HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Imam Amin Ahsan Islahi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

عرض ناشر

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم اس امت کے علمی اساطین میں سے ہیں۔ آپ ۱۹۰۴ء میں یوپی بھارت کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اسی گاؤں میں حاصل کی۔ دس سال کی عمر میں دینی اور عصری تعلیم حاصل کرنے کے لیے ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۲۲ء میں آپ نے مدرسہ سے فراغت کی سند حاصل کی۔

آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کہ آپ کو اسلام کے بطل جلیل امام حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ سے قرآن فہمی کی خصوصی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ استاد امام کی اس تعلیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپ کے ہاتھوں تدبر قرآن جیسی عظیم الشان تفسیر وجود میں آئی۔ یہ تفسیر بلا شبہ امت کے علمی اثاثے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ آپ نے تفسیر کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔

قارئین کے ہاتھوں میں یہ کتاب ’’جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی‘‘ دراصل مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو آپ نے اسلامی قانون کی شرح و وضاحت میں اس کے حوالے سے پیدا ہونے والی گمراہیوں کا محاکمہ کرتے ہوئے مختلف مواقع پر لکھے ہیں۔

ان مضامین کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

کتاب کی ابتدا میں آپ اسلامی قانون کی تدوین کے حوالے سے مولانا کا وہ تحقیقی مضمون دیکھیں گے، جس میں ابتداً انھوں نے انسانی قانون اور اسلامی قانون کا اصل فرق بیان کیا اور انسانی قانون پر اسلامی قانون کی برتری ثابت کی ہے، اس کے بعد انھوں نے اسلامی قانون کے غیر متبدل ہونے کا پہلو بیان کیا اور اس کے ساتھ ہی اس میں حرکت و ارتقا کے وجود کا اثبات کیا ہے۔ پھر اسلامی قانون کے ماخذوں پر تفصیلی بحث کے ساتھ، تدوین قانون کے اصول بیان کیے ہیں، قانون اسلامی کے نفاذ کے لیے ضروری تیاری کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور عصر حاضر میں اجتہاد کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

اس کتاب کے دوسرے حصے میں آپ، اسلام میں شوریٰ ، قانون سازی، اجتہاد، مجتہدین اور اجماع سے متعلق بہت اہم مباحث کا مطالعہ کریں گے، نیز اس حصے میں ریاست کے اسلامی تصور اور اسلامی ریاست کے بنیادی اصول پر مولانا کے رشحات قلم آپ کی نظر سے گزریں گے۔

کتاب کا تیسرا حصہ عائلی کمیشن کی رپورٹ پر مولانا کے مفصل تبصرے پر مبنی ہے۔ مولانا نے یہ تبصرہ اس عائلی کمیشن کی رپورٹ پر کیا تھا جو ۱۹۵۵ء میں پاکستان کی مرکزی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے عائلی مسائل و قوانین کا جائزہ لینے اور اس کے بارے میں تجاویز و سفارشات پیش کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ پر علما اور عوام دونوں کی طرف سے بہت احتجاج کیا گیا تھا۔ مولانا نے اس رپورٹ پر مفصل بحث کے ساتھ اس میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے والے افراد میں سے بعض مغرب کے عائلی اور ازدواجی قانون سے متاثر و مرعوب تھے، مولانا نے ان افراد کے تصورات کی کجی کو نمایاں کیا، ان کی پیش کردہ تجاویز و سفارشات پر کڑی تنقید کی اور عائلی اور ازدواجی قانون کے حوالے سے اسلام کے صحیح نقطہ نظر کو بیان کیا ہے۔

کتاب کا چوتھاحصہ، دو ذیلی مباحث پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں جنرل ایوب خان کے ۱۹۶۱ء میں نافذ کردہ ’’مسلم فیملی لاز آرڈی نینس‘‘ پر پاکستان کے علما کا تبصرہ لایا گیا ہے۔

دوسرے ذیلی حصے میں ۱۹۶۰ء میں آئین سے متعلق آئین کمیشن کے قائم کردہ چالیس سوالات پر مشتمل سوال نامے کے وہ جوابات لائے گئے ہیں جو اس وقت ملک کے ممتاز علما کی طرف سے متفقہ طور پر دئیے گئے تھے۔ اس کے بعد اس سوال نامے سے متعلق مولانا اصلاحی کی طرف سے آئین کمیشن کو دئیے گئے جوابات اور اس جواب پر اپنے دستخط نہ کرنے کی وجوہات بیان کی ہیں۔

مولانا کا یہ سارا کام دور جدید کی اسلامی ریاست کے لیے ہمیں وہ رہنما اصول فراہم کرتا ہے جس سے ہم اس کا تفصیلی نقشہ قائم کر سکتے ہیں۔ نیز آپ کا یہ کام ہمیں بتاتا ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کے حوالے سے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے اور اس سلسلے میں وہ کیا کیا گمراہیاں ہیں جن سے ہمیں بچنا ہو گا۔

اس کے ساتھ ساتھ مولانا کا یہ کام اسلامی قانون کے نفاذ کے پہلو سے ہماری تاریخ کے بعض اہم گوشوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔

ہم مولانا کے ان سب مضامین کو افادۂ عام کی غرض سے اس مجموعہ میں شائع کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب نہ صرف عام قاری کے دینی فہم و ادراک میں اضافے کا باعث بنے گی، بلکہ یہ اس دور کے مسلمان مفکرین کو اسلامی قانون کے حوالے سے ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچائے گی۔

محمد احسن تہامی

________

 

B