اس ملک میں اگر قانون اسلامی کی تدوین کے کام کو صحیح طور پر انجام دینا ہے اور یہ چیز بھی پیش نظر ہے کہ یہ قانون نافذ ہو کر کامیاب بھی ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں جن کے مضر نتائج کا تجربہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے حالات کے لحاظ سے ہم یہاں تدوین قانون کے سلسلہ میں جو باتیں ضروری سمجھتے ہیں ان کو بالاجمال عرض کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تدوین قانون کے کام کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔
پہلی چیز یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے تمام فرقوں میں رواداری کی سپرٹ پیدا ہو۔ لوگ حنفی اور اہل حدث مالکی اور شافعی کی اصطلاحات میں بات کرنا چھوڑ دیں۔ فقہ خواہ امام ابوحنیفہ کی ہو یا امام مالک کی، امام شافعی کی ہو یا امام احمد بن حنبل کی، سب سے ہماری اپنی ہی فقہیں ہیں۔ ان سب کی بنیاد کتاب و سنت اور اجتہاد کے صحیح اصولوں پر ہے اور یہ سب ہمارا مشترک سرمایہ ہیں۔ چاروں آئمہ بھی ہمارے مشترک امام ہیں۔ ان میں سے کسی کے خلاف یا کسی کے حق میں بے جا تعصب میں ہمیں نہیں مبتلا ہونا چاہیے۔ ہمیں قانون کی تدوین میں ان تمام فقہوں سے بغیر کسی فرق و امتیاز کے مدد لینی چاہیے۔ صحیح اصول یہ ہے کہ مختلف مسائل میں جس کا اجتہاد بھی ہمیں کتاب و سنت کے زیادہ موافق اور حالات اور مصالح سے زیادہ ہم آہنگ نظر آئے ہمیں وہ اختیار کر لینا چاہیے خواہ وہ کسی امام کی طرف بھی منسوب ہو۔ معقولیت کا تقاضا بھی یہی ہے اور اسلام نے ہمیں تاکید بھی اسی چیز کی کی ہے۔ اجتہادی معاملات میں اسلام نے ہمیں امام ابوحنیفہ یا امام شافعی کی پیروی کی ہدایت نہیں کی ہے، بلکہ اس اجتہاد کی پیروی کی ہدایت کی ہے جو کتاب و سنت سے زیادہ موافقت رکھنے والا نظر آئے۔ اسی چیز کی تاکید ان بزرگ آئمہ نے بھی فرمائی ہے۔ اگر ہم تدوین قانون کے معاملے میں یہ روش اختیار کریں گے تو اس سے کئی نہایت واضح فائدے ہوں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اپنا قانون کسی متعین فقہ پر مبنی ہونے کے بجائے براہ راست اسلامی قانون کے ماخذ پر مبنی ہو گا اور ہم اس کو صحیح معنوں میں اسلام کے قانون سے تعبیر کریں گے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس قانون پر اس ملک کے تمام مسلمان فرقوں کو اعتماد ہو گا۔ اس کے خلاف کسی فرقہ کے اندر تعصب یا بدگمانی کے لیے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہے گی، کیونکہ اس کی بنیاد براہ راست ان چیزوں پر ہو گی جو بلا استثنا تمام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں۔ اس کا تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم ایک ایسا ضابطہ قانون مدون کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو موجودہ زمانے کے تمام تقاضوں کو بہتر سے بہتر طریقہ پر پورا کر سکے گا۔ کیونکہ ہماری اسلامی فقہ بحیثیت مجموعی بہتر سے بہتر قانونی مواد پر مشتمل ہے۔ اس کا چوتھا فائدہ یہ ہو گا کہ اس طرح ہم اپنے معاشرہ اور اپنے نظام زندگی کو فرقہ وارانہ تعصبات کی ان بہت سی خرابیوں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہمارے اندر چوتھی صدی ہجری کے بعد پھیلی ہیں اس سے پہلے ہمارا معاشرہ ان چیزوں سے بالکل پاک تھا۔
ہماری اس بات سے کسی کو یہ بدگمانی نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ملک میں جس میں حنفی فقہ کے پیروؤں کے بھاری اکثریت ہے، اکثریت کے قانون کو کوئی اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ ہم اس بدگمانی کو دور کرنے کے لیے اس بات کو صاف کر دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اگر ہم حنفی فقہ کو وہ اہمیت نہ دیں گے جس کی وہ فی الواقع مستحق ہے تو یہ ایک دوسری خرابی ہو گی جو ہم اپنے کام میں پیدا کر لیں گے۔ اکثریت کی فقہ کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس ملک کا قانون اکثریت کی نگاہوں میں وہ احترام حاصل نہ کر سکے گا جو احترام اس قانون کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ہم جو کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ قانون کی تدوین کے وقت دوسری فقہوں کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ بلکہ باہمی موازنہ و مقابلہ کے بعد جو مسلک دلائل کی کسوٹی پر زیادہ اوفق ثابت ہو اس کو اختیار کیا جائے اور اس کام کو گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر کیا جائے۔
دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ تدوینِ قانون کے کام کے ہر مرحلہ میں یہ حقیقت پیش نظر رکھی جائے کہ مسلمان کتاب و سنت کی جن تعبیروں پر اعتماد رکھتے ہیں انھی تعبیروں پر مبنی ضابطہ قانون بنایا جائے۔ اگر اپنی طرف سے نئی تعبیریں محض شوقِ اجتہاد میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کو لوگ ہرگز قبول کرنے کو آمادہ نہ ہوں گے اور غلط طریقوں سے ان کو لوگوں پر لادنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مضر، بلکہ مہلک ہوں گے۔ کسی چیز کی نئی تعبیر پیش کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن اس کے لیے اہلیت و صلاحیت شرط ہے۔ جو کام امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیھما جیسے جلیل القدر لوگوں نے انجام دیا ہے وہ کام اگر نااہل لوگ سنبھال لیں گے تو مسلمان اس پر کس طرح اعتماد کریں گے؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ہمارا کام ان بزرگ اماموں کے کام کے بالکل برعکس ہو۔ ائمہ کے کاموں پر ہر شخص کو جو اعتماد و اعتقاد ہے وہ محض قدامت پرستی اور اندھی تقلید کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ کتاب و سنت کے مضمرات کی تعبیر و توجیہ کے لیے اور ان کے مقتضٰی اور اشارات کی روشنی میں اجتہاد کے لیے جو علم ان کے پاس تھا اس کی شہادت ان کے عظیم کارناموں سے ملتی ہے۔ یہ شہادت آج ان لوگوں کے پاس ہرگز موجود نہیں ہے جو لوگ ان اجتہادات کے مقابلے میں اپنے اجتہادات پیش کرنے کے خواہش مند ہیں۔
پھر اس سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مسئلہ سیرت و کردار کا ہے۔ ان بزرگ اماموں پر اپنے دین کے معاملہ میں مسلمانوں کو جو بھروسہ ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان ائمہ نے دین کو امراء و سلاطین کی دستبرد اور دنیا پرست علما کی حیلہ بازیوں سے بچانے کے لیے ایسی شاندار قربانیاں دی ہیں جن کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ان کی تعبیرات اور ان کے اجتہادات کے مقابل میں ان لوگوں کی تعبیرات و اجتہادات پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے جن کے بارہ میں ہر شخص کو علم ہے کہ دین سے زیادہ ارزاں اور حقیر شے ان کی نگاہوں میں اس دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔
اس وجہ سے سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ کتاب و سنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کی پیروی کی جائے علی ہذا القیاس جن معاملات میں ائمہ کے اجتہادات موجود ہیں ان میں ان کے اجتہادات سے باہر قدم نکالنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ انھی کی اختیار کردہ صورتوں میں سے جو صورت دلائل کی کسوٹی پر زیادہ بہتر ثابت ہو اختیار کر لی جائے۔
نئے مسائل جن کے بارے میں ائمہ کے اجتہادات موجود نہیں ہیں
البتہ جن معاملات میں پچھلے ائمہ کے اجتہادات موجود نہیں ہیں ان میں بہتر شکل یہ ہو گی کہ مختلف مسلمان ملکوں کے ذی علم اور مستند علما نے جو فتوے دیے ہیں یا جو رائیں ظاہر کی ہیں وہ سب جمع کرالی جائیں اور ان میں سے جو رائے جس معاملہ میں دلائل کی روشنی میں زیادہ مضبوط نظر آئے وہ اختیار کر لی جائے۔ ایسے بھی بہت سے مسائل ہیں جو پیدا تو ہو چکے ہیں لیکن ان پر شرعی نقطہ نظر سے یا تو ابھی غور ہی نہیں کیا گیا ہے یا غور کیا گیا ہے تو کافی غور نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مسائل پر غور و بحث کے لیے ضروری مواد فراہم کیا جائے اور پھر ذی صلاحیت افراد مقرر کیے جائیں جو پوری تحقیق اور پورے مطالعے کے بعد اپنے نتائج تحقیق پیش کریں تاکہ تدوین قانون کے کام میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
جو احکام رواج یا مصلحت پر مبنی ہیں ان کے بارے میں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ان میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اسلامی قانون کا یہی دائرہ ہے جو تغیر پذیر ہے۔ اور اس کے تغیر پذیر ہونے میں بڑی برکت ہے۔ اس تغیر پذیری ہی سے اسلامی قانون میں وہ لچک پیدا ہوتی ہے جس سے وہ زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سازگاری پیدا کرتا ہے۔ اسلامی قانون کے دوسرے دائروں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنا جس طرح بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح اس دائرہ میں جمود پیدا کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہماری فقہ میں جو مسائل ایسے ہیں جو عرف و مصلحت پر مبنی ہیں ہم اپنے قانون میں ان کو انھی صورتوں میں اپنانے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ حالات و مصالح کے تغیر کے لحاظ سے چاہیے کہ ان میں مناسب تبدیلیاں کر دی جائیں۔
____________