وامرھم شوری بینھم ۔۔۔ شوری
مصدر ہے ’فتیا‘ کے وزن پر اور اس کے معنی آپس میں مشورہ کرنے کے ہیں۔ لفظ ’امر‘ عربی میں ہمارے لفظ ’معاملہ‘ کی طرح بہت وسیع معنوں میں آتا ہے۔ اس کے صحیح مفہوم کا تعین موقع و محل اور سیاق و سباق سے کرتے ہیں۔ یہاں قرینہ پتہ دے رہا ہے کہ یہ لفظ جماعتی نظم کے مفہوم میں آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا جماعتی اور سیاسی نظم خود سری، انانیت، خاندانی برتری، نسبی غرور پر مبنی نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ اس میں قریش کے نظم سیاسی و اجتماعی پر جو تعریض ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے اس لیے کہ ان کا نظم اجتماعی تمام ترخاندانی اور نسبی امتیاز پر قائم تھا۔ اسلام کی مخالفت کا ایک بڑا سبب ان کے لیے یہ بھی تھا کہ وہ اس دعوت کے فروغ پانے کی صورت میں اپنے اس جاہلی نظام کی موت سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس آیت میں ایک طرف تو مسلمانوں کو یہ بشارت دے دی کہ ان کے لیے ایک ہیئت اجتماعی و سیاسی کی شکل میں منظم ہونے کا وقت آ گیا اور یہ نظم اجتماعی نسب اور خاندان کی اساس کے بجائے اہل ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا، دوسری طرف درپردہ قریش کے لیڈروں کو یہ آگاہی بھی دے دی کہ اب تم خواہ کتنا ہی زور اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں صرف کرو لیکن انہی کمزور و مظلوم مسلمانوں کے ہاتھوں وہ نیا نظام آ رہا ہے جو تمہارے اس فاسد نظام کی بساط الٹ کر رکھ دے گا۔
یہاں شورائی نظام کی خصوصیات اوراس کے اصول و مبادی پر بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ہم اپنی کتاب۔۔۔اسلامی ریاست۔۔۔کی ایک مستقل فصل میں کر چکے ہیں۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔ البتہ ایک سوال یہاں قابل غور ہے کہ قرآن کا معروف اسلوب بیان تو یہ ہے کہ وہ نماز کے ساتھ بالعموم زکوٰۃ یا انفاق کا ذکر کرتا ہے لیکن یہاں اس معروف طریقے کے خلاف نماز اور انفاق کے بیچ میں ’شوری‘ کا ذکر آ گیا ہے۔ آخر شوریٰ کی اہمیت کا وہ خاص پہلو کیا ہے جس کی بنا پر اس کو نماز کے پہلو میں جگہ دی گئی؟
ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے نظم اجتماعی کی روح اور اس کے قالب کی اصلی شکل نماز میں محفوظ کی گئی ہے۔ اسی کے اندر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ان کو اللہ کی بندگی کے لیے ایک بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہونا ہے، کس طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ علم و تقویٰ والے کو اپنی امامت کے لیے منتخب کرنا ہے، کس طرح لوگوں کو حدود الٰہی کے اندر اس امام کی بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے، اور کس طرح امام اس بات کا پابند ہے کہ لوگوں کو کسی ایسی بات کا حکم نہ دے جو اللہ اور رسول کے کسی حکم کے خلاف ہو اور کس طرح اس کے ایک ادنیٰ مقتدی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کرے تو وہ اس کو ٹوک دے یہاں تک کہ عین نماز کے اندر بھی رکوع، سجود، قیام، قعود یا تلاوت میں کوئی ادنیٰ فروگزاشت بھی اس سے صادر ہو جائے تو اس کے پیچھے ہر نماز پڑھنے والا اس کو متنبہ کرنے کا ذمہ دار ہے اور امام کا یہ فرض ہے کہ اگر مقتدی کی تنبیہ مطابق شریعت ہے تو وہ اس کو قبول اور اپنی غلطی کی فوراً اصلاح کرے۔ گویا اس طرح ہمارا پورا نظم اجتماعی نماز کی صورت میں مشکل کر کے ہمیں یہ دکھایا گیا کہ ہم اپنی سیاسی تنظیم میں اسی نمونے کی پیروی کریں۔ اسی طرح اللہ کے دین کی اقامت کے لیے اپنی تنظیم کریں، اسی طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ اہل اور صاحب علم و تقویٰ کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کریں، اسی طرح تمام معروف میں بے چون و چرا اس کی اطاعت کریں اور اگر اس سے کوئی ایسی بات صادر ہو جائے جو شریعت کے معروف کے خلاف ہو تو بے خوف لومۃ لائم اس کو متنبہ کر کے اس کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کریں۔
نماز اور ہمارے سیاسی نظام کا یہ تعلق ہے جس کے سبب سے قرآن نے ٹھیک اس وقت جب مسلمان ایک ہیئت اجتماعی کی شکل اختیار کرنے والے تھے، ان کی رہنمائی شوریٰ کی طرف فرمائی اور اس شوریٰ کا ذکر نماز کے پہلو بہ پہلو کر کے ایک طرف تو اس کی عظمت نمایاں فرمائی کہ دین میں اس کا کیا درجہ و مرتبہ ہے اور دوسری طرف اس کی تشکیل کی نوعیت بھی واضح فرما دی کہ اس میں امیر و مامور کے حقوق و فرائض کی صورت کیا ہو گی، کس طرح کے لوگ اس کی رکنیت کے لیے موزوں ہوں گے، جماعت اور خلق خدا سے متعلق ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوں گی اور ان کی اصل مسؤلیت کس کے آگے ہو گی۔
شوریٰ کی اہمیت اور نماز کے ساتھ اس کے تعلق کا یہی پہلو تھا کہ عہد رسالت اور خلفائے راشدین کے دور میں اس کا انعقاد مسجد ہی میں ہوتا تھا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے متعلق تو سیرت کی کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ شوریٰ کے انعقاد کا اعلان ’الصلوۃ جامعۃ‘ کے الفاظ سے کراتے تھے۔ یعنی اہل شوریٰ نماز کے لیے جمع ہوں۔ جب اہل شوریٰ مسجد میں جمع ہو جاتے تو وہ دو رکعت نماز ادا کرتے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے تھے تو دوسرے اہل شوریٰ بھی ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے رہے ہوں گے۔ نماز اور دعا کے بعد حضرت عمر مسئلہ زیر بحث پیش کرتے اور اہل شوریٰ اس پر اپنی رایوں کا اظہار کرتے اور خلیفہ کی رہنمائی میں کسی متفق علیہ نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔
یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے حصول کے پہلو سے بھی نہایت بابرکت ہے اور اسلام کے نظام سیاسی کی اصل روح کے تحفظ کے نقطہ نظر سے بھی۔ لیکن اس دور میں مسلمانوں نے دوسری قوموں کی تقلید میں شورائی نظام کی جگہ نظام بھی دوسرے اختیار کر لیے اور مسجدوں سے بھی ان کا تعلق بالکل منقطع ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہو گئے اور ان کی باگ شیطان اوراس کے ایجنٹوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب پارلیمنٹوں کے ایوانوں میں جو دھینگا مشتی ہوتی ہے اس کی مثال بازاروں میں بھی مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔
وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن۔ نماز کے ساتھ انفاق یا زکوٰۃ کے تعلق پر اس کتاب میں جگہ جگہ مفصل بحث ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا ایک ستون تو یہ ہے کہ اس کی نماز پڑھی جائے اور اس کا دوسرا ستون یہ ہے کہ اس کے بخشے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ یہی چیز بندے کا تعلق اس کے خالق سے استوار کرتی ہے۔ دوسری چیز خلق سے اس کو جوڑتی ہے اور انھی دونوں اساسات پر تمام شریعت قائم ہے۔
____________