اگر اس ملک میں اسلامی قانون کا نفاذ مدنظر ہو تو یہ کام دفعتہ نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے زمین تیار کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس تیاری کے لیے جو باتیں ضروری ہیں ہم مختصر طور پر ان کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم کی اصلاح ضروری ہے۔ اس کی اصلاح کی اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی قانون جس تصور حیات اور جن عقائد و نظریات پر مبنی ہے ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم اس سے بالکل مختلف تصور حیات اور بالکل متضاد و عقائد و نظریات پر مبنی ہے۔ اس تصور حیات اوران عقائد و نظریات کے ساتھ اسلامی قانون کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جن عقائد و نظریات کی تعلیم ہمارے کالجوں اور ہماری یونیورسٹیوں میں دی جا رہی ہے۔ اگر انھی کے اوپر ہم اسلامی قانون کا پیوند لگانے کی کوشش کریں گے تو اسلامی قانون کبھی پروان نہ چڑھ سکے گا، بلکہ بہت جلد وہ اس زمین اور اس آب و ہوا کو ناساز گار پاکر خشک ہو جائے گا۔ اسلامی قانون کی کامیابی کے لیے پہلی چیز ذہنوں کی تیاری ہے۔ یہ قانون جب اہل عرب کو دیا گیا تو اس سے پہلے ایک طویل عرصہ تک ان کے ذہنوں اور دماغوں کو صاف کیا گیا اور زندگی کے متعلق ان کے تصورات و نظریات درست کیے گئے۔ جب ان کے نظریات درست ہو گئے تو ایک مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو یہ قانون دیا گیا اور ا نہوں نے اس کو اس طرح قبول کیا جس طرح ایک بھوکا غذا کو ایک پیاسا پانی کو قبول کرتا ہے۔ اگر اس ذہنی تزکیہ کے بغیر کسی مصنوعی طریقہ سے اس قانون کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی تو طبیعتیں اس کے خلاف بغاوت کرتیں اول تو اس کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیتیں اور اگر یہ کسی طرح غالب ہو جاتا تو وہ اس سے چھٹکاراپانے کے لیے زور لگاتیں۔
جس طرح ہمارا جدید نظام تعلیم اسلام اور اسلامی قانون کے نقطہ نظر سے بالکل غلط چل رہا ے اسی طرح بدقسمتی سے ہمارا پرانا نظامِ تعلیم بھی اسلامی قانون کے نفاذ کے مقصد کو کچھ تقویت پہنچانے والا نہیں ہے، بلکہ اس کو کچھ نقصان ہی پہنچانے والا ہے۔ یہ نظام تعلیم بھی حالات کی انتہائی ناموافقت کے باوجود مذہب ہی کی خدمت کے لیے قائم رہا ہے، لیکن ایک عرصہ دراز سے اس کے اندر ایسی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں جن کی موجود گی میں وہ مفید کم اور مضر زیادہ ہے۔ اس کی عام خرابیوں سے ہمیں اس وقت بحث کرنے کا موقع نہیں ہے ہم صرف اس خرابی کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو اسلامی قانون کے نفاذ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ آج بھی ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوئی تو آئندہ یہ اپنی موجودہ صورت سے بھی زیادہ پیچیدہ صورت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
وہ خرابی یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے دینی مدرسوں میں فقہ کی تعلیم تقلید کے اصول پر دی جاتی ہے جو مدارس حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ صرف حنفی فقہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو مدرسے اہل حدیث کے ہیں وہ صرف اہل حدیث کی فقہ پڑھاتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ملک میں اہل سنت کے یہی دو مکتب فکر موجود ہیں لیکن دونوں ہی اپنے اپنے طریقوں میں نہایت متشدد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس بات کے لیے تیار نہیں ہے کہ صرف اپنے مخصوص مکتب فکر کی فقہ کو لے کر بیٹھ جانے کے بجائے پوری اسلامی فقہ کو اپنی فقہ سمجھے اور فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر ہو کر محض دلیل کی قوت کی بنا پر ایک چیز کو مانے اور مخصوص دلیل ہی کی کسوٹی پر پرکھ کر ایک چیز کو رد کر دے۔ قطع نظر اس سے کہ موجودہ زمانہ کسی چیز کے رد وقبول کے معاملہ میں تقلید جامد کے نقطہ نظر کو قبول نہیں کر سکتا۔ ایک بڑی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قانون کو حکومت کا قانون بنانے کے لیے لوگوں کے اندر رواداری کی روح اور فکرو نظر کی آزادی پیدا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمیں اس ملک میں اسلامی قانون کے نفاذ کا مقصد عزیز ہے تو ہمیں اس خرابی کی اصلاح کرنی ہو گی اور اس کی اصلاح کا واحد طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے علما حنفی اور اہل حدیث کی اصطلاحوں میں بات کرنے کے بجائے صرف قرآن و حدیث کی اصطلاحوں میں بات کریں اور اپنے مدارس میں متعین فقہوں کی تعلیم دینے کے بجائے پوری فقہ اسلامی کی تعلیم دیں تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں وسعت اور رواداری پیدا ہو۔ اگر یہ چیز نہ پیدا ہو سکی تو اول اس ملک کے اندر صحیح قسم کا اسلامی قانون نافذ ہی نہ ہو سکے گا اور بالفرض نافذ ہو بھی گیا تو وہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکے گا۔ آج جو لوگ اسلامی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی مخالفت کے لیے سب سے زیادہ مضبوط دلیل ہمارے مذہبی گروہوں کی یہی فرقہ وارانہ ذہنیت فراہم کر رہی ہے۔
ہمارے ملک میں انگریز اپنے طویل دور اقتدار کے جو اثرات ہمارے ذہنوں کے اندر اور ہماری تہذیب و معاشرت کے اوپر چھوڑ گئے ہیں وہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی بدستور قائم ہیں۔ یہ اثرات اگر اسی طرح باقی رہے تو ان میں اور اسلامی قانون میں قدم قدم پر تصادم ہو گا اور اس تصادم میں اسلامی قانون ایک طرف ہو گا اور وہ قوم جس کو ہم اسلامی قانون کا مطالبہ کرنے والی سمجھتے ہیں دوسری طرف ہو گی۔ انگریزی اقتدار کے زیر اثر شراب، جوا، رقص و سرود، بے حیائی و بے پردگی، ریڈیو، سینما اور زنا کاری کی جو چاٹ لگ چکی ہے اس کو مجرد قانون سے نہیں روکا جا سکتا بلکہ ان چیزوں کے مقابل میں اگر تنہا قانون آئے گا تو ہم نہایت افسوس کے ساتھ یہ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ وہ شکست کھا جائے گا۔ ان چیزوں کے مقابل میں قانون سے پہلے پروپیگنڈے کی طاقت کو آنا چاہیے اور یہ طاقت اتنی زبردست ہونی چاہیے کہ ان چیزوں کے خلاف لوگوں کے دلوں میں اتنی شدید نفرت پیدا ہو جائے کہ لوگ ان کے خلاف قانون بنانے کے لیے قانون سازوں کو مجبور کر دیں اور جب ان کے خلاف قانون بن کر آئے تو اس کا اس طرح خیر مقدم کریں جس طرح مسلمانوں نے کسی زمانہ میں ان برائیوں کے خلاف قوانین کا خیر مقدم کیا تھا۔
یہ کام مؤثر طریقہ پر ملک کی حکومت اور اصلاحی جماعتوں کے باہمی تعاون ہی سے ہو سکتا ہے اگر یہ دونوں طاقتیں مل کر اس کام کو کریں تو نہایت قلیل عرصہ میں تمام خرابیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اس تعاون کے بغیر ان خرابیوں کا دور ہوناناممکن ہے۔
ان چیزوں کے علاوہ ایک نہایت قابل توجہ چیز یہ بھی ہے کہ ایک مدت دراز سے اسلام اور اسلامی قانون پر تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے وہ بھی زیادہ تر معذرت خواہانہ قسم کا ہے اس کے برعکس اس دوران میں دوسرے قوانین اور دوسرے نظاموں پر اتنا وسیع اور اتنا قیمتی کام ہوا ہے کہ ہمارے لیے اس کا صحیح صحیح اندازہ کرنا بھی مشکل ہے اس صورت حال نے قدرتی طور پر اسلامی قانون کی عزت و وقعت موجودہ زمانہ کے لوگوں کے ذہنوں میں بہت گھٹا دی ہے۔ لوگ اس کو فرسودہ قسم کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس کے متعلق جو شبہ یا اعتراض بھی پیدا ہوا ہے اس کو دور کرنے کی بہت کم کوشش ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس نے موجودہ زمانہ کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک عقیدہ کی طرح جڑ پکڑ لی ہے۔ ایسی کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں جو ان شبہات و اعتراضات کو دور کر کے لوگوں کو اسلامی قانون کا صحیح تصور دے سکیں۔ اس وجہ سے نہایت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون کے مختلف پہلوؤں پر موجودہ زمانہ کے علمی انداز میں کتابیں لکھی جائیں اور یہ کتابیں جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اچھی طرح پھیلائی جائیں تاکہ اسلامی قانون کے خلاف لوگوں کی بدگمانیاں دور ہوں اور جو لوگ اسلامی قانون کو سمجھنا چاہتے ہیں ان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ اس مقصد کے لیے ان کو کتابیں نہیں ملتیں۔
____________