یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ، حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ، اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ، وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّایَفْقَہُوْنَ. اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا، فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِاءَتَیْنِ، وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.(الانفال ۸: ۶۵۔ ۶۶)
’’ اے پیغمبر، اِن مومنوں کو (اُس ) جنگ پر ابھارو (جس کا حکم پیچھے دیا گیا ہے)۔ اگر تمھارے لوگوں میں بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار منکروں پر بھاری رہیں گے، اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بصیرت نہیں رکھتے۔اِس وقت، البتہ اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، اِس لیے کہ اُس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے۔ سو تمھارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے۔ اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو (اُس کی راہ میں) ثابت قدم رہیں ۔ ‘‘
سورۂ انفال کی یہ آیات جس طرح جہاد کے لیے ذمہ داری کی حد بیان کرتی ہیں ، اُسی طرح جہاد و قتال میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کا ضابطہ بھی بالکل متعین کر دیتی ہیں ۔ اِن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جنگ میں نصرت الٰہی کا معاملہ الل ٹپ نہیں ہے کہ جس طرح لوگوں کی خواہش ہو ، اللہ کی مدد بھی اُسی طرح آ جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے اور وہ اُسی کے مطابق اپنے بندوں کی مدد فرماتے ہیں ۔ آیات پر تدبر کیجیے تو معلوم ہو تا ہے کہ نصرت الٰہی کا یہ ضابطہ درج ذیل تین نکات پر مبنی ہے :
اول یہ کہ اللہ کی مدد کے لیے سب سے بنیادی چیز صبر و ثبات ہے ۔ مسلمانوں کی کسی جماعت کو اِس کا استحقاق اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتا ، جب تک وہ یہ صفت اپنے اندر پیدا نہ کر لے ۔ اِس سے محروم کوئی جماعت اگر میدان جہاد میں اترتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ ’صٰبِرُوْنَ‘اور ’صَابِرَۃٌ‘ کی صفات سے اِن آیتوں میں یہی بات واضح کی گئی ہے ۔ ’ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘ کے الفاظ بھی آیات کے آخر میں اِسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔
دوم یہ کہ جنگ میں اترنے کے لیے مادی قوت کا حصول ناگزیر ہے ۔ اِس میں تو شبہ نہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور آدمی کا اصل بھروسا اللہ پروردگارعالم ہی پر ہونا چاہیے ، لیکن اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عالم اسباب کے طورپر بنائی ہے ۔ دنیا کی یہ اسکیم تقاضا کرتی ہے کہ نیکی اور خیر کے لیے بھی کوئی اقدام اگر پیش نظر ہے تو اُس کے لیے ضروری وسائل ہرحال میں فراہم کیے جائیں۔ یہ اسباب و وسائل کیا ہونے چاہییں ؟ دشمن کی قوت سے اِن کی ایک نسبت اللہ تعالیٰ نے انفال کی اِن آیتوں میں قائم کر دی ہے ۔ یہ اگر حاصل نہ ہو تو مسلمانوں کو اِس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ۔ جہاد کے شوق میں یا جذبات سے مغلوب ہو کر اِس سے پہلے اگر وہ کوئی اقدام کرتے ہیں تو اُس کی ذمہ داری اُنھی پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس صورت میں اُن کے لیے کسی مدد کا ہرگز کوئی وعدہ نہیں ہے ۔
سوم یہ کہ مادی قوت کی کمی کو جو چیز پورا کرتی ہے، وہ ایمان کی قوت ہے ۔ ’ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا‘ اور ’بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ‘ میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔ ’ضعف ‘ کا لفظ عربی زبان میں صرف جسمانی اور مادی کمزوری کے لیے نہیں آتا، بلکہ ایمان و حوصلہ اور بصیرت و معرفت کی کمزوری کے لیے بھی آتا ہے ۔ اِسی طرح ’ لاَ یَفْقَہُوْنَ‘ کے معنی بھی یہاں اِس کے مقابلے میں ایمانی بصیرت سے محرومی ہی کے ہیں ۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ منکرین حق چونکہ اِس بصیرت سے محروم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں اِس نعمت سے خوب خوب نوازا ہے ، اِس لیے تم اگر ہزار کے مقابلے میں سو بھی ہو گے تو اللہ کی نصرت سے تمھیں اُن پر غلبہ حاصل ہو جائے گا ۔
سورہ کے نظم سے واضح ہے کہ یہ نسبت معرکۂ بدر کے زمانے کی ہے ۔ اِس کے بعد بہت سے نئے لوگ اسلام میں داخل ہوئے جو عزم و بصیرت کے لحاظ سے سابقون الاولون کے ہم پایہ نہیں تھے ۔ اِس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد اگرچہ بہت بڑھ گئی ، لیکن ایمان کی قوت اُس درجے پر نہیں رہی جوسابقون الاولون کو حاصل تھا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اب یہ نسبت ایک اور دو کی ہے ، مسلمانوں کے اگر سو ثابت قدم ہوں گے تو دوسو پر اور ہزار ثابت قدم ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غلبہ پا لیں گے۔
نصرت الٰہی کا یہ ضابطہ قدسیوں کی اُس جماعت کے لیے بیان ہوا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اور براہ راست اللہ کے حکم سے میدان جہاد میں اتری ۔ بعد کے زمانوں میں ، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ایمانی حالت کے پیش نظر یہ نسبت کس حد تک کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ۔