فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ۔ (العمران ۳۔ ۱۵۹)
یہاں عفو اور استغفار کی ہدایت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت بھی ہوئی کہ وشاورھم فی الامر یعنی معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔ اس بات کے ذکر کا یہاں ایک خاص موقع ہے جس کو مختصراً سمجھ لینا چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معاملات دین میں کسی کے مشورے کے محتاج نہیں تھے اس لیے کہ آپ ہر کام وحی الہٰی کی رہنمائی میں کرتے تھے، لیکن سیاسی و انتظامی معاملات میں آپ اپنے صحابہ سے برابر مشورہ کرتے رہتے تھے اور اس طرح گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے طرز عمل سے اس شورائیت کی بنیاد ڈالی جو اسلام کے سیاسی نظام کی ایک بنیادی خصوصیت رہی ہے۔ اسی شورائیت کے پیش نظر آپ نے غزوۂ احد کے موقع پر بھی، جس کے اثرات و نتائج یہاں زیر بحث ہیں، صحابہ سے مشورہ کیا کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر سے کیا جائے یا باہر نکل کر۔ مقصود اس مشورے سے، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں، یہ تھا کہ جماعت کے اندر جو کمزور لوگ ہیں وہ کھل کر سامنے آ جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جو کمزور اور منافق قسم کے لوگ تھے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ شہر کے اندر محفوظ ہو کر مقابلہ کیا جائے اور اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ اس طرح وہ اپنی کمزوری اور نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن مخلصین اور جاں نثاروں کی رائے اس کے خلاف ہوئی اور یہی رائے صائب اور حضور کی رائے کے مطابق تھی، اس وجہ سے حضور نے اسی رائے پر عمل فرمایا ۱ ۔ منافقین کو جب اپنا مشورہ منوانے میں ناکامی ہوئی تو انھوں نے مختلف طریقوں سے اپنا غصہ نکالا۔ ایک گروہ تو یہ بہانہ بنا کر عین موقع پر فوج سے الگ ہو گیا کہ اس کے مشورے کی قدر نہیں کی گئی۔ دوسرا گروہ جو بادل نخواستہ ساتھ رہا، اس نے شکست کے بعد مسلمانوں میں یہ بددلی پھیلانا شروع کر دی کہ جنگ کا یہ نتیجہ اس وجہ سے نکلا کہ اس کے مشورے کی قدر نہیں کی گئی، اگر ان کی رائے مان لی جاتی تو یہ افتاد پیش نہ آتی۔ ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں کا مقصود شرارت اور مسلمانوں میں بددلی پھیلانا تھا لیکن اس مرحلے میں مصلحت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے، یہی تھی کہ ان منافقین سے درگزر کی روش اختیار کی جائے اور جو مجلسی اور جماعتی حقوق ان کو حاصل ہیں وہ ان کی ان غلطیوں کے باوجود بھی ابھی باقی رہیں۔ چنانچہ جس طرح حضور کو ان کے لیے عفو و استغفار کی ہدایت ہوئی اسی طرح اس بات کی بھی ہدایت ہوئی کہ جو امور مشورے کے تحت آتے رہیں ان میں آپ بدستور ان سے مشورہ لیتے رہیں۔ اگرچہ ان کی کمزوری اور بدخواہی واضح ہو چکی ہے۔
وشاورھم فی الامر کے بعد فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ انتظامی و سیاسی امور میں مشورے کی یہ ہدایت صاحب امر کی تقویت اور اس کے اطمینان کے پہلو سے ہے۔ مشورہ کرنا تو بہرحال ضروری ہے لیکن مشورے کے بعد جس بات پر اس کا دل ٹھک جائے اللہ کے بھروسے پر وہ کام اسے کر گزرنا چاہیے۔ صاحب امر کے اطمینان کے بعد یہ امر کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کہ جو رائے اس نے اختیار کی وہ اکثریت کی ہے یا اقلیت کی۔ نہ اکثریت فی نفسہٖ دلیل صحت و صواب ہے نہ اقلیت دلیل خطا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اکثریت کی رائے میں فی الجملہ صحت کا گمان غالب ہے۔ اس وجہ سے فصل نزاعات میں اگر اس کو فیصلہ کن مانا جائے تو مصلحت کے پہلو سے یہ راہ مامون ہے۔ بالخصوص اس زمانے میں جب کہ اتباع ہوا کا زور ہے اور اختیار و اقتدار کو حدود کے اندر استعمال کرنے والے لوگ کمتر ہی ہیں۔
مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
ایک یہ کہ عام افراد کی طرح ارباب اقتدار و سیاست کے لیے بھی پسندیدہ روش نرمی و چشم پوشی ہی کی روش ہے۔ اسی سے افراد میں حسن ظن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے اجتماعی نظام میں وحدت، قوت اور استحکام کی برکتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سختی اور سخت گیری اس کی فطرت میں نہیں بلکہ اس کے عوارض میں سے ہے۔ جس طرح صحت کے لیے اصل شے غذا ہے لیکن کبھی کبھی کسی مرض کے علاج کے لیے دوا کی بھی ضرورت پیش آ جاتی ہے اسی طرح اجتماعی نظام میں اصل چیز نرمی ہے۔ سختی کبھی کبھی ضرورت کے تحت اختیار کرنی پڑتی ہے۔
دوسری یہ کہ اجتماعی نظام میں شورائیت اس حسن ظن و اعتماد کا مظہر ہے جو راعی اور رعایا اور امیر و مامور میں ہونا چاہیے۔ اسی سے استبداد اور سخت دلی کی جڑ کٹتی ہے اور راعی اور رعایا دونوں طرف سے وہ تعاون ظہور میں آتا ہے جو استحکام کی بنیاد ہے۔
تیسری یہ کہ توکل، بے عملی اور تعطل کا کوئی بہانہ اور گوشہ خمول کا کوئی تکیہ نہیں ہے بلکہ انفرادی و اجتماعی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں عزم و عمل کی بنیاد ہے۔
چوتھی یہ کہ اصل قوت توکل علی اللہ ہے۔ وسائل و اسباب کی حیثیت ثانوی ہے۔
پانچویں یہ کہ توکل ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ جو شخص خدا پر ایمان کا مدعی ہے لیکن اس کو خدا پر بھروسہ نہیں ہے اس کا ایمان بے معنی ہے۔
________
۱ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں یہ بات جو نقل ہوئی ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بھی یہی تھی کہ مدینہ کے اندر محصور رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے لیکن پرجوش صحابہ نے آپ کو نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بالکل بے ثبوت بات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا اس کے بارے میں خود اپنی رائے ظاہر نہیں فرمائی تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کر سکے اور مقصود اس سے لوگوں کے حوصلے کا جائزہ لینا تھا تاکہ جنگ سے پہلے فوج کی صحیح صحیح حالت کا اندازہ ہو جائے۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے شہر کے اندر سے مقابلے پر اصرار کیا اور جاں نثاروں نے باہر نکل کر۔ آپ نے اس تدبیر سے جب کمزوروں اور حوصلہ مندوں کا اندازہ فرما لیا تو گھر کے اندر داخل ہوئے اور اسلحہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ یہ اس امر کا اظہار تھا کہ مقابلہ باہر نکل کر کرنا ہے۔ جاں نثاروں کو بطور خود یہ گمان ہوا کہ مبادہ حضور نے یہ رائے ان کے اصرار کی وجہ سے اختیار فرمائی ہو اس وجہ سے انھوں نے معذرت کے ساتھ اپنی رائے واپس لینی چاہی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ نبی ہتھیار پہن کر اتارا نہیں کرتا۔ یعنی اب جب کہ عزم ہو چکا تو یہ بدل نہیں سکتا۔ جب منافقین نے دیکھا کہ ان کی بات نہیں چلی تو عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ الگ ہو گیا۔ یہ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی اہم جنگ کے لیے نکلنے سے پہلے فوج کے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی حکیمانہ تدبیر ضرور اختیار فرماتے تھے۔ بدر کے موقع پر بھی آپ نے یہ تدبیر اختیار فرمائی تھی اور اسی موقع پر انصار کے لیڈر نے وہ تقریر کی تھی جو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔
____________