یہاں میں اختصار کے ساتھ اس مسئلہ پر بھی بحث کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اصول قانون میں یہ بات جو تسلیم کی جاتی ہے کہ ’’زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔‘‘ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ اس پر بحث کرنے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس بات کا مطلب یا تو بالکل غلط سمجھتے ہیں یا جان بوجھ کر اس کی تعبیر ایسی غلط کرتے ہیں کہ اس سے پورا دین بالکل بازیچۂ اطفال بن کر رہ جاتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ زمانے اور حالات کی تبدیلی بعض اسلامی قوانین پر اثر انداز ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس اثراندازی کی نوعیت بھی خاص ہے اور وہ قوانین بھی خاص ہیں جو اس تغیر سے اثر پذیر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اس اصول کو اندھے کی لاٹھی کی طرح استعمال کرنے کے بجائے اس کا صحیح دائرہ کار معلوم کر لینا چاہیے۔
یہ تغیر جن قوانین پر جس نوعیت سے اثر انداز ہوتا ہے اس کا ایک مخصوص ضابطہ ہے جس کو میں اجمال کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔
جو قوانین کتاب یا سنت کے واضح نصوص پر مبنی ہیں ان پر زمانے اور حالات کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا، وہ ہمیشہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قائم و باقی رہتے ہیں۔ البتہ اگر ان کے نفاذ کے لیے خود شریعت میں کچھ شرطیں بیان ہوئی ہیں اور ان میں سے کوئی شرط کسی زمانے میں موجود نہیں رہی ہے تو اس کے سبب سے کسی قانون کے عملاً نفاذ کو عارضی طور پر ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً چوری پر ہاتھ کاٹ دینے کی جو سزا شریعت میں مقرر ہے وہ کئی شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ مثلاً یہ کہ جو مال چرایا گیا ہے وہ مالک کی طرف سے محفوظ کیا گیا ہو اس کی اتنی مقدار چرائی گئی ہو جس پر چوری کا اطلاق ہو سکتا ہو پھر یہ کہ چرانے والے نے پورے علم و واقفیت کے ساتھ بغیر کسی اضطرار کے چرایا ہو۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو چوری کرنے والے کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ایک مرتبہ سخت قحط پڑا تو حضرت عمر نے چوری کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا رکوا دی کیونکہ ملک کے معاشی حالات درہم برہم ہو جانے کے سبب سے اس بات کا اندیشہ غالب ہو گیا تھا کہ چوری کرنے والے بھوک سے تنگ آ کر چوری کریں۔
جو قوانین، اجتہاد پر مبنی ہیں اگر وہ اجماع کی نوعیت نہیں رکھتے تو ان کے اندر ان کے دلائل کی بنیاد پر تغیر و تبدل ہو سکتا ہے۔ کسی اجتہاد کے متعلق اگر غور و بحث سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس کی دلیل کمزور ہے اور دوسرا اجتہاد دلیل کے لحاظ سے اس سے قوی ہے تو اسلام کا مطالبہ ہر مسلمان سے یہ ہے کہ وہ اس اجتہاد کو اختیار کرے جو دلیل کے لحاظ سے مضبوط ہے۔
جو قوانین دستور و رواج اور مصلحت پر مبنی ہیں وہ رواج اور مصلحت کے تابع ہیں۔ اگر سوسائٹی کا رواج بدل گیا ہے تو وہ قانون بھی لازماً بدل جائے گا جو سابق رواج پر مبنی تھا۔ اسی طرح اگر مصلحت تبدیل ہو گئی ہے تو وہ قانون بھی بدلا جا سکتا ہے جو سابق مصلحت کو سامنے رکھ کر بنا تھا۔
اسلام میں قانون سازی کا یہ دائرہ مختصر اور محدود نہیں ہے بلکہ نہایت وسیع ہے۔ یہی چیز ہے جس کے سبب سے اسلامی قانون کو حالات زمانہ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں کوئی زحمت نہیں پیش آئی۔ اس زحمت کا احساس اگر ہو رہا ہے تو اس زمانہ سے ہو رہا ہے جب سے ہمارے مقلد فقہا نے اجتہادات کو ان دلائل کی روشنی میں جانچنے پرکھنے کا کام بالکل بند کر دیا اور جو فتوے دستور اور مصلحت پر مبنی تھے ان کو بھی انھوں نے کتاب و سنت کے نصوص کی طرح اٹل اور ناقابل تغیر بنا کے رکھ دیا۔ ترکوں نے جو مجلہ احکام تیار کرایا تھا اس کے لیے جو ابتدائی اصول طے ہوئے تھے ان میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ فقہ حنفی کے جو مسائل رواج اور مصلحت پر مبنی ہیں وہ حالات اور مصالح کی تبدیلی کے لحاظ سے بدل دیے جائیں۔
___________