HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلام میں شوریٰ اور قانون سازی کی صحیح نوعیت (حصہ اول)

  یہ مضمون پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی طلب پر لکھا گیا تھا اس وجہ سے طرز بیان، طرز استدلال اور مواد استدلال ہر چیز میں عدالت کی ضرورت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اسلام میں قانون کا ماخذ چونکہ کتاب و سنت کو قرار دیا گیا ہے اس وجہ سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں جمہور مسلمین کو قانون سازی کے کام میں سرے سے کوئی دخل ہے ہی نہیں۔ اول تو ان لوگوں کے خیال میں قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے قانون سازی کی اس کے عام مفہوم کے لحاظ سے اسلام میں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اوراگر کچھ ضرورت ہے بھی تو وہ علما کے فتوؤں یا امرا و خلفا کے آمرانہ احکام سے پوری کر لی جاتی ہیں اس مقصد کے لیے ان کے نزدیک اسلام میں اس قسم کا کوئی نظام نہیں پایا جاتا ہے جس قسم کے نظام مغربی طرز کی جمہوریتوں میں مجالس قانون ساز کے نام سے پایا جاتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ اسلام میں قانون کے مآخذ کتا ب اور سنت ہی ہیں جن چیزوں کے بارے میں کتاب و سنت کے اندر صریح احکام موجود ہیں ان میں مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اور ان کے اولوالامر کا منصب صرف ان قوانین کے اجرا و نفاذ تک محدود ہے، وہ ان قوانین و احکام کے اندر نہ کسی ترمیم و تنسیخ کے مجاز ہیں اور نہ ان کی جگہ دوسرے قوانین بنانے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن جن معاملات میں کتاب و سنت میں سکوت اختیار کیا گیا ہے ان میں امت کو قانون سازی کا پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ یہ حق کوئی محدود حق نہیں ہے بلکہ یہ نہایت وسیع دائرے کے اندر استعمال ہوتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث کے اندر بیشتر صرف بنیادی اور اصولی باتیں ہی بیان کی گئی ہیں جزئیات و تفصیلات سے ان میں بہت کم تعرض کیا گیا ہے اس خلا کو حالات و ضروریات کے تقاضوں کے تحت بھرنا نیز تمام پیش آنے والے اجتماعی و سیاسی معاملات میں اسلام کے منشا و مزاج کے مطابق قوانین بنانا امت کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے اور اس کے لیے ایک مکمل شورائی نظام خود کتاب و سنت کے اندر تجویز کر دیا گیا ہے جو مغربی جمہوریتوں کے نظام قانون سازی سے بدرجہا بہتر ہے۔

یہاں ہمارے لیے اس نظام کی تمام تفصیلات سے بحث کرنے کی گنجائش تو نہیں ہے لیکن دور رسالت دور صحابہ اور دور فقہا میں جس شکل میں یہ نظام قائم رہا ہے ہم اجمالی طور پر اس کا خاکہ یہاں پیش کرتے ہیں اور اس کی تائید میں کتاب و سنت کے جو نصوص ابتداء سے اب تک مسلمان اہل فکر کی رہنمائی کرتے رہے ہیں ضمناً ہم ان میں سے بھی چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے۔

دور رسالت میں شورائی نظام قانون سازی کی تاسیس

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ براہ راست وحی الہی کی رہنمائی حاصل تھی اور آپ کسی معاملے میں دوسروں سے مشورہ لینے کے محتاج نہ تھے لیکن اسلام میں شورائی نظام قانون سازی کے استحکام کے لیے چونکہ ضروری تھا کہ حضور خود اپنے طرز عمل سے اس کی بنیاد رکھیں اس وجہ سے آپ کو قرآن میں یہ حکم دیا گیا:

فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر۔(شوریٰ۔۳۸)
پس ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت چاہو اور اس سے معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے معاملات میں مشورہ لیتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم محض صحابہ کی دلداری اور حوصلہ افزائی ہی کے لیے تھا یا اس کی کوئی قانونی اہمیت بھی تھی اور ایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب فقہ حنفی کے مشہور ماہر حجتہ الاسلام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۷۰ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’احکام القرآن‘ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں دیا ہے:

وغیر جائزان یکون الامر بالمشاورۃ علی جھۃ تطییب نفوسھم ورفع اقدارھم ولتقتدی الامۃ بہ فی مثلہ لانہ لوکان معلوما عندھم انھم اذااستفرغوا مجھودھم فی استنباط ماشور وافیہ وصواب الرأی فیما سئلوا عنہ ثم لم یکن ذالک معمولا علیہ ولا متلقی منہ بالقبول بوجہ لم یکن فی ذالک تطییب نفوسھم ولارفع اقدارھم بل فیہ ایحاشھم واعلامھم بان آراء ھم غیر مقبولۃ ولا معمول علیھا۔ (احکام القرآن، ابوبکر جصاص جلد۲، ص ۴۹)
اور یہ بات ناجائز ہے کہ صحابہ سے مشورہ کرنے کا یہ حکم محض صحابہ کی دلداری اور ان کی عزت افزائی کے خیال سے دیا گیا ہو یا محض اس خیال سے دیا گیا ہو کہ اس طرح کے معاملات میں امت کو آپ کے اس طریقے کی اقتدا کرنے کی تعلیم دی جائے۔ حالانکہ صحابہ کو اگر یہ علم ہوتا کہ جب وہ زیر مشورہ امور میں اپنا سرکھپا کر کوئی رائے قائم کریں گے تو نہ تو اس پر عمل ہی ہو گا اور نہ ہی کسی پہلو سے اس کی قدر ہی کی جائے گی تو دلداری اور عزت افزائی کے بجائے الٹا اس کا اثر ان پر یہ پڑتا کہ وہ اس سے متوحش ہوتے اور سمجھتے کہ ان کی رائیں نہ قبول کیے جانے کے لیے ہیں نہ عمل کیے جانے کے لیے، بلکہ محض پیش کیے جانے کے لیے ہیں۔

حجۃ الاسلام کی اس تصریح سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک صحابہ سے مشورہ لیتے رہنے کا یہ حکم محض رسمی اور ظاہر دارانہ نہیں تھا، بلکہ اس لیے تھا کہ مشورہ لینے کے بعد ان مشوروں پر عمل بھی کیا جائے۔

حجۃ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اس مشورے کے حدود بھی نہایت واضح الفاظ میں متعین کر دیئے ہیں۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشورے صحابہ سے ان تمام امور میں حاصل کرتے تھے جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو، عام اس سے کہ یہ معاملات دینی نوعیت کے ہوں یا دنیوی نوعیت کے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

وقال اخرون کان ماموراً بمشاورتھم فی امور الدین والحوادث التی لا توقیف فیھا عن اللہ تعالی وفی امور الدنیا ایضاً مما طریقہ الرای وغالب الظن وقد شاورھم یوم بدر فی الاساریٰ وکان ذالک من امور الدین۔ (احکام القرآن، جلد۲، ص ۴۹)
اور ایک دوسرے گروہ کا مذہب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ سے مشورہ لینے کا یہ حکم دینی معاملات اور اس طرح کے حوادث میں بھی تھا جن کے بارے میں اللہ تعالی کی جانب سے کوئی متعین ہدایت واردنہ ہو چکی ہو اور ان دنیوی معاملات میں بھی تھا جن میں فیصلے رائے و مشورے اور گمان غالب کے تحت ہوا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقعہ پر قیدیوں کے بارے میں صحابہ سے مشورہ لیا حالانکہ یہ معاملہ دینی معاملات کی قسم میں سے تھا۔

صحابہ رضی اللہ عنھم سے مشورہ لیتے رہنے کی مذکورہ بالا قرآنی ہدایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اہتمام کے ساتھ عمل فرمایا اس کے متعلق ایک ایسے صحابی کی شہادت ملاحظہ ہو جو اپنے وقت کا بیشتر حصہ آپ کی صحبت میں بسر فرماتے تھے۔

عن ابی ھریرۃ قال مارأیت احداً کان اکثر مشورۃ لاصحابہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(رواہ احمد و الشافعی)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیتے رہنے والا کبھی کسی شخص کو نہیں پایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے معاملات میں صحابہ سے مشورے لیے ہیں ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان میں جنگی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی ہر قسم کے معاملات داخل ہیں۔ ان میں سے چند معاملات بطور مثال پیش کرتے ہیں۔

۱۔ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اول اول جس مقام پر پڑاؤ ڈالا جنگی مصلحت کے لحاظ سے وہ کچھ نامناسب تھا۔ بعض صحابہ نے اس پر سوال اٹھایا کہ آپ نے یہ وحی الٰہی کے اشارے سے کیا ہے یا محض ذاتی صوابدید سے۔ جب آپ نے واضح فرمایا کہ آپ نے محض جنگی مصلحت سے ایسا کیا ہے تو ایک صحابی نے اس سے اختلاف کیا اور چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا۔ بالآخر صحابہ سے مشورے کے بعد یہی رائے قرار پائی اور اسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد۳، ص ۵۴)

۲۔ غزوہ احزاب کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان کے سامنے یہ پیش کش کرنا چاہی کہ اگر وہ جنگ سے باز آ جائیں تو آپ ان کو مدینے کے پھلوں کا ثلث حصہ سالانہ دیتے رہیں گے۔ اس کے لیے ایک معاہدے کا مسودہ بھی قلم بند ہو چکا تھا لیکن جب آپ نے اس معاملے میں صحابہ، خصوصاً انصار کے لیڈروں سے مشورہ کیا تو انھوں نے اس سے شدت کے ساتھ اختلاف کیا اور کہا کہ ہم تو ان سے صرف تلوار سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی رائے قبول فرمائی اور معاہدے کا مسودہ چاک کرا دیا۔ (الطبقات الکبریٰ ابن سعد، جلد۳، ص ۱۱۱)

۳۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور طبقات الکبریٰ ابن سعد (جلد۳ ص۶۱) میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔

یہ چند واقعات بطور مثال ذکر کیے گئے ہیں۔ ان واقعات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ تمام اہم معاملات میں صحابہ سے مشورہ لیتے رہتے تھے بلکہ ان پر عمل بھی فرماتے تھے۔

شوریٰ، صحابہ اور خلفائے راشدین کے دور میں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب صحابہ کا دور آیا تو ان کے سامنے ایک طرف تو آپ کا مذکورہ بالااسوہ حسنہ تھا اور دوسری طرف قرآن و حدیث دونوں میں نہایت واضح ہدایات خود صحابہ کو دی گئی تھیں کہ وہ کس اساس پر اپنا سیاسی نظام قائم کریں اور اس میں قانون سازی کا طریقہ کیا ہو۔ ہم پہلے وہ قرآنی ہدایت نقل کرتے ہیں جس پر صحابہ کا قائم کردہ نظام سیاسی مبنی تھا۔ اس کے بعد احادیث اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے اس کی وضاحت کریں گے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید میں اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے:

وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ۔ (سورہ شوریٰ۔۳۸)
اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔

اس اصولی ہدایت کی وضاحت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی تھی:

حدثنی ابوسلمۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن الامر یحدث لیس فی کتاب ولاسنۃ فقال ینظر فیہ العابدون من المومنین۔ (سنن دارمی، باب التورع عن الجواب فیما لیس فی کتاب ولاسنۃ، ص ۲۸)
مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آن پڑے جس کا ذکر نہ تو کہیں قرآن میں ہو اور نہ سنت میں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے پر مسلمانوں کے صالح لوگ غور کر کے اس کا فیصلہ کرلیں گے۔

اسی مضمون کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے:

عن علی قال قلت یارسول اللہ ان عرض لی امرلم ینزل قضاء فی امرہ ولاسنۃ کیف تامرنی؟ قال تجعلونہ شوریٰ بین اھل الفقہ والعابدین من المومنین ولا تقض فیہ برأیک خاصۃ۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)
حضرت علی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر میرے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو نہ سنت میں تو اس معاملے میں آپ مجھے کیا روش اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس کو قانون اسلامی میں بصیرت رکھنے والوں اور صالحین کے مشورے سے طے کرو اور اس میں تنہا اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو۔

چنانچہ اسی اصول پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ نے نظام خلافت کی بنیاد رکھی جس میں خلیفہ کے انتخاب میں بھی جمہور مسلمین کے مشورے کی شرط لازمی ٹھہری اور خلافت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی شوری کو ضروری قرار دیا گیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر جو اسلام میں پہلے خلیفہ ہیں مسلمانوں کے مشورہ عام سے خلیفہ بنے اور خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے تمام معاملات کا فیصلہ جن کے بارے میں ان کو کتاب و سنت میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ان لوگوں کے مشورے سے کیا جو جمہور مسلمین کے معتمد لیڈ رتھے اور علم و دیانت کے لحاظ سے لوگوں میں بہتر خیال کیے جاتے تھے۔ ان کے طرز عمل سے متعلق سنن دارمی کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:

حدثنا میمون بن مھران فقال کان ابوبکر اذا ورد علیہ الخصم نظر فی کتاب اللہ فاذا وجد فیہ ما یقضی بینھم قضی بہ وان لم یکن فی الکتاب وعلم من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ذالک الامر سنۃ قضیٰ بہ فان اعیاہ خرج فسأل المسلمین وقال اتانی کذا وکذا فھل علمتم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضیٰ فی ذالک بقضاء فربما اجتمع الیہ النفر کلھم یذکر من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیہ قضاء فیقول ابوبکر الحمد للہ الذی جعل فینا من یحفظ علم نبینا فان اعیاہ ان یجد فیہ سنۃ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمع رؤس الناس وخیارھم فاستشارھم فاذا اجتمع رأیہم علی امر قضیٰ بہ۔
ہم سے میمون بن مہران نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوبکر کے پاس فریق معاملہ کوئی مقدمہ لاتے تو وہ پہلے اس پر کتاب اللہ کی روشنی میں غور کرتے۔ اگر اس میں ان کو کوئی ایسی چیز مل جاتی جس سے ان کے معاملے کا فیصلہ ہو سکتا تو اس کے مطابق وہ اس کا فیصلہ کر دیتے اور اگر کتاب اللہ میں ان کو اس فیصلے کے لیے کوئی چیز نہ ملتی اور سنت رسول اللہ میں کوئی چیز مل جاتی تو پھر اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ لیکن اگر سنت رسول اللہ میں بھی کوئی چیز نہ پاتے تو مسلمانوں سے دریافت کرتے کہ میرے سامنے اس اس طرح کا معاملہ آیا ہے کیا کسی شخص کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا فیصلہ ہے جو اس قسم کے معاملے سے متعلق ہو؟ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ کے پاس متعدد ایسے اشخاص جمع ہو جاتے جو اس قسم کے معاملے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ بیان کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابوبکر اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ امت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو رسولؐ کا علم محفوظ کیے ہوئے ہیں لیکن اگر اس تلاش کے بعد بھی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت نہ ملتی تو پھر قوم کے لیڈروں اور ان کے اچھے لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے اور جب وہ کسی بات پر جم جاتے تو اس کے مطابق وہ معاملے کا فیصلہ کر دیتے۔

حضرت عمرؓ کے دور میں تمام سیاسی و اختلافی امور میں شوریٰ کا جو اہتمام رہا اس کا تذکرہ شاہ ولی اللہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے:

کان من سیرۃ عمر رضی اللہ انہ کان یشاور الصحابۃ ویناظرھم حتی تنکشف الغمۃ وتاتیہ الثلج فصار غالب قضا یاہ وفتاواہ متبعۃ فی مشارق الارض ومغاربھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ جلد۱۔ ص ۱۳۲)
حضرت عمرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ معاملات میں صحابہ سے مشورہ کرتے اور ان سے بحث کرتے یہاں تک کہ الجھن دور ہو جاتی اور دل پوری طرح مطمئن ہو جاتا۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ ان کے فتوے اور فیصلے تمام مشرق و مغرب میں معمول بہ بنے۔

صرف حضرت عمرؓ کے زمانے ہی کے متعلق نہیں بلکہ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے تک کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہی ہے کہ انتظام ملکی اور قانون سازی سے متعلق سارے معاملات شوریٰ کے ذریعے سے ہی انجام پاتے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب اپنی مشہور تصنیف ’ازالۃ الخفاء‘ میں فرماتے ہیں:

تحقیق آنست کہ تازمان حضرت عثمانؓ اختلاف مسائل فقیہہ واقع نمی شد درمحل اختلاف بخلیفہ رجوع مے کروندو خلیفہ بعد مشاورت امرے اختیار مے کرد و ہماں امر مجمع علیہ مے شد۔ (ازالۃ الخفاء حضرت شاہ ولی اللہ صاحب، مقصد اول۔ ص۱۳۰)
اور اس معاملے میں تحقیق یہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانے تک فقہی اختلافات برپا ہونے نہیں پائے تھے۔ جب کوئی اختلافی مسئلہ پیدا ہوتا تو لوگ خلیفہ کی طرف رجوع کرتے اور خلیفہ مشورہ کرنے کے بعد ایک رائے قائم کرتا اور پھر وہی رائے اجماعی فیصلے کی حیثیت اختیار کر لیتی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس شورائی نظام نے جس حد تک ترقی کی اس کی تفصیل مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تصنیف ’الفاروق‘ میں وضاحت کے ساتھ پیش کی ہے۔ چونکہ یہ ساری بحث نہایت مضبوط دلائل پر مبنی ہے اور سارا مواد بحث انھوں نے طبقات ابن سعد، کنز العمال، تاریخ طبری اور قاضی ابویوسف صاحب کی کتاب الخراج وغیرہ جیسی مشہور اور مستند کتابوں سے لیا ہے اس وجہ سے ہم اس کے بعض ضروری حصوں کا اقتباس یہاں پیش کرتے ہیں۔

فاضل مصنف حضرت عمرؓ کی خلافت میں مجلس شوری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان سب میں اصل الاصول مجلس شوری کا انعقاد تھا۔ یعنی جب کوئی انتظام پیش آتا تھا تو ہمیشہ ارباب شوری کی مجلس منعقد ہوتی تھی اور کوئی امر بغیر مشورے اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آ سکتا تھا۔ تمام جماعت اسلام میں اس وقت دو گروہ تھے جو کل قوم کے پیشوا تھے اور جن کو تمام عرب نے گویا اپنا قائم مقام تسلیم کر لیا تھا یعنی مہارجرین و انصار مجلس شوری میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہوں کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے اوس و خزرج۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوری میں شریک ہونا ضروری تھا۔ مجلس شوری کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمان، حضرت علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنھم اس میں شامل تھے۔ مجلس کے انعقاد کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا کہ الصلوۃ جامعۃ، یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ جب لوگ جمع ہو جاتے تھے تو حضرت عمر مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا۔
معمولی اور روزمرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی امر اہم پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پاتا تھا۔ مثلاً عراق و شام کے فتح ہونے پر جب بعض صحابہ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر میں دے دئیے جائیں تو بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی جس میں تمام قدمائے مہاجرین اورانصار میں سے عام لوگوں کے علاوہ دس بڑے بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن میں پانچ شخص قبیلہ اوس اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے۔ شریک ہوئے۔ کئی دن تک مجلس کے جلسے ہوتے رہے اور نہایت آزادی و بیباکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے جو تقریر کی اس کے جستہ جستہ فقرے ہم اس لحاظ سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے منصب خلافت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کے اختیارات کا اندازہ ہوتا ہے۔
انی لم ازعجکم الا لان تشرکوا فی امانتی فیما حملت من امورکم فانی واحد کا حدکم ولست ارید ان تتبغوا کذالذی ھوای۔
میں نے آپ حضرات کو صرف اس لیے زحمت دی ہے کہ آپ کے معاملات کی دیکھ بھال کا جو بار امانت مجھ پر ڈالا گیا ہے آپ اس کے اٹھانے میں میری مدد کریں۔ میں تم ہی جیسا ایک شخص ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ آپ اس چیز کا اتباع کریں جو میری خواہش کے مطابق ہو۔ ۱؂
۲۱ھ میں جب نہاوند کا سخت معرکہ پیش آیا اور عجمیوں نے اس سروسامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خود خلیفہ وقت کا اس مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شوری منعقد ہوئی۔ حضرت عثمانؓ، طلحہؓ بن عبیداللہ، زبیرؓ بن العوام، عبدالرحمنؓ بن عوف وغیرہ نے باری باری کھڑے ہو کر تقریریں کیں اور کہا کہ آپ کا خود موقع جنگ پر جانامناسب نہیں۔ پھر حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کی تائید میں تقریر کی۔ غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمرؓ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ اسی طرح فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کو تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص، اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں تصریح مذکور ہے کہ مجلس شوری میں پیش ہو کر طے پائے۔
مجلس شوری کا انعقاد اور اہل الرائے کے مشورے استحسان اور تبرع کے طور پر نہ تھے بلکہ حضرت عمر نے مختلف موقعوں پر صاف صاف فرما دیا تھا کہ مشورے کے بغیر خلافت سرے سے جائز ہی نہیں۔ ان کے خاص الفاظ یہ ہیں۔ ’’لاخلافۃ الاعن مشورۃ‘‘ مجلس شوری کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورت کے پیش آنے کے وقت ہوتا تھا لیکن اس کے علاوہ ایک اورمجلس تھی جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھی اور صرف مہاجرین صحابہ اس میں شریک ہوتے تھے۔ صوبجات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں حضرت عمرؓ ان کو اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہوتا تھا تو اس میں لوگوں سے استصواب کیا جاتا تھا۔ مجوسیوں پر جزیہ مقرر کرنے کا مسئلہ اول اسی مجلس میں پیش ہوا تھا۔ مورخ بلاذری نے اس مجلس کا حال ایک ضمنی تذکرے میں ان الفاظ میں لکھا ہے:
کان للمہاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معھم فیہ ویحدثھم عما ینتہی الیہ من امور الآفاق فقال یوماً ماادری کیف اضع بالمجوس۔
مہاجرین کی ایک مجلس مسجد نبوی میں اپنی نشست کیا کرتی تھی۔ حضرت عمرؓ اس کے سامنے وہ تمام حالات رکھا کرتے تھے جو مملکت کے مختلف گوشوں سے ان کو پہنچا کرتے تھے۔ اس مجلس میں ایک روز انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مجوس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ ۲؂

حضرت عمر کے زمانے میں نہ صرف اہم امور ملکی شوریٰ سے انجام پاتے تھے بلکہ صوبوں اور اضلاع کے حکام بھی اکثر رعایا کی مرضی سے مقرر کیے جاتے تھے۔ چنانچہ یہی علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الخراج قاضی ابویوسف کے حوالے سے لکھتے ہیں:

کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال مقرر کیے جانے لگے تو حضرت عمر نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی اپنی پسند سے ایک ایک شخص کا انتخاب کر کے بھیجیں جو ان لوگوں کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانتدار اور قابل ہو۔ چنانچہ کوفے سے عثمان بن فرقد بصرے سے حجاج بن علاط، شام سے معن بن یزید کو لوگوں نے منتخب کر کے بھیجا اور حضرت عمرؓ نے انہی لوگوں کو ان مقامات کا حاکم مقرر کیا۔ قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے یہ ہیں:
کتب عمر بن الخطاب الی اہل الکوفۃ یبعثون الیہ رجلا من اخیرھم واصلحہم والی اھل البصرہ کذالک والی اھل الشام کذالک۔ قال فبعث الیہ اھل الکوفۃ عثمان بن فرقد، وبعث الیہ اھل الشام معن بن یزید و بعث الیہ اھل البصرہ الحجاج بن علاط کلہم سمیون قال فستعمل کل واحدمنہم علی خراج ارضہ۔ ۳؂

مجلس شوری کی نوعیت اور اس کے ارکان کی صفات

مجلس شوری کی نوعیت اوراس کے ارکان کی صفات سے متعلق بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شوریٰ صرف علما اور فقہا پر مشتمل ہوتی تھی۔ دوسرے لوگوں کو اس میں بار حاصل نہ تھا۔ بعض لوگ اس کو ایک بالکل مبہم اور غیر متعین چیز سمجھتے ہیں یعنی خلیفہ جن اشخاص سے چاہے مشورہ کر لے، کسی متعین شوری سے مشورہ کرنے کا وہ پابند نہیں ہے۔ ان غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے چند ضروری باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اہل شوری کی صفات سے متعلق مندرجہ ذیل ہدایت دی گئی ہے۔

وَاِذَا جَآءَ ھُمْ اَمْر’‘ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِالْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۔ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُونَہ‘ مِنْہُمْ۔(سورہ النساء۔ ۸۳)
اور جب ان کو امن یا خطرے کی کوئی اطلاع ملتی ہے تو اس کو پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ اس کو رسول اور اپنے اہل حل و عقد کے سامنے پیش کرتے تو اس کو وہ لوگ جو اہل بصیرت ہیں ٹھیک طور پر سمجھ سکتے۔

اسلامی نظام میں جن لوگوں کے سامنے معاملات پیش کیے جانے چاہئیں اس آیت میں ان کی دو صفتیں متعین طور پر بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کے اولی الامر یعنی سربراہ کار ہوں، دوسرے یہ کہ وہ اہل استنباط یعنی معاملات کی سوجھ بوجھ اور دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والے ہوں۔ ہمارے مفسرین نے مذکورہ بالا الفاظ کی یہی تفسیر کی ہے۔

’’کشاف‘‘ میں مذکورہ آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کی گئی ہے۔

ھم کبراء الصحابۃ البصراء بالامور۔ (کشاف جلد۱، ص ۲۱۶)
اس سے مراد اکابر صحابہ اور اہل بصیرت لوگ ہیں۔

اسی کے ہم معنی الفاظ امام نیشا پوری اور امام رازی کی تفسیر میں وارد ہیں۔

روایات سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شوریٰ کے لیے وہ لوگ بلائے جاتے تھے جو عوام کے معتمد لیڈر اور دینی و دنیوی معاملات میں بصیرت رکھنے والے اور مسلمانوں کے سربراہ کار ہوتے تھے۔ اس معاملے میں بوڑھے اور جوان کی بھی تخصیص نہ تھی۔ چنانچہ بخاری، کتاب التفسیر، سورہ اعراف میں حضرت ابن عباس کا قول مروی ہے کہ:

کان القراء اصحاب مجالس عمر و مشاورتہ کھولا کانوا اوشبانا۔
حضرت عمرؓ کی مجالس مشورت میں ذی علم لوگ ہوا کرتے تھے خواہ وہ سن رسید ہوں یا جوان ہوں۔

حضرت ابوبکر کے متعلق اوپر گزر چکا ہے کہ وہ مشورے کے لیے مسلمانوں کے لیڈروں اور ان کے اخیار کو بلاتے تھے۔

جمع رؤس الناس وخیارھم۔

بعض روایات میں ایک جامع لفظ صالحین کا بھی استعمال ہوا ہے۔

تاریخ اور سیرت میں متعین طور پر جن اصحاب شوری کے نام ملتے ہیں وہ یہ ہیں:

حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن معاذ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم وغیرہ۔

ان ناموں پر غور کر کے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ لوگ یا تو مختلف اسلامی پارٹیوں کے معتمد علیہ لیڈر تھے یا دینی و مذہبی بصیرت کے اعتبار سے کوئی نمایاں مقام مسلمانوں میں رکھتے تھے۔ مثلاً حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما مہاجرین کے مسلّم لیڈر تھے اور مذہبی بصیرت اور سیاسی سوجھ بوجھ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ انصار کی دونوں پارٹیوں (اوس و خزرج) کے لیڈر تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ بنو امیہ کے لیڈر تھے۔ عبدالرحمن بن عوف بنوزہرہ کے لیڈر تھے۔ حضرت علیؓ بنی ہاشم کے لیڈر تھے، معاذؓ بن جبل، ابی بن کعبؓ اور زیدؓ بن ثابت قرآنی علوم اور فقہ کے ماہرین میں سے تھے۔

 

________

۱؂ یہ ترجمہ ’’الفاروق‘‘ میں نہیں ہے بلکہ ہم نے کیا ہے۔

۲؂ عربی عبارت کا ترجمہ ہماری طرف سے ہے۔ بقیہ ساری عبارت ’’الفاروق‘‘ صفحہ ۴۱۔۴۲ سے منقول ہے۔

۳؂ ’’الفاروق‘‘ مصنفہ شبلی نعمانی بحوالہ کتاب الخراج قاضی ابویوسف۔

____________

 

B