HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلامی قانون کی تدوین

  اب ہم اسلامی قانون کی تدوین کی ضروت، اس کی اہمیت اور اس کے تقاضوں پر کچھ باتیں کہیں گے۔

اسلامی قانون کی موجودہ صورت

آپ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ جس صورت میں ہمارے ملک کا ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری مرتب ہے اس شکل میں ہمارا اسلامی قانون مرتب و مدون نہیں ہے۔ اس وجہ سے عدالتوں کے لیے جس طرح ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری سے فائدہ اٹھانا آسان ہے، اس طرح اسلامی قوانین سے فائدہ اٹھانا آسان نہیں ہے۔

اسلامی قانون کا سب سے بڑا اور سب سے مقدم ماخذ، آپ جان چکے ہیں، قرآن ہے۔ لیکن قرآن معروف قانونی ضابطوں کی شکل میں مرتب نہیں ہے بلکہ اس میں قانون کے ساتھ عقائد، اخلاق، موعظت، امثال، قصص اور تاریخ ساری ہی چیزیں ملی جلی ہوئی ہیں۔ پھر قانون کا جو حصہ اس میں بیان ہوا ہے اس میں اہل تاویل کے اختلافات بھی ہیں، اگر کوئی عدالت قرآن کے مطابق فیصلہ کرنا چاہے تو اس کو اختلافِ تاویل، اختلاف قراء ت اور تعیین ناسخ و منسوخ وغیرہ کے نہایت دشوار گزار اور نہایت دیر طلب مراحل سے گزرنا پڑے گا۔

اسلامی قانون کا دوسرا بڑا ماخذ احادیث ہیں۔ اگرچہ حدیث کی کتابوں میں ایسی کتابیں موجود ہیں جن کی ترتیب فقہی اور قانونی ہے، لیکن ان سے قانون اخذ کرنا قرآن مجید سے قانون اخذ کرنے سے کم مشکل نہیں ہے۔ احادیث کی تحقیق و تنقید کا کام بڑی محنت اور بڑی قابلیت کا طالب ہے۔ تحقیق و تنقید کے بعد احادیث کے باہمی اختلافات کو رفع کرنا اور ان میں تطبیق دے کر کسی پختہ بات تک پہنچنا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عدالتوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ موجودہ زمانہ کی کسی عدالت کے لیے ان تمام مراحل کا طے کرنا ظاہر ہے کہ نہایت مشکل ہے۔

اسلامی قانون کا تیسرا وسیع تر ماخذ اجتہاد ہے۔ اجتہاد میں سب پہلی مشکل تو یہ ہے کہ پچھلے مجتہدین کے اجتہادات کا جو ذخیرہ موجود ہے وہی اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ آدمی اس میں گم ہو کے رہ جاتا ہے۔ اول تو ہمارے ہاں اسلامی فقہ کے چار مستقل سکول بن چکے ہیں جو اپنے اپنے اجتہادات اور اپنے اپنے طریقِ اجتہاد، دونوں میں ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہیں، پھر ان میں سے ایک ایک سکول کے اندر بھی اجتہاد کے اختلافات ہیں۔ بہت سے مسائل میں ایک ہی سکول کے متقدمین کچھ کہتے ہیں اور متاخرین کی رائے کچھ ہے۔ پھر ایک ہی اصول اجتہاد پر چلنے والے علما و ائمہ کی رایوں اور فتوؤں میں بھی اختلاف ہے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اگر قاضی ابو یوسف اور امام محمد کے اختلافی اقوال جمع کر دیے جائیں تو امام ابوحنیفہ کی فقہ کے مقابل میں ان کی ایک مستقل فقہ مرتب ہو جائے گی۔

میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ قانون کا مدون ہونا زیادہ بہتر ہے یا اس کا غیر مدون حالت میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ میرے نزدیک دونوں ہی صورتوں کے اندر کچھ نقصانات بھی ہیں۔ میں اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں ہوں کہ حضرت معاذ بن جبل اور قاضی شُریح کے سامنے اسلامی قانون مدون شکل میں موجود نہیں تھا، بلکہ انھیں قرآن و حدیث سے خود وقت کے وقت احکام مستنبط کرنے پڑتے تھے، اسی طرح امریکہ اور انگلستان میں آج بھی مدون قانونی ضابطے موجود نہیں ہیں۔ یورپ میں مدون قوانین کا رواج نپولین کے زمانہ سے ہوا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ہم اپنے ملک کے لیے یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ یہاں اسلامی قانون مدون کر دیا جائے۔ ہم اس کے حق میں نہایت واضح عقلی اور نقلی دلائل بھی دے سکتے ہیں، لیکن چونکہ اس کی ضرورت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، اس وجہ سے ہم اس مسئلہ پر کوئی بحث غیر ضروری خیال کرتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔

قانون اسلامی کی تدوین کی پچھلی کوششیں

یہاں مناسب ہو گا کہ ہم مختصر طور پر قانون اسلامی کی تدوین کی ان کوششوں کا بھی ذکر کر دیں جو ماضی میں ہو چکی ہیں۔ اس سے اس کام کی نوعیت سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے مبارک زمانوں کا تعلق ہے ہر شخص جانتا ہے کہ اس عہد میں کسی مدون ضابطہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، اس وقت تک نہ تاویل و توجیہ کے اختلافات رونما ہوئے تھے اور نہ فقہی اقول و مذاہب کی بحثیں ظہور میں آئیں تھیں، جو لوگ مقدمات و نزاعات کے فیصلہ کے لیے قاضی اور جج کی حیثیت سے مقرر کیے جاتے تھے وہ براہ راست قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کرتے تھے، اگر قرآن و حدیث میں ان کی واضح رہنمائی نہیں ملتی تھی تو چونکہ وہ خود مجتہد ہوتے تھے اس وجہ سے وہ پیش آمدہ مسائل کے فیصلے اپنے اجتہاد سے کرتے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل کے واقعہ کا ذکر ہم اسے سے پہلے کر چکے ہیں، بعینہٖ اسی طرح کا واقعہ قاضی شریح کا ہے جن کو حضرت عمر نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ دو بزرگوں کے نام ہم نے محض مثال کے طور پر لیے ہیں۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ اس زمانہ میں جو لوگ بھی قاضی یا مفتی کی حیثیت سے مقرر ہوتے تھے وہ بلا استثناء مجتہد ہوتے تھے اور تمام نئی صورتوں میں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔

ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو کسی مدون ضابطے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن کچھ زمانہ گزرنے کے بعد جب بہت سے مجتہدوں کے اجتہادات وجود میں آ گئے، مفتیوں اور قاضیوں کے فتوؤں اور فیصلوں کی کثرت ہو گئی اور اس کثرت کے سبب سے نہ تو عدالتوں کا کام اتنا سہل رہ گیا جتنا سہل پہلے تھا اور نہ اس بات کا امکان باقی رہ گیا کہ ان کے فیصلوں میں ہم آہنگی باقی رہ سکے تو عوام میں بھی قانون کی تدوین کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور خود حکومت نے بھی اس کی ضرورت کا احساس کیا۔

جہاں تک معلوم ہو سکا ہے سب سے پہلے عربی زبان کے مشہور ادیب، ابن مقفع (متوفی ۲۳۴ھ) نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اس نے اپنے عہد کے عباسی خلیفہ، ابوجعفر منصور کے سامنے اسلامی قانون کی تدوین سے متعلق ایک تجویز رکھی۔ ہم اس کے تجویز کا ضروری حصہ خود اس کے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس نے ابو جعفر منصور کو توجہ دلائی کہ:

’’اوران اسلامی ممالک سے متعلق امیر المومنین کو جس مسئلہ پر خاص طور پر غور کرنا ہے، وہ یہ فقہی اختلافات کا مسئلہ ہے، جواب اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہی رہا ہے اور مسئلہ کا حل اگر امیرالمومنین پسند فرمائیں تو یہ ہو سکتا ہے کہ امیرالمومنین ایک حکم جاری فرمائیں کہ تمام احکام اور فیصلے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر کے امیرالمومنین کے سامنے پیش کیے جائیں اور ساتھ ہی ہر گروہ اپنے اپنے نقلی و عقلی دلائل بھی جو وہ اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں اپنے پاس رکھتا ہے، پیش کر دے، پھر امیرالمومنین اس پورے ذخیرہ پر نظر ڈال کر ہر معاملہ میں اپنی رائے ظاہر فرما دیں اور عدالتوں کو اس کے خلاف فیصلے کرنے سے روک دیں، اس طرح وہ منتشر احکام اور فیصلے، جو رطب وِیا بس ہر قسم کی چیزوں پر مشتمل ہیں ایک مدون ضابطہ کی شکل اختیار کر لیں گے اور یہ مجموعہ غلط چیزوں سے پاک ہو گا، اس طرح تمام بلاد اسلامیہ ایک ہی ضابطہ قانون کے تحت آ جائیں گے اور توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ امیر المومنین کی رائے اور فیصلہ پر تمام امت کو متفق کر دے گا۔‘‘

ابن مقفع کی یہ تجویز ابوجعفر منصور نے اس کی پیش کردہ شکل میں تو منظور نہیں کی، لیکن اس کے ذہن میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہو گیا، چنانچہ مشہور ہے کہ ۱۴۸ھ میں جب یہ حج کے لیے گیا تو اس نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے یہ خواہش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو تمام ممالک اسلامیہ میں ان کی فقہ پر مجتمع ہونے کے لیے حکم جاری کر دے، لیکن امام مالک نے اس کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہر گروہ کے لوگ اپنے الگ الگ اماموں اور فقیہوں پر اطمینان رکھتے ہیں اس وجہ سے ان کو ان کے حال ہی پر چھوڑا جائے تو بہتر ہو گا۔

ابو جعفر، امام مالک کے اس جواب سے اس وقت تو خاموش ہو گیا، لیکن اس کے دل میں یہ خیال برابر قائم رہا کہ امام مالک کے ہاتھوں اسلامی قانون مدون ہو جائے، چنانچہ ۱۶۳ھ میں جب وہ پھر حج کے لیے گیا تو اس نے اپنی یہ تجویز پوری تفصیل اور پورے زور و قوت کے ساتھ امام مالک کے سامنے رکھی۔ اس مرتبہ تدوین قانون سے متعلق اس نے اپنا نقطۂ نظر بھی امام مالک کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے کہا کہ:

’’اے ابوعبداللہ! (یہ امام مالک کی کنیت ہے) آپ علم فقہ کو اپنے ہاتھ میں لیجیے اور اس کو الگ الگ ابواب کی صورت میں مدون کر ڈالیے۔ عبداللہ بن عمر کے تشددات، عبداللہ بن عباس کی رخصتوں اور عبداللہ بن مسعود کی انفرادیت سے بچتے ہوئے ایک ایسا ضابطہ مدون کیجیے، جو خیر الامور اوسطھا، کے اصول پر مبنی ہو اور جو ائمہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتوؤں اور مسائل کا مجموعہ ہو، اگر آپ نے یہ خدمت انجام دے دی تو ان شاء اللہ آپ کی فقہ پر ہم مسلمانوں کو مجتمع کر دیں گے اور اپنی تمام مملکت میں اس کو جاری کر کے اعلان کر دیں گے کہ کسی صورت میں اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔‘‘

عام خیال یہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابو جعفر منصور کی اسی خواہش کو سامنے رکھ کر موطا مرتب کی ہے، لیکن وہ اس بات پر کسی طرح راضی نہ ہوئے کہ اس کو تمام مسلمانوں کے لیے حکومت کے زور سے قانون کی حیثیت دے دی جائے۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی خواہش اپنے زمانہ میں ہارون الرشید نے بھی ان سے کی تھی، لیکن اس کی خواہش بھی امام صاحب نے رد کر دی۔

اس کے بعد اسلامی قانون کی تدوین کی ایک نمایاں کوشش گیارہویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند کے فرمانرواسلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے عمل میں آئی۔ سلطان موصوف نے علما کا ایک بورڈ بنایا اور اس کو ایک ایسی کتاب مرتب کرنے کا حکم دیا جو خود ان کے اپنے الفاظ میں ’’ایسے فتوؤں پر مشتمل ہو جن پر جید فقہا نے اتفاق کیا ہو، اور جس میں ایسے نوادر جمع کیے جائیں جن کو ماہر علما نے پسند کیا ہو۔‘‘ چنانچہ اسی حکم کے بموجب فتاوائے عالمگیری کی ترتیب عمل میں آئی، اگرچہ یہ کتاب اس طریقہ پر مرتب نہ ہو سکی جس طریقہ پر اس زمانہ میں قانونی ضابطے مرتب ہوتے تھے تاہم اس سلسلہ کی یہ ایک ایسی اہم کوشش ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے بعد تدوین قانون کی سب سے زیادہ کامیاب کوشش وہ ہے جو دولت عثمانیہ کے زیر اہتمام تیرہویں صدی ہجری میں عمل میں آئی۔ حکومت نے سات جید علما پر مشتمل ایک کمیٹی بٹھائی اور اس کے ذمہ یہ کام سپرد کیا کہ:

فقہی معاملات پر مشتمل ایک ایسی کتاب کی تالیف کی جائے جو ضابطہ کی صورت میں مرتب ہو، جس سے فائدہ اٹھانا نہایت آسان ہو، جو اختلافات سے پاک ہو، جو تمام مختار اقوال پر حاوی ہو اور جس کی مراجعت ہر شخص کے لیے آسان ہو۔

مذکورہ بالا مقصد سامنے رکھ کر اس کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا، جو ۱۲۹۳ھ (۱۸۷۶ء) میں تکمیل کو پہنچا اور مجلہ احکام عدلیہ، کے نام سے سلطان کی جانب سے اس کے نفاذ کا اعلان ہوا۔

جس زمانہ میں مجلہ کی تدوین ہوئی ہے اس زمانہ میں تقریباً تمام عرب ممالک میں قانون اسلامی کی تدوین کا رجحان نہایت شدت کے ساتھ پایا جاتا تھا اس وجہ سے مجلہ کو نہ صرف ترکیہ میں اختیار کیا گیا بلکہ ان تمام ممالک میں اس کو قبول کر لیا گیا جو اس زمانہ میں ترکوں کے زیر اقتدار تھے۔ اس وقت سے لے کر پہلی جنگ عظیم کے بعد تک یہ ان تمام ممالک میں نافذ العمل رہا، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد سب سے پہلے ترکیہ میں اس کو ختم کر کے اس کی جگہ سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور اٹلی کے قوانین کو دے دی گئی، پھر بتدریج اس کو لبنان اور البانیہ میں ختم کیا گیا۔

اس کے بعد عراق اور مصر میں قانون اسلامی کی تدوین کے لیے چھوٹی بڑی متعدد کمیٹیاں بٹھائی گئیں، لیکن چونکہ ان کی خدمات کی تفصیل ہمارے سامنے نہیں ہے اس وجہ سے ہم ان کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ان کوششوں کی ناکامی کے اسباب

اب ہم مختصر طور پر یہ بتائیں گے کہ یہ مختلف کوششیں جو اسلامی قانون کی تدوین کے لیے کی گئیں کوئی پائدار نتیجہ پیدا کرنے میں کیوں ناکام رہیں۔

جہاں تک ابوجعفر منصور اور ہارون الرشید کی کوششوں کا تعلق ہے اس کی ناکامی کی کھلی ہوئی وجہ تو یہ ہے کہ اس کام کو انھوں نے اس طریقہ پر انجام دینا نہیں چاہا جو اس کا صحیح طریقہ تھا۔ اس کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ صاحب اجتہاد اور معتمد علما کی ایک کمیٹی بناتے اور اس کے سپرد یہ کام کرتے اور پھر اس کے مدون کیے ہوئے ضابطہ کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے، لیکن انھوں نے کیا یہ کہ ساری ذمہ داری تنہا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے کندھوں پر ڈال دینی چاہی۔ امام مالک جیسے متقی عالم تن تنہا مسلمانوں کے دین کی ذمہ داری اپنے سر کیسے لے سکتے تھے اور خاص طور پر اس بات کو کس طرح گوارا کر سکتے تھے کہ ان کی لکھی ہوئی ایک کتاب ابوجعفر منصور یا ہارون الرشید کے حکم سے تمام دوسری فقہوں کو ہٹا کر سرکاری فقہ اور حکومت کے ضابطہ کی حیثیت حاصل کر لے۔

دولتِ عثمانیہ نے جو ضابطہ تیار کرایا وہ ابتداءًً تو نہ صرف ترکیہ میں، بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی نافذ ہوا اور ایک عرصہ تک نافذ رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ ہر جگہ سے ختم ہونا شروع ہوا، یہاں تک کہ اب اس کے کہیں کچھ دھندلے دھندلے آثار باقی ہوں تو باقی ہوں ورنہ عملاً وہ ہر جگہ سے ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے ناکام ہونے کے بڑے سبب تین ہیں۔

نیشنلزم

اس کا پہلا سبب نیشنلزم کا وہ طوفان ہے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران میں اور اس کے بعد ان تمام ممالک میں اٹھا جو اس جنگ سے متاثر ہوئے۔ اس نیشنلزم کی تحریک نے دولت عثمانیہ کو زیر و زبر کیا اور ساتھ ہی اس قانون کا بھی خاتمہ کر ڈالا جو دولتِ عثمانیہ کے زیر اہتمام مدون ہوا تھا اور اسی کے واسطہ سے اس کے زیرِ اقتدار ملکوں میں پہنچا تھا، چنانچہ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ خدیو اسماعیل پاشا نے ترکوں کے بنائے ہوئے مجلہ احکام کو محض اس بنیاد پر رد کر دیا کہ وہ مصر پر ترکوں کے اثر و اقتدار کی یادگار ہے۔ اس کا قومی تعصب اس بات پر راضی نہ ہو سکا کہ وہ ترکی اقتدار کی کوئی نشانی بھی اپنے ہاں باقی رہنے دے اگرچہ وہ اسلامی قانون ہی کیوں نہ ہو۔ اس تعصب ہی کے جوش میں اس نے شیخ مخلوف منیادی کو مامور کیا کہ وہ نپولین کے قانون اور امام مالک کی فقہ میں تطبیق دے کر مصر کے لیے ایک نیا ضابطہ مدون کریں۔ اس حکم کی تعمیل میں شیخ منیادی نے ایک ضابطہ مدون بھی کیا، لیکن مصر کے ہر حلقہ سے اس کی مخالفت ہوئی اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس مخالفت کی بنیاد بھی مخالفت کرنے والوں نے قومی تعصب ہی پر رکھی۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ قانون غیر ملکی ہے یہ اعتراض نہیں تھا کہ یہ غیر اسلامی ہے۔

سیکولرزم

دوسری چیز جس نے اس کو ناکام بنانے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا وہ سیکولرزم کا نظریہ ہے، یعنی یہ نظریہ کہ اجتماعی اور سیاسی نظام کو مذہب سے آزاد رکھنا چاہیے۔ مغربی قوموں کی دیکھا دیکھی مسلمان ملکوں کے اندر بھی اس نظریہ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور سب سے پہلے ترکیہ نے اس نظریہ کو اس کے جملہ لوازم کے ساتھ اختیار کیا۔ اسی کے نتیجہ میں ترکیہ کے مجلہ احکامِ عدلیہ کو ختم کیا گیا اور اس کی جگہ پر سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور اٹلی کے قوانین اپنا لیے گئے۔ جب قومیت کی بنیاد وطن پر ہو تو وہ قومیت لازمی طور پر یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس قومیت کے مختلف اجزا میں سے کسی ایک جزو کے دین کو یہ اہمیت نہیں حاصل ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں کے دین پر فوقیت حاصل کر جائے۔ اس خرابی سے بچانے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ نظام زندگی کو مذہب سے بالکل الگ تھلگ رکھا جائے۔ ان قوموں کے لیے تو اس نظریہ کے اپنا لینے میں کوئی زحمت نہیں ہے جن کا مذہب ان کی زندگی کے ایک نہایت ہی محدود حصہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس صورت میں انھیں کوئی قربانی نہیں دینی پڑتی، لیکن مسلمانوں کے لیے اس نظریہ کو اپنانا بڑا مہنگا پڑتا ہے، کیونکہ اسلام ایک مستقل نظام زندگی ہے، اس وجہ سے اس نظریہ کو اپنانے کی صورت میں مسلمانوں کو اپنے پورے دین سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

تقلید اور جمود

ان کوششوں کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ یہ صحیح طریقے پر عمل میں نہیں آئی تھیں۔ ان کے عمل میں آنے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ تقلید اور جمود کی بندشوں سے بالکل آزاد ہو کر ہی ضابطے کسی ایک متعین فقہ پر مبنی ہونے کے بجائے پوری فقہ اسلامی پر مبنی ہوتے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان ملکوں میں چونکہ فقہ حنفی کے پیروؤں کی کثرت تھی۔ اس وجہ سے ان مجموعوں کی ترتیب میں فقہ حنفی ہی کو اہمیت دی گئی، دوسری فقہوں کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ فقہ حنفی کی اہمیت اور عظمت سے انکار نہیں ہے، لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کی ایک حکومت کے لیے جس قسم کا ضابطہ قوانین پوری فقہ اسلامی کی مدد سے تیار کیا جا سکتا ہے اس قسم کا مجموعۂ قوانین کسی ایک فقہ کی مدد سے نہیں تیار کیا جا سکتا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ مجلہ احکام عدلیہ کے تجربہ کے بعد ترکیہ میں بھی اور مصر میں بھی یہ رجحان بہت ترقی کر گیا تھا کہ آئندہ تدوین قانون کے کام میں کسی ایک متعین فقہ کو پیش نظر رکھنے کے بجائے پوری فقہ اسلامی کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ صحیح معنوں میں اس جامع اسلامی قانون کی تدوین ہو سکے جو زمانہ کے حالات اور تقاضوں سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والا ہو، لیکن افسوس ہے کہ بعض دوسرے عوامل کی مزاحمت کے سبب سے اس جدید رجحان کے مطابق عملاً کوئی مفید کام نہ ہو سکا۔

معاشرے کا بگاڑ

معاشرے کے بگاڑنے بھی اسلامی قانون کو ناکام بنانے میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ قانون کی تدوین کرنے والے قانون کی تدوین میں تو منہمک رہے لیکن انھوں نے معاشرے کے بناؤ بگاڑ سے بالکل آنکھیں بند رکھیں۔ انھوں نے اس چیز کی طرف بالکل توجہ نہیں کی کہ اگر عوام ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے اتنے منفعل اور کمزور رہے کہ ہر دباؤ اور ہر پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے رہے تو ان کے لیے اسلامی قانون کا ہونا اور نہ ہونا، دونوں یکساں ہیں۔ اسلامی قانون کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ عوام کے اندر اس کی اتنی شدید طلب اور اس کے ساتھ ان کو اتنا مضبوط لگاؤ پیدا ہو جائے کہ اس قانون کے بغیر ان کے اندر زندگی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہ جائے۔ وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر قربانی دے سکیں اور اس کو باقی رکھنے کے لیے ہر بازی کھیل سکیں۔ بالخصوص موجودہ زمانہ میں جب کہ اسلام اور اسلامی قانون کے خلاف نہایت وسیع پیمانہ پر پروپیگنڈا جاری ہے، سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ اسلامی قانون پر عوام کے اعتماد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔

____________

 

B