HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اموال غنیمت


یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ، قُلِ: الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ، اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.(الانفال ۸: ۱)
’’وہ تم سے غنائم کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اِنھیں بتا دو کہ یہ سب غنائم اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں۔ اِس لیے اللہ سے ڈرو، (اِس معاملے میں کوئی نزاع پیدا نہ کرو) اور اپنے آپس کے معاملات کی اصلاح کر لو اور اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو، اگر تم مومن ہو۔‘‘

یہ آیت جس سورہ میں آئی ہے ، اُس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب کے ساتھ پہلی جنگ کے بعد ہی یہ نزاع مسلمانوں میں پیدا ہو گئی کہ اُس میں جو مال غنیمت ہاتھ آیا ہے ، اُس کی تقسیم کس طرح ہونی چاہیے ۔ قرآن نے یہ اِسی نزاع پر اُنھیں تنبیہ کی اور اِس کے متعلق اپنا فیصلہ سنایا ہے کہ اِن جنگوں کے مال غنیمت پر کسی شخص کا بھی کوئی حق قائم نہیں ہوتا ۔ یہ سب اللہ اور رسول کا ہے اور وہ اُس کے ساتھ جو معاملہ چاہیں گے ، اپنی صواب دید کے مطابق کریں گے ۔ اِس کی وجہ وہی ہے جو ہم پیچھے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ زمانۂ رسالت کی یہ جنگیں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کے تحت لڑی گئی تھیں اور اِن میں لڑنے والوں کی حیثیت اصلاً آلات و جوارح کی تھی ۔ وہ اللہ کے حکم پر میدان میں اترے اور براہ راست اُس کے فرشتوں کی مددسے فتح یاب ہوئے ۔ لہٰذا اِن جنگوں کے مال غنیمت پر اُن کا کوئی حق تو اللہ تعالیٰ نے تسلیم نہیں کیا، تاہم اِسی سورہ میں آگے جا کر بتا دیا کہ اِس کے باوجود یہ سارا مال نہیں ، بلکہ اِس کا پانچواں حصہ ہی اجتماعی مقاصد کے لیے خاص رہے گا اور باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ . (الانفال ۸: ۴۱)
’’(تم نے پوچھا تھا تو) جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے، اُس کے پیغمبرکے لیے، (پیغمبر کے) اقربا اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۔ ‘‘

یہ تقسیم بھی صاف واضح ہے کہ صرف اِس وجہ سے کی گئی کہ لوگوں نے جنگ بہرحال لڑی تھی ۔ اُس کے لیے زادراہ کا بندوبست بھی کیا تھا اور اُس کی ضرورتوں کے لیے اسلحہ ، گھوڑے اور اونٹ وغیرہ بھی خود ہی مہیا کیے تھے ۔ چنانچہ جب اِس طرح کے اموال مسلمانوں کو حاصل ہوئے جن کے لیے اُنھیں یہ اہتمام نہیں کرنا پڑا تو قرآن نے واضح کر دیا کہ یہ سب دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کے لیے خاص کر دیا گیا ہے ، اِس کا کوئی حصہ بھی مجاہدین میں تقسیم نہیں ہو گا :

وَمَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ، وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ، وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ. مَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.(الحشر ۵۹: ۶۔۷)
’’اور(منافقین پوچھتے ہیں تو اُنھیں بتاؤ کہ) جو اموال اللہ نے اِن (یہودیوں) کی طرف سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے تواُن پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (کہ اُن پر تمھارا کوئی حق قائم ہو)، بلکہ اللہ ہے جو اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے، غلبہ عطا فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (اِس لیے) اِن بستیوں کے لوگوں سے اللہ جو کچھ اپنے رسول کی طرف پلٹائے، وہ اللہ اور رسول اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا ۔‘‘

یہاں اور اِس سے اوپر سورۂ انفال کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن اجتماعی مقاصد کی تفصیل کر دی ہے جن کے لیے یہ اموال خاص کیے گئے تھے ۔

سب سے پہلے اللہ کا حق بیان ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ، ظاہر ہے کہ ہر چیز سے غنی اور بے نیاز ہے ۔ اُس کے نام کا حصہ اُس کے دین ہی کی طرف لوٹتا ہے ۔ لہٰذا اِس کا اصلی مصرف وہ کام ہوں گے جو دین کی نصرت اور حفاظت و مدافعت کے لیے مسلمانوں کا نظم اجتماعی اپنی دینی ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتا ہے ۔

دوسرا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا گیا ہے ۔ آپ کی شخصیت میں اُس وقت نبوت و رسالت کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری بھی جمع ہو گئی تھی اور آپ کے اوقات کا لمحہ لمحہ اپنے یہ منصبی فرائض انجام دینے میں صرف ہو رہا تھا ۔ اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ تھا ۔ اِس صورت حال میں ضروری ہوا کہ اِس مال میں آپ کا حق بھی رکھا جائے ۔ اِس کی نوعیت کسی ذاتی ملکیت کی نہیں تھی کہ اِسے آپ کے وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ آپ سے آپ اُن کاموں کی طرف منتقل ہو گیا جو آپ کی نیابت میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے انجام دینا ضروری تھے ۔

تیسرا حق ’ذی القربٰی‘ کا بیان کیا گیا ہے ۔ اِس سے ، ظاہر ہے کہ آپ کے وہ قرابت دار مراد ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی اور جن کی ضرورتیں پوری کرنا اخلاقی لحاظ سے آپ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ آپ کی حیثیت تمام مسلمانوں کے باپ کی تھی ۔ چنانچہ آپ کے بعد یہ ذمہ داری عرفاً و شرعاً مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو منتقل ہوئی اور ذی القربیٰ کا یہ حق بھی جب تک وہ دنیا میں رہے ، اِسی طرح قائم رہا ۔

چوتھا حق یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا ہے ۔ اُن کا حق بیان کرتے ہوئے اُس ’ل‘ کا اعادہ نہیں فرمایا جو اوپر اللہ، رسول اور ذی القربیٰ ،تینوں کے ساتھ آیا ہے ، بلکہ اُن کا ذکر ذی القربیٰ کے ذیل ہی میں کر دیا ہے ۔ اِس سے مقصود اِس طبقہ کی عزت افزائی ہے کہ گویا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربا ہی کے تحت ہیں ۔ یہ حق کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو اِن طبقات کی ضرورتوں کے لیے حساس نہیں ہے، جس میں یتیم دھکے کھاتے، مسکین بھوکے سوتے اور مسافر اپنے لیے کوئی پرسان حال نہیں پاتے ، اُسے اسلامی معاشرے کا پاکیزہ نام نہیں دیا جا سکتا ۔

اموال غنیمت سے متعلق اِس بحث سے واضح ہے کہ یہ اصلاً اجتماعی مقاصد کے لیے خاص ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاہدین کا کوئی ابدی حق اِن میں قائم نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کی حکومت اُسے ہر حال میں ادا کرنے کی پابند ہو ۔ وہ اپنی تمدنی ضرورتوں اور اپنے حالات کے لحاظ سے جو طریقہ چاہے ، اِس معاملے میں اختیار کر سکتی ہے۔

B