے کہ یہ عباد اللہ یعنی خدا کے غلام ہیں۔ ان کو خدا نے یہ اختیار دیا ہے کہ تم میری غلامی کے فرائض ادا کرنے کے لیے اپنے اندر فلاں قسم کا ایک نظام قائم کر لو اور اس نظام کو چلانے کے لیے اپنے اندر سے ایک ایسے غلام کو اپنا سربراہ کار بنا لو جو میری اطاعت میں تم سب سے زیادہ سرگرم رہنے والا ہو۔ اسلام میں حاکمیت کا مرکز و مرجع بہرحال اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ رہی یہ بات کہ اس نے بندوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس کی اطاعت کریں اورچاہیں تو اس کی اطاعت نہ کریں تو اس میں شبہ نہیں کہ خدا نے اپنی تشریعی حکومت اختیار فرمائی ہے جبر پر نہیں قائم کی ہے۔ لیکن یہ اختیار دینے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ خدا نے حاکمیت انسانوں کے سپرد کر دی ہے تو خداوند تعالیٰ انسانوں کے ان تصرفات کو ظلم، بغاوت، طغیان اور فساد سے کیوں تعبیر فرماتا جو تصرفات و ہ اس کی شریعت سے منحرف ہو کر کرتے ہیں۔ پھر تو انسانوں کا ہر تصرف جائز اور برحق ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ اپنی حاکمیت کے استعمال کے حق دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کا اختیار دینا اورچیز ہے اور کسی چیز کا حق حاصل ہونا بالکل دوسری چیز ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ اسلامی نظام میں جمہور مسلمین کو قانون سازی کے کام میں سرے سے کوئی دخل ہی نہیں ہے۔ یہ گمان ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اسلام میں قانون کے ماخذ کتاب اور سنت ہی ہیں۔ جن چیزوں کے بارے میں کتاب و سنت کے اندر صریح احکام موجود ہیں ان میں مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اور ان کے اولوالامر کا منصب صرف ان قوانین کے امر و نفاذ تک محدود ہے۔ وہ ان قوانین و احکام کے اندر نہ کسی ترمیم و تنسیخ کے مجاز ہیں اور نہ ان کی جگہ دوسرے قوانین بنانے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن جن معاملات میں کتاب و سنت میں سکوت اختیار کیا گیا ہے ان میں امت کو قانون سازی کا پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ یہ حق کوئی محدود حق نہیں ہے بلکہ یہ نہایت وسیع دائرے کے اندر استعمال ہوتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث کے اندر بیشتر صرف بنیادی اصولی باتیں ہی بیان کی گئی ہیں۔ جزئیات و تفصیلات سے نہ ان میں زیادہ تعرض کیا گیا ہے اور نہ جزئیات و تفصیلات کا احاطہ ممکن ہی ہے۔ اس خلا کو حالات و ضروریات کے تقاضوں کے تحت بھرنا نیز تمام پیش آنے والے اجتماعی و سیاسی معاملات میں اسلام کے منشا و مزاج کے مطابق قوانین بنانا امت کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے اور اس کے لیے ایک مکمل شورائی نظام خود کتاب و سنت کے اندر تجویز کیا گیا ہے جو مغربی جمہوریتوں کے نظام قانون سازی سے بدرجہا بہتر ہے۔
یہاں ہمارے لیے اس نظام کی تمام تفصیلات سے بحث کرنے کی گنجائش تو نہیں ہے لیکن دور رسالت، دور صحابہ اور دور فقہاء میں جس شکل میں یہ نظام قائم رہا ہے ہم اجمالی طور پر اس کا خاکہ یہاں پیش کرتے ہیں اور ان کی تائید میں کتاب و سنت کے جو نصوص ابتدا سے اب تک مسلمان اہل فکر کی رہنمائی کرتے رہے ہیں ضمناً ہم ان میں سے بھی چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ براہ راست وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل تھی اور آپ کسی معاملے میں دوسروں سے مشورہ لینے کے محتاج نہیں تھے لیکن شورائی نظام قانون سازی اور تدبیر مملکت کے نقطہ نظر سے چونکہ ضروری تھا اس وجہ سے حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے طرز عمل سے اس کی بنیاد رکھیں اس وجہ سے آپ کو قرآن میں یہ حکم دیا گیا:
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ (ال عمران۔ ۱۵۹)
پس ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت چاہو اور ان سے معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہؓ سے معاملات میں مشورہ لیتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم محض صحابہؓ کی دلداری اور حوصلہ افزائی ہی کے لیے تھا یا اس کی کوئی قانونی اہمیت بھی تھی جس کے سبب سے ایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب فقہ حنفی کے مشہور ماہر حجتہ الاسلام ابوبکر جصاصؒ (متوفی ۳۷۰ھ) نے اپنی مشہور کتاب احکام القرآن میں مندرجہ ذیل الفاظ میں دیا ہے:
وغیر جائز ان یکون الامر بالمشاورۃ علی جھۃ تطییب نفوسھم ورفع اقدارھم و لتقتدی الامۃ بہ فی مثلہ لانہ، لو کان معلوما عندھم انھم اذا استفرغوا مجھودھم فی استنباط ماشوروا فیہ وصواب الرای فیما سئلوا عنہ ثم لم یکن ذالک معمولا علیہ ولا متلقی منہ بالقبول بوجہ لم یکن فی ذالک تطییب نفوسھم ولا رفع اقدارھم بل فیہ ایحاشھم واعلامھم بان اراء ھم غیر مقبولۃ ولا معمول علیھا۔ (احکام القرآن۔ ابوبکر حصاص ج ۲ ص ۴۹ مطبوعہ مصر ۱۳۷۸ھ)
اور یہ بات ناجائز ہے کہ صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا یہ حکم محض صحابہ کی دلداری اور ان کی عزت افزائی کے خیال سے دیا گیا ہو یا محض اس خیال سے دیا گیا ہو کہ اس طرح کے معاملات میں امت کو آپ کے اس طریقے کی اقتدا کرنے کی تعلیم دی جائے۔ حالانکہ صحابہ کو اگر یہ علم ہوتا کہ جب وہ زیر مشورہ امور میں اپنا سرکھپا کر کوئی رائے قائم کریں گے تو نہ تو اس پر عمل ہی ہو گا اور نہ کسی پہلو سے اس کی قدر ہی کی جائے گی تو دلداری اور عزت افزائی کے بجائے الٹا اس کا اثر ان پر یہ پڑتا کہ وہ اس سے متوحش ہوتے اور سمجھتے کہ ان کی رائیں نہ قبول کیے جانے کے لیے ہیں نہ عمل کیے جانے کے لیے، بلکہ محض پیش کیے جانے کے لیے ہیں۔
حجتہ الاسلام کی اس تصریح سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک صحابہؓ سے مشورہ لیتے رہنے کا یہ حکم محض رسمی اور ظاہر دارانہ نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ مشورہ لینے کے بعد ان مشوروں پر عمل بھی کیا جائے۔
حجتہ الاسلام نے اس مشورے کو حدود بھی نہایت واضح الفاظ میں متعین کر دئیے ہیں۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشورے صحابہؓ سے ان تمام امور میں حاصل کرتے تھے جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو۔ عام اس سے کہ یہ معاملات دینی نوعیت کے ہوں یا دنیوی نوعیت کے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
وقال آخرون کان مامورا بمشاورتھم فی امور الدین والحوادث التی لاتوقیف فیھا عن اللہ تعالی فی امور الدنیا ایضا مما طریقہ الرای وغالب الظن وقد شاورھم یوم بدر فی الاساری وکان ذالک من امور الدین۔ (احکام القرآن ج ۲ ص ۴۹)
اور ایک دوسرے گروہ کا مذہب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہؓ سے مشورہ لینے کا یہ حکم دینی معاملات اور اس طرح کے حوادث میں بھی تھا جن کے بارے میں اللہ تعالی کی جانب سے کوئی متعین ہدایت وارد نہ ہو چکی ہو اور ان دنیوی معاملات میں بھی تھا جن میں فیصلے رائے و مشورے اور گمان غالب کے تحت ہوا کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقع پر قیدیوں کے بارے میں صحابہؓ سے مشورہ لیا حالانکہ یہ معاملہ دینی معاملات کی قسم میں سے تھا۔
صحابہؓ سے مشورہ لیتے رہنے کی مذکورہ بالا قرآنی ہدایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اہتمام کے ساتھ عمل فرمایا اس کے متعلق ایک ایسے صحابی کی شہادت ملاحظہ ہو جو اپنے وقت کا بیشتر حصہ آپؐ کی صحبت میں بسر فرماتے تھے۔
عن ابی ھریرۃ قال مارایت احداقط کان اکثر مشورۃ لاصحابہ من رسول اللہ۔ (راوہ احمد و الشافعی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیتے رہنے والا کبھی کسی شخص کو نہیں پایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے معاملات میں صحابہ سے مشورے لیے ہیں ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان میں جنگی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی ہر قسم کے معاملات داخل ہیں۔ ہم ان میں سے چند معاملات بطور مثال پیش کرتے ہیں۔
۱۔ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اول اول جس مقام پر پڑاؤ ڈالا، جنگی مصلحت کے لحاظ سے وہ کچھ نامناسب تھا۔ بعض صحابہ نے اس پر سوال اٹھایا کہ آپ نے یہ وحی الٰہی کے اشارے سے کیا ہے یا محض ذاتی صوابدید سے۔ جب آپ نے واضح فرمایا کہ آپ نے محض جنگی مصلحت سے ایسا کیا ہے تو ایک صحابیؓ نے اس سے اختلاف کیا اور چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا۔ بالآخر صحابہ سے مشورے کے بعد یہی رائے قرار پائی اور اسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔
۲۔ غزوہ احزاب کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان کے سامنے یہ پیش کش کرنا چاہی کہ اگر وہ جنگ سے باز آ جائیں تو آپؐ ان کو مدینے کے پھلوں کا ثلث حصہ سالانہ دیتے رہیں گے۔ اس کے لیے معاہدے کا ایک مسودہ بھی قلم بند ہو چکا تھا لیکن جب آپؐ نے اس معاملے میں صحابہؓ خصوصاً انصار کے لیڈروں سے مشورہ کیا تو انھوں نے اس سے شدت کے ساتھ اختلاف کیا اور کہا کہ ہم تو ان سے صرف تلوار سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی رائے قبول فرمائی اور معاہدے کا مسودہ چا ک کرا دیا۔
۳۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور الطبقات الکبریٰ جلد ۳ صفحہ ۶۱ میں یہ حدیث موجود ہے۔
یہ چند واقعات بطور مثال ذکر کیے گئے ہیں۔ ان سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ تمام اہم معاملات میں صحابہ سے مشورہ لیتے رہتے تھے بلکہ ان پر عمل بھی فرماتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب صحابہؓ کا دور آیا تو ان کے سامنے ایک طرف تو آپ کا مذکورہ بالا اسوۂ حسنہ تھا اور دوسری طرف قرآن و حدیث دونوں میں نہایت واضح ہدایت خود صحابہ کو دی گئی تھی کہ وہ کس اساس پر اپنا سیاسی نظام قائم کریں اور اس میں قانون سازی کا طریقہ کیا ہو۔ ہم پہلے وہ قرآنی ہدایت نقل کرتے ہیں جس پر صحابہؓ کا قائم کردہ نظام سیاسی مبنی تھا۔ اس کے بعد احادیث اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے اس کی وضاحت کریں گے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید میں اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے۔
وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ (شوریٰ ۳۸)
اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔
اس اصولی ہدایت کی وضاحب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی تھی:
حدثنی ابوسلمۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن الامر یحدث لیس فی کتاب ولا سنۃ فقال ینظر فیہ العابدون من المومنین (سنن دارمی، باب التورع عن الجواب فیما لیس فی کتاب ولاسنۃ)
ابوسلمہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آن پڑے جس کا ذکر نہ تو کہیں قرآن میں ہو اور نہ سنت میں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے صالح لوگ غور کر کے اس کا فیصلہ کریں۔
اسی مضمون کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔
عن علی قال قلت یا رسول اللہ ان عرض لی امرلم ینزل قضاء فی امرہ ولا سنۃ کیف تامرنی قال تجعلونہ شوریٰ بین اہل الفقہ والعابدین من المومنین ولا تقض فیہ برایک خاصۃ۔ (الطبرانی فی الاوسط)
حضرت علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر میرے سامنے کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو نہ سنت میں تو اس معاملے میں آپ مجھے کیا روش اختیار کرنے کاحکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس کو قانون اسلام میں بصیرت رکھنے والوں اور صالحین کے مشورے سے طے کرو اور اس میں تنہا اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو۔
چنانچہ اسی اصول پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہؓ نے نظام خلافت کی بنیاد رکھی جس میں خلیفہ کے انتخاب میں بھی جمہور مسلمین کے مشورہ کی شرط لازم ٹھہرائی اور خلافت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی شوریٰ کو ضروری قرار دیا گیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ جو اسلام میں پہلے خلیفہ ہیں، مسلمانوں کے مشورہ عام سے خلیفہ بنے اور خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے تمام معاملات کا فیصلہ، جن کے بارے میں ان کو کتاب و سنت میں کوئی ہدایت نہیں ملی، ان لوگوں کے مشورے سے کیا جو جمہور مسلمین کے معتمد لیڈر تھے اور علم و دیانت کے لحاظ سے لوگوں میں بہتر خیال کیے جاتے تھے۔
____________