HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلام میں شوریٰ اور قانون سازی کی صحیح نوعیت (حصہ دوم)

 مجلس شوریٰ کی تشکیل

اب دوسرا سوال ان ارباب حل و عقد کے متعلق یہ ہے کہ وہ کیسے چنے جائیں گے اور کون ان کو چنے گا۔ سرسری مطالعے کی بنا پر لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ خلافت راشدہ میں چونکہ عام انتخابات (General Elections) کے ذریعے سے ارکان شوریٰ منتخب نہیں ہوتے تھے اس لیے اسلام میں سرے سے مشورے کا کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات بالکل خلیفہ وقت کی صوادبدید پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ جس سے چاہے مشورہ لے۔ لیکن یہ گمان دراصل اس زمانے کی باتوں کو اس زمانے کے ماحول میں رکھ کر دیکھنے سے پیدا ہوا ہے، حالانکہ ان کو اسی وقت کے ماحول میں رکھ کر دیکھنا چاہیے اور عملی تفصیلات کے اندر وہ اصول سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان میں ملحوظ رکھے گئے تھے۔

اسلام مکہ معظمہ میں ایک تحریک کی حیثیت سے اٹھا تھا۔ تحریکوں کے مزاج کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ جو لوگ سب سے پہلے آگے بڑ کر ان کو لبیک کہتے ہیں وہی لیڈر کے رفیق، دست و بازو اور مشیر ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی جو سابقین اولین تھے وہ بالکل ایک فطری طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور مشیر قرار پائے جن سے آپ ہر ایسے معاملے میں مشورہ کرتے تھے جس میں خدا کی طرف سے کوئی صریح حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا پھر جب اس تحریک میں نئے نئے آدمیوں کا اضافہ ہونے لگا اور مخالف طاقتوں سے اس کی کشمکش بڑھتی گئی تو ایسے لوگ خود بخود نمایاں ہوتے چلے گئے جو اپنی خدمات، قربانیوں اور بصیرت و فراست کی بنا پر جماعت میں ممتاز تھے۔ ان کا انتخاب ووٹوں سے نہیں بلکہ تجربات اور آزمائشوں سے ہوا تھا جو الیکشن کی بہ نسبت زیادہ صحیح اور فطری طریق انتخاب ہے۔ اس طرح مکہ چھوڑنے سے پہلے ہی دو قسم کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن بن چکے تھے۔ ایک سابقین اولین، دوسرے وہ آزمودہ کار اصحاب جو بعد میں جماعت کے اندر نمایاں ہوئے۔ یہ دونوں گروہ ایسے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمام مسلمانوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔

اس کے بعد ہجرت کا اہم واقعہ پیش آیا اور اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ڈیڑھ دو سال پہلے مدینے کے چند با اثر لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور ان کے اثر سے اوس اور خزرج کے قبیلوں میں گھر گھر اسلام پہنچ گیا تھا۔ انہی لوگوں کی دعوت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مہاجرین اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے منتقل ہوئے اور وہاں اسلام کی اس تحریک نے ایک سیاسی نظام اور ایک ریاست کی شکل اختیار کی۔ اب یہ بالکل ایک قدرتی بات تھی کہ مدینے میں جن لوگوں کے اثر سے اسلام پھیلا اور پھیلتا گیا وہی اس جدید معاشرے اور سیاسی نظام میں مقامی لیڈروں کی پوزیشن پر فائز ہوئے اور انہی کا یہ مرتبہ و مقام تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوری میں سابقیں اولین اور آزمودہ کار مہاجرین کے ساتھ ایک تیسرے عنصر (انصار) کی حیثیت سے شامل ہوں۔ یہ لوگ بھی فطری طریق انتخاب سے منتخب ہوئے تھے اور مسلمان قبیلوں کے ایسے معتمد علیہ تھے کہ اگر موجود زمانے کے طریقے پر انتخابات منعقد ہوتے تب بھی یہی لوگ منتخب ہو کر آتے۔

پھر مدنی معاشرے میں دو قسم کے لوگ اور ابھرنے شروع ہوئے۔ ایک وہ جنھوں نے آٹھ دس برس کی سیاسی، فوجی اور تبلیغی مہمات میں کارہائے نمایاں انجام دیئے حتی کہ ہر اہم معاملے میں انہی کی طرف لوگوں کی نگاہیں اٹھنے لگیں۔ دوسرے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے علم و فہم اور دین میں فقاہت کے اعتبار سے ناموری حاصل کی حتی کہ عوام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علم دین میں انہی کو سب سے زیادہ معتبر سمجھنے لگے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرما کر ان کو سند اعتبار عطا کی کہ قرآن فلاں شخص سے سیکھو اور فلاں نوعیت کے مسائل میں فلاں شخص کی طرف رجوع کرو۔ یہ دونوں عناصر بھی مجلس شوری میں بالکل ایک فطری انتخاب سے شامل ہوتے چلے گئے اور ان میں بھی کسی کے لیے ووٹ لینے کی حاجت پیش نہ آئی۔ ووٹ اگر لیے بھی جاتے تو اس معاشرے میں ان کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑتی۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہ مجلس شوری بن چکی تھی جو بعد کو خلفائے راشدین کی مشیر قرار پائی اور وہ دستوری روایات بھی مستحکم ہو چکی تھیں جن کے مطابق آگے چل کر ایسے نئے لوگ اس مجلس میں شامل ہوتے گئے جنہوں نے اپنی خدمات اور اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے سے قبول عام حاصل کر کے اس مجلس میں اپنی جگہ پیدا کی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کو اہل الحل و العقد (باندھنے اور کھولنے والے) کہا جاتا تھا اور جن کے مشورے کے بغیر خلفائے راشدین کسی اہم معاملے کا فیصلے نہ کرتے تھے ان کی آئینی حیثیت کا صحیح اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد چند اصحاب نے حضرت علیؓ کے پاس حاضر ہو کر خلافت قبول کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:

لیس ذالک الیکم انما ہو لاھل الشوری واھل بدر فمن رضی بہ اہل الشوری و اھل بدرفھو الخلیفۃ فنجتمع و ننظر فی ھذا الامر۔(الامامۃ والسیاسۃ لابن قتیبہ، مطبعۃ الفتوح، مصر ص ۴۱)
یہ معاملہ تمہارے فیصلے کرنے کا نہیں ہے۔ یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے جس کو اہل شوریٰ اور اہل بدر پسند کریں گے وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اہل الحل والعقد اس وقت کچھ متعین لوگ تھے جو پہلے سے اس پوزیشن پر فائز چلے آ رہے تھے اور وہی ملت کے اہم معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے۔ لہذا یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ خلیفہ وقت من مانے طریقے پر جس وقت جس کو چاہتا تھا مشورے کے لیے بلا لیتا تھا اور کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مستقل اہل شوری یا اہل حل و عقد کون ہیں۔

خلافت راشدہ کے اس تعامل، بلکہ خود اسوہ نبی سے جو قاعدہ کلیہ مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ امیر کو مشورہ ہرکس و ناکس سے یا اپنی مرضی کے چنے ہوئے لوگوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو عامۂ مسلمین کے معتمد ہوں جن کے اخلاص و خیر خواہی اور اہلیت پر لوگ مطمئن ہوں اور حکومت کے فیصلوں میں جن کی شرکت اس امر کی ضامن ہو کہ ان فیصلوں کے نفاذ میں جمہور قوم کا دلی تعاون شریک ہو گا۔ رہا یہ سوال کہ عوام کے معتمد لوگ کیسے معلوم کیے جائیں تو ظاہر ہے کہ اس چیز کے معلوم ہونے کی جو صورت آغاز اسلام کے مخصوص حالات میں تھی آج وہ صورت نہیں ہے اور اس زمانے کے تمدنی حالات میں جو موانع موجود تھے وہ بھی آج موجود نہیں ہے۔ اس لیے ہم آج کے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے وہ تمام ممکن اورمباح طریقے اختیار کر سکتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ جمہور قوم کا اعتماد کن لوگوں کو حاصل ہے۔ آج کل کے انتخابات بھی اس کے جائز طریقوں میں سے ایک ہیں۔ بشرطیکہ ان میں وہ ذلیل ہتھکنڈے استعمال نہ ہوں جنہوں نے جمہوریت کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔۴؂

اجماع

حضرات خلفائے راشدین کے زمانے میں وقت کے جو ارباب حل و عقد اس طرح کسی امر دینی پر متفق ہو جاتے تھے تو اس کو اجماع کہتے تھے اور یہ اجماع ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت حاصل کر گیا تھا یہی اجماع درحقیقت اجماع کی سب سے اعلی قسم ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے مندرجہ ذیل روایات کافی ہوں گی۔

عن المسیب بن رافع قال کانوا اذا نزلت بہم قضیۃ لیس فیھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اثر اجتمعوا واجمعوا فالحق فیما راؤا۔ (سنن دارمی)
مسیب بن رافع سے روایت ہے کہ جب صحابہ کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ آتا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نہ ہوتی تو اس کے لیے وہ مجتع ہوتے اور ایک بات پر اتفاق کرتے تو جس بات پر وہ متفق ہو جاتے حق اسی کے اندر ہوتا۔

اس اجماع کے حجت ہونے پر مسلمان بالکل متفق ہیں۔ اسی کے بارے میں حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا۔

فان جاء ک مالیس فی کتاب اللہ ولم یکن فیہ سنۃ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانظر ما اجتمع علیہ الناس فخذبہ۔ (سنن دارمی، ص۳۳)
اور اگر تمہارے سامنے کوئی ایسا معاملہ آ جائے جس کا ذکر نہ تو کتاب اللہ میں ہو اور نہ اس کے بارے میں سنت رسول اللہ میں کچھ ہو تو مسلمانوں نے جس بات پر اجماع کیا ہو اس کو دیکھو اور اس کو اختیار کرو۔ ۵؂
اجماع کی تعریف میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک اجماع اس چیز کا نام ہے کہ ’’ایک مسئلے میں تمام اہل علم متفق ہوں اور کوئی ایک قول بھی اس کے خلاف نہ پایا جاتا ہو۔‘‘ ابن جریر طبری اور ابوبکر رازی کی اصطلاح میں اکثریت کا قول بھی ’’اجماع‘‘ ہے۔ امام احمدؒ جب کسی مسئلے میں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علم میں اس کے خلاف کوئی قول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ امام موصوف کے نزدیک اس مسئلے میں اجماع ہے۔

یہ امر سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ ’’اجماع‘‘ حجت ہے یعنی نص کی جس تعبیر پر یا جس قیاس و اجتہاد پر یا جس قانون مصلحت پر اجماع امت ہو گیا ہو اس کی پیروی لازمی ہے۔ لیکن اختلاف جس امر میں ہے وہ اجماع کا وقوع و ثبوت ہے نہ کہ بجائے خود اجماع کا حجت ہونا۔ جہاں تک خلافت راشدہ کے دور کا تعلق ہے چونکہ اس زمانے میں اسلامی نظام جماعت باقاعدہ قائم تھا اور شوریٰ پر نظام چل رہا تھا اس لیے اس وقت کے اجماعی اور جمہوری فیصلے تو معلوم اور معتبر روایات سے ثابت ہیں۔ لیکن بعد کے دور میں جب نظام جماعت درہم برہم اور شوری کا طریقہ ختم ہو گیا تو یہ معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا کہ کس چیز پر فی الحقیقت اجماع ہے اور کس چیز پر نہیں ہے۔ اسی بنا پر خلافت راشدہ کے دور کا اجماع تو ناقابل انکار مانا جاتا ہے مگر بعد کے دور میں جب کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں مسئلے پر اجماع ہے تو محقیقین اس کے دعوے کو رد کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک یہ معلوم کرنے کے لیے کس بات پر اجماع ہے اور کس بات پر نہیں ہے اسلامی نظام کا قیام ضروری ہے۔

عام طور پر جو یہ مشہور ہے کہ امام شافعی امام احمد ابن حنبل سرے سے اجماع کے وجود ہی کے منکر تھے یا کسی دوسرے امام نے اس کا انکار کیا ہے یہ سب کچھ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر اجماع ہے درآنحالیکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہوتا تو یہ لوگ اس کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب جماع العلم میں اس مسئلے پر مفصل بحث کر کے یہ بتایا ہے کہ دنیائے اسلام کے پھیل جانے اور جگہ جگہ اہل علم کے منتشر ہو جانے اور نظام جماعت درہم برہم ہو جانے کے بعد اب کسی جزوی مسئلے کے متعلق یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ اس میں تمام علما کے اقوال کیا ہیں۔ اس لیے جزئیات میں اب اجماع کا دعویٰ کرنا غلط ہے۔ البتہ اسلام کے اصولوں اوراس کے ارکان اور بڑے بڑے مسائل کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان پر اجماع ہے مثلاً یہ کہ نماز کے اوقات پانچ یا روزے کے حدود یہ ہیں وغیرہ۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہ یوں بیان کرتے ہیں۔

اجماع کے معنی یہ ہیں کہ کسی حکم پر تمام علما مسلمین متفق ہو جائیں اور جب کسی حکم پر تمام امت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی شخص کو اس سے نکلنے کا حق نہیں رہتا، کیونکہ پوری امت کبھی ضلالت پر متفق نہیں ہو سکتی۔ لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں اجماع ہے حالانکہ دراصل وہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات دوسرا قول راجح ہوتا ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد۱، ص ۴۰۶)

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی مسئلے میں نص شرع کی کسی تعبیر پر یا کسی قیاس یا استباط پر یا کسی تدبیر و مصلحت پر اب بھی اہل حل و عقد کا اجماع یا ان کی اکثریت کا فیصلہ فی الواقع ہو جائے تو وہ حجت ہو گا اور قانون قرار پائے گا۔ اس طرح کا فیصلہ اگر تمام دنیائے اسلام کے اہل حل و عقد کریں تو وہ تمام دنیا اسلام کے لیے قانون ہو گا اور اگر کسی ایک اسلامی مملکت کے اہل حل و عقد کریں تو وہ کم از کم اس مملکت کے لیے تو قانون ہونا چاہیے۔

مصالح مرسلہ

علاوہ ازیں فقہا نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ جن معاملات کے بارے میں کتاب و سنت اور اجماع میں کوئی نص موجود نہ ہو اور نہ شریعت کے اشارات ہی میں کوئی ایسی چیز مل رہی ہو جو اس کے موافق یا مخالف فیصلہ کرنے میں مدد دے سکے تو مسلمان اپنے جماعتی اور اسلامی مصالح کے تحت اس کے متعلق قانون بنانے اور فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مالکیہ اس اصول کو مصالح مرسلہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس چیز کو بھی انہوں نے منجملہ ادلّہ شرعیہ کے شمار کیا ہے۔

امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تصنیف ’الاعتصام‘ جلد دوم میں ایسی بہت سی مثالیں نقل کی ہیں جو مصالح مرسلہ کے تحت آتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی وقت اسلامی ریاست اپنی فوجی یا دوسری ضروریات کے لیے روپے کی کمی محسوس کرے اور مالداروں پر کوئی خاص ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو ایسا کر سکتی ہے۔

قراقی نے یہ ثابت کیا ہے کہ مصالح مرسلہ کے اصول کے قائل صرف مالکیہ ہی نہیں بلکہ فقہ اسلامی کے تمام مذاہب نے اس سے کام لیا ہے اور انہوں نے صحابہ کے دور سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً:

۱۔ قرآن کی جمع و ترتیب۔

۲۔ خلیفہ کی نامزدگی حضرت ابوبکر کی طرف سے۔

۳۔ خلیفہ کا انتخاب ایک شورائی کونسل کے ذریعے سے۔

۴۔ دفاتر کا قیام۔

۵۔ سکے کا اجرا۔

۶۔ جیل خانوں کا قیام۔ ۶؂

مصالحہ مرسلہ کے اصول کے استعمال میں شرط صرف یہ ہے کہ وہ شریعت کے کسی اصول یا اس کی کسی دلیل کے خلاف نہ ہو بلکہ شریعت کے مزاج اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہو۔۷؂

مصالح مرسلہ کے قائل امام شافی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔۸؂

صدر ریاست کے انتخابات سے متعلق بعض شبہات کا ازالہ

شوری کی اس پوری بحث کو پڑھنے کے بعد ممکن ہے اسلام میں صدر ریاست کے انتخاب سے متعلق بعض سوالات پیدا ہوں۔ اس وجہ سے ہم آخر میں مختصراً اس کو بھی صاف کر دینا چاہتے ہیں۔

ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکّے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے لڑکر اسلامی معاشرے کی ابتدا کرنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ اسلامی معاشرہ جب اپنے نظم اور سیاسی خود مختاری میں ترقی کر کے ایک اسٹیٹ بننے کی منزل پر پہنچا تو اس کے اولین رئیس بھی آنحضور ہی تھے اور آپ کسی کے منتخب کردہ نہ تھے بلکہ براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے مامور کیے ہوئے تھے۔
دس سال تک آپؐ اس ریاست کی امارت کا فریضہ انجام دینے کے بعد رفیق اعلی سے جا ملے بغیر اس کے کہ اپنی جانشینی کے متعلق کوئی صریح اور قطعی ہدایت دے کر تشریف لے جاتے۔ آپ کے اس سکوت سے اور قرآن مجید کے اس ارشاد سے کہ وامرھم شوری بینہم۔ (مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے انجام پاتے ہیں) صحابہ کرام نے یہ سمجھا کہ نبیؐ کے بعد رئیس مملکت کا تقرر مسلمانوں کے اپنے انتخاب پر چھوڑا گیا ہے اور یہ انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔ چنانچہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب مجمع عام میں ہوا۔
پھر جب ان کا آخری وقت آیا تو اگرچہ ان کی رائے میں خلافت کے لیے موزوں ترین شخص حضرت عمرؓ تھے لیکن انہوں نے اپنے جانشین کو نامزد نہ کیا بلکہ اکابر صحابہ کو الگ الگ بلا کر ان کی رائے معلوم کی پھر حضرت عمرؓ کے حق میں اپنی وصیت املا کرائی پھر حالت مرض ہی میں اپنے حجرے کے دروازے سے مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کر کے فرمایا:
أترضون بمن استخلف علیکم؟ فانی واللہ ماالوت من جہد الرأی ولا ولیت ذا قرابۃ۔ وانی استخلف عمر بن الخطاب، فاسمعوا لہ واطیعوا۔
کیا تم راضی ہو اس شخص سے جس کو میں تم پر اپنا جانشین بناؤں؟ خدا کی قسم میں نے غور و فکر سے رائے قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو مقرر نہیں کیا ہے میں نے عمر بن الخطاب کو جانشین بنایا ہے۔ پس تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔

مجمع سے آوازیں آئیں۔

سمعنا واطعنا۔ (طبری جلد ۲، ص ۶۱۸۔ مطبعۃ الاستقامہ مصر)
ہم نے سنا اور مانا۔
اس طرح مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کا تقرر بھی نامزدگی سے نہیں ہوا بلکہ خلیفہ وقت نے مشورے سے ایک شخص کو تجویز کیا اور پھر مجمع عام میں اس کو پیش کر کے منظور کرایا۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دنیا سے رخصت ہونے کی باری آئی۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد ترین رفیقوں میں سے چھ اصحاب ایسے موجود تھے جن پر خلافت کے لیے مسلمانوں کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے انہی چھ اصحاب کی ایک مجلس شوریٰ بنا دی اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ باہمی مشورے سے ایک شخص کو خلیفہ تجویز کریں اور اعلان کر دیا کہ:
من تامر منکم علی غیر مشورۃ من المسلمین فاضربوا عنقہ (الفاروق عمر، محمد حسین ہیکل جلد۲، صفحہ ۳۱۳)
تم میں سے جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر ہے اس کی گردن مار دو۔
اس مجلس نے بالآخر انتخاب کا کام حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سپرد کیا اور انہوں نے مدینے میں چل پھر کر عام لوگوں کی رائے معلوم کی۔ گھر گھر جا کر عورتوں تک سے پوچھا۔ مدرسوں میں جا کر طلبہ تک سے دریافت کیا۔ مملکت کے مختلف حصوں کے جو لوگ حج سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس جاتے ہوئے مدینے ٹھہرے تھے ان سے استصواب کیا اور اس تحقیقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچنے کہ امت میں سب سے زیادہ معتمد علیہ دو شخص ہیں، عثمانؓ اور علیؓ۔ اور ان دونوں میں سے عثمانؓ کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان ہے۔ اسی رائے پر آخر کار حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ ہوا اور مجمع عام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہات کا واقعہ پیش آیا اور امت میں سخت افراتفری برپا ہو گئی۔ اس موقع پر چند صحابہ حضرت علیؓ کے مکان پر جمع ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ آج آپ سے زیادہ امارت کا حق دار کوئی نہیں آپ اس بار کو سنبھالیں۔ حضرت علیؓ نے انکار کیا مگر وہ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ یہی چاہتے ہیں تو مسجد میں چلیے۔
فان بیعتی لا تکون خفیا ولا تکون الاعن رضامن المسلمین۔ (طبری۔جلد سوم صحفہ۴۵۰)
کیونکہ میری بیعت خفیہ طور پر نہیں ہو سکتی اور مسلمانوں کو عام رضامندی کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ آپ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور مہاجرین و انصار جمع ہوئے اور سب کی نہیں تو کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکثریت کی مرضی سے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
پھر جب حضرت علی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد کیا ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسن سے بیعت کر لیں؟ اس پر انہوں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ:
ما امرکم ولا انھکم، انتم ابصر۔ (طبری جلد چہارم صحفہ ۱۱۲)
میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔

یہ ہے رئیس مملکت کے تقرر کے معاملے میں خلافت راشدہ کا تعامل اور صحابہ کرام کا اجماعی طرز عمل جس کی بنیاد خلافت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت اور تمام اجتماعی معاملات کے باب میں اللہ تعالی کے ارشاد وامرھم شوری بینہم پر رکھی گئی۔ اس مستند دستوری رواج سے جو بات قطعی طورپر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں صدر کا انتخاب عام لوگوں کی رضامندی پر منحصر ہے۔ کوئی شخص خود زبردستی امیر بن جانے کا حق نہیں رکھتا۔ کسی خاندان یا طبقے کا اس منصب پر اجارہ نہیں ہے اور انتخاب کسی جبر کے بغیر مسلمانوں کی آزادانہ رضامندی سے ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی پسند کیسے معلوم کی جائے تو اس کے لیے اسلام میں کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کر دیا گیا ہے۔ حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان سے معقول طور پر یہ معلوم کیا جا سکتا ہو کہ جمہور قوم کا اعتماد کس شخص کو حاصل ہے۔۹؂

________

۴؂ مجلس شوری کی تشکیل سے متعلق یہ ساری عبارت ’’اسلامی دستور کی تدوین‘‘ از مولانا ابوالاعلی صاحب مودودی سے نقل کی گئی ہے۔

۵؂ یہ عبارت سید ابوالاعلی مودودی کے ایک مضمون مطبوعہ ترجمان القرآن ماہ مئی ۱۹۵۵ سے لی گئی ہے۔

۶؂ الشافعی ص ۲۹۸ بحوالہ شرح تحریر جز ثالث ص ۳۸۱

۷؂ الشافعی ص ۲۵۸

۸؂ الشافعی بحوالہ اصول الاسنوی والتحریر لابن ہمام۔

۹؂ صدر ریاست کے انتخاب سے متعلق یہ تمام عبارت ’’اسلامی دستور کی تدوین‘‘( از ابوالاعلی مودودی) سے نقل کی گئی ہے۔

____________

 

B