HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

شوریٰ سے متعلق ایک اہم سوال

سوال ۔ کیا امیر مجلس مشاورت کے ارکان کی اکثریت کے فیصلے کا پابند ہو گا؟

جواب ۔ میں اس امر میں بھی بالکل یکسو ہوں کہ امیر کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہے۔ اس کی اول دلیل تو وہی ہے جو صاحب احکام القرآن ابوبکر حصاص نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہل شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شدومد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریک مشورہ کر کے ذرا ان کی دلداری اور عزت افزائی کر دی جائے۔ امیر کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب احکام القرآن کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دلداری اور عزت افزائی کی نہیں بلکہ الٹے ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے۔

دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ ایک شخص کے مقابل میں ایک جماعت کی رائے بہر حال اپنے اندر صحت و اصابت کے زیادہ امکان رکھتی ہے اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ امیر اپنی تنہا رائے کے مقابل میں یا اپنے چند ہم خیالوں کی رائے کے مقابل میں اکثریت کی رائے کو رد نہ کرے۔ آخر ایک اجتہادی یا مصلحتی معاملے میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی رائے صحیح اور دوسروں کی رائے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں صرف ہے لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جدھر اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے۔

اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانے کی کوئی ایک مثال بھی ہمارے سامنے ایسی نہیں ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ انھوں نے کسی قابل مشورہ امر میں لوگوں سے مشورہ کیا ہو اور پھر ان کے متفق علیہ مشورے یا ان کی اکثریت کی رائے کے خلاف قدم اٹھایا ہو۔ خلفائے راشدین تو درکنار خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے بھی جس معاملے میں لوگوں سے مشورہ لیا اس میں اکثریت کے فیصلے کے مطابق ہی عمل کیا۔ کوئی ایک مثال بھی اس کی خلاف ورزی کی حضور سے منقول نہیں ہے۔ حالانکہ حضور نہ تو کسی معاملے میں لوگوں کے مشورے کے محتاج تھے اور نہ کسی مشورے کی پابندی آپ کے لیے لازمی قرار دی جا سکتی تھی۔

صرف حضرت ابوبکرؓ کی زندگی سے دو واقعے ایسے پیش کیے جاتے ہیں جن سے بعض حضرات یہ استدلال کرتے ہیں کہ امیر اپنی تنہا رائے کے ذریعے سے اہل شوریٰ کے متفقہ فیصلے یا ان کی اکثریت کی رائے کو رد کر سکتا ہے۔ ایک حضرت ابوبکرؓ کا موقف مانعین زکوٰۃ سے جنگ کے معاملے میں، دوسرا لشکر اسامہ کی روانگی کے معاملے میں، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان دونوں مواقع پر حضرت ابوبکرؓ نے جو موقف اختیار فرمایا اس کو عام طور پر غلط سمجھا گیا ہے اس وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ میں یہاں ان کے موقف کی وضاحت کر دوں۔

پہلے مانعین زکوٰۃ کے معاملے کو لیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے جو قبائل مرتد ہو گئے تھے ان میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی تھا جو کہتے تھے کہ ہم نمازیں تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو بزور شمشیر ادائیگی زکوٰۃ پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ ان کے نزدیک شریعت کے ان واضح اور منصوص مسائل میں سے تھا جن کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتی تھی۔ اس وجہ سے اس میں انھوں نے شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا اپنے کو پابند نہیں سمجھا بلکہ روزہ، نماز، حدود، تعزیرات اور اس قسم کے دوسرے مسائل کی طرح اس میں بحیثیت خلیفہ کے اپنی ذمہ داری خدا کے قانون کی تنفیذ سمجھی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے اسی نقطہ نظر کے مطابق یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر یہ اسلامی بیت المال کو زکوٰۃ ادا نہ کریں تو ان کو طاقت کے زور سے اطاعت پر مجبور کیا جائے۔

جب لوگوں کو ان کے اس فیصلے کا علم ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ ابھی اسلام کا معاملہ نیا نیا ہے، مخالفین کی تعداد زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں بیک وقت سارے عرب کا مقابلہ مشکل ہو گا۔ اس وجہ سے بہتر ہو گا کہ اگر یہ لوگ نماز کا اقرار کرتے ہیں تو صرف زکوٰۃ کے لیے ان سے جنگ نہ کی جائے بلکہ جس حد تک بھی یہ دین کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں اسی پر قناعت کر لی جائے۔ ان لوگوں نے اپنے نقطہ نظر کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم الابحقھا و حسابھم علی اللہ۔
مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ گروں یہاں تک کہ وہ لاالہ کا اقرار کریں، جب وہ اس کا اقرار کر لیں گے تو ان کی جانیں اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہو جائیں گے مگر اسی کلمہ کے کسی حق کے تحت اور ان کے باطن کا محاسبہ اللہ کے ذمے ہے

حضرت ابوبکرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ زکوٰۃ تو اس کلمہ کے حقوق میں شامل ہے اس وجہ ان لوگوں سے جنگ ناگزیر ہے۔

جب لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنے فیصلے پر بالکل عازم پایا تو حضرت عمرؓ نے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں حضرت ابوبکرؓ سے گفتگو کریں۔ جب حضرت عمرؓ نے گفتگو کی تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کے سامنے اوپر والی حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث کی روشنی میں کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

امرت ان اقاتل الناس علی ثلاث شہادۃ ان لاالہ الا اللہ واقام الصلوٰۃ ایتاء الزکوٰۃ
مجھے حکم ملا ہے کہ میں تین چیزوں پر لوگوں سے جنگ کروں، کلمہ لاالہ الا اللہ کی شہادت پر، نماز قائم کرنے پر، زکوٰۃ کی ادائیگی پر۔

پس اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں اس سے کم پر قناعت نہیں کروں گا۔ اگر یہ لوگ اس زکوٰۃ میں سے ایک جانور بھی روکیں گے جو رسول اللہ کو ادا کرتے رہے ہیں تو میں اس کے لیے بھی ان سے جنگ کروں گا یہاں تک کہ اللہ جو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اگر میں ان لوگوں سے جنگ کرنے کے لیے کسی کو بھی نہ پاؤں گا تو ان سے تنہا جنگ کروں گا۔

ان کی اس وضاحت اور اس عزم بالجزم کے اظہار کے بعد لوگ مطمئن ہو گئے۔ بالآخر انھوں نے مانعین زکوٰۃ پر فوج کشی کی اور ان کو بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ لوگوں نے ان کے اس اقدام کو اس قدر پسند کیا کہ ابورجاء عطاردی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کا سر بار بار چومتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں آپ کے قربان جاؤں۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم تو تباہ ہو گئے ہوتے۔

میں نے یہ سارا بیان ابن قتیبہ کی الامامۃ والسیاسۃ سے لیا ہے اور بغیر کسی تصرف کے اس کا ترجمہ کر دیا ہے۔ اس کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے چند حقیقتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔

ایک یہ کہ یہ معاملہ شوریٰ اور امیر کے درمیان کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو شوریٰ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا۔ شوریٰ کے سامنے وہ مسائل پیش ہوتے ہیں جو اجتہاد اور امور مصلحت سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں یہ معاملہ دین کا ایک منصوص مسئلہ ہے۔ اسلامی حکومت میں کسی ایسی جماعت کے بحیثیت مسلم کے حقوق شہریت باقی نہیں رہتے جو بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دے۔ یہ چیز اسلامی قانون میں طے شدہ ہے۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کی ذمہ داری یہ نہیں تھی کہ وہ اس کو شوریٰ کے سامنے رکھتے بلکہ بحیثیت خلیفہ کے ان کی ذمہ داری صرف یہ تھی کہ وہ اس بارے میں قانون کی تنقیذ کرتے چنانچہ انھوں نے یہی کیا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ اسلامی حکومت کے حدود میں کوئی جماعت اگر قتل و غارت شروع کر دے تو خلیفہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس جماعت کی سرکوبی کے لیے شوریٰ سے اجازت حاصل کرے بلکہ اس کا فرض ہے کہ قرآن نے محاربین کے لیے جو قانون بتایا ہے اس کی تنفیذ کے لیے اپنے اختیارات بے دھڑک استعمال کرے۔

دوسری یہ کہ جن لوگوں نے امیر کے اس اقدام سے متعلق تردد کا اظہار کیا ان کو ایک حدیث کے سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس حدیث کے اجمال کو ایک دوسری حدیث سے جو انھوں نے خود حضور سے سنی تھی واضح کر دیا جس سے لوگ مطمئن ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک اس حدیث سے زیادہ وقیع حدیث اور کون ہو سکتی تھی جس کے راوی خود حضرت ابوبکرؓ صدیق ہوں۔

تیسری یہ کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ جو فرمایا کہ اگر ان لوگوں سے لڑنے کے لیے میں کسی کو نہیں پاؤں گا تو میں تنہا ان سے لڑوں گا یہ شوریٰ کے کسی فیصلے کو ویٹو کرنے والی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس ذمہ داری کا صحیح صحیح اظہار و اعلان ہے جو دین کے واضح اور قطعی احکام کی تنفیذ اور ان کے اجرا سے متعلق بحیثیت خلیفہ کے ان پر عائد ہوتی تھی۔ اسلام میں خدا اور اس کے رسول کے احکام کی تنفیذ کے لیے خلیفہ کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ان کی تنفیذ کے لیے اپنی جان لڑا دے اگرچہ ایک شخص بھی اس کا ساتھ نہ دے۔ جمہور کے مشوروں کا پابند وہ جیسا کہ عرض کیا گیا مصلحتی اور اجتہادی امور میں ہے نہ کہ شریعت کی قطعیات میں۔

اسی طرح لشکر اسامہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ساری تیاریاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضور کی حیات مبارک ہی میں ہو چکی تھیں۔ اس کے لیے اشخاص بھی حضور کے منتخب کردہ تھے۔ اس کے لیے جھنڈا بھی خود حضور نے باندھا تھا۔ یہاں تک کہ اگر حضور کی علالت نے تشویش انگیز شکل نہ اختیار کر لی ہوتی تو یہ لشکر روانہ ہو چکا ہوتا۔ اسی دوران میں حضور کا وصال ہو گیا اور حضور کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے خلیفہ ہونے بعد قدرتی طور پر اپنی سب سے بڑی ذمہ داری یہ سمجھی کہ حضور جس لشکر کے بھیجنے کی ساری تیاریاں اپنے سامنے کر چکے تھے اور جس کے جلد سے جلد بھیجنے کے دل سے آرزو مند تھے اس لشکر کو اس کی پیش نظر مہم پر روانہ کریں۔ بحیثیت خلیفہ رسول کے ان کی سب سے بڑی ذمہ داری اور ان کے لیے سب سے بڑی سعادت اس وقت اگر کوئی ہو سکتی تھی تو بلا ریب یہی ہو سکتی تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کو پورا کریں۔ اس کام کے لیے وہ شوریٰ سے کسی مشورے کے محتاج نہ تھے۔ کیونکہ اس لشکر کے بھیجنے کے فیصلے سے متعلق سارے امور خود حضور کے سامنے بلکہ حضور کے حکم سے طے پا چکے تھے۔ پیغمبر کے خلیفہ کی حیثیت سے ان کا کام پیغمبر کے فیصلے کو نافذ کرنا تھا نہ اس کو بدل دینا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے جب وقت کے مخصوص حالات کی بنا پر اس لشکر کی روانگی کو خلاف مصلحت قرار دیا تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جس جھنڈے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میں اس کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

بہرحال یہ دونوں واقعے کسی طرح بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتے کہ خلیفہ کو شوریٰ کے فیصلے رد کر دینے کا حق ہے۔ یہ اگر دلیل ہیں تو اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا اور رسول کے قطعی اور واضح احکام کی تنفیذ کے معاملے میں خلیفہ شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری صرف ان احکام کی تنفیذ ہے۔

اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام میں شوریٰ متعین بھی ہے اور امیر اس کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند بھی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں چونکہ تمام اہل الرائے جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مرکز میں مجتمع رہتے تھے جماعتوں اور قبیلوں کے لیڈر وقت کے نظام معاشرت کے تقاضے کے تحت معین ہوتے تھے نیز مملکت کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہ تھا اس وجہ سے یہ شورائی نظام بہت سادہ اور بسیط قسم کا تھا۔ اس زمانے میں حالات بہت مختلف ہیں اس وجہ سے شوریٰ کو متعین کرنے کے لیے بعض ضروری اصلاحات کے انتخابات کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے اور شوریٰ اور امیر کے باہمی تعلقات کی تعیین کے لیے ضروری قوانین بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ایسا کرنا اسلام کے منشا کے خلاف نہ ہو گا۔

____________

B