فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ، حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ، فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا.(محمد ۴۷: ۴)
’’سو، (ایمان والو)، جب اِن منکروں سے تمھارے مقابلے کی نوبت آئے تو بے دریغ گردنیں مارنی ہیں، یہاں تک کہ جب تم اِن کو اچھی طرح کچل دو، تب قیدی بنا کر باندھو۔پھر جب باندھ لو تو اُس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر۔ (اِن کے ساتھ تمھارا یہی معاملہ رہنا چاہیے)،یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘
آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی ہے، جب عملاً کوئی جنگ تو ابھی مسلمانوں کو پیش نہیں آئی تھی ، مگر حالات بتا رہے تھے کہ یہ کسی وقت بھی پیش آ سکتی ہے ۔ اِس موقع پر مسلمانوں کو بتایا گیا کہ سرزمین عرب کے اِن منکرین حق سے اگر مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو اصل تقاضا گردنیں مارنے کا ہے۔ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اپنے کفر پر اصرار کے باعث یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں رہے ، لہٰذا مقابلے پر آئیں تو زیادہ سے زیادہ تہ تیغ کیے جائیں۔ قیدی بنانے کا اقدام اُس وقت ہونا چاہیے، جب تہ تیغ کرنے کا حق ادا ہو چکا ہو۔ لیکن بنا لو گے توفدیہ لو گے یا بلامعاوضہ رہا کرو گے، اِس کے بعد تم اِس سے ہٹ کر کوئی معاملہ نہیں کر سکتے۔ اِن کے اندر جب تک جنگ کا حوصلہ ختم نہیں ہو جاتا، تمھارے لیے یہی حکم ہے۔ =39= چنانچہ آگے فرمایا ہے: ’ذٰلِکَ‘ ، تمھیں یہی کرنا ہے۔
آیت میں اِس کے لیے ’فَاِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’مَنًّا‘فعل محذوف کا مصدر ہے اور قتل کے مقابل میں نہیں، بلکہ فدیے کے مقابل میں آیا ہے۔ زبان کے اداشناس جانتے ہیں کہ ’فِدَآء‘کے معنی اگر فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے ہیں تو ’اِمَّا‘کے ساتھ اُس کے مقابل میں ہونے کی وجہ سے ’مَنًّا‘ کے معنی بھی احسان کے طور پر رہا کر دینے کے ہوں گے، اِس سے احسان کی کوئی دوسری صورت مراد نہیں لی جا سکتی۔
سورۂ محمد کا یہ حکم اگرچہ مشرکین عرب کے حوالے سے بیان ہوا ہے ، لیکن ہر لحاظ سے عام ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ قیدی بنا لینے کے بعد جب رسول کے منکرین سے احسان یا فدیے کے سوا کوئی معاملہ نہیں ہو سکتا تو دوسروں سے بدرجۂ اولیٰ نہیں ہو سکتا۔چنانچہ قرآن کا یہی حکم ہے جس نے قیدیوں کو غلام بنانے کا رواج ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور اِس طرح غلامی کی جڑ کاٹ دی۔
تین قسم کے قیدی، البتہ اِس سے مستثنیٰ تھے:
ایک وہ معاندین جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ قانون اتمام حجت کی رو سے جہاں پائے جائیں ، فوراً قتل کر دیے جائیں ، جیسے بدر واحد کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث =40= اور ابو عزہ۔ =41= اسی طرح مکہ کے وہ چند افراد جو اُس کی فتح کے موقع پر عام معافی سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ۔ =42=
دوسرے بنو قریظہ کے لوگ جن پر خود اُن کے مقرر کردہ حکم نے اُنھی کا قانون نافذ کیا جس کے نتیجے میں اُن کے مرد قتل کر دیے گئے ، اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا کر فروخت کر دیا گیا ۔ =43=
تیسرے وہ قیدی جو پہلے سے لونڈی غلام تھے اور بعض موقعوں پر اِسی حیثیت سے لوگوں میں تقسیم کیے گئے ۔ =44=
یہ تینوں اقسام تو صاف واضح ہے کہ سورۂ محمد کے اُس حکم سے متعلق ہی نہیں تھیں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ لہٰذا اِن سے قطع نظر کر کے اگر اِس معاملے میں زمانۂ رسالت کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے عام قیدیوں کے ساتھ کوئی معاملہ اِس حکم سے ہٹ کر نہیں کیا ، بلکہ جو کچھ کیا ہے ، ٹھیک اِس کی پیروی میں کیا ہے ۔
تفصیلات یہ ہیں :
۱۔ قیدی جب تک حکومت کی قید میں رہے ، اُن کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا گیا ۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں معلوم ہے کہ اُنھیں صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ’ إستوصوا بالأساری خیرًا‘ =45= ( اِن قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا )۔ اِن میں سے ایک قیدی ابوعزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا ، وہ صبح و شام مجھے روٹی کھلاتے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے ۔ =46= یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال گرفتار ہوئے تو جب تک قید میں رہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ اُن کے لیے مہیا کیا جاتا رہا۔ =47=
۲۔ بدر کے زیادہ تر قیدی فدیہ لے کر چھوڑے گئے ۔ اُن میں سے جو لوگ مالی معاوضہ دے سکتے تھے، اُن سے فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لی گئیں اور جو مالی معاوضہ دینے کے قابل نہ تھے ، اُن کی رہائی کے لیے یہ شرط عائد کر دی گئی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو ،سعد بن نعمان کے بدلے میں جنھیں ابوسفیان نے قید کر لیا تھا ، رہا ہوا ۔ =48= غزوۂ بنی المصطلق کے قیدیوں میں سے سیدہ جویریہ کو بھی اُن کے والد حارث بن ابی ضرار نے فدیہ دے کر آزاد کرایا ۔ =49= سیدنا ابوبکر صدیق ایک مہم پر بھیجے گئے ۔ وہاں اُنھوں نے قیدی پکڑے تو اُن میں ایک نہایت خوب صورت عورت بھی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے مکہ بھیج کر اُس کے بدلے میں کئی مسلمان قیدی رہا کرا لیے ۔ =50= بنی عقیل کے ایک قیدی کو طائف بھیج کر قبیلۂ ثقیف سے مسلمانوں کے دو آدمی بھی اِسی طرح رہا کرائے گئے ۔ =51=
۳۔ بعض قیدی بغیر کسی معاوضے کے رہا کیے گئے ۔ بدر کے قیدیوں میں سے ابو العاص ، مطلب بن حنطب ،وہب بن عمیر بن وہب اور ابو عزہ اِسی طرح رہا ہوئے ۔ =52= صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے ۸۰ آدمیوں نے تنعیم کی طرف سے آ کر شب خون مارا ۔ یہ سب پکڑ لیے گئے اور حضور نے اُنھیں اِسی طرح آزادی عطا فرمائی ۔ =53= ثمامہ بن اثال، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، وہ بھی اِسی طرح رہا کیے گئے ۔ =54=
۴۔ بعض موقعوں پر قیدی لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے کہ ’ فَاِمَّا مَنًّا م بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً ‘ کے اصول پر وہ اُن سے یا اُن کے متعلقین سے خود معاملہ کر لیں ۔ چنانچہ غزوۂ بنی المصطلق کے قیدی اِسی طرح لوگوں کو دیے گئے ، لیکن سیدہ جویریہ کے آزاد ہو جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے نکاح کر لیا تو تمام مسلمانوں نے اپنے اپنے حصے کے قیدی یہ کہہ کر بغیر کسی معاوضے کے چھوڑ دیے کہ اب یہ حضور کے رشتہ دار ہو چکے ہیں ۔ اِس طرح سو خاندانوں کے آدمی رہا ہوئے ۔ =55= سریۂ ہوازن کے قیدی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے لے کر اِسی طرح رہا کرا دیے ۔ =56= غزوۂ حنین کے موقع پر بھی یہی ہوا۔ قبیلۂ ہوازن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے آیا تو قیدی تقسیم ہو چکے تھے ۔ اُنھوں نے درخواست کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا : یہ لوگ تائب ہو کر آئے ہیں ۔ میری راے ہے کہ اِن کے قیدی چھوڑ دیے جائیں۔ تم میں سے جو بلامعاوضہ چھوڑنا چاہے ، وہ اِس طرح چھوڑ دے اور جو معاوضہ لینا چاہے ، اُسے حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا جائے گا ۔ اِس کے نتیجے میں چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضے کا مطالبہ کیا ، اُنھیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا ۔ =57=
۵۔ جو عورتیں اِسی اصول پر لوگوں کو دی گئیں اور اُن کے باپ ،بھائی،شوہر وغیرہ جنگوں میں مارے گئے تھے ، اُن سے لوگوں نے بالعموم اُنھیں آزاد کر کے نکاح کر لیا ۔ خیبر کے قیدیوں میں سے سیدہ صفیہ اِسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ =58=