وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ. وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ، وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ. وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ. فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ، کَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ. فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رََّحِیْمٌ . وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ. فَاِنِ انْتَھَوْا فَلاَ عُدْوَانَ اِلاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ. اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ. فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ.(البقرہ ۲: ۱۹۰۔ ۱۹۴)
’’اور اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو (حج کی راہ روکنے کے لیے) تم سے لڑیں اور (اِس میں) کوئی زیادتی نہ کرو ۔ بے شک ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اِن لڑنے والوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور اُنھیں وہاں سے نکالو، جہاں سے اُنھوں نے تمھیں نکالا ہے اور (یاد رکھو کہ) فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے ۔ اور مسجد حرام کے پاس تم اُن سے (خود پہل کر کے) جنگ نہ کرو ، جب تک وہ تم سے اُس میں جنگ نہ کریں ۔ پھر اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) قتل کرو۔ اِس طرح کے منکروں کی یہی سزا ہے ۔ لیکن اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔ اور تم یہ جنگ اُن سے برابر کیے جاؤ ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اِس سرزمین میں) اللہ ہی کا ہو جائے ۔ تاہم وہ باز آ جائیں تو (جان لو کہ) اقدام صرف ظالموں کے خلاف ہی جائز ہے۔ ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہے اور اِسی طرح دوسری حرمتوں میں بھی بدلے ہیں۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں ، اُن کو اپنے اوپر اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ حج میں قتال کی اجازت کے بعد اِس کا حکم قرآن میں اصلاً اِنھی آیات میں بیان ہوا ہے۔اِن کے علاوہ قتال کا ذکر قرآن میں جہاں بھی آیا ہے ، اِن آیات کی تفصیل ،تاکید ،اور اِن کے حکم پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی وضاحت کے لیے آیا ہے ۔ =5= سورۂ بقرہ میں اِن کا موقع یہ ہے کہ بیت اللہ کے قبلہ قرار پا جانے کے بعد لوگ حج کے لیے بے تاب ہوئے تو اُنھیں خیال ہواکہ حج کے راستے میں اِس وقت قریش حائل ہیں۔ اُنھوں نے مزاحمت کی تو جنگ ہو سکتی ہے اور اِس میں حرام مہینوں کی حرمت حائل ہو گی۔چنانچہ سوال کیا گیا تو قرآن نے وضاحت فرمائی کہ حرمت برقرار ہے، لیکن اقدام اگر قریش کی طرف سے ہو تو مسلمانوں کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ تلوار سے اِس مزاحمت کا خاتمہ کر دیں۔ آیات کا سیاق یہی ہے ،لیکن قرآن نے بات یہاں ختم نہیں کی۔اُس نے اِس کے ساتھ آیندہ جنگ کی ذمہ داری ، اُس کا جذبۂ محرکہ اور اُس کے اخلاقی حدود ،بلکہ غور کیجیے تو اُس میں اقدام کی غایت بھی اِس طرح بیان کر دی ہے کہ قتال کی وہ دونوں صورتیں ،جن کا ذکر ہم نے تمہید میں کیا ہے ، بالکل متعین ہو کر سامنے آجاتی ہیں ۔
ہم یہاں اِن مباحث کی تفصیل بیان کریں گے :