HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

انسانی قانون اور اسلامی قانون میں بنیادی فرق

اسلامی قانون اور انسانی قانون کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اس کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ انسانی قانون کے ارتقا کی تاریخ کیا بیان کی جاتی ہے، یہ کب سے شروع ہوا اور اپنی موجودہ منزل تک کن مراحل سے ہوتا ہوا پہنچا ہے؟ کن چیزوں نے اس کے لیے مواد فراہم کیا ہے اور کن عوامل نے اس کے بالکل ابتدائی جنینی دور سے لے کر اس موجودہ دور تک اس کی تہذیب و تکمیل میں حصہ لیا ہے؟

پھر اسی طرح یہ معلوم کیا جائے کہ قرآن مجید اسلامی قانون کا تدریجی ارتقا کس طرح بیان کرتا ہے؟ کب سے اس کی ابتدا ہوئی، کہاں سے اس نے تعمیر کا مواد حاصل کیا، کن محرکات نے اس کی تکمیل و ترقی میں حصہ لیا اور کب یہ تکمیل کے آخری مرحلہ میں داخل ہوا؟

اس تقابل سے امید ہے کہ اس فرق کے سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی جو ان دونوں کے درمیان ہے۔

 

انسانی قانون کے ارتقا کی تاریخ

انسانی قانون کے ارتقا کی جو تاریخ فلسفہ قانون کے ماہرین بیان کرتے ہیں اگر الفاظ کے اختلاف کو نظر انداز کر کے صرف اس کے مدعا پر نظر رکھی جاے تو قدر مشترک یہ سامنے آئے گی کہ خاندان اور قبیلے کے وجود کے ساتھ دنیا میں اس کا وجود ہوا۔ افراد اور خاندانوں نے طمع اور خود غرضی کے محرکات کے تحت ایک دوسرے کے حقوق پر دست درازیاں کیں اور حفاظت حقوق کے فطری جذبہ نے لوگوں کے اندر قانون کی ضرورت کا احساس ابھارا۔ خاندانوں اور قبیلوں کے رسوم و رواج نے اس قانون کے لیے مواد فراہم کیا اور بزرگِ خاندان یا شیخِ قبیلہ نے جس عرف و رواج کو چاہا اپنے حکم (Sanction) کے ذریعے سے قانون کا درجہ دے دیا۔

فلسفۂِ قانون کے ان ماہرین کے نزدیک انسانی سوسائٹی کے دور طفولیت میں یہ قانون اسی طرح نشوونما پاتا رہا۔ خاندان، خاندان اور قبیلے قبیلے کے قوانین الگ الگ ترقی کرتے رہے۔ پھر بتدریج سوسائٹی کے اندر سیاسی شعور بیدار ہوا اور اس نے ایک ریاست کی شکل اختیار کی۔ یہاں سے اس قانون نے ترقی کا دوسرا قدم اٹھایا۔ وہ یہ کہ اس میں وحدت و یکسانی پیدا ہوئی۔ ریاست چونکہ فطری طور پر استحکام اور سلامتی کی طالب ہوتی ہے، اس وجہ سے جب اس نے اپنے دائرہ اقتدار کے خاندانوں اور قبائل کے قوانین اور رسوم میں اختلاف پایا تو اپنے استحکام اور اپنی سلامتی کے نقطۂِ نظر سے اس اختلاف کو دور کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ اُس نے اِس اختلاف کو دور کر کے ان قوانین کو ایک ایسے ضابطے کی شکل دی جو پوری قوم کے لیے یکساں اور عام ہو سکے۔

اس کے ارتقا کا تیسرا قدم یہ بتایا جاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے قوموں کے قوانین میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کو دور کرنے کا رجحان بھی پیدا ہو چکا ہے۔ فلسفۂِ قانون کے ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ اب قانون کی بنیاد رسوم و رواج کے بجائے علمی اور فلسفیانہ نظریات پر رکھی جا رہی ہے اور ان علمی و فلسفیانہ نظریات کی اساس، عدل، مساوات، رحم اور انسانیت کے عالمگیر اصولوں پر ہے۔

 

اسلامی قانون کے ارتقا کی تاریخ

قرآنِ مجید اسلامی قانون کے ارتقا کی تاریخ اِس طرح بیان کرتا ہے کہ انسان نے جب سے دنیا میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے اس قانون کا آغاز ہوا ہے دنیا میں سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ وہ تمام نسلِ انسانی کے باپ بھی تھے اور خدا کے پیغمبر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو قانونِ اسلامی کی وہ تمام باتیں بتائیں جو اس دور کے لیے ضروری تھیں اور حضرت آدم علیہ السلام نے یہ ساری باتیں اپنی اولاد کو بھی سکھائیں۔

قرآنِ مجید نے اس قانون کی حکمت اور ضرورت یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان صحیح زندگی بسر کرنے اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرنے کے لیے ان قوانین کا محتاج تھا۔ ان کے بغیر اس کی قوتوں اور قابلیتوں کی ترتیب اور اس کی زندگی کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی۔

اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام کے دور کے علوم اور احکام کی تفصیلات قرآن میں نہیں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ قرآنِ مجید خدا کی آخری کتاب ہے اور یہ اسلامی علوم و قوانین کوان کی کامل اور آخری شکل میں پیش کرتی ہے، لیکن پھر بھی قرآن نے جگہ جگہ بعض ان باتوں کا حوالہ دیا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریّت کو سکھائی گئی تھیں۔ یہاں ہم ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جن سے واضح ہو گا کہ اسلامی علوم اور اسلامی قوانین میں ابتدا سے لے کر انتہا تک یکسانی اور ہم رنگی ہے اور ان کی نوعیت شروع ہی سے ایسی ہے کہ ان پر ایک آخری اورکامل شریعت کی عمارت تعمیر ہو سکے۔

عقائد اور علوم سے متعلق قرآن اس عہد کی جن باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ان میں سے چند باتیں ہم سورہ بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۸ سے اخذ کر کے یہاں پیش کرتے ہیں:

ایک یہ کہ انسان کو خدا نے اس دنیا میں خود مختار اور مطلق العنان بنا کر نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اس کو اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے۔ اس کو جو اختیار ملا ہے وہ اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تفویض کردہ ہے، اس وجہ سے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اختیارات اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود و قوانین کے اندر ہی استعمال کرے، ورنہ وہ خونریزی اور فساد میں مبتلا ہو جائے گا۔

دوسری یہ کہ نوعِ انسانی کو اپنے قوانین اور احکام سے آگاہ کرتے رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ برابر اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہے گا تاکہ منصبِ خلافت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرتے رہنے کے لیے اس کو رہنمائی حاصل ہوتی رہے۔

تیسری یہ کہ آدم اور ان کی ذریّت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ابلیس اور اس کی ذریّت سے ہے۔ ابلیس نے آدم کو خدا کے ایک حکم کی نافرمانی کے لیے ورغلایا جس کے سبب سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ یہی معاملہ ابلیس کی ذُریّت کا آدم کی ذُریّت کے ساتھ ہے تاکہ اولاد آدم خدا کی جنت سے محروم رہے۔ شیطان کے اِس حسد اور اُس کی مستقل عداوت کی وجہ سے اولادِ آدم کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اِس کھلے ہوئے دشمن سے برابر ہوشیار رہے اور اگر کبھی شیطان کی اکساہٹ سے خدا کی کوئی نافرمانی صادر ہو جائے تو فوراً توبہ اور اصلاح کرے۔

چوتھی یہ کہ دنیا بنی نوع انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں انسان سے اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی اور اپنے قانون کی فرمانبرداری کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی شیطان کو اس بات کی مہلت دی ہے کہ وہ انسان کو اس راہ سے پھیرنے کی کوشش کرے۔ آخرت میں کامیاب اور فائز المرام صرف وہ ہوں گے جو شیطان کی تمام فتنہ آرائیوں کے علی الرغم اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی اطاعت پر جمے رہیں گے۔

پانچویں یہ کہ اس دارالامتحان میں اپنے آپ کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر قسم کی مشکلات کے باوجود قانون اور شریعت کی پابندی کرے۔ جو لوگ خدا کی شریعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے ان کے لیے اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس جنت کے وارث ہوں گے جس سے آدم نکالے گئے اور پھر ان کے لیے نہ کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ کوئی غم۔

قرآن کے بیان کے مطابق دنیا کے پہلے ہی انسان اور اس کی ذُریّت کو قانونِ الٰہی کی پیروی اور اطاعت سے متعلق مذکورہ بالا اصولی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان اصولی ہدایات کے علاوہ سورہ مائدہ کی آیات ۲۷ تا ۳۱ میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کا ایک قصہ بھی بیان ہوا ہے جس سے ضمناً اس شریعت کے بعض قوانین پر روشنی پڑتی ہے جو اُس ابتدائی عہد میں اولادِ آدم کی ہدایت کے لیے اتاری گئی تھی۔ ہم مذکورہ بالا آیات سے اخذ کر کے اس شریعت کے چند احکام بھی یہاں پیش کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی اور اس قربانی کے متعلق یہ تصور تھا کہ یہ صرف اُنھی لوگوں کی قبول ہوتی ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔

قتلِ نفس ایک بہت بڑا گناہ بھی تھا اور سوسائٹی کا ایک بہت بڑا جرم بھی۔ چنانچہ آدم کے ایک بیٹے نے جب حسد کے جذبہ سے مغلوب ہو کر اپنے ایک بھائی پر با ارادہِ قتل حملہ کرنا چاہا تو اُس نے اُس سے کہا کہ تم جو چاہو کرو، لیکن مَیں تمھارے اوپر قتل کی نیت سے حملہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ مَیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ پھر جب اس نے نفس سے مغلوب ہو کر اس کو قتل کر دیا تو قانون کے ڈر سے اس کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔

یہ قانون بھی موجود تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھوں اپنے نفس کی مدافعت میں حملہ آور کا خون ہو جائے تو مدافعت کرنے والے پر اس کے خون کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بھی برابر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول بھیجے جو لوگوں کو اس کے قوانین و احکام سے آگاہ کرتے رہے۔ قرآن کا بیان یہ ہے کہ یہ احکام و قوانین اپنی روح اور حقیقت کے لحاظ سے بالکل ایک ہی طرح کے تھے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ انسانی سوسائٹی درجہ بدرجہ جس رفتار سے ترقی کرتی گئی ہے اسی رفتار سے ان احکام و قوانین میں بھی وسعت اور ترقی ہوتی گئی ہے۔ اس وسعت و ترقی کے لحاظ سے بعض سابق احکام میں یا تو اللہ تعالیٰ نے تبدیلی فرما دی یا ان کو منسوخ کر دیا۔ توسیع و ترقی کا یہ سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا۔ بالآخر آپ پر اسلامی قانون کی تکمیل ہو گئی۔

 

دونوں کا اصولی موازنہ

یہاں مَیں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ انسانی قانون کے ارتقا کی جو تاریخ بیان کی جاتی ہے وہ تنقید کی کسوٹی پر بھی پوری اترتی ہے یا نہیں۔ مَیں یہ فرض کیے لیتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور اس کو صحیح فرض کر کے ہی چاہتا ہوں کہ اسلامی قانون اور انسانی قانون کا ایک اصولی موازنہ کروں اور اس موازنے سے جو حقائق برآمد ہوں ان کو آپ کے سامنے پیش کروں۔ میرے نزدیک ان دونوں کے ارتقا پر جو شخص ایک سرسری نظر بھی ڈالے گا وہ مندرجہ ذیل حقیقتوں کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا:

۱۔ انسانی قانون کے قانون ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کو شیخ قبیلہ یا بزرگِ خاندان کی منظوری حاصل ہے یا کسی عدالت نے اس پر عمل کیا ہے یا کسی حکومت نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی چیز بھی اس کو حاصل نہ ہو تو پھر اس کی قانونیت ختم ہو جاتی ۱؂ہے ۔ برعکس اس کے اسلامی قانون کی قانونیت ان چیزوں میں سے کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے وہ بہرحال قانون ہے، کوئی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اور کوئی حکومت اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ وہ اس کائنات کے حقیقی مالک اور حکمران کا قانون ہے، اگر کوئی عدالت یا حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے تسلیم نہ کرنے سے اس کی قانونیت متاثر نہیں ہوتی، بلکہ خود وہ عدالت یا حکومت نافرمانی اور بغاوت کی مجرم ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر قرآن مجید میں فرمایا ہے:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (المائدہ۔ ۵: ۴۷)
اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

اس حقیقت کا اظہار ان ناموں سے بھی ہوتاہے جو اسلام نے اپنے قانون کے لیے اختیار کیے ہیں۔ اسلامی قانون کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں ایک لفظ ’کتاب‘ ہے جس کے معنی ہیں: ’مَا کَتَبَہُ اللّٰہُ لَنَا‘ (جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے)۔ دوسرا لفظ ’سنت‘ کا ہے جس کے معنی ہیں ’بِمَا سَنَّہ‘ النَّبُِی صلی اللہ علیہ وسلم لَنَا (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے)۔ تیسرا مشہور لفظ ’شریعت‘ کا ہے جس کے معنی ہیں: مَا شَرَعَہُ اللّٰہُ لَنَا (جو اللہ نے ہمارے لیے ٹھہرا دیا ہے)۔ اسی طرح دوسرے الفاظ سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔

۲۔ انسانی قانون اپنے ساتھ احترام یا تقدس کا کوئی پہلو نہیں رکھتا۔ وہ آدمی کے ایمان کا جزو نہیں ہوتا۔ اس کے متعلق آدمی کا یہ تصور نہیں ہوتا کہ جس نے اس قانون کو دیا ہے وہ اس کی نافرمانی یا فرماں برداری کو دیکھ بھی رہا ہے۔ اس کے بارہ میں یہ عقیدہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی اطاعت سے جنت ملتی ہے اور اس کی خلاف ورزی سے آدمی دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اسلامی قانون خدا کا قانون ہونے کے سبب سے نہایت مقدس و محترم مانا جاتا ہے۔ وہ ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد ہوتا ہے، جس کو مانے بغیر اس کا ایمان ہی درست نہیں ہوتا۔ اس کے دینے والے کے متعلق ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں اور خلوت خانوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اس کی کھلی ہوئی خلاف ورزی تو درکنار اگر دل کے کسی گوشہ میں اس سے انحراف کا وسوسہ بھی موجود ہو تو وہ اس سے بھی باخبر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے متعلق ہر مسلمان کا یہ عقیدہ بھی ہوتا ہے کہ خدا کی رضا اس کے مانے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے اندر دنیا کی صلاح بھی ہے اور آخرت کی فلاح بھی۔

۳۔ انسانی قانون کا اصلی رول انسانی زندگی کے اندر صرف منفی قسم کا ہے۔ جو چیز اس کو وجود میں لائی ہے خود اس کے اپنے ماہرین کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے پر تَعدِّی اور دست درازی سے روکا جا سکے۔ اگر انسان کے اندر یہ خرابی نہ ہوتی تو اس کی سرے سے کوئی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ برعکس اس کے اسلامی قانون اپنی ضرورت صرف تَعدِّی اور دست درازی کی روک تھام ہی نہیں بتاتا، بلکہ اپنا کام انسان کی ہدایت و رہنمائی بتاتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، کی تہذیب و تکمیل کے لیے اس کا محتاج ہے، اس کے بغیر اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کی صحیح تربیت ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون صرف ہمارے مروجہ ضابطہ دیوانی یا ضابطہ فوجداری کے قسم کی دفعات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ طہارت اور عبادت کا ایک ضابطہ بھی ہے، تربیت اخلاق اور تزکیہ نفس کے قواعد اور احکام بھی ہیں اور اجتماعی و معاشرتی تہذیب و اصلاح کے اصول و آئین بھی ہیں انسانی قانون کے اندر اگر اس طرح کی کچھ چیزیں داخل ہوئی ہیں تو وہ بعد کی پیداوار اور اس کے اصلی مزاج کے خلاف ہیں، لیکن اسلامی قانون میں یہ ساری چیزیں اس کے اپنے مزاج کے اقتضا سے داخل ہوئی ہیں۔ حالاتِ زندگی کی اصلاح و تہذیب میں اس کا رول منفی سے زیادہ مثبت ہے۔ ایک اسلامی حکومت دوسری حکومتوں کے مقابل میں زیادہ وسیع ذمہ داریاں رکھتی ہے۔ اس کو عوام کی زندگی کے ان گوشوں پر بھی نگاہ رکھنی پڑتی ہے جو اِس زمانے میں حکومت کی نگرانی سے بالعموم الگ خیال کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ اسلامی قانون کی یہی وسعت اور ہمہ گیری ہے۔

۴۔ انسانی قانون کی اصل بنیاد، جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے، عرف و عادت اور رسوم و رواج پر ہے۔ خاندانوں اور قبیلوں میں جو باتیں رواج پکڑ گئیں اُنھی چیزوں نے ضرورت کے وقت قانون کا درجہ حاصل کر لیا۔ ان میں علمی اور فلسفیانہ نظریات کی آمیزش بعد میں زمانے کی ترقی سے ہوئی ہے۔ اُس کے ابتدائی مواد میں خاندانی اور قبائلی روایات و تعصبات کی تمام تنگ نظریاں ملی ہوئی ہیں۔ البتہ اب اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جانے لگا ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر سے اس کو رحم، عدل، مساوات اور انسانیت کی عالم گیر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے معنی دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ اس کے ماضی اور حاضر میں کوئی ربط نہیں ہے اور اس کے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کیا شکل اختیار کرے گا۔

اس کے برعکس اسلامی قانون روزِ اول سے انسانی فطرت اورخدا کی دی ہوئی ہدایت پر مبنی ہے۔ اس میں خاندانوں اور قبیلوں کے رجحانات و تعصبات کو کوئی دخل نہیں ہے۔ رسوم و رواج اس میں اگر کوئی دخل رکھتے ہیں تو صرف ایک محدود گوشے کے اندر رکھتے ہیں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ خدا اور رسول کی کسی ہدایت کے خلاف نہ ہوں۔ اس کے ماضی اور حاضر میں گہرا ربط ہے اور مستقبل میں اس کی ترقی کے خطوط بھی بالکل معین ہیں۔ انسانی قانون عدل، مساوات اور رحم و انسانیت کی جس منزل تک اب پہنچنے کی آرزو کر رہا ہے اسلامی قانون کا پہلا ہی قدم وہیں سے اٹھا ہے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہے کہ اگر انسانی قانون اپنی اس معراجِ آرزو کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو جس دن اس کو یہ کامیابی حاصل ہو گی اسی دن وہ اسلامی قانون میں تبدیل ہو جائے گا۔

۵۔ قانون کے اندر وحدت و یکسانی ایک مطلوب شے ہے۔ اس کے بغیر اس کا اصلی مقصد، قیامِ عدل پورا نہیں ہو سکتا۔ لیکن انسانی قانون کے متعلق اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس میں وحدت و یکسانی اول تو ہے نہیں اور اگر کسی حدتک ہے تو وہ اس کے مزاج کے تقاضے سے وجود میں نہیں آئی ہے، بلکہ اس کو مصنوعی طور پر ریاست نے اپنے مصالح کے تحت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اب یہ بین الاقوامی ادارے ہیں جو اس بات کے لیے زور لگا رہے ہیں کہ مختلف قوموں کے قوانین میں جو اختلافات ہیں وہ دور ہوں اور ان کے اندر یک رنگی وہم آہنگی پیدا ہو۔

اس کے برعکس اسلامی قانون کا سرچشمہ چونکہ خاندانوں اور قبیلوں کی روایات اور ان کے رسوم و عادات نہیں ہیں، بلکہ اللہ وحدہ‘ لا شریک کی شریعت ہے، اس وجہ سے وحدت و یکسانی اس کی اپنی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام نبیوں کو ایک ہی قانون عطا فرمایا۔ اس میں اگر کوئی فرق تھا تو وہ محض ظاہری فرق تھا۔ قرآن نے اسلامی قانون کی اس یکسانی کی تصریح سورہ شوریٰ میں اس طرح فرمائی ہے:

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیٓ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ (الشوریٰ۔ ۴۲: ۱۳)
اس نے تمھارے لیے دہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔

اس میں اگر اختلاف واقع ہوا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ اختلاف اس کے اپنے مزاج کا تقاضا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوموں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی تعصب اور تنگ نظری کے سبب سے اپنے اپنے دائروں کے اندر ہی اپنے آپ کو محبوس کر لیا اور اسلامی قانون کی ترقی کے ساتھ ساتھ خود بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ مشرکین عرب اور یہود اور نصاریٰ نے اسلام کی جو مخالفت کی قرآن نے اس کو ان کی بغی، یعنی ضد اور عداوت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اگر ان کے اندر ضد اور تعصب کی جگہ حق پسندی موجود ہوتی تو وہ جس طرح حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو خدا کا رسول مانتے تھے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کا رسول مانتے اور تمام نبیوں کی تعلیم پر بغیر کسی امتیاز کے عمل کرتے۔

________

۱؂ ملاحظہ ہو سرجان سالمنڈ کی کتاب Jurisprudance (اصولِ قانون) ص ۴۱

________

 

B