HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ریاست کا اسلامی تصور

ریاست کا اسلامی تصور اس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ریاست یا سلطنت یا حکومت کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں بلکہ خلافت یا امامت یا امارت کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کا اسلامی تصور واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے ان اصطلاحات پر غور کرنا اور ان کے مضمرات کو سمجھنا ضروری ہے۔

خلافت اور امارت میں فرق

خلافت، امامت اور امارت کی اصطلاحیں ہماری فقہ و کلام کی بعض کتابوں میں بالکل مترادف اسلامی اصطلاحات کی حیثیت سے استعمال ہو گئی ہیں جس کے سبب سے بعض اوقات خلط مبحث سا ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان اصطلاحات کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر ایک قائم شدہ ریاست کے لیے استعمال ہوئی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے جو خلافت کے ارادوں کی تنقیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھیے کہ جو فرق stateاور government کے درمیان ہے وہی فرق خلافت اور امامت و امارت کے درمیان ہے۔

اس تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ ریاست کا اسلامی تصور سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت ملحوظ رکھنی ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریاست نہیں ہے بلکہ وہ خلافت ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہو گی کہ کسی چیز کا صحیح تصور اس کی معیاری شکل ہی سے اخذ کیا جا سکتا ہے، اس وجہ سے خلافت کی بھی یہاں صرف معیاری شکل ہی زیر بحث ہے، اس کی بگڑی ہوئی شکلیں، جن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، اس بحث میں ہمارے لیے کارآمد نہیں ہو سکتیں۔

خلافت کی اصل فطرت انسانی کے اندر

اس مسئلے پر غور کرتے وقت ہمیں سب سے پہلے اس خلافت کا سراغ انسانی فطرت اور انسانی معاشرے کے اندر لگانا چاہیے۔ خوش قسمتی سے اس بارے میں اسلام نے ہمیں اندھیرے میں نہیں چھوڑا ہے کہ سیاسی فلسفیوں کی طرح انسان کے ابتدائی سیاسی تصورات سے متعلق ہمیں اٹکل کے تیرتکے چلانے پڑیں۔ بلکہ وحی الٰہی نے ہمارے سامنے ایک واضح علم الانسان بھی رکھ دیا ہے جس سے ہم اس خلافت کی اصل اور ابتدا بھی معلوم کر سکتے ہیں اور اس کی روشنی میں اس کے بنیادی تصورات بھی سمجھ سکتے ہیں۔ میں یہاں اس علم الانسان کو قرآن سے اخذ کر کے اپنے الفاظ میں مختصر طور پر پیش کرتا ہوں۔

قرآن میں اس خلافت کی ابتدا اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنا چاہا تو سب سے پہلے فرشتوں کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہار فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں کے علم میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم نہیں تھی اس وجہ سے اس کے حلقہ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر اس نئی مخلوق کے پیدا کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کا محض یہ ہوتا کہ یہ اس کی تسبیح و تقدیس کرے تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کام کے لیے تو پہلے سے ہم موجود ہی ہیں۔ لازماً یہ مخلوق خدا کے نائب کی حیثیت سے اس زمین کا انتظام و انصرام سنبھالے گی اور اس کے خلیفہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کو خدا کی طرف سے کچھ اختیارات بھی تفویض ہوں گے۔ پھر یہیں سے ان کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ اگر اس مخلوق کو اختیار بھی ملا تو یہ زمین میں عدل و انصاف کے بجائے خون ریزی اور فساد کرنے والی مخلوق بن جائے گی۔ اپنا یہ اندیشہ فرشتوں نے ایک سوال کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جواب دیا کہ یہ شبہ تمہیں صرف اس وجہ سے لاحق ہوا ہے کہ تمہاری نظر میری پوری اسیکم پر نہیں ہے۔ چنانچہ ان کو آدم کی ذریت کا مشاہدہ کرایا گیا اور پھر ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آدم اور ان کی اولاد کے بارے میں تمہارا یہ گمان صحیح ہے تو بتاؤ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب کے سب زمین میں فساد ہی برپا کرنے والے ہیں یا ان میں نیکی اور انصاف پھیلانے والے بھی ہیں؟ فرشتوں نے نہایت ادب کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو (جو پہلے سے اپنی ذریت کے ناموں سے واقف ہو چکے تھے) حکم دیا کہ اپنی ذریت کے نام ان فرشتوں کو بتائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو اپنی ذریت کے ناموں سے آگاہ کیا اور ان کی نسل میں جو انبیاء ورسل اور جو مجددین و مصلحین پیدا ہونے والے تھے ان کا تعارف کرایا۔ اس سے فرشتوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ آدم اور اولاد آدم کو جو خلافت عطا ہو رہی ہے اگرچہ وہ اختیار وارادہ کی آزادی کے ساتھ عطا ہو رہی ہے، جس سے خرابی کے بھی اندیشے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس اختیار وارادہ کی حد بندی اور انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب و شریعت بھی نازل فرمائے گا اور اپنے نبی اور رسول بھی بھیجے گا۔ اس انکشاف سے فرشتوں پر اللہ تعالیٰ کی اسکیم واضح ہو گئی اور وہ مطمئن ہو گئے۔

خلافت کے تضمنات

قرآن نے تاریخ انسانی کے اس بالکل ابتدائی ماجرے کو محض ایک کہانی کے طور پر نہیں سنایا ہے بلکہ اس کے سنانے سے اصل مقصود چند اجتماعی و سیاسی حقیقتوں کی ابتدا کا سراغ دینا ہے۔ خلافت کے تصور سے متعلق جو حقیقتیں اس سے ہمارے سامنے آتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ایک یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انسان کو خارج سے لاحق ہو گئی ہو بلکہ خدا نے خود اس کو اس منصب کے لیے پیدا کیا ہے اور خود ہی اس کا شعور اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ وہ جب سے اس دنیا میں ہے اس شعور کے ساتھ ہے اور اسی شعور نے اس کو سیاسی زندگی اختیار کرنے پر اکسایا ہے۔ اس نے سیاسی زندگی مصنوعی طور پر نہیں اختیار کی ہے اور نہ بے ضرورت اختیار کی ہے بلکہ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے جس کے پورا ہوئے بغیر اس کی شخصیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔

دوسری یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک بالکل خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ اس کو ایک خاص دائرے کے اندر تصرف کا اختیار ضرور حاصل ہے لیکن یہ اختیار اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا تفویض کردہ ہے۔ اس وجہ سے اس کا وہی تصرف جائز اور معقول ہے جو خدا کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو۔ ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ اس نیابت کے تصور کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کو اپنے ہر اس تصرف کے لیے جوابدہی ہی کرنی پڑے گی جو اصل مستخلف یعنی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہو۔

تیسری یہ کہ اس زمین میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے نہ کہ انسانوں کی۔ اس میں قانون سازی اور تصرف کے جو اختیارات انسانوں کو حاصل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے تحت ہیں یا پھر ان دائروں کے اندر ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے۔

چوتھی یہ کہ منشائے تخلیق کے اعتبار سے تو اس منصب کے اہل سارے ہی انسان ہیں۔ اس کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے جو صلاحیتیں درکار ہیں وہ بھی ہر ایک کے اندر ودیعت ہیں لیکن انسان اس منصب پر مجبور نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس کو اختیار کرے چاہے تو نہ اختیار کرے۔ وہ خدا کے حدود کا پابند رہ کر اس کا خلیفہ بھی بن سکتا ہے اور ان حدود سے آزاد ہو کر اس کا باغی بھی بن سکتا ہے، جس طرح ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو کیا ہے اپنی بندگی ہی کے لیے لیکن کسی کو اس بندگی پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک کو آزاد چھوڑا ہے، وہ بندگی کرے یا نہ کرے، اسی طرح اس خلافت پر بھی اس نے کسی کو مجبور نہیں کیا ہے۔

پانچویں یہ کہ اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں انسان اگر اس اسکیم کی پابندی نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پسند فرمائی ہے تو انسان کا فساد اور خونریزی میں مبتلا ہو جانا بہت اقرب ہے۔

چھٹی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مبہم نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی زمین کے انتظام کے سلسلے میں کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس چیز کو پسند نہیں کرتا۔ یہ منصب عین خلافت کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی پسند، ناپسند اور اپنے احکام و ہدایات سے باخبر رکھنے کا انتظام کرے۔ چنانچہ فرشتوں کو جو شبہ تھا کہ انسان خلافت پا کر فساد و خونریزی میں مبتلا ہو جائے گا، وہ اسی بات سے دور ہوا کہ اولاد آدم میں نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری ہو گا اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتابیں اور اپنی شریعت نازل فرمائے گا۔

ساتویں یہ کہ خلافت کی اساس قوم یا وطن یا نسل اور نسب کے تصورات پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنے مزاج اور اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک اصولی اور جہانی ریاست ہے۔

آٹھویں یہ کہ یہ نظام کامل مساوات کے اصول پر قائم ہے۔ اس میں خلافت کا منصب کسی خاص شخص یا گروہ یا طبقے کو حاصل نہیں ہے بلکہ اصلاً ہر شخص کو حاصل ہے۔ اس میں اگر کسی کو کسی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے تو وہ محض اہلیت و صلاحیت کی بنا پر اور یہ بھی لوگوں کے مشورے اور مرضی سے۔

خلافت کے لیے سنت اللہ

اوپر ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ خلافت اختیار پر مبنی ہے نہ کہ جبر پر۔ اس اختیار کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کو زمین پر اقتدار بخشے اور یہ اقتدار بخش کر ان کا امتحان کرے کہ وہ زمین میں اپنی من مانی چلاتی ہیں یا اس اقتدار کو خدا کے مقرر کردہ حدود کا پابند رکھتی ہیں۔ جو قومیں اس اقتدار کو پا کر خدا سے بغاوت کی روش اختیار کرتی ہیں وہ مجرم قرار پاتی ہیں اور امتحان کی مقررہ مدت گزار چکنے کے بعد وہ فنا کردی جاتی ہیں۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر سورہ یونس کی آیات ۱۳۔۱۴ میں اس طرح فرمایا ہے:

وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقَرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَا کَانُوْالِیُوْمِنُوا۔ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خِلءِفَ آ فِی الْاَرْضِ مِنْم بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۔ (۱۳۔۱۴ یونس)
اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا جب کہ انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ایسا ہی بدلا دیتے ہیں ہم مجرموں کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔

خلافت کے حقیقی اہل

یہ خلافت بالقوہ اگرچہ سارے ہی انسانوں کو حاصل ہے، لیکن بالاستحقاق یہ صرف ان کو حاصل ہے جو اس کا حق ادا کریں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنا خلیفہ قراردیا ہے، اس لیے کہ ان کی حکومت اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق تھی۔

یادواود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق۔ (ص آیت۲۶)
اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا تم لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

اس خلافت کے حقیقی اہل درحقیقت انبیاء علیہم السلام ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو انبیا علیہم السلام کے طریقے پر اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جو لوگ خدا کی بندگی اور اطاعت کے لیے منظم ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس خلافت کا خاص خلعت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ سورہ نور آیت ۵۵ میں یہ بات یوں بیان ہوئی ہے

وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یَعْبُدُوْنَنِی لَایُشْرِکُونَ بِیَ شَیْاءً۔ (النور۔ آیت ۵۵)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں اسی طرح خلافت دے گا جس طرح اس نے ان کے اگلوں کو دی اور ان کے لیے ان کے اس دین کا بول بالا کرے گا جس کو ان کے لیے پسند فرمایا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی بندگی کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

خلافت کا بگاڑ

یہی خلافت کی معیاری شکل ہے جب تک یہ اپنی ان خصوصیات پر باقی رہے۔ یہ زمین کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ خصوصیات اگر کم ہونی شروع ہو جائیں تو یہ اس کے بگاڑ کی صورتیں ہوں گی اور اس بگاڑ کے مختلف درجے ہیں۔ ایک خاص درجے تک یہ بگاڑ اس کو خلافت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا لیکن اگر یہ بگاڑ اس کی بنیادی خصوصیات کو ختم کر دے تو پھر یہ خلافت باقی نہیں رہ جاتی بلکہ بغاوت اور فساد فی الارض بن جاتی ہے۔

خلافت اور ایک عام ریاست میں فرق

اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ ایک عام ریاست اورایک اسلامی ریاست (بالفاظ دیگر خلافت) میں کچھ اعتبار سے اشتراک اور کن پہلوؤں سے اختلاف ہے۔ ارسطو نے انسان کی یہ جو تعریف کی ہے کہ ’’یہ حیوان ناطق ہے‘‘ یہ تعریف جس طرح ایک غیر مسلم پر صادق آتی ہے اسی طرح ایک مسلم پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ اپنے مادی و جبلّی دائروں میں دونوں ایک ہی طرح کی ضروریات اور ایک ہی قسم کے داعیات رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر شخص جانتا ہے کہ ایک مسلم اور ایک غیر مسلم میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک غیر مسلم کے اصول زندگی اور ہیں ایک مسلم کے اصول زندگی اور۔ اسی طرح ایک عام ریاست اور ایک اسلامی ریاست میں بھی جہاں تک ان کے ظاہری ڈھانچے اور مادی اجزا ترکیبی کا تعلق ہے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک عام ریاست جس طرح اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے اس امر کی محتاج ہے کہ اس کو ایک انسانی معاشرہ حاصل ہو، اس کے قبضے میں ایک مخصوص علاقہ ہو وہ داخلی طور پر بااقتدار اور بیرونی حیثیت سے خود مختار ہو، اس کے پاس ایک سیاسی ادارہ (گورنمنٹ) ہو، جو اس کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ اسی طرح اسلامی ریاست یا خلافت بھی اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے ان ساری چیزوں کی محتاج ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن جہاں تک دونوں کے اصول اور مقاصد کا تعلق ہے دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔

____________

 

B