ہم پہلے مختصر طور پر اجتہاد کی حقیقت واضح کریں گے اس کے بعد عہد حاضر میں اس کی اہمیت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
عربی زبان میں ’اجتہاد‘ کے معنی انتہائی اور بھرپور کوشش کرنے کے ہیں، لیکن یہ عربی زبان کا صرف ایک لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی اصول قانون کی ایک نہایت اہم اصطلاح بھی ہے۔ اسلامی قانون کے تین اہم اور بنیادی ماخذ ہیں: کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجتہاد۔۔۔اسلام نے قانون اخذ کرنے کی ترتیب یہ مقرر کی ہے کہ جب ہماری زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کے بارے میں ہمیں خدا کا قانون معلوم کرنا ہو تو سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہیے اگر اس میں کوئی واضح بات نہ ملے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوچ کرنا چاہیے اگر اس میں بھی کوئی واضح بات نہ ملے تو پھر اجتہاد کرنا چاہیے۔ یعنی پھر کتاب و سنت کے اشارات، ان کے مقتضیات و مضمرات عہد نبوی کے امثال و نظائر، صحابہ اور خلفائے راشدین کے تعامل اور شریعتِ اسلامی کے مزاج کو سامنے رکھ کر اس پیش آمدہ صورت کے لیے حکم متعین کرنا چاہیے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کتاب و سنت کے واضح نصوص سے کوئی حکم معلوم کرنا ہو تو یہ کام کچھ مشکل نہیں ہے اگر ایک آدمی عربی زبان سے واقف ہو تو وہ یہ کام آسانی سے کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں واضح نصوص کے بجائے اشارات، مقتضیات، قیاس، استنباط اور امثال و نظائر وغیر سے کام لے کر خود ایک حکم لگانا یا فتویٰ دینا ہو تو یہ کام کوئی آسان کام نہیں رہ جاتا بلکہ ایک بڑا مشکل فنی کام بن جاتا ہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ چیز دیکھنی پڑتی ہے کہ آدمی کو اسلامی قانون کی اصل زبان یعنی عربی میں پوری مہارت ہو، کیونکہ پوری مہارت کے بغیر کوئی شخص کسی زبان کے اشارات و اسالیب اور اس کے استعمالات کو اس طرح نہیں سمجھ سکتا کہ ان کی رہنمائی میں پیش آمدہ حالات کے لیے حکم یا قانون اخذ کر سکے جو شخص اسلامی قانون کی اصل زبان سے اچھی طرح واقف ہو وہی معلوم کر سکتا ہے کہ ایک قانون جو بیان ہوا ہے تو اس کے الفاظ کا ظاہری مفاد کیا ہے اس کے اشارات سے کیا باتیں نکلتی ہیں، اور اس کے معنوی تقاضے کن حقائق کی طرف رہبری کر رہے ہیں۔ اس طرح کی باریکیاں ہر زبان میں ہوتی ہیں اور قانون میں ان باریکیوں کی ہر شخص جانتا ہے کہ بڑی اہمیت ہے۔ اس میں کامے اورڈیش کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون کے اجتہادات پر جب آپ نظر ڈالیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گاکہ بعض معاملات میں اہل اجتہاد کے اجتہادات صرف اس وجہ سے مختلف ہو گئے کہ بعض اہل اجتہاد قرآن کے کسی لفظ پر وقف یا ٹھہراؤ کے قائل ہیں۔ دوسروں کے نزدیک وہ ٹھہراؤ معتبر نہیں ہے۔ زبان کی انھی مشکلات اور نزاکتوں کی وجہ سے اسلامی اصول قانون (اصول فقہ) میں ایک طویل بحث الفاظ و اسالیب کے تقاضوں کی وضاحت کے لیے بھی ہوتی ہے اور آپ اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس بحث کا بہت بڑا حصہ اسلامی قانون سے براہ راست تعلق رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس کو سمجھے بغیر کوئی شخص اسلامی قانون میں اجتہاد کے لوازم نہیں پورے کر سکتا۔ اب غور کیجیے کہ جب صورتِ حال یہ ہے تو کوئی شخص اسلامی قانون کی اصل زبان میں مہارت کا درجہ نہ رکھتا ہو وہ یہ مشکل کام کس طرح انجام دے سکتا ہے؟
دوسری چیز جو اس کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اصل قانون کے ماخذ اس کے تدریجی ارتقا، اس کے نظام و ترتیب اس کی ترمیمات و تخفیفات اور اس کے اجتہادی ذخائر پر نگاہ رکھتا ہو۔ اسلامی قانون پر عمل اور اجتہاد کی صدیاں گزری ہیں۔ اس کے اصول اجتہاد کے مختلف سکول بن چکے ہیں اور یہ اصول اجتہاد ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں موجود ہے۔ جب تک کوئی شخص ان ساری چیزوں پر گہری نظر نہ رکھتا ہو اس کے لیے نہ سابق اجتہادات کی قدروقیمت کا اندازہ کرنا ممکن ہے اور نہ کسی نئے اجتہاد کے لیے صحیح فکری مواد فراہم کرنا ممکن ہے۔
انھی اسباب سے اجتہاد کے کام کو ایک مشکل کام بتایا گیا ہے اور اسلام میں اس کے لیے وہی شخص اہل قرار دیا گیا ہے جو اسلامی قانون کی اصل زبان اور ساتھ ہی اسلامی قانون میں مہارت رکھتا ہو۔ یہ مہارت جس مسلمان کو حاصل ہو وہ اسلام میں اجتہاد کا مجاز ہے، عام اس سے کہ وہ شخص آزاد ہے یا غلام، مرد ہے یا عورت، عجمی ہے یا عربی۔ اس وجہ سے یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد پر اپنا اجارہ قائم کر رکھا ہے۔ اجتہاد پر کسی طبقہ یا گروہ کا اجارہ نہیں ہے بلکہ قانون اسلامی کے ماہرین کا اجارہ ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی شخص یہ مہارت بہم پہنچا لے تو اس کو اس حقِ اجتہاد سے کوئی شخص محروم نہیں کر سکتا۔ برعکس اس کے اگر ایک شخص علما ہی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والا ہو لیکن اسلامی قانون میں اس کو مہارت حاصل نہ ہو تو اسلام کے شرائط اجتہاد کی رو سے اسے بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اجتہاد کرے۔
بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اجتہاد کے معنی کسی قانونی مسئلہ پر آزادانہ اظہار رائے کے ہیں۔ ان لوگوں کا غالباً یہ خیال ہے کہ جس چیز کے بارے میں کتاب و سنت کے اندر کوئی حکم موجود نہ ہو اس میں ہر شخص مجرد اپنی عقل کی رہنمائی میں اظہار رائے کر سکتا ہے اور یہی چیز ہے جس کو اسلام نے اجتہاد کہا ہے۔ بلکہ بعض لوگوں کے بیانات سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود اسلامی قانون کو بدل دینے کا نام اجتہاد رکھتے ہیں۔ جو لوگ اجتہاد کے من مانے مفہوم سمجھتے ہیں۔ قدرتی طور پر ان کو یہ بات کچھ گراں سی گزرتی ہے کہ اسلام میں یہ تصرف کرنے کاحق علما کو تو حاصل ہو، لیکن ہم نے آپ کے سامنے اجتہاد کاجو مفہوم واضح کیا ہے اس سے آپ کو یہ اندازہ بخوبی ہو گیا ہو گا کہ اجتہاد کے معنی نہ تو کسی قانونی مسئلہ پر مجرد اظہار رائے کے ہیں اور نہ اسلامی قانون کو بدل دینے کے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں کتا ب و سنت کے واضح نصوص کی رہنمائی موجود نہ ہو وہاں ان کے اشارات اور تقاضوں سے رہنمائی حاصل کرنا۔
اجتہاد کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد اب آیئے اس کی اہمیت کے پہلو پر غور کیجیے۔
ایک آزاد معاشرہ کے اسلام پر قائم رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے دیے ہوئے احکام و قوانین پر عمل کرے۔ اگر کسی معاملہ میں اس کو خدا اور رسول کی تعلیمات میں کوئی واضح حکم نہ ملے تو پھر ان کے اشارات و مقتضیات کی روشنی میں اجتہاد کر کے خدا اور رسول کے احکام سے قریب تر حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اجتہاد غلط بھی ہو سکتا ہے۔ صحیح بھی ہو سکتا ہے لیکن مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی صورتوں میں خدا اور رسول کی رہنمائی کی طلب سے بے نیاز ہو جائے تو اس کی پوری زندگی غیر اسلامی ہو جائے گی اگرچہ وہ اپنی زندگی کے بعض گوشوں میں اسلامی احکام و قوانین ہی پر چل رہا ہو۔
اس وجہ سے خدا اور رسول کے ساتھ اپنے رشتہ کو استوار رکھنے کے لیے ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ جن معاملات میں ہماری رہنمائی کے لیے خدا اور رسول کے واضح احکام نہیں ہیں ان میں یا تو ہم دوسرے مجتہدین کے اجتہادات کو اختیار کریں یا اجتہاد کے شرعی اصولوں پر اجتہاد کر کے ان کے بارے میں احکام متعین کریں۔ بغیر اس کے اسلام کے ساتھ ہمارا تعلق باقی نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہم اپنی مادی زندگی کے بقا کے لیے جتنے محتاج ہوا اور پانی کے ہیں اس سے زیادہ محتاج ہم اپنی روحانی زندگی کے بقا کے لیے اجتہاد کے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا۔
اجتہاد کی یہ اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی جو معاشرہ خدا اور رسول کے احکام و قوانین کے تحت زندگی بسر کرنا چاہے گا اس کے لیے اجتہاد سے مفر نہیں ہے لیکن اس دور میں اس کی اہمیت کے بعض نئے پہلو بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ ان کی طرف بھی اجمال کے ساتھ اشارہ کر دیں۔
اس وقت لوگوں کے اندر یہ عام خواہش پائی جاتی ہے کہ اسلامی قانون کو جدید طرز پر ایک ضابطہ قوانین کی شکل میں مرتب کر دیا جائے تاکہ حکومت اور عدالتوں کے لیے اس کی مراجعت آسان ہو جائے۔ یہ خواہش ہمارے معاشرے کی ایک اہم ضرورت کے احساس سے پیدا ہوئی ہے۔ اس ضرورت ہی کے تحت اسلامی قانون کی تدوین کے لیے ایک کمیشن بھی ایک زمانے میں مقرر ہوا تھا۔ ہمارے معاشرہ کی یہ ضرورت اور یہ خواہش جب بھی پوری ہو گی اس کے پورے ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک فقہ کی تقلید کے بجائے اس مقصد کے لیے پوری اسلامی فقہ کو اچھی طرح کھنگال کر ایک جامع ضابطہ قوانین ضروریاتِ زمانہ کے مطابق بنایا جائے۔ مختلف اسلامی فقہوں کو اس نگاہ سے دیکھنا اور ان کے مختلف اقوال و مذاہب میں سے کسی ایک قول و مسلک کو دلائل کی کسوٹی پر پرکھ کو اختیار کرنا، یہ بھی اجتہاد ہے۔ اس اجتہاد کے بغیر آپ اپنے معاشرے کی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔ اگر کسی ایک فقہ کی تقلید پر اس کام کی بنیاد رکھی گئی تو ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس صورت میں موجودہ زمانے کی ضروریات کے مطابق کوئی ضابطہ قوانین مرتب کرنا مشکل ہے۔
اسی طرح سائنس کی غیر معمولی ترقیوں نے بھی اس دور میں بہت سے نئے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل پیدا کر دیے ہیں جو اگلے مجتہدین کے زمانوں میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ان مسائل پر اسلام کی روشنی میں غور کر کے اگر اس دور کے اصحاب اجتہاد نے کوئی رہنمائی نہ دی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ ان مسائل میں من مانے طور پر رائیں قائم کریں گے اور اسلام کے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوں گے کہ وہ اس سائنٹیفک دور کے حالات و مسائل کے لیے اپنے اندر کوئی رہنمائی نہیں رکھتا۔ ہم اس موقع پر اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل پر انفرادی طور پر جو رائیں ظاہر کی جا رہی ہیں خواہ علمائے دین کی طرف سے یا غیر علمائے دین کی طرف سے ان سے ایک ذہنی انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح کے مسائل پر صحیح رائے قائم کرنے کے لیے مذہب کے گہرے مطالعہ کی بھی ضرورت ہے اور ان سوالات کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے جو فی الواقع سائنس کی ترقیوں نے پیدا کر دیے ہیں۔ اس وجہ سے علما اور غیر علما دونوں ہی گروہوں کے لیے ہمارا ناچیز مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل پر اپنے اپنے طور پر اظہار رائے کے بجائے اجتماعی طور پر غور کرنے اور رائے قائم کرنے کی کوئی شکل اختیار کریں۔ تاکہ وہ اپنے معاشرے کو صحیح رہنمائی دے سکیں۔
بہرحال جہاں تک اجتہاد کی اہمیت و ضرورت کا تعلق ہے اس کی اہمیت و ضرورت، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں نہ پہلے کم تھی نہ اب کم ہے۔ البتہ اس اجتہاد کو عنداللہ مقبول اور عندالناس قابل اعتماد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام وہ لوگ کریں جو علمی اور اخلاقی دونوں ہی اعتبارات سے اس کے لیے اہل اور موزوں ہوں۔
ہم اس موقع پر ایک ضروری بات آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ مسلمانوں میں اجتہاد کو چھوڑ کر تقلید کی راہ اختیار کرنے کا جو میلان پیدا ہوا تو وہ یونہی اتفاق سے نہیں پیدا ہو گیا بلکہ اس کے دو بڑے سبب ہوئے ہیں۔
ایک سبب اس کا یہ ہوا کہ جب دین سے بے پروا امرا و سلاطین نے اقتدار حاصل کیا اور دنیا پرست علما ان کے درباروں سے وابستہ ہوئے تو ان علما نے ان امرا کے دباؤ سے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خدا کی شریعت میں بے جا تصرفات کیے اور ایسے فتوے اور احکام لوگوں کے سامنے آئے تو لوگ ان امرا اورعلما سے بدگمان اور متنفر ہوئے اور انہوں نے اپنے دین اور اپنی آخرت کی سلامتی اس چیز میں دیکھی کہ ان دنیا پرست علما کے اجتہادات پر عمل کرنے کے بجائے اپنے ان اسلاف کے اجتہادات اور فتوؤں کی تقلید کریں جن کے متعلق وہ جانتے تھے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر تو ان جابرو ظالم امرا و سلاطین کے ہاتھوں سارے مصائب و شدائد جھیل لیے لیکن خدا کے دین میں کسی دراندازی کے لیے انہوں نے کوئی راہ کھلنے نہ دی۔
دوسرا سبب اس کا یہ ہوا کہ جب مسلمانوں میں امرا و سلاطین کی سرپرستی سے یونانی فلسفہ اور عجمی علوم کا زور ہوا اور یہی علوم سرکاری تقرب کا وسیلہ بنے تو شریعت کے علوم سے لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہو گئی اور اس میں مہارت حاصل کرنے کا وہ ولولہ لوگوں کے اندر سرد پڑ گیا جو اجتہاد کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ چیز بھی منجملہ ان اسباب کے ایک ہے جس سے مسلمانوں میں تقلید کا رجحان ترقی پایا ہے۔ لوگ مجتہد کے اندر امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا کمال فن ڈھونڈھتے تھے۔ جب لوگوں نے بعد والوں کو اس سے خالی پایا تو اس چیز نے ان کے تقلید کے رجحان کو اور زیادہ مستحکم کر دیا۔
اب اگر تقلید کو ختم کرنا اور اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہے تو یہ ایک مبارک کام ہے اس کو شوق سے کیجیے کوئی آپ کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ لیکن اجتہاد کے بند دروازے کو کھولنے سے پہلے ان اسباب کو دور کرنا ضروری ہو گا جو اس کے بند ہونے کے باعث ہوئے تھے۔ اگر یہ اسباب دور نہ ہوئے تو یاد رکھیے کہ اجتہاد کا دروازہ کھول دینے کے باوجودہ بھی بند ہی رہے گا کیونکہ ان لوگوں کے اجتہادات کو قبول کرنے کے لیے مسلمانوں کے دل ہمیشہ بند ہی رہیں گے جو علمی اور اخلاقی اعتبار سے اس کار عظیم کے لیے موزوں نہیں ہوں گے۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو علمی اور اخلاقی دونوں اعتبارات سے اجتہاد کا اہل بنائیے۔ ہماری آرزو ہے کہ ملت اسلامیہ میں قانون کے وہ ماہر پیدا ہوں جو دنیا پر اسلامی قانون کی حجت قائم کر سکیں اور جو اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے اتنے مضبوط اور بے لچک ہوں کہ مسلمان ان پر یہ بھروسہ کر سکیں کہ یہ کسی خوف یا کسی طمع سے مرعوب یا متاثر ہو کر خدا اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی اورچال بازی نہیں کریں گے۔ قانون کے متعلق آپ حضرات جانتے ہیں کہ تمام عدل و انصاف کا انحصار اسی پر ہوتا ہے اس وجہ سے قانون اور اہل قانون سے متعلق ہر قوم میں ذمہ داری اور احترام کا ایک خاص احساس پایا جاتا ہے۔ اسلام میں یہ چیز دوسروں کی نسبت سے کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون بادشاہوں، پارلیمنٹوں اور قانون ساز اداروں کا بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ خدائے احکم الحاکمین کا اتارا ہوا ہے۔ اس میں اجتہاد کا جو حق ملا ہے وہ خدا اور رسول کی طرف سے ایک مقدس امانت ہے۔ اس کے استعمال کرنے میں اگر ہم ذرا بھی نفس کی جنبہ داری میں مبتلا ہو جائیں تو اس سے ہم اپنی آخرت بھی تباہ کر لیں گے اوردوسرے بندگان خدا کی آخرت بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔
____________